حدیث و سنت

Ref. No. 2069/44-2072

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ واقعہ غلط ہے، محدثین نے اس کو موضوع اور باطل قرار دیا ہے۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

Divorce & Separation

Ref. No. 2143/44-2206

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

In the case you mentioned in the question, the woman cannot be married to the man who has pronounced three Talaq.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband 

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2202/44-2316

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مسجد میں نماز جنازہ پڑھنا شوافع کے یہاں درست ہے، البتہ احناف کے یہاں بلاکسی مجبوری کے مسجد میں جنازہ کی نماز مکروہ ہے۔ نبی علیہ السلام کا معمول یہی تھا کہ آپ مسجد کے باہر کھلی جگہ میں نماز جنازہ ادافرماتے تھے،  ایک بار آپﷺ اعتکاف میں تھے یا بارش کی بناء پر آپ نے مسجد میں جنازہ کی نماز پڑھی ہے لیکن عام معمول آپ کا یہ نہیں تھا۔ اس لئے کوشش یہی ہو کہ مسجد کے باہر کسی ہال میں یاکسی کھیل کے میدان میں یا عیدگاہ میں نماز جنازہ اداکریں ، اور اگر کوئی ایسی جگہ میسر نہیں ہے تو مسجد میں نماز جنازہ کی  گنجائش ہوگی۔ تاہم آپ کے علاقہ کے علماءکا  اس سلسلہ میں جو موقف ہو اسی کوترجیحا اختیار کیاجائے ۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 225)

"(واختلف في الخارجة) عن المسجد وحده أو مع بعض القوم (والمختار الكراهة) مطلقًا خلاصة، بناء على أن المسجد إنما بني للمكتوبة، وتوابعها كنافلة وذكر وتدريس علم، وهو الموافق لإطلاق حديث أبي داود «من صلى على ميت في المسجد فلا صلاة له»

أن الصلاة على الميت فعل لا أثر له في المفعول، وإنما يقوم بالمصلي، فقوله من صلى على ميت في مسجد يقتضي كون المصلي في المسجد سواء كان الميت فيه أو لا، فيكره ذلك أخذا من منطوق الحديث، ويؤيده ما ذكره العلامة قاسم في رسالته من أنه روي «أن النبي صلى الله عليه وسلم لما نعى النجاشي إلى أصحابه خرج فصلى عليه في المصلى» قال: ولو جازت في المسجد لم يكن للخروج معنى اهـ مع أن الميت كان خارج المسجد.
وبقي ما إذا كان المصلي خارجه والميت فيه، وليس في الحديث دلالة على عدم كراهته لأن المفهوم عندنا غير معتبر في غير ذلك، بل قد يستدل على الكراهة بدلالة النص، لأنه إذا كرهت الصلاة عليه في المسجد وإن لم يكن هو فيه مع أن الصلاة ذكر ودعاء يكره إدخاله فيه بالأولى لأنه عبث محض ولا سيما على كون علة كراهة الصلاة خشيت تلويث المسجد.
وبهذا التقرير ظهر أن الحديث مؤيد للقول المختار من إطلاق الكراهة الذي هو ظاهر الرواية كما قدمناه، فاغتنم هذا التحرير الفريد فإنه مما فتح به المولى على أضعف خلقه، والحمد لله على ذلك."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 224):

"(وكرهت تحريمًا) وقيل: (تنزيهًا في مسجد جماعة هو) أي الميت (فيه) وحده أو مع القوم. (واختلف في الخارجة) عن المسجد وحده أو مع بعض القوم (والمختار الكراهة) مطلقا خلاصة." وفی الرد: "(قوله: مطلقًا) أي في جميع الصور المتقدمة كما في الفتح عن الخلاصة."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 226): "إنما تكره في المسجد بلا عذر، فإن كان فلا، ومن الأعذار المطر كما في الخانية."

الفتاوى الهندية (1/ 165):

"والصلاة على الجنازة في الجبانة والأمكنة والدور سواء، كذا في المحيط وصلاة الجنازة في المسجد الذي تقام فيه الجماعة مكروهة سواء كان الميت والقوم في المسجد أو كان الميت خارج المسجد والقوم في المسجد أو كان الإمام مع بعض القوم خارج المسجد والقوم الباقي في المسجد أو الميت في المسجد والإمام والقوم خارج المسجد هو المختار، كذا في الخلاصة."

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:انسانی زندگی کے تین ادوار ہیں: حیات دنیوی، حیات برزخی اور حیات اخروی، مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے، یعنی قیام قیامت تک کا زمانہ عالم برزخ کہلاتا ہے۔
قرآن کریم میں ارشاد ہے: {وَمِنْ وَّرَآئِہِمْ بَرْزَخٌ إِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَہ۱۰۰}(۲) اور ان کے آگے اس دن تک ایک پردہ ہے جس دن وہ قبروں سے اٹھائے جائیں گے:

’’قال ابن الکثیر: البرزخ المقابر لا ہم في الدنیا ولا ہم في الآخرۃ فہم مقیمون إلی یوم یبعثون‘‘(۱)
صاحب روح المعانی نے لکھا ہے: ’’وذہب بعضہم إلی أن الأجل الأول ما بین الخلق والموت، والثاني ما بین الموت والبعث‘‘ (۲) عالم برزخ مرنے سے لے کر قیامت تک کا وقفہ ہے؛ اسی کو عالم قبر بھی کہا جاتا ہے، دنیا میں جس طرح کے اعمال ہوں گے اسی طرح عالم برزخ کی زندگی میں سزا اور جزا ہوگی، اللہ تعالیٰ نے اس عالم کو انسانوں سے مخفی رکھا ہے۔
’’قال: محمد بن کعب البرزخ ما بین الدنیا والآخرۃ لیسوا مع أہل الدنیا یأکلون ویشربون ولا مع أہل الآخرۃ یجازون بأعمالہم‘‘(۳)

(۲) سورۃ المؤمنون: ۲۳۔

(۱) ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’سورۃ المؤمنون: ۱۰۰‘‘: ج ۳، ص: ۲۳۲۔
(۲) علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ الأنعام: ۱-۶‘‘: ج ۴، ص: ۱۲۷۔
(۳) ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’سورۃ المؤمنون: ۱۰۰‘‘: ج ۳، ص: ۲۳۲۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص248

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مرد ے کے اوپر گھر میں ڈالنا تو شرعاً درست ہے(۱) لیکن قبر پر یا قبر میں مردے پر ڈالنا اسراف محض ہونے کی وجہ سے شرعاً نا درست اور بدعت ہے۔(۲)

۱) قال ویکفیہ من الطیب ما عمل لہ وہو البیت فنحن متبعون لا مبتدعون فحیث وقفنا سلفنا ووقفنا إلخ۔ (حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوٰۃ: فصل في حملہا ودفنہا‘‘: ص: ۶۰۸)
کذا في تالیفات رشیدیہ مع فتاویٰ رشیدیہ: ص: ۲۴۰)
(۲) وذکر ابن الحاج في المدخل أنہ ینبغي أن یجتنب ما أحدثہ بعضہم من أنہم یأتون بماء الورد فیجعلونہ علی المیت في قبرہ فإن ذلک لم یرد عن السلف رضي اللّٰہ عنہم فہو بدعۃ۔ (أیضاً:)
(۳) لا یسن الأذان عند إدخال المیت في قبرہ کما ہو المعتاد ألأٰن وقد صرح ابن حجر في فتاویہ بأنہ بدعۃ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في دفن المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۱)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند  ج 1 ص368

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بالکل ہی ناجائز اور گناہ کا عمل ہے، اس بے حیائی کی رسم کو بند کیا جانا چاہیے۔(۱)

(۱) عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تشبہ بقوم فہو منہم۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الباس: باب في لبس الشہرۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۹، رقم: ۴۰۳۱)
والإسلام قد حرم علی المرأۃ أن تکشف شیئاً من عورتہا أمام الأجانب خشیۃ الفتنۃ۔ (محمد علي الصابوني، روائع البیان: ج ۲، ص: ۱۷۳)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص456

احکام سفر

Ref. No. 2562/45-3911

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قصر نماز کے لیے مسافت سفر کا ہونالازم ہے محض سفر کی نیت کرنا کافی نہیں ہے چوں کہ جس جگہ کا ارادہ تھا وہ جگہ مساف قصر پر نہیں ہے اس لیے قصر کرنا جائزنہیں تھا اس لیے پڑھی گئی ظہر کی نماز کا اعادہ کرنا ضروری ہوگا۔ علامہ کاسانی نے لکھا ہے کہ مسافر ہونے کے لیے تین شرطیں ہیں پہلی شرط یہ ہے کہ سفر کی نیت ہو اگر سفر کی نیت نہ ہو اور پوری دنیا کا چکر لگالے تو مسافر نہیں ہوگا دوسری شرط یہ ہے کہ مسافت سفر ہوا اگر سفر کی نیت ہو لیکن مسافت سفر مکمل نہیں ہے تو وہ مسافر نہیں ہوگا تیسری شرط ہے کہ اپنی آبادی سے نکل جائے محض ارادہ سفر قصر کے لیے کافی نہیں ہے۔

الحکم معلق بالسفر فكان المعتبر مسيرة ثلاثة أيام على قصد السفر وقد وجد والثاني: نية مدة السفر لأن السير قديكون سفرا و قد لا يكون؛ لأن الإنسان قد يخرج من مصره إلى موضع لإصلاح الضيعة ثم تبدو له حاجة أخرى إلى المجاوزة عنه إلى موضع آخر ليس بينهما مدة سفر ثم وثم إلى أن يقطع مسافة بعيدة أكثر من مدة السفر لا لقصد السفر فلا بد من النية للتمييز والثالث: الخروج من عمران المصر فلا يصير مسافرابمجردنية السفر مالم يخرج من عمران المصر (بدائع الصنائع ، 1/ 94)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اعلاء کلمۃ اللہ اور دین کی خدمت کے متعدد طریقے ہیں۔ درس وتدریس بنیادی طریقہ ہے اور اس کے بھی متعدد درجات ہیں۔ تصنیف وتالیف، وعظ وتقریر اور دعوت وتبلیغ وغیرہ، پھر دعوت وتبلیغ کے بھی مختلف درجات ہیں، کسی ایک طریقہ میں ہی دین کو محدود سمجھنا غلطی ہے۔ تذکیر کا طریقہ سہل ہے درس وتدریس مشکل ہے اور فقہ وفتاویٰ انتہائی نازک ودشوار ہے، کسی ایک طریقہ کو اختیار کرنے کے بعد دوسرے طریقے کو اختیار کرنے والوں کو کمتر سمجھنا بھی غلطی ہے؛ اس لئے کسی کا یہ کہنا کہ دین کے لئے یہی صورت لازم ہے، یہ درست نہیں ہے۔ تبلیغ وغیرہ کا کام مسجد میں چلانے کی گنجائش ہے، بشرطیکہ احترام کی خلاف ورزی نہ ہو، سات لاکھ نمازوں کے ثواب والی حدیث اور دلیل نظر سے نہیں گذری خود بیان کرنے والے سے معلوم کیا جائے مزید اطمینان کے لئے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’دعوت وتبلیغ‘‘ دیکھی جائے۔(۱)

(۱) وعن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: کفیٰ بالمرء کذباً أن یحدث بکل ما سمع۔ رواہ مسلم۔ (مشکوۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، ’’الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۸، رقم: ۱۵۶)
{وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ أُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ إِلَی الْخَیْرِ وَیَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِط وَأُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَہ۱۰۴} (سورۃ آل عمران: ۱۰۴)
وعن أبي سعید الخدري رضي اللّٰہ عنہ  قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن الناس لکم تبع وإن رجالا یأتونکم من أقطار الأرض یتفقہون في الدین فإذا أتوکم فاستوصوا بہم خیرا۔(أخرجہ الترمذي، في سننہ، ج۱، ص:۳۸رقم: ۲۱۵)
وعن أنس رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من خرج في طلب العلم فہو في سبیل اللّٰہ حتی یرجع۔ رواہ الترمذي والدارمي۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب العلم: الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۳۴، رقم: ۲۲۰)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص299

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:کسی بھی مجلس کے اختتام کے وقت مذکورہ دعا کا ثبوت حدیث پاک سے ملتا ہے، امام ترمذی نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے:
’’عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من جلس في مجلس فکثر فیہ لغطہ، فقال: قبل أن یقوم من مجلسہ ذلک! سبحانک اللہم وبحمدک أشہد أن لا إلہ إلا أنت استغفرک وأتوب إلیک إلا غفر لہ ما کان في مجلسہ ذلک‘‘ (۱)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی مجلس میں بیٹھا ہو جہاں بہت سی لغو باتیں ہوئی ہوں تو وہ شخص اس مجلس سے اٹھنے سے پہلے یہ دعاء پڑھ لے ’’سبحانک اللہم وبحمدک أشہد أن لا إلہ إلا أنت استغفرک وأتوب إلیک‘‘ ترجمہ: اے اللہ تو پاک ہے تیری تعریف کے ساتھ، نہیں ہے کوئی معبود بر حق مگر تو ہی، میں تجھ سے بخشش طلب کرتا ہوں اور تیری طرف رجوع کرتا ہوں، تو اس مجلس میں جو بھی غلطی ہوئی ہوگی اس کو اللہ بخش دیگا۔
فضائل اعمال کی تعلیم کے بعد یا کسی بھی اس طرح کی مجلس کے اختتام کے بعد دعاء کرنے کی شریعت مطہرہ میں نہ صرف گنجائش ہے؛ بلکہ وہ شخص مستحق ثواب ہے، اس لئے اس دعاء کو لوگوں کی وضع کردہ دعاء سمجھنا صحیح نہیں ہے۔

(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الدعوات، باب ما یقول إذا قام من مجلسہ‘‘: ج ۲، ص: ۱۸۱، رقم: ۳۴۳۳۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص392

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق: اگر ناپاک بستر پر گیلے پائوں پڑنے سے پائوں پر ناپاکی کے اثرات نمایاں ہوگئے، تو پائوں ناپاک ہوں گے ورنہ نہیں۔ نام أو مشی علی نجاسۃ، إن ظھر عینھا تنجس: و إلا لا۔ (قولہ: نام) أي فعرق، و قولہ: أو مشی: أي: وقدمہ مبتلۃ (قولہ: علی نجاسۃ) أي : یابسۃ لما في متن الملتقی: لو وضع ثوباً رطباً علی ماطین بطین نجس جاف لا ینجس، قال الشارح: لأن بالجفاف تنجذب رطوبۃ الثوب من غیر عکس، بخلاف ما إذا کان الطین رطباً۔ اھـ (قولہ: إن ظھر عینھا) المراد بالعین ما یشمل الأثر؛ لأنہ دلیل علی وجودھا، لو عبر بہ کما في نور الإیضاح لکان أولی۔(۲)
(۲)ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب في الفرق بین الاستبراء والاستنقاء والاستنجاء، ج۱، ص:۵۶۰، قولہ: مشی حمام و نحوہ أي کما لو مشی علی ألواح مشرعۃ بعد مشی من رجلہ قذر لا یحکم بنجاسۃ رجلہ مالم یعلم أنہ وضع رجلہ علی موضعہ للضرورۃ: فتح، و فیہ عن التنجیس: مشی في طین أو أصابہ ولم یغسلہ و صلی تجزیہ مالم یکن فیہ أثر النجاسۃ لانہ المانع إلا أن یحتاط، و أما في الحکم فلا یجب۔ (ابن عابدین، الدرالمختار، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب في الفرق بین الاستبراء والاستنقاء والاستنجاء، ج۱، ص:۵۶۵)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص446