تجارت و ملازمت

Ref. No. 1678/43-1384

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (1) خبروں کا چینل بنانا جائز ہے بشرطیکہ کسی غیرمحرم کی تصویراورناجائز اشتہار سے احتراز کیا جائے۔ (2) اگر یوٹیوب پر جاری امور جائزہیں تو ان سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی جائز ہوگی، اس لئے مذکورہ شرط کے ساتھ آمدنی حلال ہے، (3) بلاضرورت ڈیجیٹل تصاویر اور ویڈیوگرافی سے احترازکیا جائے، اور غیرمحرم کی  تصویر سے بہر صورت احتراز لازما کیاجائے۔ آج کے دور میں اشاعت دین، دفاع دین، وغیرہ کی ضرورت کی وجہ سے ڈیجیٹل تصاویر اور ویڈیوکی گنجائش  دی گئی ہے۔الضرورات تبیح المحظورات  (از تجاویز سیمینار،  اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا، منعقدہ 3،4 /اکتوبر 2021 المعہدالعالی  حیدرآباد)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

حدیث و سنت

Ref. No. 1974/44-1917

بسم اللہ الرحمن الرحیم:  اس کے گھروالے، رشتہ دار، دوست واحباب اور متعلقین واپس آجاتے ہیں، اسی طرح اس کا مال یعنی اس کے غلام، خادم اور مملوک ، میت کی چارپائی، چادر ، کفن دفن وغسل کا خرچ  وغیرہ ساتھ جاتے ہیں اور واپس آجاتے ہیں۔نیز زمانہ جاہلیت میں عربوں کی عادت تھی کہ وہ میت کے ساتھ جانوروں وغیرہ کو بھی ساتھ لے جاتے تھے ۔ ظاہر ہے کہ پھر یہ سب واپس آجاتے تھے،  اورانسان اپنے عمل کے ساتھ قبر کے حوالہ ہوجاتاہے۔ اس طرح دو چیزیں واپس آگئیں اور  صرف اس کا عمل  اس کے ساتھ قبر میں  رہ گیا۔  اگر نیک عمل ہوا تو نیک عمل ساتھ رہتا ہے اور اگر برا عمل ہوا تو برا عمل ساتھ رہے گا۔

حدثنا الحميدى حدثنا سفيان حدثنا عبد الله بن أبى بكر بن عمرو بن حزم سمع أنس بن مالك يقول قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - «يتبع الميت ثلاثة، فيرجع اثنان ويبقى معه واحد، يتبعه أهله وماله وعمله، فيرجع أهله وماله، ويبقى عمله». (فیض الباری، باب نفخ الصور 6/276)

قوله يتبعه أهله وماله وعمله هذا يقع في الأغلب ورب ميت لا يتبعه إلا عمله فقط والمراد من يتبع جنازته من أهله ورفقته ودوابه على ما جرت به عادة العرب وإذا انقضى أمر الحزن عليه رجعوا سواء أقاموا بعد الدفن أم لا.  (فتح الباری لابن حجر، باب سکرات الموت 11/365)

وهذا يقع في الأغلب، ورب ميت لا يتبعه إلا عمله فقط. قوله: (وماله) مثل رقيقه ودوابه على ما جرت به عادة العرب.  (عمدۃ القاری، باب سکرات الموت 23/97)

- (وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يتبع الميت) أي: إلى قبره (ثلاثة) أي: من أنواع الأشياء (فيرجع اثنان) أي: إلى مكانهما ويتركانه وحده (ويبقى معه واحد) أي: لا ينفك عنه (يتبعه أهله) أي: أولاده وأقاربه وأهل صحبته ومعرفته (وماله) : كالعبيد والإماء والدابة والخيمة ونحوها. قال المظهر: أراد بعض ماله وهو مماليكه. وقال الطيبي رحمه الله: اتباع الأهل على الحقيقة واتباع المال على الاتساع، فإن المال حينئذ له نوع تعلق بالميت من التجهيز والتكفين ومؤنة الغسل والحمل والدفن، فإذا دفن انقطع تعلقه بالكلية (وعمله) أي: من الصلاة وغيره. (فيرجع أهله وماله) أي: كما تشاهد حاله ومآله (ويبقى) أي: معه (عمله) أي: ما يترتب عليه من ثواب وعقاب، ولذا قيل: القبر صندوق العمل، وفي الحديث: " «القبر روضة من رياض الجنة أو حفرة من حفر النيران» " (متفق عليه) . (مرقاۃ المفاتیح، کتاب الرقاق 8/3235)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2075/44-2065

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (1) اگر کوئی داڑھی نہیں رکھتا اور اس کو ضروری بھی نہیں سمجھتا تو اس کا یہ عمل موجب گناہ ہے، لیکن یہ عمل کفریہ نہیں ہے، (2) داڑھی چونکہ انبیاء کی سنت ہے اور جمہور کے مطابق اس کا رکھنا واجب ہے اس لئے اس کا مذاق اڑانا کفریہ عمل ہوگا کیونکہ اس میں استخفاف دین ہے۔ (3) حجاب کا حکم قرآن و حدیث سے ثابت ہے اس لئے اس کو غیرضروری سمجھنا درست نہیں ہے لیکن اس کی وجہ سے تکفیر نہیں ہوگی،  اور نہ ہی تجدید ایمان وتجدید نکاح کی ضرورت ہوگی۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق: جب تک نجس ہونے کا یقین یا غالب گمان نہ ہو تو اس کو پاک سمجھا جائے گا۔(۱)

(۱) ابن نجیم، الأشباہ والنظائر، القاعدۃ الثالثۃ،الیقین لا یزول بالشک، ص:۱۸۳، القاعدۃ المطردۃ أن الیقین لا یزول بالشک (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، الفصل الثاني: في الأعیان النجسۃ، ج۱، ص:۱۰۲)؛  فلا نحکم بنجاسۃ بالشک علی الأصل المعہود أن الیقین لایزول بالشک (الکاساني، بدائع الصنائع، فصل في بیان المقدار الذي یصیر بہ، ج۱، ص:۲۱۷)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص449

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:کتا اور بلی کو پکڑنے سے وضو نہیں ٹوٹتا؛ البتہ گندگی وغیرہ ہاتھ پر لگ جائے، تو اس کو دھو لیا جائے۔(۱)

(۱)الکلب إذا أخذ عضو إنسان أو ثوبہ لا یتنجس مالم یظھر فیہ أثر البلل (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل الثاني :في الأعیان النجسۃ، والنوع الثاني: المخففۃ، و مما یتصل بذلک مسائل،‘‘ج۱،ص:۱۰۳ )؛  والکلب إذ أخذ عضو إنسان أو ثوبہ حالۃ المزاح یجب غسلہ و حالۃ الغضب لا۔ یہاں حالت مزاح اور غضب میں فرق کیا ہے؛ لیکن شامی میں ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے اور فتویٰ بھی شامی کے قول پر ہی ہے۔ (علي بن عثمان، الفتاویٰ السراجیہ،ج۱، ص:۵۲)؛ و  إذا انتقض فأصاب ثوباً لا ینجسہ مطلقا۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ،‘‘ ج۱، ص:۱۸۴)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص212

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ہمارے یہاں مسجد کے امام ومؤذن کی تنخواہ عموماً بقدر کفایت ہوتی ہے، رمضان اور عید کی مناسبت سے اخراجات بڑھ جاتے ہیں اور عموماً تنخواہ ناکافی ہوتی ہے؛ اس لیے اگر باہمی مشورہ سے رمضان کی تنخواہ میں اضافہ کر دیا جائے یا بارہ مہینہ کی جگہ تیرہ مہینہ کی تنخواہ دی جائے اور اس کو ضابطہ بنا دیا جائے تو بہتر اور پسندیدہ عمل ہے۔ اسی طرح اگر باہمی مشورہ سے رمضان میں چندہ کر کے امام صاحب کو بطور تعاون کچھ دیا جائے تواس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ یہ مستحسن عمل ہے۔ ائمہ اور مؤذنین ہمارے دینی خدمت گار ہیں جو ہماری نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں ان کا تعاون کرنا ان کے نماز میں خشوع وخضوع کا سبب ہوگا اور اس کے اثرات پوری مسجد کے لوگوں کو محسوس ہوں گے۔
’’إن اللّٰہ فيعون العبد ما کان الحرم فيعون أخیہ‘‘(۱)
’’من یسر علی معسر یسر اللّٰہ علیہ في الدنیا والآخرۃ‘‘(۲)
’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: المسلمون علی شروطہم‘‘(۳)

(۱) المعجم الأوسط للطبراني، ’’من اسمہ محمد‘‘: رقم: ۵۶۶۵۔
(۲) أخرجہ ابن ماجۃ،  في سننہ، ’’أبواب الصدقات، باب إنظار المعسر‘‘: ج ۱، ص:۱۷۴، رقم: ۲۴۱۷۔
(۳) أخرجہ أبي داود ،  في سننہ، ’’کتاب القضاء، باب في الصلح‘‘: ج۲، ص: ۵۰۵، رقم: ۳۵۹۴۔

 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص283

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر صف میں جگہ خالی نہ ہو، تو پیچھے کی صف میں تنہا کھڑے ہونے میں کراہت نہیں ہے اور اگر بعد میں آنے والا خود عالم ہو اور اگلی صف میں کوئی عالم ہو، یعنی اس مسئلہ سے واقف ہو، تو ایسی صورت میں آگے سے ایک آدمی کو پیچھے کی طرف ہٹا کر اپنے ساتھ کھڑا کر لے یہ افضل ہے۔(۱)
(۱) و متی استوی جانباہ یقوم عن یمین الإمام إن أمکنہ وإن وجد في الصف فرجۃ سدہا وإلا انتظر حتی یجيء آخر فیقفان خلفہ وإن لم یجیٔ حتی رکع الإمام یختار أعلم الناس بہذہ المسئلۃ فیجذبہ ویقفان خلفہ ولو لم یجد عالما یقف خلف الصف بحذاء الإمام للضرورۃ ولو وقف منفرداً بغیر عذر تصح صلاتہ عندنا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب ہل الإساء ۃ دون الکراہۃ أو أفحش منہا‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۰)

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص401

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: کہنی کھول کر نماز پڑھنا مکروہ ہے۔(۱) سر پر یا شانوں پر بغیر لپیٹے ہوئے رومال ڈال کر دونوں طرف لٹکا کر نماز پڑھنا مکروہ ہے(۲) اور خارج نماز اگر تکبر کی وجہ سے ہو تو کراہت تحریمی ہے ورنہ درست ہے۔(۳)

(۱) وقید الکراہۃ في الخلاصۃ والمنیۃ بأن یکون رافعاً کمیہ إلی المرفقین۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب في الکراہۃ التحریمیۃ والتنزیہیۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۶؛ حلبي کبیري: ص: ۳۲۱)
(۲) إذا أرسل طرفا منہ علی صدرہ وطرفا علی ظہرہ یکرہ۔ (أیضاً: ج ۲، ص: ۴۰۵، زکریا)
(۳) فلو من أحد ہما لم یکرہ کحال عذر وخارج صلاتہ في الأصح أي إذا لم یکن للتکبر فالأصح أنہ لا یکرہ۔ (ابن عابدین أیضاً:ص۴۰۵)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص136

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر اسی جگہ پر سنت پڑھ لی جائیں جہاں پر فرض نماز پڑھی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں، جگہ بدلنا صرف بہتر ہے، لیکن اگر جگہ خالی ہو تو اس استحباب پر عمل کرنا بہتر ہے، لیکن اگر جگہ خالی نہ ہو تو گردنیں پھلانگنا یا کسی دوسرے کو اس کی جگہ سے ہٹا کر جگہ بدلنا درست نہیں ہے۔(۱)

(۱) عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: أیعجز أحدکم إذا صلی أن یتقدم أو یتأخر أو عن یمینہ، أو عن شمالہ یعنی السبحۃ۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، رقم: ۸۵۴؛ وأخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’کتاب إقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا، باب ما جاء في صلاۃ النافلۃ حیث تصلی المکتوبۃ ‘‘رقم: ۱۴۱۷)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص364

بدعات و منکرات

Ref. No. 944 Alif

الجواب

الجواب وباللہ التوفیق

سوال میں یہ وضاحت نہیں ہے کہ اللہ کے راستہ سے کیا مراد ہے؟ تاہم غزوہ خیبر میں ابتداءا حضرت علی نے عذر پیش کیا تھا ؛ اس لئے عذر پیش کرنے کو دین کی محنت کی مذاق سے تعبیر کرنا درست ہی نہیں ہے۔ کذا فی ابی داؤد۔ واللہ تعالی اعلم

 

دارالافتاء

 

دارالعلوم وقف دیوبند