Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
Ref. No. 2075/44-2065
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (1) اگر کوئی داڑھی نہیں رکھتا اور اس کو ضروری بھی نہیں سمجھتا تو اس کا یہ عمل موجب گناہ ہے، لیکن یہ عمل کفریہ نہیں ہے، (2) داڑھی چونکہ انبیاء کی سنت ہے اور جمہور کے مطابق اس کا رکھنا واجب ہے اس لئے اس کا مذاق اڑانا کفریہ عمل ہوگا کیونکہ اس میں استخفاف دین ہے۔ (3) حجاب کا حکم قرآن و حدیث سے ثابت ہے اس لئے اس کو غیرضروری سمجھنا درست نہیں ہے لیکن اس کی وجہ سے تکفیر نہیں ہوگی، اور نہ ہی تجدید ایمان وتجدید نکاح کی ضرورت ہوگی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق: جب تک نجس ہونے کا یقین یا غالب گمان نہ ہو تو اس کو پاک سمجھا جائے گا۔(۱)
(۱) ابن نجیم، الأشباہ والنظائر، القاعدۃ الثالثۃ،الیقین لا یزول بالشک، ص:۱۸۳، القاعدۃ المطردۃ أن الیقین لا یزول بالشک (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، الفصل الثاني: في الأعیان النجسۃ، ج۱، ص:۱۰۲)؛ فلا نحکم بنجاسۃ بالشک علی الأصل المعہود أن الیقین لایزول بالشک (الکاساني، بدائع الصنائع، فصل في بیان المقدار الذي یصیر بہ، ج۱، ص:۲۱۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص449
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:کتا اور بلی کو پکڑنے سے وضو نہیں ٹوٹتا؛ البتہ گندگی وغیرہ ہاتھ پر لگ جائے، تو اس کو دھو لیا جائے۔(۱)
(۱)الکلب إذا أخذ عضو إنسان أو ثوبہ لا یتنجس مالم یظھر فیہ أثر البلل (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل الثاني :في الأعیان النجسۃ، والنوع الثاني: المخففۃ، و مما یتصل بذلک مسائل،‘‘ج۱،ص:۱۰۳ )؛ والکلب إذ أخذ عضو إنسان أو ثوبہ حالۃ المزاح یجب غسلہ و حالۃ الغضب لا۔ یہاں حالت مزاح اور غضب میں فرق کیا ہے؛ لیکن شامی میں ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے اور فتویٰ بھی شامی کے قول پر ہی ہے۔ (علي بن عثمان، الفتاویٰ السراجیہ،ج۱، ص:۵۲)؛ و إذا انتقض فأصاب ثوباً لا ینجسہ مطلقا۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ،‘‘ ج۱، ص:۱۸۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص212
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ہمارے یہاں مسجد کے امام ومؤذن کی تنخواہ عموماً بقدر کفایت ہوتی ہے، رمضان اور عید کی مناسبت سے اخراجات بڑھ جاتے ہیں اور عموماً تنخواہ ناکافی ہوتی ہے؛ اس لیے اگر باہمی مشورہ سے رمضان کی تنخواہ میں اضافہ کر دیا جائے یا بارہ مہینہ کی جگہ تیرہ مہینہ کی تنخواہ دی جائے اور اس کو ضابطہ بنا دیا جائے تو بہتر اور پسندیدہ عمل ہے۔ اسی طرح اگر باہمی مشورہ سے رمضان میں چندہ کر کے امام صاحب کو بطور تعاون کچھ دیا جائے تواس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ یہ مستحسن عمل ہے۔ ائمہ اور مؤذنین ہمارے دینی خدمت گار ہیں جو ہماری نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں ان کا تعاون کرنا ان کے نماز میں خشوع وخضوع کا سبب ہوگا اور اس کے اثرات پوری مسجد کے لوگوں کو محسوس ہوں گے۔
’’إن اللّٰہ فيعون العبد ما کان الحرم فيعون أخیہ‘‘(۱)
’’من یسر علی معسر یسر اللّٰہ علیہ في الدنیا والآخرۃ‘‘(۲)
’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: المسلمون علی شروطہم‘‘(۳)
(۱) المعجم الأوسط للطبراني، ’’من اسمہ محمد‘‘: رقم: ۵۶۶۵۔
(۲) أخرجہ ابن ماجۃ، في سننہ، ’’أبواب الصدقات، باب إنظار المعسر‘‘: ج ۱، ص:۱۷۴، رقم: ۲۴۱۷۔
(۳) أخرجہ أبي داود ، في سننہ، ’’کتاب القضاء، باب في الصلح‘‘: ج۲، ص: ۵۰۵، رقم: ۳۵۹۴۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص283
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر صف میں جگہ خالی نہ ہو، تو پیچھے کی صف میں تنہا کھڑے ہونے میں کراہت نہیں ہے اور اگر بعد میں آنے والا خود عالم ہو اور اگلی صف میں کوئی عالم ہو، یعنی اس مسئلہ سے واقف ہو، تو ایسی صورت میں آگے سے ایک آدمی کو پیچھے کی طرف ہٹا کر اپنے ساتھ کھڑا کر لے یہ افضل ہے۔(۱)
(۱) و متی استوی جانباہ یقوم عن یمین الإمام إن أمکنہ وإن وجد في الصف فرجۃ سدہا وإلا انتظر حتی یجيء آخر فیقفان خلفہ وإن لم یجیٔ حتی رکع الإمام یختار أعلم الناس بہذہ المسئلۃ فیجذبہ ویقفان خلفہ ولو لم یجد عالما یقف خلف الصف بحذاء الإمام للضرورۃ ولو وقف منفرداً بغیر عذر تصح صلاتہ عندنا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب ہل الإساء ۃ دون الکراہۃ أو أفحش منہا‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۰)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص401
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: کہنی کھول کر نماز پڑھنا مکروہ ہے۔(۱) سر پر یا شانوں پر بغیر لپیٹے ہوئے رومال ڈال کر دونوں طرف لٹکا کر نماز پڑھنا مکروہ ہے(۲) اور خارج نماز اگر تکبر کی وجہ سے ہو تو کراہت تحریمی ہے ورنہ درست ہے۔(۳)
(۱) وقید الکراہۃ في الخلاصۃ والمنیۃ بأن یکون رافعاً کمیہ إلی المرفقین۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب في الکراہۃ التحریمیۃ والتنزیہیۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۶؛ حلبي کبیري: ص: ۳۲۱)
(۲) إذا أرسل طرفا منہ علی صدرہ وطرفا علی ظہرہ یکرہ۔ (أیضاً: ج ۲، ص: ۴۰۵، زکریا)
(۳) فلو من أحد ہما لم یکرہ کحال عذر وخارج صلاتہ في الأصح أي إذا لم یکن للتکبر فالأصح أنہ لا یکرہ۔ (ابن عابدین أیضاً:ص۴۰۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص136
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر اسی جگہ پر سنت پڑھ لی جائیں جہاں پر فرض نماز پڑھی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں، جگہ بدلنا صرف بہتر ہے، لیکن اگر جگہ خالی ہو تو اس استحباب پر عمل کرنا بہتر ہے، لیکن اگر جگہ خالی نہ ہو تو گردنیں پھلانگنا یا کسی دوسرے کو اس کی جگہ سے ہٹا کر جگہ بدلنا درست نہیں ہے۔(۱)
(۱) عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: أیعجز أحدکم إذا صلی أن یتقدم أو یتأخر أو عن یمینہ، أو عن شمالہ یعنی السبحۃ۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، رقم: ۸۵۴؛ وأخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’کتاب إقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا، باب ما جاء في صلاۃ النافلۃ حیث تصلی المکتوبۃ ‘‘رقم: ۱۴۱۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص364
بدعات و منکرات
Ref. No. 944 Alif
الجواب
الجواب وباللہ التوفیق
سوال میں یہ وضاحت نہیں ہے کہ اللہ کے راستہ سے کیا مراد ہے؟ تاہم غزوہ خیبر میں ابتداءا حضرت علی نے عذر پیش کیا تھا ؛ اس لئے عذر پیش کرنے کو دین کی محنت کی مذاق سے تعبیر کرنا درست ہی نہیں ہے۔ کذا فی ابی داؤد۔ واللہ تعالی اعلم
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1114 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نماز کے جو ارکان اصل ہیئت کے مطابق ادا کرنے کی استطاعت ہو ان کو اصل طریقہ کے مطابق ہی ادا کرنا ضروری ہے، اور جو ارکان ادا کرنے پر بالکل قدرت نہ ہو، جیسے مذکورہ صورت ہے ، انہیں کرسی پر بھی ادا کیا جاسکتاہے۔ واللہ تعالی اعلم
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند