طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:آبدست کرتے وقت کپڑوں پر پانی کے قطرے گرنے کی دو صورتیں ہیں: ایک وہ پانی جو نجاست دھونے اور ناپاک ہونے کے بعد گرتا ہے ، وہ تو ناپاک ہے ایک درہم کی مقدار تک معاف ہے اور اس سے زائد کا دھونا ضروری ہے۔ دوسرا وہ پانی جو نجاست سے مخلوط ہونے سے قبل گر جاتا ہے تو وہ پاک ہے۔
و قال محمد ھو طاھر فان أصاب ذلک الماء ثوبا إن کان ماء الاستنجاء و أصابہ أکثر من قدر الدرھم، لا تجوز فیہ الصلوۃ۔(۱)
(۱) فتاویٰ قاضی خاں ،  کتاب الطہارت، فصل: في الماء المستعمل، ج۱، ص:۱۱


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص445

متفرقات

Ref. No. 2717/45-4219

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ فلسطینی مسلمان کے ساتھ ہو رہے ظلم وبربریت انتہائی تکلیف دہ ہے اور یہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے حدیث میں تمام مسلمانوں کو ایک جسم قرار دیا گیا ہے اور جسم کے کسی ایک حصے کو تکلیف ہو تو پورے جسم کو تکلیف ہوتی ہے اس لیے پوری دنیا کے مسلمانوں کو بلکہ پوری دنیا کے امن پسند لوگوں کو اس کے خلاف آواز اٹھانی چاہئے اور جو لوگ دنیا میں امن دیکھنا چاہتے ہیں وہ اپنی سعی کر بھی رہے ہیں تاہم اس کی وجہ سے حج وعمرہ کے بائیکاٹ کا مطالبہ کرنا شرعاً درست نہیں ہے جن لوگوں میں حج کی استطاعت ہے ان پر حج کرنا فرض ہے اور نہ کرنا گناہ ہے اس لئے اس طرح کے بائیکاٹ کا مطالبہ قطعاً شرعی مطالبہ نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2725/45-4243

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ رضاعی باپ نکاح کے سلسلہ میں حقیقی باپ کی طرح ہوتاہے،  اس سے نکاح نہیں ہوسکتاہے اور نہ ہی اس  سے پردہ ہے۔ البتہ گال یا پیشانی کا بوسہ لینے میں احیتاط کرنی چاہئے۔ یحرم من الرضاع مایحرم من النسب۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر نکاح پڑھانے والے امام صاحب کے علم میں نہیں تھا کہ عورت منکوحہ غیر مطلقہ ہے اور اس نے نکاح پڑھا دیا، تو وہ گنہگار نہیں ہوگا اس کی امامت درست ہے؛ لیکن جب اس کے علم میں آگیا تو اس پر ضروری ہے کہ اس بارے میں اعلان کر دے کہ وہ نکاح صحیح نہیں ہوا؛(۱) مسلمانوں پر ضروری ہے کہ ان دونوں مرد وعورت کو ملنے نہ دیں اور زنا کاری سے بچائیں۔(۲)

(۱) لا یجوز لرجل أن یتزوج زوجۃ غیرہ و کذلک المعتدۃ، کذا في السراج الوہاج۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب النکاح، القسم السادس: المحرمات التي یتعلق بھا حق الغیر‘‘: ج ۱، ص:۳۴۶؛ وابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب النکاح، باب المہر‘‘: ج ۴، ص: ۲۷۴)
(۲) من رأی منکم منکراً فلیغیرہ بیدہ فإن لم یستطع فبلسانہ فإن لم یستطع فبقلبہ وذلک أضعف الإیمان۔ (أخرجہ مسلم  في سننہ، ’’کتاب الإیمان، باب بیان کون النہي عن المنکر من الإیمان‘‘: ج ۱، ص: ۵۱، رقم: ۴۹)

 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص278

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اتنی چھوٹی تصویر جیسے کہ روپیہ پر ہوتی ہے، اگر الجھن کا سبب بنے، تو کراہت ہے ورنہ نہیں، چشمہ لگا کر نماز درست ہے۔(۱)

(۱) ولبس ثوب فیہ تماثیل وذي روح وأن یکون فوق رأسہ أو بین یدیہ أو بحذائہ یمنۃ أو یسرۃ أو محل سجودہ تمثال ولو في وسادۃ منصوبۃ لا مفروشۃ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا‘‘: ج ۲، ص: ۴۱۶، ۴۱۷)
وقال في الشامیۃ: قولہ ولبس ثوب فیہ تماثیل عدل عن قول غیرہ تصاویر لما في المغرب: الصورۃ عام في ذی الروح وغیرہ والتمثال خاص بمثال ذی الروح، ویأتي أن غیر ذی الروح لا یکرہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۲، ص: ۴۱۶، زکریا دیوبند)
وإن کانت الصورۃ علی الإزار أو الستر فمکروہ، ویکرہ التصاویر علی الثوب صلی فیہ أو لم یصل، أما إذا کانت في یدہ وہو یصلی فلا بأس بہ لأنہ مستور بثیابہ، وکذا لو کان علی خاتمہ۔ (إبراہیم الحلبي، الحلبي الکبیري، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في صفۃ الصلاۃ‘‘: ص: ۳۱۲، دار الکتاب دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص131

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا ’’امام اس لیے ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، لہٰذا جب امام ’’اللّٰہ أکبر‘‘ کہے، تو تم بھی ’’اللّٰہ أکبر‘‘ کہو اور جب قرأت کرنے لگے، تو خاموش ہوجاؤ‘‘(۱) ایک روایت میں مزید وضاحت ہے کہ جب امام ’’اللّٰہ أکبر‘‘ کہے، تو ’’اللّٰہ أکبر‘‘ کہو اور جب قرأت کرے، تو خاموش رہو اور جب امام {غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَہع ۷ } کہے، تو آمین کہو!(۲) حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب کوئی امام کے ساتھ نماز پڑھ رہا ہو، تو امام کی قرأت ہی اس کی قرأت ہے(۳) اس لیے احناف کا مسلک یہ ہے کہ مقتدی کو امام کے پیچھے سورہ فاتحہ نہیں پڑھنی چاہئے۔ اور اگر پڑھ لیا، تو گو کراہت سے خالی نہیں، مگر نماز درست ہوجائے گی۔(۴)

(۱) وعن أبي بن کعب أنہ قال: لما نزلت ہذہ الآیۃ ترکوا القراء ۃ خلف الإمام، وأمامہم کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فالظاہر أنہ کان بأمرہ۔ وقال صلی اللّٰہ علیہ وسلم في حدیث مشہور ’’إنما جعل الإمام لیؤتم بہ فلا تختلفوا علیہ فإذا کبر فکبروا وإذا قرأ فانصتوا‘‘، الحدیث أمر بالسکوت عند قرائۃ الإمام۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’ فصل في أرکان الصلاۃ، الکلام في القراء ۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۹۴؛ مشکاۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ، باب القرائۃ في الصلاۃ‘‘: ص: ۸۱)
(۲) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا، باب إذا قرأ الإمام فانصتوا‘‘: ص: ۶۱، رقم: ۸۵۱)
(۳) عن جابر رضي اللّٰہ عنہ قال، قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: من کان لہ إمام فقراء ۃ الإمام لہ قراء ۃ۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا، باب إذا قراء الإمام فانصتوا‘‘: ص: ۶۱، رقم: ۸۵۰)
(۴) والمؤتم لا یقرأ مطلقاً فإن قرأ کرہ تحریماً وتصح في الأصح۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: السنۃ تکون سنۃ عین وسنۃ کفایۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۶، زکریا)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص241

بدعات و منکرات

الجواب وباللہ التوفیق

صورت مسؤولہ میں بیٹے پر والدین کی فرمانبرداری لازم ہے ، والد کو حق ہے کہ بیٹے کو واپس بلالے اور بیٹے پر واپس آنا لازم ہے، والدین کی خدمت بہرحال مقدم ہے، مذکورہ صورت میں بچہ کے والد صاحب کو سمجھایاجائے کہ چلہ کے لئے گھر سے گیا تھا وہاں لوگوں کے ترغیب دلانے پر چار مہینے کا ارادہ کرلیا ہوگا اس پر اس قدر ناراض نہ ہوں ، نیز بیٹے کو واپس آکر والد صاحب کو راضی کرلینا چاہئے، سائلہ کو چاہئے کہ دونوں کے درمیان اتفاق کرانے کی صورتیں اختیار کریں اور جہاں اتفاق نہ ہوسکے تو شوہر کا ساتھ دیں تاکہ مسئلہ بسہولت حل ہوسکے۔

واللہ تعالی اعلم

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 894 Alif

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: (1) دونوں میں اتنی دوری ہونی چاہئے کہ نجاست کا اثر پانی تک نہ پہونچے، اور اس  سلسلہ میں ماہرین سے اندازہ لگوا لیا جائے۔(2) اگر وہ بچہ سمجھدار ہے اور ثواب و گناہ کو سمجھتا ہے  تو بطور تنبیہ اس کی تعزیر ضروری ہے تاکہ ایسا کرنے سے آئندہ  گریز کرے۔   واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 41/887

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  نماز ہوجائے گی۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 1374/42-785

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Learning Iman means various things like: purifying the heart from non-God, purifying the deeds from show off, purifying the soul from vile morals, purifying the earnings from disgusting sources, and keeping the society away from different forms of dirtiness prevalent in the era of Ignorance. When a Muslim acquires these basic things, his heart develops the ability to learn and act upon the Shariah rules and deeds. So the learning sought after purification is more useful. Therefore, the Companions of the Prophet (saws) said that they first learned Iman (purification of the heart) and then only turned to the Qur'an (learning). Moreover, the real purpose of education and learning is to enhance faith and purification. Otherwise, without purification of deeds and morals, mere knowledge is of no value.

عن جندب بن عبد الله، قال: كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم ونحن فتيان حزاورة، «فتعلمنا الإيمان قبل أن نتعلم القرآن، ثم تعلمنا القرآن فازددنا به إيمانا» (حاشیۃ السندی علی سنن ابن ماجۃ، باب فی الایمان 1/31)

وقد كتب الغزالي أن بعض العلم لا يضطر العالم إلى العمل به، وبعضه يغلب عليه، ويستعمل الأعضاء في الطاعات، وهذا هو الإيمان عند السلف، وهو المراد بما قلت: إن الإيمان ينبسط من الباطن إلى الجوارح، والإسلام يدخل من الظاهر إلى الباطن. فإن التصديق إذا غلب واستعمل الأعضاء صار الإسلام والإيمان متحدين، وهو المراد باتحاد المسافتين، وإلى هذا المقام أشير في قوله: «أن تعبد الله كأنك تراه» ... إلخ، (فیض الباری علی صحیح البخاری، باب سؤال جبرئیل النبیﷺ 1/227)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband