متفرقات

Ref. No. 2716/45-4225

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر ڈاکٹر سند یافتہ ہے اور اس نے بظاہر کوئی غلطی اور لاپرواہی نہیں کی ہے تو ڈاکٹر پر کوئی جرمانہ نہیں ہوگا، ہاں اگر ڈاکٹر نے واقعی لاپرواہی کی ہے جس کی وجہ سے مریض کو نقصان ہوا ہے تو ایسی صورت میں قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسے شخص کی تقلید ناقص اور کمزور کہلائے گی، تاہم دوسروں کو چاہیے کہ اس کو حنفی دلائل سمجھائیں تاکہ یہ کمزوری دور ہو جائے اور وہ شخص مضبوط مقلد بن جائے۔ اور خواہش نفسانی سے بچے ، اس کے پیچھے نماز ادا ہوجاتی ہے۔(۳)

(۳) {ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْٓا أَطِیْعُوا اللّٰہَ وَأَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَأُولِی الْأَمْرِ …مِنْکُمْ ج} (سورۃ النساء: ۵۹)
یکونون في وقت یقلدون من یفسد النکاح وفي وقت من یصححہ بحسب الغرض والہوی، ومثل ہذا لا یجوز باتفاق الأمۃ۔ (ابن تیمیۃ، الفتاویٰ الکبریٰ: ج ۳، ص: ۲۰۴)

 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص279

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2761/45-4329

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ناپاک پانی سے مصالہ یا اینٹیں جو زمین یا دیوار وغیرہ میں لگادی گئی ہیں اور وہ اس طرح ثبت اور نصب کردی گئی ہوں کہ ہلتی نہ ہوں، وہ خشک ہونے کے بعد مثل زمین کے پاک ہوجاتے ہیں، اس لیے جو مکان ناپاک پانی سے تعمیر ہوچکے ہیں وہ پاک ہیں، اسے پاک کرنے کی ضرورت نہیں۔ در مختارمیں ہے۔

’’وحکم آجر ونحوہ کلبن مفروش … کأرض فیطہر بجفاف وکذا کل ما کان ثابتاً فیہا لأخذہ حکمہا باتصالہ بہا فالمنفصل یغسل لا غیر‘‘ (الدر المختار: ج ۱، ص: ۵۱۳)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: سر چھپانا، ٹوپی اوڑھنا اسلامی لباس میں داخل ہے اور اس کی خاص فضیلت واہمیت اسلام نے بیان کی ہے اور کھلے سر سامنے آنا جانا بے ادبی شمار ہوتا ہے اور شرفاء وائمہ کرام وصحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کی عادت کے خلاف ہے۔(۱)
’’وتکرہ صلاتہ حاسراً  أي کاشفاً رأسہ للتکاسل در مختار وعن بعض المشائخ أنہ لأجل الحرارۃ والتخفیف مکروہ‘‘(۲)

وتکرہ الصلاۃ حاسراً رأسہ إذا کان یجد العمامۃ وقد فعل ذلک تکاسلاً أو تہاوناً بالصلاۃ، ولا بأس بہ إذا فعلہ تدللاً وخشوعاً، بل ہو حسن، کذا في الذخیرۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع، الفصل الثاني فیما یکرہ في الصلاۃ و ما لا یکرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۵، زکریا دیوبند)
(۲) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مکروہات الصلاۃ و ما لا یکرہ، ومطلب في الخشوع‘‘: ج۲، ص: ۴۰۷،۴۰۸زکریا)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص132

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں امام کے ساتھ فرض نماز پڑھنے والا شخص اللہ اکبر کے بعد ثناء پڑھنے کے بعد خاموشی کے ساتھ قرأت سنے گا؛ کیوںکہ قرآن کریم کی آیت ہے {وَإِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَہ۲۰۴}(۱) یعنی جب قرآن کریم پڑھا جائے، تو تم لوگ خاموش رہو اور غور سے سنو! تاکہ تم لوگوں پر رحمت نازل کی جائے؛ البتہ مقتدی رکوع، قومہ، سجدہ اور جلسہ وغیرہ میں بدستور تسبیحات پڑھے گا، جیسا کہ مذکورہ آیت کی تفسیر میں علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں۔
’’وقال أبو حنیفۃ و أحمد بن حنبل: لا یجب علی المأموم قرائۃ أصلا في السریۃ ولا الجھریۃ … وقال علي ابن طلحۃ، عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما، في الآیۃ قولہ: {وَإِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا}، یعني: في الصلاۃ المفروضۃ‘‘(۲)
’’قولہ: (في السریۃ) یعلم منہ نفي القراء ۃ في الجھریۃ بالأولی والمراد التعریض‘‘
’’ومانسب لمحمد ضعیف کما بسطہ الکمال (فإن قرأ کرہ تحریما) وتصح في الأصح وفي (درر البحار) عن مبسوط خواھر زادہ إنھا تفسد ویکون فاسقا وھو مروي عن عدۃ من الصحابۃ فالمنع أحوط (بل یستمع) إذ جھر (وینصت) إذا أسر لقول أبي ھریرۃ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ: (کنا نقرء خلف الإمام) فنزل: {وَإِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا}‘‘
’’قولہ (وینصت إذا أسر) وکذا إذا جھر بالأولی۔ قال في البحر:  وحاصل الآیۃ أن المطلوب بھا أمران: الاستماع، والسکوت فیعمل بکل منھما؛ والأول یخص الجھریۃ، والثاني لا، فیجري علی إطلاقہ فیجب السکوت عند القراء ۃ مطلقا‘‘(۳)

(۱) سورۃالأعراف: ۲۰۴۔
(۲) ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’الجزء التاسع، سورۃ الأعراف‘‘: ج۲، ص:۲۷۲، ۲۷۳، دارالاشاعت دیوبند۔)
(۳) ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: السنۃ تکون سنۃ عین وسنۃ کفایۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۲۶، ۲۶۷، زکریا۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص243

 

متفرقات

Ref. No. 2835/45-4451

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس طرح ہم کسی بھی بچے کو از راہ شفقت بیٹا کہہ کر پکارتے  اور بلاتے ہیں، اسی طرح کسی بڑے کو  از راہ  احترام و عظمت  'ابا جی'  یا' بابا' یا 'باباجی' کہدیتے ہیں، اس  لئے  اپنے کفیل کو 'بابا ' وغیرہ کہنا احتراما ہے،  لہذا اس طرح کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔  اس میں شبہہ نہ کیاجائے۔ رہی بات اپنی ولدیت اور نسبت تبدیل کرنا، وہ ایک الگ مسئلہ ہے، جو کہ قطعی حرام ہے۔

قال الحصکفي: ویکرہ أن یدعو الرجل أباہ، وأن تدعو المرأة زوجہا باسمہ۔ قال ابن عابدین: قولہ: ( ویکرہ أن یدعو الخ ) بل لابد من لفظ یفید التعظیم کیا سیدي و نحوہ لمزید حقہما علی الولد والزوجة۔۔۔ (رد المحتار مع الدر المختار: ۶/۴۱۸، کتاب الحظر والاباحة، ط: دار الفکر، بیروت )

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

خوردونوش

Ref. No. 1110 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ گٹکہ نشہ آور ہوتا ہے،  نیز گٹکہ پر صاف  لکھاہوتا ہے کہ یہ  جان لیوا اورخطرناک ہے،اس سے بہت سی لاعلاج بیماریاں پیدا ہوسکتی  ہیں، اور آدمی کی ہلاکت کا سبب بن سکتی ہیں،جبکہ قرآن کریم نے  واضح  طور پر فرمایا ولاتلقوا بایدیکم الی التھلکة کہ اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو۔ لہذا گٹکہ کھانا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے۔ اس کا استعمال مکرو ہ ہے۔جتنی کثرت ہوگی اسی قدر کراہت میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا۔ لہذا اس سے بچنا لازم ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

                     

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

Miscellaneous
Ref. No. 38/ 935 In the name of Allah the most Gracious the most Merciful Then answer to your question is as follows: Your had a very pleasant dream. Allah Almighty is happy and pleased with him. In addition, you should continue conveying rewards (Isale sawab) to your deceased father. And Allah knows best Darul Ifta Darul Uloom Waqf Deoband

اسلامی عقائد

Ref. No. 40/968

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دونوں جماعتوں کو مل کر کام کرنا چاہئے۔ کوئی جماعت اگر پہلے سے کسی مسجد میں ہو اور دوسری جماعت آجائے تو ان کو ساتھ لے کر کام کرنا چاہئے یہی پہلے سے اصول رہا ہے۔ دونوں کا مقصد ایک ہے ، ہر ایک کو مقصد میں لگ جانا چاہئے اور فساد کو دبادینا چاہئے۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Zakat / Charity / Aid

Ref. No. 41/897

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

(1) As long as you expect the money given as debt to return to you, you have to include lent money into your total asset and pay zakat. When you lost your hope to get it back, you are not obliged to pay the lent money’s zakat, but you can wait and whenever you get back your money, pay the zakat of the previous years too which passed on that amount. (2) The interest received from bank cannot be given in its service charges. It must be given to poor and needy people without the intention of reward as you have been doing for many years. 

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband