Frequently Asked Questions
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 891/41-1135
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بھائی کا بہن کو وراثت میں حصہ نہ دینا ناجائز اور حرام کام ہے۔ شریعت نے جس طرح بھائی کا حصہ متعین کا ہے اسی طرح بہن کا حصہ بھی متعین کیا ہے ۔ لیکن اگر بھائی بہن کا حصہ نہیں دیتا ہے تو وہ بہن کا حصہ غصب کرنے والاہوگا۔ اور بہن کے حصہ کا مال اس کے قبضہ میں مال حرام ہے، جس کو کھانے سے پرہیز لازم ہے۔ لیکن اگر بھائی کے پاس دوسرا بھی مال ہے یا وہ اپنے حصہ کے پیسوں سے کھلاتا ہے تو بہن کا کھانا جائز ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 853 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح کی چادر استعمال کرنا چونکہ سنت سے ثابت نہیں ہے اور اس میں بے حرمتی کا اندیشہ بھی ہے اس لئے اس سے بچنا اور ایسی چادر جس پر قرآنی آیات نہ ہوں استعمال کرنا احوط ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 1090/42/281
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ حدیث درست ہے، لہذا اگر کوئی غیرمسلم مسلمان ہوجائے تو اس کی وراثت میں غیرمسلم رشتہ داروں کا کوئی حصہ نہیں ہوگا، اسی طرح ان کے مال میں اس کا بھی کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ اگر کوئی مسلمان ہوجائے تو بھی اس کے لئے جائز نہیں ہے کہ اپنے والد کا نام تبدیل کرے۔ اس کو اپنے باپ کی طرف ہی نسبت کرنی چاہئے۔ اگر کوئی مسلمان اپنے مسلمان باپ کانام بدل کر کسی دوسرے کا نام لکھ دے تو بھی اپنے باپ کی وراثت سے محروم نہیں ہوگا۔ غیر کی طرف نسبت کرنے سے اس غیر کا یہ وارث نہیں بنے گا۔ اگر آپ کا مقصد کچھ اور معلوم کرنا تھا تو دوبارہ وضاحت کے ساتھ لکھیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 2525/45-3925
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شوہر کےانتقال کے وقت جو کچھ شوہر کی ملکیت میں تھا اس میں دونوں بیواؤں اور بیٹے کا حصہ ہوگا اور شوہر نے اپنی زندگی میں جو کچھ زیورات یا کوءی بھی چیز کسی کو دے کر مالک بنا دیا تو وہ چیز اس کے ترکہ میں شمار نہ ہوگی، اگر شوہر کے دیگر ورثہ نہیں ہیں تو شوہر کا کل ترکہ اس طرح تقسیم ہوگا کہ دونوں بیوہ عورتوں کو مشترکہ طور پر آٹھواں حصہ دینے کے بعد باقی سات حصے لڑکے کو دیدیے جائیں گے، پھر انیسہ بیگم کے حصہ میں جو کچھ آئے گا یا جو کچھ اس کے مرنے کے وقت اس کی ملکیت میں تھا اس کو اس کے بھائی اور بہن کے درمیان اس طرح تقسیم کریں گے کہ بھائی کو دوہرا اور بہن کو اکہرا حصہ ملے گا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 2632/45-3997
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔گھرکا ایک حصہ جو مرحوم بھائی کا تھا اسی طرح اس گھر کے علاوہ جو کچھ بھی مرحوم کی ملکیت میں تھا اس کو 24 حصوں میں اس طرح تقسیم کریں گے کہ چار چار حصے والدین میں سے ہر ایک کو اور تین حصے مرحوم کی بیوی کو اور 13 حصےاس کے بیٹے کو ملیں گے۔ اگر بیٹا پورا مکان رکھنا چاہے تو مرحوم کے حصہ کا جو مکان ہے اس حصہ کی قیمت کا اندازہ کرکے دیگر ورثاء کو ان کے حصہ کی قیمت دیدے تو کل حصہ کا مالک ہوجائے گا۔ اور اگر دیگر ورثاء اپنا حصہ معاف کردیں اور بیٹے کو دیدیں تو اس کی بھی گنجائش ہے، اور اس سلسلہ میں کسی کو کوئی زبردستی کا حق نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 1815/43-1575
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ فقہ اسلامی کی رو سے، مرحوم کا کل ترکہ اور جوامانت آپ کے پاس، ان کے والد صاحب کے لئے بطورامانت موجود ہے ، سب میں وراثت جاری ہوگی۔ جن لوگوں کو وراثت میں حصہ ملتاہے ان کے لئے وصیت باطل ہے، البتہ مسجد ومدرسہ کے لئے وصیت ایک تہائی مال میں نافذ ہوگی۔اس لئے اب مرحوم کے کل ترکہ کے ایک تہائی سے مسجد یا مدرسہ کے لئے وصیت کے بقدر مال نکال لیا جائے اور باقی مال صرف بیوی اور والد کے درمیان اس طرح تقسیم ہوگا کہ مرحوم کی بیوی کو اس کا چوتھائی اور باقی سارا مال مرحوم کے والد کو بطور عصبہ دیدیاجائےگا۔ مرحوم کے بھائی بہنوں کو وراثت میں حصہ نہیں ملے گا۔
مدرسہ میں دینے کی کیا وصیت کی تھی اور کس قدر کی وصیت کی تھی اس کی وضاحت سوال میں نہیں ہے۔
"أن الوصية للوارث لاتجوز بدون إجازة الورثة؛ لقوله عليه السلام: «لا وصية لوارث إلى أن يجيزه الورثة (المبسوط للسرخسي (27 / 175)
(قوله ولا وصية وميراث) فمن يستحق الوصية لا يستحق الميراث وكذا بالعكس (شامی 1/259، فروع صلی المحبوس بالتیمم)
"ثم تصح الوصية للأجنبي بالثلث من غير إجازة الوارث، و لاتجوز بما زاد على الثلث". (تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (6/ 182)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 2236/44-2373
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ کے والد نے وہ مکان آپ کو بطور ہبہ دے کر مالک بنادیا تھا تو وہ آپ کی ملک ہے،اب والد کے انتقال کے بعد اس میں وراثت جاری نہیں ہوگی، البتہ والد کی ملک میں جو مکان یا زمین یا جائداد ان کی وفات کے وقت تھی وہ ان کی بیوی اور تمام اولاد میں تقسیم ہوگی۔ اس لئے آپ تفصیل کے ساتھ دوبارہ سوال بھیجیں جس میں ہبہ کی تاریخ، انتقال کی تاریخ اور وارثین میں جو لوگ باحیات ہیں ان کی فہرست شامل ہو تاکہ تسلی بخش جواب دیاجاسکے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 899/41-
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال، صورت مسئولہ میں سفور کی کل جائداد کو بارہ حصوں پر تقسیم کیاجائے گاجس میں سے دوتہائی یعنی آٹھ حصے دونوں بیٹوں کو دئے جائیں گے اور باقی چار حصوں میں سے دو حصے اس بھائی کو جو زندہ ہے اور ایک ایک حصہ دونوں بہنوں کو ملے گا۔ وہ لوگ جن کا انتقال سفور کی زندگی میں ہوگیا تھا ان کو وراثت میں حصہ نہیں ملے گا۔ اور بھتیجوں کو بھی نہیں ملے گا۔ البتہ اگر ضرورتمند ہوں تو از راہ صلہ رحمی تمام وارثین کو چاہئے کہ ان کی مدد کریں۔ کذا فی السراجی
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 1197/42-488
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس سے مہر کی ادائیگی نہیں ہوگی، کیونکہ یہ جو کچھ مل رہا ہے وہ سرکار کی طرف سے بطور تبرع اس کی بیوی کو مل رہا ہے جس کی مالک خود اس کی بیوی ہے، اس میں شوہرمرحوم کا کوئی حق نہیں ہے۔تاہم اگر شوہر نے کوئی ترکہ نہیں چھوڑا ہے جس سے بیوی کا مہرادا کیا جاسکے تو بیوی کو چاہئے کہ شوہر کو مہر سے بری کردے، خاص طور پر جب کہ عورت شوہر کی وجہ سے پینشن بھی پارہی ہے۔ عورت کے مہر معاف کرنے سے بھی شوہر کے ذمہ سے مہر کا دین ساقط ہوجائے گا۔ اور ان شاء اللہ آخرت میں مواخذہ کا باعث بھی نہیں ہوگا۔
(قوله وصح حطها) أي حط المرأة من مهرها؛ لأن المهر في حالة البقاء حقها والحط يلاقيه حالة البقاء والحط في اللغة الإسقاط كما في المغرب أطلقه فشمل حط الكل أو البعض وشمل ما إذا قبل الزوج أو لم يقبل (البحرالرائق باب المھر 3/161)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 1446/42-910
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ فقہ حنفی کی رو سے، میمونہ کا کل ترکہ 18 حصوں میں تقسیم کریں گے، جن میں سے میمونہ کی والدہ کو 3 حصے اور بھائی کو دس اور بہن کو پانچ حصے ملیں گے۔ بھتیجے، بھتیجی اور بھانجی کو کچھ نہیں ملے گا۔
وَ لِاَبَوَیْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ اِنْ كَانَ لَهٗ وَلَدٌ١ۚ فَاِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّهٗ وَلَدٌ وَّ وَرِثَهٗۤ اَبَوٰهُ فَلِاُمِّهِ الثُّلُثُ١ۚ فَاِنْ كَانَ لَهٗۤ اِخْوَةٌ فَلِاُمِّهِ السُّدُسُ مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصِیْ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍ (سورۃ النساء 11)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند