نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2750/45-2750

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہاں یہ باب درست ہے کہ مقتدی کی اقتداء پہلے سلام کے بعد ختم ہو جاتی ہے، لہٰذا امام کے دوسرے سلام کی تکمیل سے پہلے مقتدی اپنا دوسرا سلام پھیر سکتا ہے تاہم بلا کسی عذر کے ایسا کرنا مناسب نہیں ہے۔

’’وتنقطع التحريمة بتسليمة واحدة ........ وتنقضى قدوة بالأول قبل عليكم بالمشهور قال في التنجيس الامام اذا فرغ من صلاته فلما قال السلام جاء رجل واقتدى به قبل أن يقول عليكم لا يصير داخلا في صلاته‘‘ (الدر المختار مع رد المحتار’’كتاب الصلاة‘‘: ج 2، ص: 126 اور 239)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں نماز درست ہوگئی اگر پہلی رکعت کے رکوع میں یا رکوع سے پہلے امام کے ساتھ شامل ہوگیا ہو اور اگر رکعت چھوٹ گئی اور اس نے امام کے بعد کھڑے ہوکر اس رکعت کو پورا کرلیا تب بھی نماز درست ہو جائے گی؛ لیکن ایسا درست نہیں ہے۔(۱)

(۱) قطع العبادۃ الواجبۃ بعد الشروع فیہا بلا مسوغ شرعي غیر جائز باتفاق الفقہاء لأن قطعہا بلا مسوغ شرعي عبث یتنافی مع حرمۃ العبادۃ وورد النہي عن إفساد العبادۃ، قال تعالیٰ: ولا تبطلوا أعمالکم۔ أما قطعہا بمسوغ شرعي فمشروع فتقطع الصلوۃ لقتل حیۃ ونحوہا۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ: ج۳۴، ص:۵۰، ۵۱)
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص5518

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:صورت مسئولہ میں اذان دینے کے وقت مؤذن کا کانوں میں انگلیوں کو ڈالنا لازم اور ضروری نہیں ہے؛ البتہ اذان کا مقصد دور تک آواز پہونچانا ہے اور آواز کو بلند کرنے کے لیے عموماً دیکھا گیا ہے کہ کانوں میں انگلیاں رکھی جاتی ہیں تاکہ آواز بلند اور سانس لمبی ہو، اس بات کی تائید حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ہوتی ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان دینے کے وقت انگلیوں کو کانوں میں ڈال کر اذان دینے کا حکم دیا تاکہ آواز بلند ہو؛ اس لیے اذان دینے کے وقت کانوں میں انگلی رکھنے کو فقہاء نے مستحب لکھا ہے۔
’’أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أمر بلالا أن یجعل إصبعیہ في أذنیہ وقال: إنہ أرفع لصوتک‘‘ (۱)
’’وأخرج البخاري تعلیقاً: ویذکر عن بلال أنہ جعل إصبعیہ في أذنیہ، وکان ابن عمر لا یجعل إصبعیہ في أذنیہ‘‘(۲)
’’ویستحب أن یجعل إصبعیہ في أذنیہ، لقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لبلال رضي اللّٰہ عنہ: ’’إجعل إصبعیک في أذنیک فإنہ أرفع صوتک‘‘(۳)
’’ویجعل ندباً إصبعیہ في صماخ أذنیہ، فأذانہ بدونہ حسن وبہ أحسن‘‘(۴)

(۱) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ: ’’کتاب الصلاۃ، أبواب الأذان والسنۃ فیہا‘‘ ص: ۵۲، رقم: ۱۰۔
(۲) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان، باب: ہل یتتبع المؤذن فاہ ہہنا وہہنا؟‘‘: ج ۱، ص: ۸۸۔
(۳) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۸؛ وہکذا في الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان، الفصل الثاني في الأذان والإقامۃ وکیفیتہما‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۳۔
(۴)  ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: مطلب: في أول من بنی المنائر للأذان، ج ۲، ص: ۵۴۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص158

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز کی اقتداء تکبیر تحریمہ سے شروع ہو کر سلام تک ہے۔ سلام کے بعد امام اور اقتداء کا تعلق ختم ہو جاتا ہے، دعا میں اقتداء ضروری نہیں ہے، نماز کے بعد دعا کرنا احادیث سے ثابت ہے اور یہ وقت دعا کی قبولیت کا ہے، اس لیے دعا کا اہتمام ہونا چاہئے اور جب سب ہی لوگ کریں گے تو اجتماعی صورت پیدا ہو جائے گی، اس میں کوئی مضائقہ نہیں؛ لیکن یہ نماز والی اقتداء نہیں ہے نہ ہی اس کو لازم سمجھنا درست ہے۔(۱)
’’عن معاذ بن جبل أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أخذ بیدہ وقال یا معاذ واللّٰہ أني لأحبک فقال: أوصیک یا معاذ لا تدعن في دبر کل صلاۃ تقول: اللہم أعني علی ذکرک وشکرک وحسن عبادتک‘‘(۲)

(۱) عن علي رضي اللّٰہ عنہ: عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: مفتاح الصلاۃ الطہور وتحریمہا التکبیر وتحلیہا التسلیم، قال أبو عیسیٰ ہذا الحدیث أصح شيء في ہذا الباب۔ (أخرجہ الترمذي في سننہ، ’’أبواب الطہارۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب ما جاء أن مفتاح الصلاۃ الطہور‘‘: ج ۱، ص: ۵، رقم: ۳)
عن المغیرۃ بن شعبۃ رضي اللّٰہ عنہما أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یقول: في دبر کل صلاۃ مکتوبۃ: لا إلہ إلا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک، ولہ الحمد، وہو علی کل شيء قدیر۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب الذکر بعد الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۶، رقم: ۸۴۴)
(۲) أخرجہ أبوداود في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب في الاستغفار‘‘: ج۱، ص: ۲۱۳، رقم: ۱۵۵۲۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص427

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: اگر جان بوجھ کر ایسا کیا تو نماز بکراہت تنزیہی ادا ہوگی اعادہ کی ضرورت نہیں ہے اور اگر بھول سے ایسا ہوگیا تو نماز بلا کراہت ادا ہوگئی ہے۔(۱)

(۱) ویکرہ فصلہ بسورۃ بین سورتین قرأہما في رکعتین لما فیہ من شبہۃ التفضیل والہجر، وقال بعضہم: لایکرہ إذا کانت السورۃ طویلۃ کما لوکان بینہما سورتان قصیرتان۔ (الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في المکروہات‘‘: ص: ۳۵۲، شیخ الہند دیوبند)
وإذا جمع بین سورتین بینہما سور أو سورۃ واحدۃ في رکعۃ واحدۃ … یکرہ وقال بعضہم: إن کانت السورۃ طویلۃ لایکرہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الرابع في القراء ۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۶، زکریا دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص224

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: سنت ظہر اگر شروع کردی اور جماعت شروع ہوگئی ہے، تو دو رکعت پر سلام پھیر دے(۲) لیکن اگر جماعت کے چھوٹنے کا خطرہ ہو، تو سنت ظہر چھوڑ کر جماعت میں شریک ہو جائے اور بعد میں سنت ظہر ادا کرلے۔(۳)

(۲) أو شرع في سنۃ فأقیمت الجماعۃ سلم بعد الجلوس علی رأس رکعتین کذا روي عن أبي یوسف والإمام وہو الأوجہ لجمعہ بین المصلحتین ثم قضیٰ السنۃ أربعاً لتمکنہ منہ بعد أداء الفرض مع ما بعدہ۔ (طحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’باب إدراک الفریضۃ‘‘:ج ، ص: ۴۵۱؛ وفتح القدیر، ’’باب إدراک الفریضۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۸۹، زکریا دیوبند)
(۳) بخلاف سنۃ الظہر حیث یترکہا في الحالین، لأنہ یمکنہ أداؤہا في الوقت بعد الفرض ہو الصحیح۔ (مرغیناني، ھدایہ، ’’باب ادراک الفریضۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۲، دار الکتاب دیوبند؛ و ابن الھمام، فتح القدیر، ’’باب ادراک الفریضۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۹۲، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص351

 

قرآن کریم اور تفسیر

Ref. No. 847 Alif

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                         

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:  قاری صاحب اپنا وقت فارغ کرکے اور سفر کی صعوبتیں برداشت کرکے جلسہ میں جاتے ہیں جسکی وجہ سے مدرسہ سے ان کی تنخواہ بھی وضع ہوتی ہے، اس لئے  اہل جلسہ کو چاہئے کہ قاری صاحب کو حسب استطاعت ضرور دیں۔تاہم قاری صاحب کا قرآن پڑھنے کی اجرت طے کرنا درست نہیں ہے، اس پر اصرار نہ ہونا چاہئے۔ البتہ سفرخرچ وغیرہ یقینا اہل جلسہ پر ہی لازم ہے، اور اس کا مطالبہ اور تعیین بھی درست ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 935/41-68

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  جب تک زبان سے  طلاق وغیرہ کے کچھ الفاظ نہیں بولے گا  نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ وسوسوں سے پرہیز کریں۔ صبح و شام معوذتین کا ورد کریں ۔اور دعاء کریں  ان شاء اللہ فائدہ ہوگا. 

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Usury / Insurance

Ref. No. 1024/41-219

 In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

The Muslim brother should sell the precious stone received as a guarantee and keep only as much money as the non-Muslim owed to him i.e. 10000 USD only. The rest amount of 90,000 USD must be returned to the non-Muslim brother. The non-Muslim brother is the owner of extra amount of 90,000. So it is forbidden and haram as per Shariah for a Muslim to take extra amount.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

طلاق و تفریق

Ref. No. 1484/42-949

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح غلطی سے  زبان پرمطلقہ کا لفظ جاری ہونےسے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔  طلاق کے لئے بیوی کی جانب نسبت  ضروری ہے جبکہ مذکورہ جملہ اور اس کا پس منظر بالکل مختلف ہے۔ آپ کی نیت اپنی بیوی کو طلاق  دینے کی نہیں تھی۔ اس لئے صورت بالا میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

قال لها: إن خرجت يقع الطلاق فخرجت لم يقع الطلاق لتركه الإضافة لها كذا في القنية في باب فيما يكون تعليقا أو تنجيزا. (الھندیۃ الفصل الثالث فی تعلیق الطلاق بکلمۃ ان 1/439) "لا يقع من غير إضافة إليها". ( شامی، كتاب الطلاق، باب الصريح، 3/273)

(قَوْلُهُ: لِتَرْكِهِ الْإِضَافَةَ) أَيْ الْمَعْنَوِيَّةَ، فَإِنَّهَا الشَّرْطُ، وَالْخِطَابُ مِنْ الْإِضَافَةِ الْمَعْنَوِيَّةِ، وَكَذَا الْإِشَارَةُ نَحْوُ هَذِهِ طَالِقٌ، وَكَذَا نَحْوُ امْرَأَتِي طَالِقٌ، وَزَيْنَبُ طَالِقٌ". (شامی، كتاب الطلاق، باب الصريح، 3/248)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند