Frequently Asked Questions
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 1381/42-790
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔پیشاب کے قطروں سے نجات کا ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ انڈرویر کا استعمال کریں اور کچھ ٹشو پیپر اندر رکھ لیں۔ اگر قطرے صرف ٹشو پیپر پر ہوں تو ان کو نکال کر استنجا کرکےوضو کرلیں اور نماز پڑھ لیں۔ اور اگر انڈرویر تک تری آگئی ہو تو اس انڈرویر نکال کر ایک تھیلی میں رکھ لیں اور استنجاکرکے وضو اور نماز ادا کرلیں۔ اس کے علاوہ کوئی اور بات ہو تو اس کی پوری وضاحت کرکے سوال دوبارہ لکھیں۔
متى قدر المعذور على رد السيلان برباط أو حشو أو كان لو جلس لا يسيل ولو قام سال وجب رده ويخرج برده عن أن يكون صاحب عذر بخلاف الحائض إذا منعت الدرور فإنها حائض. كذا في البحر الرائق. (الھندیۃ ، الفصل الاول فی تطھیر النجاسۃ 1/41)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Miscellaneous
Ref. No. 1599/43-1147
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
The companions of the prophet Mohammad (saws) are the criteria of faith. To follow the companions is already prescribed in Ahadith; it is not permissible to attribute wrong things to them. Uttering bad words against them is also illegal in Shariah. Calling a Companion a heretic in a particular matter will not necessitate disbelief though it will be a sinful act for the person. Our scholars have always been very careful in declaring someone as a kafir (disbeliever).
وقد روي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «أصحابي كالنجوم بأيهم اقتديتم اهتديتم» [ص:1691] قلت: فلو فعل إنسان فعلا كان له فيه قدوة بأحد من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم , كان على الطريق المستقيم , ومن فعل فعلا يخالف فيه الصحابة فنعوذ بالله منه , ما أسوأ حاله (الشریعۃ للآجری، باب ذکر فضل جمیع الصحابۃ رضی اللہ عنھم 4/1690)
إذا كان في المسألة وجوه توجب الكفر، ووجه واحد يمنع، فعلى المفتي أن يميل إلى ذلك الوجه كذا في الخلاصة في البزازية إلا إذا صرح بإرادة توجب الكفر، فلا ينفعه التأويل حينئذ كذا في البحر الرائق، ثم إن كانت نية القائل الوجه الذي يمنع التكفير، فهو مسلم، وإن كانت نيته الوجه الذي يوجب التكفير لا تنفعه فتوى المفتي، ويؤمر بالتوبة والرجوع عن ذلك وبتجديد النكاح بينه وبين امرأته كذا في المحيط. (الفتاوی الھندیۃ، مطلب فی موجبات الکفر، انواع منھا مایتعلق 2/282)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
قرآن کریم اور تفسیر
Ref. No. 1727/43-1681
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔
آپ نے قرآن خوانی کے تعلق سے تین باتیں معلوم کی ہیں : تینوں کا جواب بالترتیب دیا جارہاہے۔ (1) گھر یا دکان کے لیے قرآن خوانی کرنا درست ہےاور اس قرآن خوانی میں اگر ایصال ثواب کی نیت کر لی جائے توکوئی حرج کی بات نہیں ہے ۔ (2) اگر قرآن دنیوی مقصد کے لیے پڑھا گیا ہو جیسے کہ لوگ دکان یا کاروبار میں برکت کے لیے قرآن پڑھاتے ہیں تاکہ ہماری تجارت میں برکت ہو تو ایسی قرآن خوانی پر اجرت لینا جائز ہے ۔اس لیے ہر وہ کام جو دنیوی فائدہ کے لیے ہو اگر اس پر قرآن پڑھایا جائے اور اس پر اجرت لی جائے تو یہ جائز ہے ۔
عن ابن عباس: أن نفرا من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم مروا بماء، فيهم لديغ أو سليم، فعرض لهم رجل من أهل الماء، فقال: هل فيكم من راق، إن في الماء رجلا لديغا أو سليما، فانطلق رجل منهم، فقرأ بفاتحة الكتاب على شاء، فبرأ، فجاء بالشاء إلى أصحابه، فكرهوا ذلك وقالوا: أخذت على كتاب الله أجرا، حتى قدموا المدينة، فقالوا: يا رسول الله، أخذ على كتاب الله أجرا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن أحق ما أخذتم عليه أجرا كتاب الله(صحیح البخاری،باب الشرط في الرقية بقطيع من الغنم،حدیث نمبر:5737)
ایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی چوں کہ دینی مقصد کے لیے ہے اس پر اجرت لینا جائز نہیں ہے۔
قال تاج الشريعة في شرح الهداية: إن القرآن بالأجرة لا يستحق الثواب لا للميت ولا للقارئ. وقال العيني في شرح الهداية: ويمنع القارئ للدنيا، والآخذ والمعطي آثمان. فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لا يجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال؛ فإذا لم يكن للقارئ ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان بل جعلوا القرآن العظيم مكسبا ووسيلة إلى جمع الدنيا - إنا لله وإنا إليه راجعون - اهـ.(شامی ، مطلب فی الاستئجار علی المعاصی٦/٥٦)
(3)میت کے لیے ایصال ثواب کا ثبوت احادیث اور سلف کے تعامل سے ثابت ہے اور جس طرح مالی عبادت کا ثواب میت کو پہنچتاہے اسی طرح بدنی عبادت کا ثواب بھی میت کو پہنچتاہے ۔علامہ شامی نے اسے اہل السنت والجماعت کا مسلک قرار دیا ہے ۔
من دخل المقابر فقرأ سورة يس خفف الله عنهم يومئذ، وكان له بعدد من فيها حسنات بحر. وفي شرح اللباب ويقرأ من القرآن ما تيسر له من الفاتحة وأول البقرة إلى المفلحون وآية الكرسي - وآمن الرسول - وسورة يس وتبارك الملك وسورة التكاثر والإخلاص اثني عشر مرة أو إحدى عشر أو سبعا أو ثلاثا، ثم يقول: اللهم أوصل ثواب ما قرأناه إلى فلان أو إليهم. اهـ. مطلب في القراءة للميت وإهداء ثوابها له [تنبيه]صرح علماؤنا في باب الحج عن الغير بأن للإنسان أن يجعل ثواب عمله لغيره صلاة أو صوما أو صدقة أو غيرها كذا في الهداية، بل في زكاة التتارخانية عن المحيط: الأفضل لمن يتصدق نفلا أن ينوي لجميع المؤمنين والمؤمنات لأنها تصل إليهم ولا ينقص من أج ره شي(رد المحتار،مطلب فی زیارۃ القبور ،2/243)۔
قرآن کریم کے ذریعہ میت کو ثواب پہنچانا بھی درست ہے او راس سے میت کو فائدہ پہنچتاہے اور یہ عمل بھی حدیث اور سلف کے تعا مل سے ثابت ہے۔
أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ويس قلب القرآن لا يقرؤها رجل يريد الله والدار الآخرة إلا غفر له، اقرءوها على موتاكم(السنن الکبری للنسائی،حدیث نمبر:10847) وعن مجالد، عن الشعبي " كانت الأنصار إذا حضروا قرؤوا عند الميت البقرة ". مجالد ضعيف.(خلاصۃ الاحکام،باب مایقولہ من مات لہ میت ،حدیث نمبر:3279 )ملا علی قاری مرقات میں لکھتے ہیں : وأن المسلمين ما زالوا في كل مصر وعصر يجتمعون ويقرءون لموتاهم من غير نكير، فكان ذلك إجماعا، ذكر ذلك كله الحافظ شمس الدين بن عبد الواحد المقدسي الحنبلي في جزء ألفه في المسألة، ثم قال السيوطي: وأما القراءة على القبر فجاز بمشروعيتها أصحابنا وغيرهم.(مرقات المفاتیح،باب دفن المیت ، 3/1229)۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
Ref. No. 2058/44-0000
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مہتمم صاحب جو آپ کو ہدیہ دیتے ہیں اس کا لینا آپ کے لئے درست ہے، اور اس کی تحقیق آپ کے ذمہ لازم نہیں کہ وہ کون سا پیسہ ہے۔ اگر مہتمم صاحب نے مدرسہ کی رقم کو غلط مصرف میں خرچ کیا تو وہ ذمہ دار ہوں گے، مدرسہ میں مختلف قسم کی آمدات ہوتی ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف
بدعات و منکرات
Ref. No. 2205/44-2340
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عبرت اور تذکرہ آخرت کے لئے زیارت قبور ایک جائز امر ہے، لیکن عام طور پر عورتیں نرم دل ہوتی ہیں اور قبر وغیرہ دیکھ کر اپنے متعقلین کو یاد کرکے جزع فزع کرنے لگتی ہیں، نیز محارم سے اختلاط بھی بسا اوقات پایاجاتاہے۔ اس لئے عورتوں کو زیارت قبور سے منع کیاجاتاہے۔ تاہم اگر قبرستان میں عورتوں کے آنے جانے کا الگ نظم ہو یا الگ ایک وقت متعین ہو تو ان کو زیارت قبور کی اجازت ہوگی، لیکن پھر بھی ان کا اپنے گھروں پر رہ کر میت کے لئے اور متعقلین کے لئے دعاکرنا زیادہ احوط ہے اور اسمیں کسی مفسدہ کا خدشہ بھی نہیں ہے۔ البتہ بہت بوڑھی عورتوں کے لئے کچھ سہولت دی جاتی ہے بشرطیکہ وہ جزع فزع نہ کریں کیونکہ ان کے ساتھ کسی فتنہ کا اندیشہ عام طور پرنہیں ہوتاہے۔
"عن ابن عباس، قال: ’’لعن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم زائرات القبور، والمتخذین علیها المساجد والسرج.‘‘ (سنن أبي داؤد، ۳/۲۱۸، أخرجه الترمذي، ۲/۳۶ (۳۲۰) وقال: حدیث حسن)
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (2/ 210):
"(قوله: وقيل: تحرم على النساء إلخ) قال الرملي: أما النساء إذا أردن زيارة القبور إن كان ذلك لتجديد الحزن والبكاء والندب على ما جرت به عادتهن فلاتجوز لهن الزيارة، وعليه حمل الحديث: «لعن الله زائرات القبور»، وإن كان للاعتبار والترحم والتبرك بزيارة قبور الصالحين فلا بأس إذا كن عجائز، ويكره إذا كن شواب، كحضور الجماعة في المساجد".
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:جب تک کسی پنیر کے بارے میں یہ بات دلیل سے متحقق نہ ہوجائے کہ اس میں حرام یا ناپاک چیز کا استعمال ہوا ہے، اس وقت تک اس پر حرام یا ناپاک ہونے کا حکم نہیں لگائیں گے اور جب یہ دلیل سے یقین ہوجائے اور ثبوت مل جائے کہ اس میں کوئی حرام یا ناپاک چیز ملی ہے، تو اس کو ہرگز استعمال نہ کیا جائے، (۱)
الاشباہ والنظائر میں ہے: الأصل في الأشیاء الأباحۃ۔ باب :الیقین لا یزول بالشک۔ (۲)
(۱) أقول۔ و صرح في التحریر بأن الاصل الإباحۃ عند الجمہور من الحنفیۃ والشافعیۃ۔ (ابن عابدین، ردالمحتار،کتاب الطہارۃ، مطلب المختار أن الأصل في الأشیاء الإباحۃ،ج۱، ص:۲۲۱)
(۲)ابن نجیم، الأشباہ والنظائر، الأصل في الأشیاء الإباحۃ، الفن الثالث،ج۱، ص:۲۰۹
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص449
عائلی مسائل
Ref. No. 2708/45-4218
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر بیوی اس طرح کی غلط حرکت کرتی ہے اور شوہر کو یقین ہو تو شوہر کو چاہئے کہ اسے سمجھائے اور خدا اور آخرت کا واسطہ دے، اس کے علاوہ اگر خود سمجھانے سے کام نہ چل سکے تو عورت کے گھر والوں سے بات چیت کرے اس کے علاوہ سمجھانے کی حد تک جو ضروری اور مناسب ہو وہ اقدام کرے، اسی طرح ایک شوہر کا حق ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر عورت گھر سے باہر نہ نکلے شوہر اپنےاس حق کو استعمال کر سکتا ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ ناراضگی اگر کسی غیر شرعی عمل کی وجہ سے ہو تو امام کو چاہیے کہ اس غیر شرعی عمل کو ترک کردے اور اگر ذاتی اغراض کی بنا پر ناراضگی ہو تو ان کی ناراضگی سے امامت کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے؛ تاہم نرم انداز میں، خوش اسلوبی کے ساتھ ان کو سمجھانے کی کوشش کی جائے؛ تاکہ آپسی ناراضگی دور ہو جائے۔(۱)
(۱) نظام الألفۃ وتعلم الجاہل من العالم (قولہ نظام الألفۃ) بتحصیل التعاہد باللقاء في أوقات الصلات بین الجیران۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۸۷)
أم قوما وہم لہ کارہون إن کانت الکراہۃ لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ یکرہ لہ ذلک وإن کان ہو أحق بالإمامۃ لا یکرہ، ہکذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۴)
(ولو أم قوما وہم لہ کارہون، إن) الکراہۃ (لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ منہ کرہ) لہ ذلک تحریما لحدیث أبي داود لا یقبل اللّٰہ صلاۃ من تقدم قوما وہم لہ کارہون، (وإن ہو أحق لا) والکراہۃ علیہم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۴)
(وإمام قوم) أي: الإمامۃ الکبری، أو إمامۃ الصلاۃ (وہم لہ): وفي نسخۃ: لہا، أي الإمامۃ (کارہون) أي: لمعنی مذموم في الشرع، وإن کرہوا لخلاف ذلک، فالعیب علیہم ولا کراہۃ، قال ابن الملک، أي کارہون لبدعتہ أو فسقہ أو جہلہ، أما إذا کان بینہ وبینہم کراہۃ وعداوۃ بسبب أمر دنیوي، فلا یکون لہ ہذا الحکم۔ في شرح السنۃ قیل: المراد إمام ظالم، وأما من أقام السنۃ فاللوم علی من کرہہ، وقیل: ہو إمام الصلاۃ ولیس من أہلہا، فیتغلب فإن کان مستحقا لہا فاللوم علی من کرہہ، قال أحمد: إذا کرہہ واحد أو إثنان أو ثلاثۃ، فلہ أن یصلي بہم حتی یکرہہ أکثر الجماعۃ۔ (رواہ الترمذي وقال: ہذا حدیث غریب): قال ابن حجر: ہذا حدیث حسن غریب۔ (ملاعلي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، الفصل الثاني‘‘: ج ۳، ص:۱۷۹، رقم: ۱۱۲۲)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص282
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں پہلی محراب کو بند کر کے درمیان میں بنا لینا چاہئے یہ ہی طریقہ مسنون ہے اس طرح کر لینے سے تمام جماعتیں اور نمازیں مطابق سنت ہو جائیں گی جس میں مزید اجر وثواب ہوگا؛ البتہ اگر کوئی ایسی سخت مجبوری ہے جس کی وجہ سے محراب درمیان میں نہیں بنائی جا سکتی ہے اور کوشش کے باوجود محراب درمیان میں نہ آسکتی ہو تو پھر اس صورت میں بھی امام وسطِ صف میں کھڑا ہو جائے جماعت اور نمازیںبہرصورت درست اور جائز ہوں گی۔(۱)
(۱) السنۃ أن یقوم في المحراب لیعتدل الطرفان ولو قام في أحد جانبي الصف یکرہ ولو کان المسجد الصیفي بحنب الشتوي وامتلأ المسجد یقوم الإمام في جانب الحائط لیستوی القوم من جانبیہ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ: مطلب ہل الإساء ۃ دون الکراہۃ أو أفحش منہا‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۰)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص400
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:نماز کے شروع کرنے سے پہلے تمام آداب و مستحبات کی تکمیل مناسب ہے کہ خداوند کریم کے روبرو اور دربار خداوندی میں بندہ ہدایت ورحمت کے لیے حاضر ہو رہا ہے تو ایک سوالی کو اپنے مالک کے حضور فرض کی ادائیگی کے لیے ہر طرح سے اپنے کو سنوار کر اور سدھار کر جانا چاہئے۔ آستین کا اتارنا بھی آداب میں سے ہے اگر جان بوجھ کر ایسا کرے گا تو کراہت تنزیہی ہوگی۔(۲)
(۲) عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: أمرت أن أسجد علی سبعۃ أعظم ولا أکف ثوباً ولا شعراً۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب أعضاء السجود والنھي عن کف الشعر ‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۳، رقم: ۴۹۰)
…(و) کرہ (کفہ) أي رفعہ ولو لتراب کمشمر کم أو ذیل۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار،’’کتاب الصلاۃ ، باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا‘‘: ج ۱، ص: ۴۰۶)
قولہ کمشمرکم أو ذیل أي کما لو دخل في الصلاۃ وہو مشمرکمہ أو ذیلہ، وأشار بذلک إلیٰ أن الکراہۃ لا تختص بالکف وہو في الصلاۃ، کما أفادہ في شرح المنیۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’مطلب في الکراھۃ التحریمیۃ و التنزیھیۃ‘‘: ج۲، ص:۴۰۶)
ولو صلی رافعاً کمیہ إلیٰ المرفقین، کرہ کذا في فتاویٰ قاضي خان۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ الخ، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۵، فیصل)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص135