مساجد و مدارس

Ref. No. 1434/42-855

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں بسا اوقات پشیمانی ہوتی ہے۔ اس لئے مسجد والوں کو ایسا اقدام نہیں کرنا چاہئے۔  اگر اے سی چلانا ہو تو اس کے لئے جو ضوابط ہیں ان کی مکمل پاسداری کی جائے ورنہ  اے سی نہ لگایا جائے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref. No. 1185/42-

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  جس طرح مسجد کے نچلے حصہ کا احترام ضروری ہے اسی طرح مسجد کی چھت کا بھی احترام ضروری ہے، تاہم اگر چپل میں کوئی گندگی لگی ہوئی نہیں ہے توچھت پر چپل پہن کر چلنے میں  حرج نہیں ہے جبکہ چھت بھی ننگے پیر چلنے کے قابل نہ ہو۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref. No. 1082/42-327

الجواب وباللہ التوفیق     

بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔  یہ شرعی مسجد نہیں ہے، البتہ شہر یا قریہ کبیرہ میں یہ مصلی ہے تو اس میں جمعہ کی نماز درست ہے۔ نجی زمین میں جو مصلی بنایاجاتاہے اس سے مالکان زمین حق ملکیت کی بنیاد پر کچھ لوگوں کو روکیں تو  ان کو  نہیں جانا چاہئے  تاہم مالکان زمین کو ایسا نہیں کرنا چاہئے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref. No. 2332/44-3499

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ مسجد کے اخراجات مدرسہ کی آمدات سے پورے ہوتے ہیں، اس لئے ذمہ دار کی اجازت سے  مسجد کا  کوئی سامان مدرسہ میں کسی مصلحت کی بناء پر استعمال  کیا جاسکتاہے۔ البتہ اگر کسی نے کوئی سامان خاص طور پر مسجد کے لئے وقف کیا ہو تو پھر اس کو مدرسہ میں لگانا جائز نہیں ہوگا۔

"لايجوز لمتولي الشيخونية بالقاهرة صرف أحد الوقفين للآخر".  (البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (5/ 234)

قالوا مراعاة غرض الواقفین واجبة۔ (رد المحتار علی الدر المختار6/665، ط: زکریا)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

مساجد و مدارس

Ref. No. 1821/43-1587

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر وہ لکڑیاں مسجد میں استعمال کے قابل ہیں ، تو اخلاص نیت کے ساتھ ان کو دیا جاسکتاہے۔ اللہ کے راستہ میں پرانا اور نیا نہیں دیکھاجاتاہے بلکہ اخلاص  قابل توجہ ہوتی ہے۔ البتہ اگر وہ لکڑی  کسی وجہ سے مسجد  میں استعمال کے لائق نہ ہو تو اس کو بیچ کر اس کا پیسہ مسجد کی کھڑکیوں کے لئے دیدیاجائے۔ 

اِنَّـآ اَنْزَلْنَـآ اِلَيْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّيْنَo اَ لَا ِللهِ الدِّيْنُ الْخَالِصُ۔ )الزمر 3.2/39(

عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رضي الله عنه أَنَّهُ قَالَ لِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ : حِيْنَ بَعَثَهُ إِلَی الْیَمَنِ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، أَوْصِنِي۔ قَالَ : أَخْلِصْ دِيْنَکَ، یَکْفِکَ الْعَمَلُ الْقَلِيْلُ۔

رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَاللَّفْظُ لَهُ وَالْبَيْھَقِيُّ، وَقَالَ الْحَاکِمُ : صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ۔)   أخرجه الحاکم في المستدرک، 4 / 341، الرقم : 7844، والبیھقي في شعب الإیمان، 5 / 342، الرقم : 6859، والمنذري في الترغیب والترھیب، 1 / 22، والدیلمي في مسند الفردوس، 1 / 435، الرقم : 1772(

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref. No. 1912/43-1809

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مسجد کے لئے جو زمین وقف ہے اور جہاں مسجد بن چکی ہے، وہ جگہ اب ہمیشہ کے لئے مسجد بن گئی ، اب اس کو بیچنا یا بدلنا جائزنہیں ہے۔  مسجد سابقہ جگہ پر ہی بنائی جائے گی، اورمسجد کی حفاظت کے لئے  پڑوسی کی شرارت کے خلاف قانونی کار روائی بھی کرائی جاسکتی ہے۔

فإذا تم ولزم لا یملک ولا یملک ولا یعار ولا یرہن)( الدر المختار) وفی رد المحتار: (قولہ: لا یملک) أی لا یکون مملوکا لصاحبہ ولا یملک أی لا یقبل التملیک لغیرہ بالبیع ونحوہ لاستحالة تملیک الخارج عن ملکہ.( الدر المختارمع رد المحتار:۶/۵۳۹ط:زکریا دیوبند)

 (ويزول ملكه عن المسجدوالمصلى) بالفعل و (بقوله جعلته مسجدا) عند الثاني (وشرط محمد) والإمام (الصلاة فيه)بجماعة وقيل: يكفي واحد وجعله في الخانية ظاهر الرواية. ۔۔۔ قوله: وشرط محمد والإمام الصلاة فيه) أي مع الإفراز كما علمته واعلم أن الوقف إنما احتيج في لزومه إلى القضاء عند الإمام؛ لأن لفظه لا ينبئ عن الإخراج عن الملك، بل عن الإبقاء فيه، لتحصل الغلة على ملكه، فيتصدق بها بخلاف قوله: جعلته مسجدا، فإنه لا ينبئ عن ذلك ليحتاج إلى القضاء بزواله، فإذا أذن بالصلاة فيه، قضى العرف بزواله عن ملكه، ومقتضى هذا أنه لا يحتاج إلى قوله وقفت ونحوه وهو كذلك وأنه لو قال وقفته مسجدا، ولم يأذن بالصلاة فيه ولم يصل فيه أحد أنه لا يصير مسجدا بلا حكم وهو بعيد كذا في الفتح ملخصا.۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔وفي الدر المنتقى وقدم في التنوير والدرر والوقاية وغيرها قول أبي يوسف وعلمت أرجحيته في الوقف والقضاء. اهـ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 355)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

مساجد و مدارس

Ref. No. 2231/44-2363

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (1) مسجد کے لئے وقف شدہ زمین پر مدرسہ یا اسکول تعمیر کرنا درست نہیں ہے، البتہ اگر مسجد کی زمین مسجد کی ضرورت سے زائد ہے اور خالی پڑی ہے تو مسجد کی  رقم سے تعمیر کرکے  کسی مدرسہ یا اسکول کو کرایہ پر دینا جائز ہے۔ (2) شادی ہال میں اگر صرف نکاح اور دعوت کا اہتمام ہو اور کوئی غیر شرعی امور کا ارتکاب نہ ہو تو مسجد کی خالی زمین کوشادی ہال  کے لئے  کرایہ پر دینا جائز  ہے، البتہ چونکہ عام طور پر  غیرشرعی امور سے روکنا مشکل ہوتاہے اس لئے شادی ہال  نہ بنائیں تو زیادہ بہتر ہے ۔   

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

مساجد و مدارس

Ref. No.2846/45-4488

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس جگہ مسجد بنانےکےلئے اورزمین خریدنے کےلئےچندہ   جمع کیاگیا،اب اگراس جگہ مسجد بناناناممکن  ہو تو اس  رقم  کو کسی دوسری جگہ شرعی  مسجد بنانے میں استعمال کرنے کی اجازت ہے۔البتہ تہہ خانےکی   عارضی مسجدمیں اس  رقم  کولگاناجائزنہیں ہوگا۔

"فإن شرائط الواقف معتبرة إذا لم تخالف الشرع وهو مالك، فله أن يجعل ماله حيث شاء ما لم يكن معصية وله أن يخص صنفا من الفقراء ولو كان الوضع في كلهم قربة."(شامی،کتاب الوقف ،ج:4 ص:343 ط:سعید)

"(اتحد الواقف والجهة وقل مرسوم بعض الموقوف عليه) بسبب خراب وقف أحدهما (جاز للحاكم أن يصرف من فاضل الوقف الآخر عليه) لأنهما حينئذ كشيء واحد.   (وإن اختلف أحدهما) بأن بنى رجلان مسجدين أو رجل مسجدًا ومدرسة ووقف عليهما أوقافا (لا) يجوز له ذلك."

شامی ، كتاب الوقف ج:4،ص:360،ط: سعيد)

"على أنهم صرحوا بأن مراعاة غرض الواقفين واجبة." (شامی، كتاب الوقف ج:4،ص:445،ط:سعيد)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

مساجد و مدارس

Ref. No. 2169/44-2275

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر مدرسہ والے سرکاری محکمہ سے  اس کی اجازت  لے لیں تو ایسا کرنا درست ہوگا،  ورنہ اس سے احتراز کیاجائے۔  فریج صحیح ہے یا خراب وہ بہر حال سرکار کی پراپرٹی ہے، کسی دوسرے کے لئے اس کا ذاتی استعمال بغیر اجازت کے جائز نہیں ہے۔ 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

مساجد و مدارس

Ref. No. 1320/42-697

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مائک خریدنے کے لئے گرچہ چندہ محلہ والوں سے لیا گیا ہو مگر ان کے دینے کا مقصد بھی مسجد میں اذان دینا  اورمسجد سے متعلق دیگر امور ہیں۔ اس لئے  اگر مسجد میں کوئی چیز گم ہوگئی تو اس کا اعلان مسجد  کے مائک سے ہوسکتاہے، اسی طرح اگر کوئی بچہ گم ہوجائے تو اس کے لئے بھی اعلان کی گنجائش ہے، لیکن اس کے علاوہ مسجد کے مائک سے  ہر گمشدہ چیز کا اعلان کرنا جائز نہیں ہے۔ نیز اس کی عام اجازت دینے میں منتظمین کو کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑسکتاہے اور آپسی نزاع کا باعث بھی ہے۔ اس لئے مسجد کے مائک سے  انسانی جان کے علاوہ دیگرگمشدہ  چیزوں کا اعلان درست نہیں ہے۔  تاہم مسجد میں میت اور جنازہ کا اعلان درست ہے۔  رسول اللہ ﷺ نے نجاشی (شاہِ حبشہ) کی موت کا اعلان مسجد میں کیاتھا، اسی طرح ’’غزوۂ موتہ‘‘ کے امراء  کی شہادت کی اطلاع دی، اس وقت  آپ ﷺ   مسجد میں منبر پر تشریف فرماتھے۔( شرح البخاری للعینی  4/22) (آپ کے مسائل اور ان کا حل 3/261) تاہم اگر خاص مائک کے لئے ہی محلہ والوں سے چندہ کرکے مائک خریدا گیا  ہواور مسجد کے باہر سے اعلان ہو تو پھر اس سے عام اعلانات بھی ہوسکتے ہیں اور اذان بھی دی جاسکتی ہے۔

شرط الواقف کنص الشارع أی فی المفہوم والدلالة ووجوب العمل بہ۔ (الدر المختار، کتاب الوقف / مطلب فی قولہم شرط الواقف کنص الشارع،  وکذا فی الأشباہ والنظائر، کتاب الوقف / الفن الثانی، الفوائد: ۱۰۶/۲) (تنقیح الفتاویٰ الحامدیة ۱۲۶/۱)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند