اسلامی عقائد

Ref. No. 1598/43-1150

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔اس سلسلہ میں آپ خود مختار ہیں، آپ پر کوئی پابندی نہیں اور کسی قسم کا کوئی گناہ نہیں۔ آپ بکرا اپنی جانب سے کریں  یا حضور ﷺ کی طرف سے، اس میں کوئی  فرق نہیں۔  ایک قربانی واجب ہے وہ بھی ادا ہوگی اور حضور ﷺ کی طرف سے نفلی قربانی ہوگی۔ اس لئے آپ کا دل جس پر مطمئن ہو وہ کرلیں۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1676/43-1289

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کولگیٹ، کلوزاپ وغیرہ پیسٹ  اور لکس صابن، اور چیونگم  کے اجزاء میں اگر کسی حرام چیز کی آمیزش نہیں ہے تو اس کا استعمال جائز ہوگا، اور جب تک تحقیق سے  اس کے اجزاء میں کسی حرام چیز کی آمیزش کا علم نہ ہو، اس کو  حلال قرار دیں گے اور اس کااستعمال کرنا جائز ہوگا۔ تاہم اگرتحقیق سے کسی حرام جزء کا ہونا معلوم ہوجائے تو پھر اس کا استعمال بھی حرام ہوگا۔ اور جس چیز کا استعمال کرنا جائز نہیں اس کا خریدنا و بیچنا بھی جائز نہیں ۔  حرام چیز کو حلال پیسے سے خریدنے سے وہ چیز حلال نہیں ہوگی۔  جس شخص کے بارے میں معلوم ہو کہ اس کی آمدنی مکمل حرام  ہے، اس سے  کوئی سامان فروخت کرنا جائز ہے، اور اگر خریدنے والا حرام مال کی تعیین نہ کرے ، بلکہ حسب  عرف سامان لے لے اور پیسے دیدے تو اس کی بھی گنجائش ہے۔   آج کل  حرام آمدنی کی کثرت کے باعث امام کرخی نے توسع سے کام لیا ہے اور اس کی گنجائش  دی ہے، گرچہ احتیاط اس کےخلاف میں ہے۔

قال اللہ تعالیٰ: وَلاَ تَتَبَدَّلُوا الْخَبِیْثَ بِالطَّیِّبِ، وعن ابن عباس قال: كان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قاعداً في المسجد مستقبلاً الحجْرَ، قال: فنظر إلى السماء فضحك، ثم قال: "لعن الله اليهود، حُرَّمت علَيهم الشحومُ فباعوها وأكَلُوا أثمانَها، وإن الله عز وجل إذا حرَّم على قوم أكَلَ شيء حَرَّم عليهم ثمنه" (مسند احمد شاکر، کلمۃ الاستاذ الشیخ محمد حامد 3/22، الرقم 2221) (سنن ابی داؤد، باب فی ثمن الخمر والمیتۃ 5/352)

توضيح المسألة ما في التتارخانية حيث قال رجل اكتسب مالا من حرام ثم اشتری فهذا علی خمسة أوجه أما إن دفع تلك الدراهم إلی البائع أولا ثم اشتری منه بها أو اشتری قبل الدفع بها ودفعها أو اشتری قبل الدفع بها ودفع غيرها أو اشتری مطلقا ودفع تلك الدراهم أو اشتری بدراهم أخر ودفع تلك الدراهم قال أبو نصر يطيب له ولا يجب عليه أن يتصدق إلا في الوجه الأول وإليه ذهب الفقيه أبو الليث لكن هذا خلاف ظاهر الرواية فإنه نص في الجامع الصغير إذا غصب ألفا فاشتری بها جارية وباعها بألفين تصدق بالربح وقال الكرخي في الوجه الأول والثاني لا يطيب وفي الثلاث الأخيرة يطيب وقال أبو بكر لا يطيب في الكل لكن الفتوی الآن علی قول الكرخي دفعا للحرج عن الناس وفي الولوالجية وقال بعضهم لا يطيب في الوجوه كلها وهو المختار لكن الفتوی اليوم علی قول الكرخي دفعا للحرج لكثرة الحرام وعلی هذا مشی المصنف في كتاب الغصب تبعا للدرر وغيرها. (حاشية ابن عابدين، كتاب البيوع، مطلب إذا اكتسب حراما ثم اشترى فهو على خمسة أوجه 5/235) الفتوی علی قول الكرخي لكثرة الحرام دفعا للحرج عن الناس في هذا الزمان وهذا قول الصدر الشهيد. (مجمع الانهر، كتاب الغصب، فصل غير الغاصب ما غصبه بالتصرف فيه 2/459)

اكتسب مالا من حرام ثم اشترى شيئا منه فإن دفع تلك الدراهم إلى البائع أولا ثم اشترى منه بتلك الدراهم فإنه لا يطيب له ويتصدق به، وإن اشترى قبل الدفع بتلك الدراهم ودفعها فكذلك في قول الكرخي وأبي بكر خلافا لأبي نصر، وإن اشترى قبل الدفع بتلك الدراهم ودفع غيرها أو اشترى مطلقا ودفع تلك الدراهم أو اشترى بدراهم أخرى ودفع تلك الدراهم قال أبو نصر يطيب ولا يجب عليه أن يتصدق وهو قول الكرخي والمختار قول أبي بكر إلا أن اليوم الفتوى على قول الكرخي كذا في الفتاوى الكبرى. (الھندیۃ، فصل فی الاحتکار 3/215)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref. No. 2059/44-2063

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قرآن کریم کی تلاوت پر اجرت لینا دینا جائز نہیں ہے، البتہ کسی بھی طرح اجرت نہ ہوتے ہوئے کوئی مدرسہ میں امدادی رقم دیدے تو اسے مدرسہ کے تمام مصارف میں خرچ کرسکتے ہیں۔ (شامی)  

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2204/44-2318

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  صاحب شریعت کے لئے اس طرح کا جملہ  بطور اہانت کے استعمال کرنا موجب کفر ہے، ایسے شخص پر تجدید ایمان لازم ہے۔

ما کان في کونہ کفرا اختلافٌ فإن قائلہ یؤمر بتجدید النکاح و بالتوبۃ والرجوع عن ذلک بطریق الاحتیاط، وما کان خطأ من الألفاظ ولا یوجب الکفر، فقائلہ مؤمنٌ علی حالہ، ولا یؤمر بتجدید النکاح والرجوع عن ذلک، کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۳)

إن ما یکون کفراً اتفاقاً یبطل العمل والنکاح، وما فیہ خلاف یؤمر بالاستغفار والتوبۃ و تجدید النکاح، وظاہرہ أنہ أمر احتیاطي۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: الإسلام یکون بالفعل کالصلاۃ بجماعۃ‘‘: ج ۶، ص: ۳۶۷)

وإذا وصف اللّٰہ تعالیٰ بہا فہي نفي العجز عنہ ومحال أن یوصف غیر اللّٰہ بالقدرۃ المطلقۃ۔ (أبو القاسم الحسین بن محمد، المفردات في غریب القرآن، ’’قدر‘‘: ج ۱، ص: ۳۹۵(

 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس کا جواب مولانا احمد رضا خان صاحب نے یہ دیا ہے کہ بلاشبہ غیرکعبہ کا طواف تعظیمی ناجائز ہے اور غیر خدا کو سجدہ ہماری شریعت میں حرام ہے اور بوسہ قبر میں علماء کا اختلاف ہے اور احوط منع ہے خصوصاً مزارات طیبہ اولیاء کرام کہ ہمارے علماء نے تصریح فرمائی کہ کم ازکم چار ہاتھ کے فاصلہ پر کھڑا ہو یہ ادب ہے پھر تقبیل کیونکر مقصود ہے؛ لہٰذا مذکورہ تمام امور بدعت سیئہ ہیں، جن کو ترک کردینا ضروری ہے۔(۱)

(۱) احکام شریعت: ج ۳، ص: ۳، ۴۔ بہار شریعت: ج ۴، ص: ۱۵۷۔
عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو رد۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح: باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ض1ص370

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 2489/45-3856

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ میت کی تمام اولاد اگر آپسی رضامندی سے وراثت کی تقسیم  میں کمی زیادتی کرے تو اس کی گنجائش ہے ۔ لیکن بہتر یہ ہے کہ پہلے شرعی ضابطہ کے مطابق تقسیم عمل میں آئے پھر جوکوئی اپنا حصہ کسی دوسرے کو دینا چاہے وہ اپنی مرضی سے دوسرے کو دے سکتاہے۔  صورت مسئولہ میں بڑے بیٹے کا اپنی مرضی سے حصہ لینا درست نہیں ہے، اور باپ کی موجودگی میں جو کچھ اس نے تعمیر میں مدد کی وہ ازراہ تبرع تھی، اس کی وجہ سے وراثت میں سے زیادہ حصہ کا مطالبہ جائز نہیں ہے۔ تمام جائداد کی تقسیم میں جائداد کی مالیت کے اعتبار سے تقسیم عمل میں آئے گی۔ اس لئے زمین مع مکان اور خالی زمین کی تقسیم میں فرق ہوگا، اور مکان لینے والوں پر خالی زمین والے کو تعمیر کے عوض کچھ رقم دینے کا فیصلہ بھی  باہمی رضامندی سےدرست ہوگا۔ 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:مذکورہ طریقے سے پیشاب بدبودار اور مضرت رساں اجزاء کو نکال دیا گیا اور باقی جو اجزاء بچے وہ اسی پیشاب کے ہیں اور وہ اپنے تمام اجزاء کے ساتھ نجس العین ہے، اس لیے یہ باقی ماندہ اجزاء بھی نجس العین اور نجس بنجاستِ غلیظہ رہیں گے۔ (۳)
شامی میں ہے: و یرفع بماء ینعقد بہ ملح لا بماء حاصل بذوبان ملح لبقاء الأول علی طبیعۃ الأصلیۃ و انقلاب الثاني إلی طبیعۃ الملحیۃ۔ (۴)

(۳)مفتی نظام الدین اعظمی صاحب، منتخباتِ نظام الفتاویٰ، ج۱، ص:۱۱۵
(۴) ابن عابدین، رد المحتار،کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، ج۱، ص:۳۲۵

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص448

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسے شخص کو امامت پر نہ رکھنا چاہیے ایسے شخص کو ایسے عہدوں پر فائز رکھنا بھی جائز نہیں ہے ، فاسق کی امامت مکروہ تحریمی ہے اس کی مدد ’’اعانت علی المعصیۃ‘‘ ہے۔(۱)

(۱) وذکر الشارح وغیرہ أن الفاسق إذا تعذر منعہ یصلي الجمعۃ خلفہ وفي غیرہا ینتقل إلی مسجد آخر، وعلل لہ في المعراج بأن في غیر الجمعۃ یجد إماما غیرہ۔ (ابن نجیم، البحرائق، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۰)
وکرہ إمامۃ العبد والأعرابي والفاسق والمبتدع  إلخ) قال الرملي: ذکر الحلبي في شرح منیۃ المصلي أن کراہۃ تقدیم الفاسق والمبتدع کراہۃ التحریم۔ (أیضاً)
(ویکرہ) (إمامۃ عبد) (وأعرابي) (وفاسق وأعمی) (ومبتدع) أي صاحب بدعۃ … وفي النہر عن المحیط: صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعۃ، … أفاد أن الصلاۃ خلفہما أولٰی من الإنفراد، لکن لا ینال کما ینال خلف تقي ورع لحدیث، من صلی خلف عالم تقي فکأنما صلی خلف نبي۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸)

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص282

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئول عنہا میں امام کے لیے بہتر تھا کہ رکوع کر دیتا یا دوسری جگہ سے پڑھ دیتا؛ لیکن اگر لقمہ لے لیا، تو اس سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آئی، البتہ مقتدیوں کو چاہئے کہ جب تک لقمہ دینے کی شدید ضرورت نہ ہو امام کو لقمہ نہ دیں۔
’’والصحیح أن ینوي الفتح علی إمامہ دون القرائۃ قالوا: إذا أرتج علیہ قبل أن یقرأ قدر ما تجوز بہ الصلاۃ أو بعد ما قرأ ولم یتحول إلی آیۃ أخری۔ وأما إذا قرأ أو تحول، ففتح علیہ، تفسد صلاۃ الفاتح، والصحیح: أنہا لا تفسد صلاۃ الفاتح بکل حال ولا صلاۃ الإمام لو أخذ منہ علی الصحیح، ہکذا في الکافي۔‘‘(۱)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب السابع فیما یفسد الخ ‘‘: ج ۱، ص:۱۵۷فیصل۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص134

 

قرآن کریم اور تفسیر

Ref. No. 1252/42-587

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آج کے دور میں ضرورت کی بناء پر علماء نے تعلیم قرآن پر اجرت لینا جائزقراردیاہے۔ اگر اجرت نہیں ہوگی تو سب لوگ تجارت میں لگ جائیں گے اور اس طرح تعلیم قرآن میں بڑی رکاوٹ پیدا ہوجائے گی، اس لئے تعلیم قرآن پر اجرت لینا جائز ہے۔

وإنما أفتى المتأخرون بجواز الاستئجار على تعليم القرآن لا على التلاوة وعللوه بالضرورة وهي خوف ضياع القرآن ( شامی 2/73 باب قضاء الفوائت)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند