طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:یہ صورت جب ہوسکتی ہے، جب خون بہہ رہا ہو۔ اگر بہنا بند ہوجائے، تو پھر جب تک اثر زائل نہ ہوجائے دھویا جائے، ہاں اگر بہہ رہا ہے مگر کتھا یا دوا کی وجہ سے نظر نہیںآتا، تو جب تک زخم سے خون نکل رہا ہو وہ بہنے کے حکم میں ہوگا۔ درمختار میں ہے: لو مسح الدم کلما خرج ولو ترکہ لسال نقض وإلا لا۔
اور شامی میں ہے وکذا إذا وضع علیہ قطنا أو شیئا آخر حتی ینشف ثم وضعہ ثانیا و ثالثا فإنہ یجمع جمیع ما نشف۔ (۱)

(۱)ابن عابدین، ردالمحتار، کتاب الطہارۃ، باب نواقض الوضو،ج۱،ص:۲۶۲؛ ولو ظھر الدم علی رأس الجرح فمسحہ مراراً، فإن کان بحال لو ترکہ لسال یکون حدثا و إلا فلا۔ لأن الحکم متعلق بالسیلان۔ (الکاساني، بدائع الصنائع، کتاب الطہارۃ، ماینقض الوضوء، ج۱،ص:۱۲۴)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص447

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اصل مذہب یہ ہے کہ کسی طاعت مقصودہ پر اجرت لینا جائز نہیں ہے، مگر جن طاعات میں دوام یا پابندی کی ضرورت ہے اور وہ شعار دین میں سے ہیں کہ ان کے بند کرنے یا بند ہونے سے اخلال دین لازم آتا ہو اور کوئی دلجمعی سے اپنے حالات کی وجہ سے انجام نہیں دے سکتا تو ایسے امور کومتأخرین فقہاء نے اس کلیہ سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔
پس امامت بھی اس میں سے ہے۔ اور امامت کی اجرت لینے پر بلاشبہ فتویٰ جواز کا ہے؛ اس لیے امام مذکورہ کا قول قابل گرفت نہیں اس کی امامت درست ہے اعادہ کی ضرورت نہیں۔(۱)

(۱) قال في الہدایۃ: وبعض مشائخنا استحسنوا الاستئجار علی تعلیم القرآن الیوم لظہور التواني في الأمور الدینیۃ ففي الامتناع تضییع حفظ القرآن وعلیہ الفتویٰ۔۔۔۔۔ وزاد في متن المجمع الإمامۃ، ومثلہ في متن الملتقی ودرر البحار۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب في الاستئجار علی الطاعات‘‘: ج ۹، ص: ۷۶)
ویفتی الیوم بالجواز أي بجواز أخذ الأجرۃ علی الإمامۃ وتعلیم القرآن والفقہ۔ (محمد بن سلیمان آفندي، مجمع الأنہر في شرح ملتقی الأبحر، ’’کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۸۴)

 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص280

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صرف پستان منہ میں لینے سے نماز میں کوئی خرابی لازم نہیں آئی، البتہ اگر دودھ پیا ہو، یعنی بچہ کے منہ میں دودھ گیا تو نماز فاسد ہو جائے گی، عالمگیری میں ہے۔(۱)
’’صبي مص ثدي امرأۃٍ مصلیۃ، إن خرج اللبن فسدت، وإلا فلا؛ لأنہ متی خرج اللبن یکون إرضاعاً، وبدونہ لا، کذا في محیط السرخسي‘‘(۱)

(۱) قولہ أو مص ثدیہا ثلاثاً ہذا التفصیل مذکور في الخانیۃ والخلاصۃ، وہو مبنی علی تفسیر الکثیر بما اشتمل علی الثلاث المتوالیات، ولیس الاعتماد علیہ۔ وفي المحیط: إن خرج اللبن فسدت لأنہ یکون إرضاعاً، وإلا فلا، ولم یقیدہ بعدد، وصححہ في المعراج۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا، مطلب في المشي في الصلاۃ‘‘: ج۲، ص: ۳۹۰،زکریا)
فروع مہمۃ: أرضعتہ أو أرضعتہا ہو فنزل لبنہا فسدت ولو مص مصہ أو مصتین ولم ینزل لا تفسد ولو ثلاثاً فسدت وإن لم ینزل۔ (ابن نجیم، النہر الفائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۳، زکریا)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص132

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں حنفی مسلک میں امام کے ساتھ پڑھی جانے والی نمازیں خواہ جہری یعنی بلند آواز سے قرأت ہو یاسری یعنی آہستہ آواز سے قرأت ہو، تمام نمازوں میں خاموش رہے گا اور سورۂ فاتحہ بھی نہیں پڑھے گا؛ کیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا حکم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہی ہے جیسا کہ قرآن کریم کی آیت (فاستمعوا) سے جہری نمازوں کے اندر اور (وأنصتوا) سے سری نمازوں میں قرأت نہ کرنا مفسرین کے نزدیک مسلم ہے، تفسیر کبیر میں حضرت امام رازیؒ اور روح المعانی میں علامہ آلوسیؒ کی تصریح مذکور ہے۔ قول باری تعالیٰ ہے: {وَإِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا الخ} یہ آیت نماز سے متعلق آئی ہے اس آیت کی تفسیر میں امام رازیؒ لکھتے ہیں:
’’الآیۃ نزلت في ترک الجہر بالقراء ۃ وراء الإمام … وہو قول أبي حنیفۃ‘‘(۱)
روح المعانی میں علامہ آلوسیؒ نے لکھا ہے:
’’عن مجاہد قال: قرأ رجل من الأنصار خلف رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم في الصلاۃ، فنزلت وإذا قرئ القراٰن الآیۃ‘‘(۱)
اسی طرح حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ ’’من کان لہ إمام فقراء ۃ الإمام لہ قراء ۃ‘‘(۲)
یعنی جس کا امام ہو تو اس کے امام کی قرأت اس مقتدی کی قرأت ہے تفسیری عبارات اور مذکورہ حدیث کی روشنی اور آئندہ آنے والی فقہی عبارات بھی اس جانب مشیر ہیں کہ مقتدی امام کے پیچھے قراء ت نہیں کرے گا؛ بلکہ صرف خاموش رہے گا۔ ’’وقال أبو حنیفۃ رحمہ اللّٰہ: لا یجب علی المأموم قرائۃ أصلا في السریۃ ولا الجھریۃ…… وقال علی ابن طلحۃ: عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما في الآیۃ قولہ: {وَإِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَہ۲۰۴}، یعني: في الصلوۃ المفروضۃ ‘‘(۳)

(۱) إمام رازي، مفاتیح الغیب، ’’سورۃ الأعراف، قولہ تعالیٰ : و إذا قریٔ القرآن الخ ‘‘: ج ۱۵، ص: ۱۰۷(الشاملہ)۔
(۱) علامہ آلوسي، روح المعاني: تحت لعلکم ترحمون: ج ۹، ص: ۱۵۰۔)
(۲) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا، باب إذا قرأ الإمام فأنصتوا‘‘: ج ۱، ص: ۶۱، رقم: ۸۵۰۔)
(۳)  ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’الجزء التاسع، سورۃ الأعراف‘‘: ج ۲، ص: ۳۷۲، ۳۷۳، ط:دارالاشاعت، دیوبند۔)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص244

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2634/45-4432

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تسبیح فاطمی ان نمازوں کے بعد مسنون ہے جن کے بعد سنت نماز نہیں ہے۔ لیکن اگر کوئی دیگر نمازوں میں پڑھنا چاہے تو سنن کے بعد پڑھے۔

(قوله إلا بقدر اللهم إلخ) لما رواه مسلم والترمذي عن عائشة قالت «كان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - لا يقعد إلا بمقدار ما يقول: اللهم أنت السلام ومنك السلام تباركت يا ذا الجلال والإكرام» وأما ما ورد من الأحاديث في الأذكار عقيب الصلاة فلا دلالة فيه على الإتيان بها قبل السنة، بل يحمل على الإتيان بها بعدها؛ لأن السنة من لواحق الفريضة وتوابعها ومكملاتها فلم تكن أجنبية عنها، فما يفعل بعدها يطلق عليه أنه عقيب الفريضة. (فتاوی شامی، کتاب الصلوۃ ، باب صفة الصلوۃ جلد ۱ ص: ۵۳۰ ط: دارالفکر)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

Death / Inheritance & Will
Ref. No. 39 / 980 In the name of Allah the most Gracious the most Merciful The answer to your question is as follows: In the above motioned case, after paying due rights preceding inheritance, all the properties of Irshad Ahmad shall be divided into 4320 shares. Out of which 3000 shall be distributed equally among 5 sons of Irshad Ahmad, 900 shares will equally be distributed among 3 daughters of Irshad Ahmad, 63 shares shall go to wife of Izhar, 238 shares to the son of Izhar and 119 shares to the daughter of Izhar. And Allah knows best Darul Ifta Darul Uloom Waqf Deoband

Islamic Creed (Aqaaid)
Ref, No. 1379/42-838 In the name of Allah the most Gracious the most Merciful The answer to your question is as follows: This method is not Shariah-compliant. It is okay to lend seeds, but to make it a condition that the buyer sells it to you only later on is not valid and it is against the basics of the trade. The Hadith forbids laying down a condition in this way when trading. And Allah knows best Darul Ifta Darul Uloom Waqf Deoband

عائلی مسائل

Ref. No. 1597/43-1201

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اذان دے کر جماعت کی طرف بلانے والا خود اس مسجد سے نکلے یہ مناسب معلوم نہیں ہوتاہے، اس لئے اذان سے قبل امام صاحب کو دوسری مسجد کی طرف سے روانہ ہوجاناچاہئے۔ چونکہ آپ کے ذمہ دوسری مسجد میں جماعت کی ذمہ داری ہے اس لئے نکلنے کی گنجائش ہوگی۔ اور آپ پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔

وكره) تحريماً للنهي (خروج من لم يصل من مسجد أذن فيه) جرى على الغالب، والمراد دخول الوقت أذن فيه أو لا (إلا لمن ينتظم به أمر جماعة أخرى) أو كان الخروج لمسجد حيه ولم يصلوا فيه، أو لاستاذه لدرسه، أو لسماع الوعظ، أو لحاجة ومن عزمه أن يعود. نهر (و) إلا (لمن صلى الظهر والعشاء) وحده (مرة) فلايكره خروجه بل تركه للجماعة (إلا عند) الشروع في (الاقامة) فيكره لمخالفته الجماعة بلا عذر، بل يقتدي متنفلا لما مر (و) إلا (لمن صلى الفجر والعصر والمغرب مرة) فيخرج مطلقا (وإن أقيمت) لكراهة النفل بعد الاوليين، وفي المغرب أحد المحظورين البتيراء، أو مخالفة الإمام بالاتمام". (الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار96) ﻭﻣﻨﻬﺎ) - ﺃﻥ ﻣﻦ ﺃﺫﻥ ﻓﻬﻮ اﻟﺬﻱ ﻳﻘﻴﻢ، ﻭﺇﻥ ﺃﻗﺎﻡ ﻏﻴﺮﻩ: ﻓﺈﻥ ﻛﺎﻥ ﻳﺘﺄﺫﻯ ﺑﺬﻟﻚ ﻳﻜﺮﻩ؛ ﻷﻥ اﻛﺘﺴﺎﺏ ﺃﺫﻯ اﻟﻤﺴﻠﻢ ﻣﻜﺮﻭﻩ، ﻭﺇﻥ ﻛﺎﻥ ﻻ ﻳﺘﺄﺫﻯ ﺑﻪ ﻻ ﻳﻜﺮﻩ۔(البنایۃ ج:2،ص: 97،ط: دارالکتب العلمیہ)

ﻳﻜﺮﻩ ﻟﻪ ﺃﻥ ﻳﺆﺫﻥ ﻓﻲ ﻣﺴﺠﺪﻳﻦ(الدر)قال الشامي:ﻗﻮﻟﻪ: ﻓﻲ ﻣﺴﺠﺪﻳﻦ) ﻷﻧﻪ ﺇﺫا ﺻﻠﻰ ﻓﻲ اﻟﻤﺴﺠﺪ اﻷﻭﻝ ﻳﻜﻮﻥ ﻣﺘﻨﻔﻼ ﺑﺎﻷﺫاﻥ ﻓﻲ اﻟﻤﺴﺠﺪ اﻟﺜﺎﻧﻲ ﻭاﻟﺘﻨﻔﻞ ﺑﺎﻷﺫاﻥ ﻏﻴﺮ ﻣﺸﺮﻭﻉ؛ ﻭﻷﻥ اﻷﺫاﻥ ﻟﻠﻤﻜﺘﻮﺑﺔ ﻭﻫﻮ ﻓﻲ اﻟﻤﺴﺠﺪ اﻟﺜﺎﻧﻲ ﻳﺼﻠﻲ اﻟﻨﺎﻓﻠﺔ، ﻓﻼ ﻳﻨﺒﻐﻲ ﺃﻥ ﻳﺪﻋﻮ اﻟﻨﺎﺱ ﺇﻟﻰ اﻟﻤﻜﺘﻮﺑﺔ ﻭﻫﻮ ﻻ ﻳﺴﺎﻋﺪﻫﻢ ﻓﻴﻬﺎ. اﻩـ.(شامی، ج:1، ص: 400،ط: دارالفکر بیروت)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 2067/44-2052

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

You are a Shariah Musafir at the new place you have been transferred to; you will pray a short prayer there. Unless you intend to stay there for 15 days, you will remain a shariah Musafir. Therefore, as long as you stay there for a short time (less than 15 days), you have to do Qasr (half) not itmam (full).

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

Ijmaa & Qiyas

Ref. No. 2203/44-2319

In the name of Allah the most Gracious the most merciful

The answer to your question is as follows:

The speaker's words are correct. It does not affect the glory of Allah at all. Allah, the Owner of the Great Throne, has Himself given this position and rank to the Prophet Mohammad (saws). We believe that the Throne is a creation and we believe in the relationship of Allah Almighty with it in the way whatsoever. Arsh and Kursi are great physical entities that are bigger than all the heavens and the earth. And the glory of Prophet Mohammad (saws) is the greatest among all creatures.

ومکة أفضل منہا علی الراجح إلا ما ضم أعضائہ علیہ الصلاة والسلام فإنہ أفضل مطلقًا حتی من الکعبة والعرش والکرسي، وفي الشامي: وقد نقل القاضي عیاض وغیرہ الإجماع علی تفضیلہ حتی علی الکعبة وأن الخلاف فیما عداہ، ونقل عن ابن عقیل الحنبلي أن تلک البقعة أفضل من العرش (شامي زکریا: ۴/۵۳(

 

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband