Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
Ref. No. 2279/44-2428
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ خواب دیکھنے والے کی معیت فی الحال غیر صالحین کی ہے، اس میں اشارہ ہے کہ ان سے عنقریب نجات حاصل ہوگی اور وہ اصلاح کی طرف بڑھے گا، ۔ آخرت کی نہ صرف فکر لاحق ہوگی بلکہ آخرت سنوارنے کا راستہ ہموار ہوگا ۔ کثیر پانی کے اندر نہانا طہارت حاصل ہونے کی دلیل ہے ، اور پتھر کے اندر گھسنا دین و شریعت کے مضبوط قلعہ میں امان حاصل ہونے کی دلیل ہے ۔ جیسا کہ حضرت یونس علیہ السلام کو ان کی قوم سے اسی طرح نجات حاصل ہوئی تھی۔ اور یا ارحم الراحمین کا خواب میں دیکھنا اس بات کی دلیل ہے ہے اسماء حسنیٰ میں سے جو اسماء بھی بے ساختہ زبان پر جاری ہوجائیں ان کا ورد کرکے دعائیں کریں۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے و للّٰہ الاسماء الحسنیٰ فادعوہ بہا تو جو بھی جائز دعائیں مانگیں گے حسب مصلحت اللّٰہ تعالیٰ قبول فرمائیں گے ۔ "حصن حصین" دعاؤں پر مشتمل ایک کتاب ہے جس میں اسماء حسنیٰ کی خصوصیات بھی درج ہیں ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:قطعاً جائز نہیں ہے،(۲) اس طریقہ کو چھوڑ کر توبہ و استغفار لازم ہے۔ (۳)
(۲) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحۃ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)
ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۸)
(۳) {وَمَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓئً ا أَوْ یَظْلِمْ نَفْسَہٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰہَ یَجِدِ اللّٰہَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاہ۱۱۰} (سورۃ النساء: ۱۱۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص369
متفرقات
Ref. No. 2488/45-3799
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال، صورت مسئولہ میں اگر وہ زمین اب بھی قانون کے مطابق حکومت کی ہی ہے اور شخص مذکور نے حکومت سے اجازت لےکر اس کو آباد کیا ہے تو وہ زمین اسی شخص کے تصرف میں رہے گی، اور اس میں کسی طرح کی تقسیم کا دعوی کرنا درست نہیں ہے۔ البتہ اگر حکومت نے پہلے مفت میں آبادکاری کے لئے دیاتھا پھر اس زمین کا اس شخص کو مالک بنادیا تو پھر اس میں تقسیم کا دعوی درست ہوگا، اور اس میں میراث جاری ہوگی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:اگر یقینی طور سے معلوم ہوجائے کہ صابن میں ناپاک اشیاء کی آمیزش ہے، تو دیکھا جائے گا کہ ان اشیاء کی حقیقت تبدیل ہوئی تھی یا نہیں؟ اگر نہیں ہوئی، تو ناپاک ہے اور اگر حقیقت بدل گئی تھی، جیسا کہ عام طور سے دیکھا گیا ہے، تو پاک ہے اور اس کا استعمال درست ہے(۱) علامہ شامیؒ نے صراحت کی ہے: جعل الدھن النجس في صابون یفتی بطھارتہ لأنہ تغیر، والتغییر یطھر عند محمد رحمہ اللہ و یفتی بہ للبلوی۔(۲)
(۱) الأصل في الأشیاء الإباحۃ، الفن الثالث ۔ باب :الیقین لا یزول بالشک۔ (ابن نجیم، الأشباہ والنظائر،ج۱، ص:۲۰۹)
(۲) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس،ج۱، ص:۵۱۹
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص447
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام ومؤذن کو اس طرح فی سبیل اللہ نماز پڑھانا جائز اور باعث اجر وثواب ہے؛ مگر اس صورت میں وہ کسی معاہدہ کے پابند نہیں ہوں گے؛ کیوں کہ وہ تنخواہ دار نہیں ہیں (تنخواہ نقد ہو یا بطور مصلانہ ہو) بعض دفعہ بوقت مصلانہ نزاع پیدا ہوتا ہے؛ لہٰذا ایسا اجارہ فاسد ہے، جائز نہیں ہے؛ پس مذکورہ امام اگر نماز فی سبیل اللہ پڑھاتے ہیں تو وہ آپ کی شرطوں کے شرعاً پابند نہیں ہیں؛ اس لیے اگر ان سے کوئی کمی بھی ہوجائے تو شرعاً ان سے مؤاخذہ نہ کیا جائے۔(۱)
(۱) ہذا وفي القنیۃ من باب الإمامۃ إمام یترک الإمامۃ لزیارۃ أقربائہ في الرساتیق أسبوعا أو نحوہ أو لمصیبۃ أو لاستراحۃ لا بأس بہ، ومثلہ عفو في العادۃ والشرع۔ اہـ۔ وہذا مبني علی القول بأن خروجہ أقل من خمسۃ عشر یوما بلا عذر شرعي لا یسقط معلومہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الوقف، فیما إذا قبض المعلوم وغاب قبل تمام السنۃ‘‘: ج ۶، ص:۶۳۰)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص281
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز میں کبھی ایک پاؤں کبھی دوسرے پاؤں پر وزن ڈال کر کھڑے ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ درست ہے؛ البتہ ایک پیر پر پورا وزن ڈال کر دوسرے پیر کو بالکل ڈھیلا چھوڑ کر کھڑے ہونے میں ایک طرف کو جھکاؤ معلوم ہونے لگے جس طرح گھوڑا ایک پاؤں پر پورا وزن ڈال کر دوسرے پاؤں کو ٹیڑھا کر کے کھڑا ہوتا ہے اور کوئی عذر بھی نہ ہو، تو یہ مکروہ ہے۔(۱)
’’ویکرہ القیام علی أحد القدمین في الصلاۃ بلا عذر‘‘(۲)
(۱) ویکرہ التراوح بین القدمین في الصلاۃ إلا بعذر، و کذا القیام بإحدی القدمین، کذا في الظہیریۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب السابع: فیما یفسد الصلاۃ، و ما یکرہ فیہا، الفصل الثاني: فیما یکرہ الخ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۷، فیصل، دیوبند)
(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’ ‘‘: ج ۱، ص: ۶۶۶۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص133
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام کے پیچھے تلاوت کرنے کو فقہاء احناف نے مکروہ لکھا ہے؛ البتہ اس شخص کی گزشتہ پڑھی ہوئی تمام نمازیں درست ہیں ان نمازوں کا دہرانا مذکورہ شخص پر ضروری نہیں ہے۔
تاہم ایسے شخص کو چاہئے کہ وہ امام کے پیچھے قراء ت نہ کرے، فرمان باری تعالیٰ ہے {وَإِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا الخ}(۱) اس آیت میں مفسرین کے قول کے مطابق، جہری (بآواز بلند قرأت ہو) اور سری (آہستہ آواز سے قراء ت ہو) دونوں نمازوں میں مقتدی کے لیے حکم ہے کہ وہ امام کے پیچھے قراء ت نہ کرے، اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’من کان لہ إمام فقراء ۃ الإمام لہ قراء ۃ‘‘(۲) یعنی جس کا امام ہو تو اس کے امام کی قراء ت اس مقتدی کی قراء ت ہے۔ مزید فقہ حنفی کی کتابوں میں اس کی تفصیل موجود ہے کہ مقتدی امام کے پیچھے تلاوت نہ کیا کرے۔
’’وقال أبو حنیفۃ رحمہ اللّٰہ: لا یجب علی المأموم قراء ۃ أصلا في السریۃ ولا الجھریۃ… وقال علی ابن طلحۃ، عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما في الآیۃ قولہ: {وَإِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَہ۲۰۴}، یعني: في الصلاۃ المفروضۃ‘‘(۳)
’’والمؤتم لا یقرأ مطلقاً، قولہ: ولا الفاتحۃ …… تقدیرہ لا غیر الفاتحۃ ولا الفاتحۃ‘‘
’’قولہ: (في السریۃ) یعلم منہ نفي في الجھریۃ بالأولی، والمراد التعریض‘‘
’’ومانسب لمحمد ضعیف کما بسطہ الکمال (فإن قرأ کرہ تحریما) وتصح في الأصح وفي (درر البحار) عن مبسوط خواھر زادہ أنھا تفسد ویکون فاسقا، وھو مروي عن عدۃ من الصحابۃ فالمنع أحوط (بل یستمع) إذا جھر (وینصت) إذا أسر لقول أبي ھریرۃ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ: (کنا نقرأ خلف الإمام) فنزل: {وَإِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا}(۱)
(۱) سورۃ الأعراف: ۲۰۴۔
(۲) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا، باب إذا قرأ الإمام فأنصتوا‘‘: ج ۱، ص: ۶۱، رقم: ۸۵۰۔)
(۳) ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’الجزء التاسع، سورۃ الأعراف‘‘: ج۲، ص: ۳۷۲، ۳۷۳ ، دارالاشاعت دیوبند۔)
(۱) الحصکفي ، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: السنۃ تکون سنۃ عین وسنۃ کفایۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۶، ۲۶۷۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص246
Slaughtering / Qurbani & Aqeeqah
In the name of Allah the Most Gracious the Most Merciful
The answer to your question is as follows:
To divide qurbani meat into three portion, as mentioned in the question, is mustahab (recommended), and not necessary. The person can keep more than two third to consume or to give to his relatives if he needs. You stated that ‘those who didn’t do qurbani’ denotes that there must be some faqeers (who were not able to do qurani). ‘Faqeer’ doesn’t mean that they are faqeer in term, but needy persons also come in category of faqeer. Though the faqeer in term is preferable.
And Allah Knows Best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
بدعات و منکرات
Ref. No. 39 / 881
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جائز ہے، کوئی حرج نہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 1380/42-796
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follow:
The chickens not slaughtered according to the Islamic method are considered dead for a Muslim. And selling and buying of dead are forbidden in Islam. Therefore, buying and selling of such chickens is not halal for a Muslim, thus the profit earned by it is not halal.
إنما حرم عليكم الميتة والدم ولحم الخنزير وما أهل لغير الله به فمن اضطر غير باغ ولا عاد فإن الله غفور رحيم (سورۃ النحل 114)
وإذا صارت ميتة صار نجسا ولم يجز بيعه انتهى (عمدۃ القاری 12/37) وإنما لا يجوز أخذ الثمن فيها لأنها ميتة لا يجوز تملكها ولا أخذ عوض عنها، وقد حرم الشارع ثمنها وثمن الأصنام في حديث جابر (عمدۃ القاری، باب طرح جیف المشرکین فی البئر 15/105)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband