Fiqh

Ref. No. 2999/46-4790

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اجارہ کا معاملہ آپسی معاہدہ اور رضامندی کے مطابق ہوتاہے، جیسا معاہدہ ہو ویسی اجرت لازم ہوگی، اس لئے جب شروع میں یہ معاہدہ طے پایا کہ ساڑی بنانے میں اگر کوئی عیب ہوگا تو اس ساڑی کی اجرت نہیں ملے گی، تو سیٹھ معاہدہ کے مطابق اس کی اجرت دینے کا پابند نہیں ہے، تاہم اگر اخلاقی طور پر مزدور کی محنت کو دیکھتے ہوئے کچھ دیدے تو بہتر ہے اور باعث اجروثواب ہے۔ مزدور جب تک معاہدہ کے مطابق ساڑی تیار کرکے نہیں دے گا طے شدہ اجرت کا بھی مستحق نہیں ہوگا۔ اور اگر عیب کی صورت میں کوئی معاہدہ طے نہیں ہوا تھا تو ایسی صورت میں عیب کو ٹھیک کرانے میں جو نقصان ہو اس کے بقدر کاٹ کر باقی اجرت لازم ہوگی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Death / Inheritance & Will

Ref. No. 2998/46-4770

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ والدین کا اپنی نافرمان اولاد کو میراث کا حقدار ہونے سے نااہل قرار دینا شرعا درست نہیں ہے۔ لہذا والدین نے اگر کسی کو عاق کیا ہے تب بھی والدین کی وفات کے بعد دیگر اولاد کی طرح وہ نافرمان بیٹا بھی برابر کا حقدار ہوگا؛  اس کو والدین کے مرنے کے بعد وراثت سے محروم کردینا گناہ ہے۔ البتہ اگرباپ  اپنی زندگی میں اپنی فرمانبردار اولاد کی خدمت سے خوش ہو کر  ان کو کچھ دیدے اور مالک بنادے تو پھر اس حصہ میں دوسروں کا کوئی حق نہیں ہوگا، ہاں یہ بھی خیال رہے کہ  ہبہ اپنی تمام شرطوں کے ساتھ پورا ہوا ہو۔

ولوکان ولدہ فاسقا واراد ان یصرف مالہ الی وجوہ الخیر ویحرمہ عن المیراث ھذا خیر من ترکہ کذا فی الخلاصۃ (فتاوی امدادیہ 3/100) وفی الدر المختار ولو کان ولدہ مسیئا دون البعض لزیادۃ رشدہ لا باس بہ ولوکان سواء یجوز فی القضاء ولکن ھو آثم (مجموعۃ الفتاویٰ 4/393) الارث جبری لا یسقط بالاسقاط (تکملۃ رد المحتار 5/505، کتاب الدعوی باب التحالف ، فصل فی دفع الدعاوی 7/505)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

سیاست

Ref.  No.  2997/46-4769

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قوم کی  بہتر خدمت کے لئے سیاست میں حصہ لینا جائز ہے، وزیر اعظم بننے اور ملک میں امن و امان قائم کرنے کے لئے اپنی کوشش جاری رکھنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ البتہ سیاست میں عام طور پر جھوٹ ، مکر وفریب اور حرام مال کی قباحت دلوں سے نکل جاتی ہے ، اس لئے اگرشرعی حدود  سے ہرگز سرِمو تجاوز نہ ہو، تو ملک کی ترقی اور امن وا مان قائم کرنے کی خاطر یہ نظریہ اور کوشش قابل قدر ہے۔

پولیٹیکل سائنس کا علم حاصل کرنا کوئی گناہ کی چیز نہیں ہے، تاہم جو امور اس میں خلاف شرع ہوں ا ن سے  بچنا ہر حال میں  لازم ہوگا۔ ان کی تفصیل آپ الگ سے دوبارہ معلوم کرلیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء  

دارالعلوم وقف دیوبند

Marriage (Nikah)

Ref. No. 2996/46-4768

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ لڑکا اور لڑکی جب راضی ہوں اور شرعی طور پر کوئی مانع موجود نہ ہو تو والدین کو شادی کے لئے منع نہیں کرنا چاہیے۔ زید کو چاہئے کہ اپنے والدین کو مذکورہ لڑکی سے نکاح کے لئےن  تیار کرے، اور اگر وہ منع کرتے ہیں اور کسی صورت تیار نہیں ہوتے ہیں تو یقینا کوئی خاص وجہ ہو گی جو وہ زید کو بتانا مناسب نہیں سمجھتے ہوں گے، اس لئے اگر زید اپنی والدین کی بات مان کر اس لڑکی سے شادی کرنے کی ضد چھوڑدے تو اس کی گنجائش ہے، تاہم والدین کا بلاوجہ اس شادی کو اپنی انا کا مسئلہ بنالینا بھی درست نہیں ہے۔ اس لئے والدین کو چاہئے کہ  بچہ کے جذبات کا بھی خیال رکھیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref.  No .  2995/46-4767

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عیدگاہ کی زمین عیدگاہ کے لئے ہی وقف ہے، اور وہ نماز پڑھنے کی جگہ ہے، اور عید گاہ کو مسجد کے حکم میں شمارکیاگیاہے۔ وقف کی زمین کو کسی دوسرے مصرف میں لگانا جائز نہیں ہے۔ ٹرسٹیان اور دیگر حضرات کا عیدگاہ کی زمین کو  سوال میں ذکرکردہ مقاصد کے لئے استعمال کرنا ہرگز جائز نہیں ہے۔ جو لوگ مسئلہ سے واقف ہیں ان کو چاہئے کہ ٹرسٹیان سے بات کرکے ان کو اس غیرشرعی عمل سے روکیں، اور مسجد کی طرح عیدگاہ کی حرمت کوبھی  پامال ہونے سے بچائیں، علماء اور اہل شہر کو اس میں اپنی حیثیت کے مطابق اقدام کرناچاہئے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Islamic Creed (Aqaaid)

 Ref. No. 2994/46-4766

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ یہ دونوں کھلم کھلا حرام کے مرتکب ہیں، اس لئے ان سے تعلقات قائم کرنا جائز نہیں ہے، ان کا سماجی بائکاٹ ہونا ضروری ہے  تاکہ  دونوں اپنے گناہ کبیرہ سے توبہ کریں اور علیحدگی اختیار کریں،۔اگر وہ توبہ کرلیں اور علیحدگی اختیار کرلیں تو پھر بائکاٹ ختم کرکے  ان کے ساتھ  اٹھنا بیٹھنا اور کھانا پینا جائز ہوجائے گا۔

 واما ینسینک الشیطان فلا تقعد بعد الذکری مع القوم الظالمین۔ (سورۃ الانعام 68)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Fiqh

Ref. No. 2993/46-4765

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر عقد کرتے وقت ہی مبیع کی مجموعی قیمت اور اس کی ادائیگی کی مدت متعین طریقہ پر طے کردی جائے اور مدت بڑھنے پر کسی سود کا اضافہ نہ کیاجائے تو اس طرح قسطوں پر بیع و شراء  کرنا جائز اور درست  ہے۔ اور اگر عقد میں یہ طے ہوا کہ اتنی مدت کی قسط  ادا نہ کرنے کی صورت میں ہر ماہ اضافی رقم دینی ہوگی تو ایسی صورت میں مدت متعینہ میں قسط کی ادائیگی لازم ہوگی، اور اگر مدت پوری ہوگئی اور قسط پوری نہ ہوئی تو اب اضافی رقم سود کی شکل میں ہر ماہ دینی ہوگی جو ناجائز ہے اس لئے یہ معاملہ ناجائز ہوجائے گا۔

 البیع مع تاجیل الثمن وتقسیطہ صحیح ․․․․ یلزم أن تکون المدّة معلومة فی البیع التاجیل والتقسیط) شرح المجلة: ۱/۱۲۷، رقم المادة: ۲۴۵، ۲۴۶) ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Divorce & Separation

Ref. No. 2992/46-4764

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Shariah has given the power of divorce only to man, therefore only the man can divorce after the marriage or pronounce conditional divorce before marriage. And upon marriage conditional divorce takes place when the husband becomes the owner of the divorce. A woman cannot give divorce even after marriage and she has no right for conditional divorce before marriage. Before marriage, the man is not the owner of the divorce, so if he makes his prospective wife the owner of the divorce and gives the right to divorce, it will not be valid. Giving divorce with condition on any act other than marriage does not constitute divorce.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2988/46-4763

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ کے تمام سوالات تفصیل طلب ہیں اور ان کے متعلق علماء دیوبند کی کتب متداولہ میں کافی و شافی جوابات موجود ہیں، تاہم چند مختصر نکات کو بیان کرنے کے بعد ہم حوالہ پیش کردیتے ہیں تاکہ آپ مزید تفصیل کے لئے بوقت ضرورت رجوع کرسکیں۔

1. اللہ تعالی نے جو کچھ فرمایا اس کے خلاف کرنے پر قادر ہے، مگر باختیار خود اس کو نہیں کرے گا ، مثلا فرعون پر ادخال نار کی وعید ہے مگر فرعون کو جنت میں داخل کرنے پر  قادر ہے اگر چہ ہر گز اس کو جنت میں داخل نہیں کرے گا جیسا کہ خود اس نے متعدد بار قرآن  میں فرمایا ہے؛ اس کو علم کلام کی اصطلاح میں  امکان ذاتی اور امتناع بالغیر سے تعبیر کیاجاتاہے۔ (فتاویٰ رشیدیہ ص، جیسم بکڈپو113) 

2-6. کے سوالات کے متعلق مختصر اً یہ سمجھیں کہ : ہر صفت کا ایک دائرہ کار ہوتاہے، جس میں وہ اپنا کام کرتی ہے، قدرت کا دائرہ کار مقدورات یعنی ممکنات  ہیں، اس لئے اگر وہ محالات اور ممتنعات کی جانب متوجہ نہیں ہوتی تو اس کے کمال میں ہرگز کسی نقصان کا وہم بھی نہیں ہونا چاہئے۔ کیونکہ محالات اس کے دائرہ کار میں داخل ہی نہیں ہیں، وہ اپنی حقیقت کے لحاظ سے کسی دائرہ خارج میں آنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے، یعنی کمال و نقصانِ فاعلیت ،  اور کمال و نقصانِ مفعولیت  دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے، اس حقیقت کو س پہونچنے کی بناء پر ایک شخص مقدوریت کے نقصان کو قادریت کا نقصان سمجھ بیٹھتاہے، موتِ خداوندی مقدور نہیں کیونکہ محال ہے، مگر اس سے اللہ کی قادریت میں کوئی  فرق اورنقصان لازم نہیں آئے گا ۔(انتصار الاسلام از حضرت نانوتویؒ ص 32 مکتبہ دارالعلوم دیوبند)

3. اللہ کا نور اجزاء و حصص سے پاک ہے، اس لئے اللہ کے نور سے کسی کا پیداہونا بھی محال ہے، ہاں اللہ کے نور سے مراد اگر اللہ کے نور کے فیض سے پیداہونا ہے تو یہ ممکنات کے قبیل سے ہے، چنانچہ جن روایات میں  پیغمبرکا نور سے پیدا ہونا  بیان ہوا یا ان کو  نور کہا گیا اس سے مراد بعینہ ذات نور خداوندی نہیں ہے بلکہ فیضِ نورخداوندی  مراد ہے۔ (رسالہ بینات ، محرم الحرام 1402 مطابق نومبر 1981ء جلد 40، شمارہ 1 ص21تا 39 بنوری ٹاؤن)  یہ اصول یاد رکھیں کہ جس چیز کے تسلیم کرنے سے  ذات و صفات خداوندی میں فرق آجائے  وہ محال ہے ، اور محال و ممتنع چیز باری تعالی کے لئے ثابت نہیں ہے، وہ ہر محال سے منزہ اور برتر ہے، ایسی چیزوں کو اللہ کی جانب منسوب کرنا سخت گستاخی کی بات ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ ج3 ص 35 مکتبہ محمودیہ)

7. کسی کا یہ کہنا کہ اگر اللہ تعالی شرک کے لئے کہتا تو میں شرک کرتا، یہ جملہ اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کرنے اور اس کے حکم کے زیر نگیں ہونے کو بتانے کے لئے ہے، اس لئے محض ایسا سوچنے یا زبان سے کہنے سے کوئی کافر نہیں ہوگا، اور تجدید ایمان و نکاح کی بھی حاجت نہیں ہوگی،  اور شرک کی اجازت پر اللہ کی قدرت کا عقیدہ اپنی جگہ درست ہے جیساکہ تفصیل اس کی آچکی ہے۔

قدرت باری تعالیٰ پر مزید تفصیل کے لئے مندرجہ ذیل کتابوں کا مطالعہ کرسکتے ہیں: اتنصار الاسلام از حضرت نانوتوی ؒ ص 24 تا 33، بوادرالنوادر ج1 ص 207 تا 210 جسیم بکڈپو، فتاوی ٰ رشیدیہ ص 113 جسیم بکڈپو، فتاویٰ محمودیہ ج3 ص 35 مکتبہ محمودیہ، رسالہ بینات ، محرم الحرام 1402 مطابق نومبر 1981ء جلد 40، شمارہ 1 ص21تا 39 بنوری ٹاؤن

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 2959/45-4713

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  سودی رقم کا حکم یہ ہے کہ بلانیتِ ثواب فقراء و مساکین وغیرہ پر صدقہ کردیاجائے ، اسی طرح اگر اس رقم سے اصلاحی کتابیں  یا درسی کتابیں یا ضرورت کی اشیاء خرید کر غریب طلبہ میں تقسیم کردی جائیں اور ان کو مالک بنادیاجائے  تو اس کی بھی گنجائش ہے ۔  سودی رقم  بعینہ صرف کرنا لازم نہیں ہے۔

''والحاصل: أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، و إلا فإن علم عين الحرام فلا يحل له، وتصدق به بنية صاحبه''. (شامی، مطلب فيمن ورث مالاً حراماً، ٥/ ٥٥،ط: سعيد)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند