Frequently Asked Questions
مساجد و مدارس
Ref. No. 41/8B
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مستقل ملازمین کی تنخواہ کاٹنا درست نہیں ہے، تاہم کسی مجبوری کی وجہ سے تاخیر ہو تو اس کی گنجائش ہے۔
(والأجير الخاص الذي يستحق الأجرة بتسليم نفسه في المدة وإن لم يعمل كمن استؤجر شهرا للخدمة أو لرعي الغنم) (فتح القدیر ج9 ص128)
وَجَوَابُهُ أَنَّهُ يَسْتَحِقُّهُ بِالسَّبَبِ السَّابِقِ وَهُوَ الْعَقْدُ وَإِنَّمَا الظَّاهِرُ يَشْهَدُ عَلَى بَقَائِهِ إلَى ذَلِكَ الْوَقْتِ زَيْلَعِيٌّ مُلَخَّصًا (الدر المختار ج6 ص74)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
Ref. No. 1904/43-1796
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسجد کی تعمیر اور اس کی تمام اشیاء نماز اور اس کے متعلقات کے لئے وقف ہیں، اس لئے مسجد کو نماز کے علاوہ کسی دوسرے دینی کام میں استعمال کرنے کے لئے متولیان مسجد کی اجازت ضروری ہے۔ متولیان مسجد کی اجازت سے، مسجد کے کسی خارجی حصہ میں مکتب کا نظام قائم کرنا درست ہے۔ خیال رہے کہ مکتب چلانے سے نمازیوں کو تکلیف نہ ہو اور مسجد کی حرمت پامال نہ ہو۔ اس لئے اگر بہت چھوٹے بچے ہوں تو ان کو مسجد میں داخل نہ کیا جائے تاکہ مسجد کو تلویث سے محفوظ رکھاجاسکے، اسی طرح نماز کے وقت تمام سرگرمیاں موقوف کردی جائیں تاکہ نمازیوں کو خلل واقع نہ ہو۔
عن واثلۃ بن الاسقع ، أن النبی صلی اﷲ علیہ وسلم قال: جنبوا مساجدکم صبیانکم ومجانینکم ، وشراء کم ، وبیعکم ، وخصوماتکم الحدیث: ( سنن ابن ماجہ ، باب ما یکرہ فی المساجد ، النسخۃ الہندیۃ/۵۴، دارالسلام رقم: ۷۵۰)
قولہ لا لدرس وذکر لأنہ مابنی لذلک وإن جاز فیہ الخ ۔(شامی، الصلوٰۃ ، باب مایفسد الصلاۃ ، وما یکرہ فیہا ، مطلب فیمن سبقت یدہ إلیٰ مباح زکریا ۲/۴۳۷، کراچی ۱/۶۶۳)
یکرہ أ ن یخیط فی المسجد لأنہ أعد للعبادۃ دون الإکتساب وکذا الوراق والفقیۃ إذا کتب بأجرۃ أو المعلم إذا علم الصبیان بأجرۃ ۔ (قاضیخان، کتاب الطہارۃ، فصل فی المسجد زکریا جدید ۱/۴۳، وعلی ہامش الہندیۃ ۱/۶۵)
وتعلیم الصبیان فیہ بلا أجر وبالأجر یجوز۔ (بزازیہ ، کتاب الکراہیۃ ، الفصل الاول نوع فی المسجد زکریاجدید۳/۲۰۱، وعلی ھامش الہندیہ ۶/۳۵۷(
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
Ref. No. 2223/44-2369
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسجد کا اوپری حصہ پُر ہوجانے کے بعد جو لوگ نیچے کی منزل میں نماز پڑھیں گے، ان کی نماز درست ہوگی اور ثواب بھی ملے گا۔ البتہ اگر اوپر کا حصہ پُر نہ ہوا ہو تو نچلی منزل میں نمازیوں کو پورا ثواب نہیں ملے گا، البتہ نماز درست ہوجائے گی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
Ref. No. 1434/42-855
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں بسا اوقات پشیمانی ہوتی ہے۔ اس لئے مسجد والوں کو ایسا اقدام نہیں کرنا چاہئے۔ اگر اے سی چلانا ہو تو اس کے لئے جو ضوابط ہیں ان کی مکمل پاسداری کی جائے ورنہ اے سی نہ لگایا جائے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
Ref. No. 1185/42-
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس طرح مسجد کے نچلے حصہ کا احترام ضروری ہے اسی طرح مسجد کی چھت کا بھی احترام ضروری ہے، تاہم اگر چپل میں کوئی گندگی لگی ہوئی نہیں ہے توچھت پر چپل پہن کر چلنے میں حرج نہیں ہے جبکہ چھت بھی ننگے پیر چلنے کے قابل نہ ہو۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
Ref. No. 1082/42-327
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔ یہ شرعی مسجد نہیں ہے، البتہ شہر یا قریہ کبیرہ میں یہ مصلی ہے تو اس میں جمعہ کی نماز درست ہے۔ نجی زمین میں جو مصلی بنایاجاتاہے اس سے مالکان زمین حق ملکیت کی بنیاد پر کچھ لوگوں کو روکیں تو ان کو نہیں جانا چاہئے تاہم مالکان زمین کو ایسا نہیں کرنا چاہئے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
Ref. No. 2332/44-3499
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ مسجد کے اخراجات مدرسہ کی آمدات سے پورے ہوتے ہیں، اس لئے ذمہ دار کی اجازت سے مسجد کا کوئی سامان مدرسہ میں کسی مصلحت کی بناء پر استعمال کیا جاسکتاہے۔ البتہ اگر کسی نے کوئی سامان خاص طور پر مسجد کے لئے وقف کیا ہو تو پھر اس کو مدرسہ میں لگانا جائز نہیں ہوگا۔
"لايجوز لمتولي الشيخونية بالقاهرة صرف أحد الوقفين للآخر". (البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (5/ 234)
قالوا مراعاة غرض الواقفین واجبة۔ (رد المحتار علی الدر المختار6/665، ط: زکریا)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
Ref. No. 1821/43-1587
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر وہ لکڑیاں مسجد میں استعمال کے قابل ہیں ، تو اخلاص نیت کے ساتھ ان کو دیا جاسکتاہے۔ اللہ کے راستہ میں پرانا اور نیا نہیں دیکھاجاتاہے بلکہ اخلاص قابل توجہ ہوتی ہے۔ البتہ اگر وہ لکڑی کسی وجہ سے مسجد میں استعمال کے لائق نہ ہو تو اس کو بیچ کر اس کا پیسہ مسجد کی کھڑکیوں کے لئے دیدیاجائے۔
اِنَّـآ اَنْزَلْنَـآ اِلَيْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّيْنَo اَ لَا ِللهِ الدِّيْنُ الْخَالِصُ۔ )الزمر 3.2/39(
عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رضي الله عنه أَنَّهُ قَالَ لِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ : حِيْنَ بَعَثَهُ إِلَی الْیَمَنِ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، أَوْصِنِي۔ قَالَ : أَخْلِصْ دِيْنَکَ، یَکْفِکَ الْعَمَلُ الْقَلِيْلُ۔
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَاللَّفْظُ لَهُ وَالْبَيْھَقِيُّ، وَقَالَ الْحَاکِمُ : صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ۔) أخرجه الحاکم في المستدرک، 4 / 341، الرقم : 7844، والبیھقي في شعب الإیمان، 5 / 342، الرقم : 6859، والمنذري في الترغیب والترھیب، 1 / 22، والدیلمي في مسند الفردوس، 1 / 435، الرقم : 1772(
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
Ref. No. 1912/43-1809
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسجد کے لئے جو زمین وقف ہے اور جہاں مسجد بن چکی ہے، وہ جگہ اب ہمیشہ کے لئے مسجد بن گئی ، اب اس کو بیچنا یا بدلنا جائزنہیں ہے۔ مسجد سابقہ جگہ پر ہی بنائی جائے گی، اورمسجد کی حفاظت کے لئے پڑوسی کی شرارت کے خلاف قانونی کار روائی بھی کرائی جاسکتی ہے۔
فإذا تم ولزم لا یملک ولا یملک ولا یعار ولا یرہن)( الدر المختار) وفی رد المحتار: (قولہ: لا یملک) أی لا یکون مملوکا لصاحبہ ولا یملک أی لا یقبل التملیک لغیرہ بالبیع ونحوہ لاستحالة تملیک الخارج عن ملکہ.( الدر المختارمع رد المحتار:۶/۵۳۹ط:زکریا دیوبند)
(ويزول ملكه عن المسجدوالمصلى) بالفعل و (بقوله جعلته مسجدا) عند الثاني (وشرط محمد) والإمام (الصلاة فيه)بجماعة وقيل: يكفي واحد وجعله في الخانية ظاهر الرواية. ۔۔۔ قوله: وشرط محمد والإمام الصلاة فيه) أي مع الإفراز كما علمته واعلم أن الوقف إنما احتيج في لزومه إلى القضاء عند الإمام؛ لأن لفظه لا ينبئ عن الإخراج عن الملك، بل عن الإبقاء فيه، لتحصل الغلة على ملكه، فيتصدق بها بخلاف قوله: جعلته مسجدا، فإنه لا ينبئ عن ذلك ليحتاج إلى القضاء بزواله، فإذا أذن بالصلاة فيه، قضى العرف بزواله عن ملكه، ومقتضى هذا أنه لا يحتاج إلى قوله وقفت ونحوه وهو كذلك وأنه لو قال وقفته مسجدا، ولم يأذن بالصلاة فيه ولم يصل فيه أحد أنه لا يصير مسجدا بلا حكم وهو بعيد كذا في الفتح ملخصا.۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔وفي الدر المنتقى وقدم في التنوير والدرر والوقاية وغيرها قول أبي يوسف وعلمت أرجحيته في الوقف والقضاء. اهـ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 355)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
Ref. No. 2231/44-2363
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (1) مسجد کے لئے وقف شدہ زمین پر مدرسہ یا اسکول تعمیر کرنا درست نہیں ہے، البتہ اگر مسجد کی زمین مسجد کی ضرورت سے زائد ہے اور خالی پڑی ہے تو مسجد کی رقم سے تعمیر کرکے کسی مدرسہ یا اسکول کو کرایہ پر دینا جائز ہے۔ (2) شادی ہال میں اگر صرف نکاح اور دعوت کا اہتمام ہو اور کوئی غیر شرعی امور کا ارتکاب نہ ہو تو مسجد کی خالی زمین کوشادی ہال کے لئے کرایہ پر دینا جائز ہے، البتہ چونکہ عام طور پر غیرشرعی امور سے روکنا مشکل ہوتاہے اس لئے شادی ہال نہ بنائیں تو زیادہ بہتر ہے ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند