فقہ

Ref. No. 2697/45-4193

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ امام صاحب نے اپنی بساط بھر کوشش کی لیکن ان کے لڑکے نہیں مانتے، اس لئے امام صاحب معذور ہوں گے اور ان کے پیچھے نماز درست ہوگی، جو لوگ امام کے پیچھے نماز نہیں بڑھتے ہیں وہ غلطی پر ہیں ان کو تمام نمازیں مسجد میں امام کے پیچھے ادا کرنی چاہئے،امام کو چاہئے کہ مزید سختی کر کے بچے کو اس کی غلط حرکتوں سے روکے۔  عاق کرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کوئی باپ اپنی اولاد کو اپنی جائداد سے محروم کردے شریعت میں عاق کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ اولاد کو شرعی حصہ بدستور ملے گا۔

عن انس قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ من قطع میراث وارثہ قطع اللہ میراثہ من الجنۃ یوم القیامۃ‘‘ (ابن ماجہ، ’’باب الوصایا‘‘: ج ١، ص: ٦٦٢)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جب تک روئی کا ظاہری حصہ تر نہ ہوگا، اس کا وضو نہیں ٹوٹے گا۔(۱)

(۱)قال الشامي : فلو نزل البول إلی قصبۃ الذکر، لا ینقض لعدم ظھورہ، بخلاف القلفۃ، فإنہ بنزولہ إلیھا ینقض الوضوء۔ (ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب : نواقض الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۲۶۲، زکریا بک ڈپو دیوبند)؛  ولو نزل البول إلی قصبۃ الذکر، لم ینقض الوضوء، ولو خرج إلی القلفۃ، نقض الوضوء (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل الخامس: في نواقض الوضوء‘‘، ج۱، ص:۶۰)؛  و لوحشا الرجل إحلیلہ بقطنۃ، فابتلّ الجانب الداخل منھا، لم ینتقض وضوء ہ، لعدم الخروج، و إن تعدت البلّۃ إلی الجانب الخارج، ینظر إن کانت القطنۃ عالیۃ أو محاذیۃ لرأس الإحلیل، ینتقض وضوء ہ لتحقق الخروج، و إن کانت متسفلۃً، لم ینتقض؛ لأن الخروج لم یتحقق۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، کتاب الطہارۃ، نواقض الوضوء، ج ۱، ص:۱۲۴، زکریا بک ڈپو دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص214

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: امام صاحب پر وقت کی پابندی لازم ہے، تجارت میں بھی اپنی نظر کی حفاظت لازم ہے، اس کا خیال رکھا جائے۔ مقتدیوں کے ناراض ہونے کی وجہ سوال میں ذکر نہیں کی گئی ہے کمی امام کی ہو یا مقتدیوں کی تاہم دونوں کو اتحاد واتفاق سے رہنا چاہئے۔(۱)

(۱) ویکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق أي من الفسق وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر والزاني وآکل الرباء ونحو ذلک۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۸)
وأما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لایہتم لأمردینہ وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ وقد وجب علیہم إہانتہ شرعًا۔ (أیضًا، ج۱، ص:۲۹۹)
تجوز إمامۃ الأعربي والأعمی والعبد وولد الزنا والفاسق کذا في الخلاصۃ إلا أنہا تکرہ في المتون۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماما لغیرہ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۳)
ولو صلی خلف مبتدع أو فاسق فہو محرز ثواب الجماعۃ لکن لاینال مثل ماینال خلف تقي کذا في الخلاصۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۱)    وفي النہر عن المحیط صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعۃ وفي الرد: قولہ نال فضل الجماعۃ الخ، أن الصلوۃ خلفہما أولی من الإنفراد۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في إمامۃ الأمرد‘‘: ج۲، ص:۳۰۱)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص72

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں جب امام صاحب نے قسم ہی نہیں کھائی تو حانث ہونے کا کیا مطلب ،نہ وہ حانث ہوئے اور نہ کفارہ ان پر لازم ہے ایسی باتوں سے پرہیز لازم ہے اور مذکورہ رسوم واجب الترک ہیں امام کو بھی احتیاط لازم ہے۔(۱)

(۱) وکذلک إذا ترک ما لا بأس بہ حذرا مما بہ البأس فذلک من أوصاف المتقین وکتارک المتشابہ حذراً من الوقوع في الحرام واستبراء للدین والعرض الخ۔ (الشاطبي، الاعتصام، ’’فصل البدعۃ الترکیۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۸)
 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص286

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں اگلی صف کی خالی جگہ پر کھڑا ہو سکتا ہے اس میں کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ شامی میں ہے:
’’فللداخل أن یمر بین یدیہ لیصل الصفوف لأنہ اسقط حرمۃ نفسہ ولا یأثم المار بین یدیہ۔‘‘(۲)
لیکن اگر صفیں زیادہ پار کرنی پڑیں تو ایسا نہ کرے۔

(۲) کرہ کقیامہ في صفٍّ خلف صفٍّ فیہ فرجۃ، قلت: وبالکراہۃ أیضًا صرّح الشافعیۃ۔ ولو وجد فرجۃً في الأوّل لا الثاني لہ خرق الثاني لتقصیرہم۔ وقال ابن عابدین تحتہ: أن الکلام فیما إذا شرعوا، وفي القنیۃ: قام في آخر صفٍّ وبین الصّفوف مواضع خالیۃ، فللداخل أن یمرّ بین یدیہ لیصل الصّفوف۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في الکلام علی الصف الأول‘‘: ج ۲، ص:۳۱۲، زکریا دیوبند)
 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص403

نماز / جمعہ و عیدین

 الجواب وباللّٰہ التوفیق: علماء وصلحاء کا لباس اختیار کرنا چاہئے، اور لباس کواس کی اصلی حالت پر ہونا چاہئے۔ ہاف آستین میں ہیئت معروفہ کی خلاف ورزی ہے؛ اس لیے مکروہ ہے۔(۱)
’’(و) کرہ (کفہ) أي رفعہ ولو لتراب کمشمر کم أو ذیل‘‘(۲)

(۱) ٰیبَنِيْٓ أٰدَمَ خُذُوْازِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَّکُلُوْاوَاشْرَبُوْاوَلَاتُسْرِفُوْا ج إِنَّہٗ لَایُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَہع۳۱  (الاعراف:۳۱)
(قولہ: کمشمرکم أو ذیل) أي کما لو دخل في الصلاۃ وہو مشمر کمہ أو ذیلہ وأشار بذلک إلیٰ أن الکراہۃ لا تختص بالکف وہو في الصلاۃ، کما أفادہ في شرح المنیۃ،  لکن قال في القنیۃ: واخلتف فیمن صلی وقد شمر کمیہ لعمل کان یعملہ قبل الصلاۃ أو ہیئتہ ذلک اھـ، ومثلہ ما لو شمر للوضوء ثم عجل لإدراک الرکعۃ مع الإمام۔ وإذا دخل في الصلاۃ کذلک وقلنا بالکراہۃ فہل الأفضل إرخاء کمیہ فیہا بعمل قلیل أو ترکہما؟ لم أرہ: والأظہر الأول بدلیل قولہ الأتی: ولو سقطت قلنسوتہ فإعادتہا أفضل تأمل، ہذا، وقید الکراہۃ في الخلاصۃ والمنیۃ بأن یکون رافعاً کمیہ إلی المرفقین۔ وظاہرہ أنہ لا یکرہ إلی ما دونہما: قال في البحر: والظاہر الإطلاق لصدق کف الثوب علی الکل۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب في الکراھۃ التحریمیۃ و التنزیھیۃ‘‘: ج ۲، ص:۴۰۶، زکریا،د یوبند)
(۲) الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۶۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص139

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: شامی نے جو بات نقل کی ہے وہی صحیح معلوم ہوتی ہے مقدار ہی کو بیان کرنا مقصود ہے تعیین مقصود نہیں ہے؛ لہٰذا دوسری سورتوں کا پڑھنا بلاکراہت درست ہے۔(۱)

(۱) (۱) قولہ واختار في البدائع عدم التقدیر الخ۔ وعمل الناس الیوم علی ما اختارہ في البدائع- رملي- والظاہر أن المراد عدم التقدیر بمقدار معین لکل أحد وفي کل وقت، کما یفیدہ تمام العبارۃ، بل تارۃ یقتصر علی أدنی ما ورد کأقصر سورۃ من طوال المفصل في الفجر، أو أقصر سورۃ من قصارہ عند ضیق وقت أو نحوہ من الأعذار، لأنہ علیہ الصلاۃ و السلام قرأ في الفجر بالمعوذتین لما سمع بکاء، صبي خشیۃ أن یشق علی أمہ۔ وتارۃ یقرأ أکثر ماورد إذا لم یمل القوم، فلیس المراد إلغاء الوارد ولو بلاعذر، لذا قال في البحر عن البدائع: والجملۃ فیہ أن ینبغی للإمام أن یقرأ مقدار مایخف علی القوم ولا یثقل علیہم بعد أن یکون علی التمام۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج۲، ص:۲۶۲،زکریا دیوبند)
ذکر الکرخي وقال: وقدر القرائۃ في الفجر للمقیم قدر ثلاثین آیۃ إلی ستین آیۃ، سوی فاتحۃ الکتاب في الرکعۃ الأولی، وفي الثانیۃ مابین عشرین إلی ثلاثین الخ … والجملۃ فیہ أنہ ینبغي للإمام أن یقرأ مقدار مایخف علی القوم، ولایثقل علیہم بعد أن یکون علی التمام لما روي عن عثمان بن أبي العاص الثقفي أنہ قال: آخر ما عہد إلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن أصلي بالقوم صلاۃ أضعفہم وروي عنہ علیہ السلام أنہ قال: من أم قوماً فلیصل بہم صلاۃ أضعفہم فإن فیہم الصغیر والکبیر وذا الحاجۃ۔ وروي أن قوم معاذ لما شکوا إلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم تطویل القراء ۃ دعاہ فقال أفتان أنت یامعاذ قالہا ثلاثاً، أین أنت من والسماء والطارق، والشمس وضحاہا۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: بیان القدر المستحب من القراء ۃ في الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۱، ۴۸۰، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص366

طلاق و تفریق

Ref. No. 2456/45-4428

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ منگنی کے بعد نکاح بھی ہو گیا تھا اگرچہ رخصتی نہیں ہوئی تھی اگر بات یہی ہے تو دنیوی عدالت کے ذریعہ بغیر شوہر کی مرضی کے نکاح فسخ نہیں ہو سکتا ہے دونوں کا نکاح بدستور باقی ہے، لڑکی کا دوسری جگہ نکاح کرنا جائز نہیں ہے۔ اگر لڑکی کو یا اس کے گھر والوں کو شرعی یا طبعی اعذار کی بنا پر نکاح ختم کرانا ہے تو شرعی دار القضاء سے رجوع کر سکتے ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

Marriage (Nikah)

Ref. No. 945 Alif

In the name of Allah the Most Gracious the Most Merciful

The answer to your question is as follows:

Loving a girl is unlawful and a big sin as per the Shariah; one must shun it. However, if one falls in love he should get up in the mid night of Friday and keeping her in mind read the following text to seek her from Allah.

The text is as follows:

                            فان تولوا فقل حسبی اللہ لاالہ الا ھو علیہ توکلت وھو رب العرش العظیم ، انت الرب حسبی من فلانۃ بنت فلانۃ اعطف قلبھا الی۔

For more detail, read ‘Ganjeena e Asraar’ by Allamah Kashmiri (ra).

And Allah Knows Best

 

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

طلاق و تفریق

Ref. No. 943/41-87

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  لفظ خلع  الفاظ کنائی میں سے ہے۔ اگر شوہر نے طلاق کی نیت سے خلع کے الفاظ کہے تو طلاق واقع ہوجائے گی۔

 لو قال: خالعتك ونوى الطلاق يقع الطلاق ولا يسقط شيء من المهر والنفقة. (الدرالمختار 3/595) وأما حكم الخلع فإن كان بغير بدل بأن قال خالعتك ونوى به الطلاق فحكمه أن يقع الطلاق ولا يسقط شيء من المهر والنفقة الماضية   (البحرالرائق 4/206)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند