فقہ

Ref. No. 1116 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔  اپنے عقیدہ کی درستگی، اعمال صالحہ کی تحصیل اور دین کے  دیگربنیادی  مسائل  کا جاننا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ یہ تمام امور دینی  مدرسہ، خانقاہ  وغیرہ سے جس طرح حاصل ہوتے ہیں اسی طرح تبلیغی جماعت   میں نکلنے سے بھی حاصل ہوتے ہیں ۔ آج کے دور میں اپنی اصلاح اور لوگوں میں دینی بیداری پیداکرنے کا سب سے موثر طریقہ ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر  کا حکم عام ہے؛ ہر دور میں ہر شخص پر وقت اور حالت کے تقاضہ کے مطابق فرض ہے۔  اپنے گھر پر رہ کر بھی لوگوں کو نیکی کا حکم کرنا اور برائیوں سے روکنا حتی الوسع ضروری ہے۔ اگرآپ اس راہ میں نکلیں گے تو آپ کو بھی فائدہ ہوگا اور آپ کی ذات سے دوسروں کا بھی فائدہ ہوگا جو ذخیرہ آخرت ہوگا ان شاء اللہ۔ اللہ تعالی ہم سب کو دین  کوسمجھنے  اور اس کو پھیلانے کی توفیق عطافرمائے۔ میرا مشورہ ہے کہ آپ خود بھی شامل ہوں اور اپنے متعلقین کو بھی شامل کریں ۔کچھ دن اس راستہ میں لگانے کے بعد ہی اس کا فائدہ آپ کے سمجھ میں آئے گا۔علاوہ ازیں اپنی اصلاح اور دینی مسائل کو سمجھنے کیلئے علماء سے بھی رابطہ رکھیں۔  واللہ الموفق۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Miscellaneous

Ref. No. 895 Alif

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

It is not correct to call him “Maulana”.

And Allah knows best

 

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

فقہ

Ref. No. 39 / 895

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  تقدیر کی بحث وتحقیق  میں زیادہ پڑنے کی ضرورت نہیں بلکہ بچنا چاہئے۔ مختصرا سمجھ لیجئے کہ تقدیر کی دو قسمیں ہیں، تقدیر معلق اور تقدیر مبرم۔  تقدیر مبرم میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں البتہ تقدیر معلق میں اس کا امکان ہے ۔ 

    واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

سیاست

Ref. No. 1042/41-211

الجواب وباللہ التوفیق     

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ جگہ کا نام بدلنے میں ممبراسمبلی کے پیش نظر آپ ﷺ کی جانب منسوب کرکے برکت حاصل کرنا ہے، اور منع کرنے والوں کے سامنے اس مقدس نام کی بے حرمتی کا خطرہ ہے؛ پس دونوں اپنی نیت میں سچے ہیں اور اجر کے مستحق ہیں۔ تاہم غالب گمان یہ ہے کہ بعد میں اس کی بے حرمتی ہوگی، اس لئے احتیاط کرنی چاہئے۔ لیکن اگر نام رکھ دیا گیا تو نام لینے پر درود پڑھنا لازم نہیں ہوگا۔  نیز آپسی انتشار سے بچنا ضروری ہے اس کا خیال رہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 1146/42-365

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہندوستان میں مسلم پرسنل لا بورڈ اور امارت شرعیہ کے تحت دارالقضاء کا نظام چل رہا ہے، جہاں دارالقضاء ہے وہاں یہی حضرات قاضی کا تقرر کرتے ہیں اور ضروری چیزوں سے واقف کراتے ہیں۔ اسی طرح جمعیت علماء ہند کے امارت شرعیہ ہند کے تحت شرعی پنچایت کا نظام پورے ملک میں جاری ہے۔ آپ حسب سہولت ان تینوں اداروں میں سے کسی سے بھی  رابطہ کرسکتے ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 1256/42-593

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  لفظ 'مرید' اسمائے الہیہ میں سے نہیں ہے، جبکہ اسمائے الہیہ توقیفی ہیں ، لہذا ایسا وظیفہ  پڑھنا درست  نہیں ہے جن کا قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت  نہ ہو۔اس لئے اس سے احتراز کریں اور اسمائے الہیہ میں سے کسی نام کا وظیفہ پڑھیں ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 1505/42-977

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔بیع کے اندر اس طرح کی شرط غیرمعتبر ہے۔ مسلمان خریدنے کے بعد اس جانور کا پورامالک ہوگیا وہ جو چاہے اپنی ملکیت میں تصرف کرے،  ، بیچنے والے کا اس طرح کی شرط لگانا غیرمعتبر ہے؛ اس لئے اس وضاحت کے باوجود مسلمان اگر اس جانورکی قربانی کردے تو قربانی درست ہوجائے گی، کوئی کراہت نہیں ہوگی۔  

فيصح) البيع (بشرط يقتضيه العقد) ... (أو لايقتضيه ولا نفع فيه لأحد) ... (كشرط أن لايبيع) عبر ابن الكمال بيركب (الدابة المبيعة) فإنها ليست بأهل للنفع (الدر المختار وحاشية ابن عابدين 5/87)

"الاصل الجامع في فساد العقد بسبب شرط (لا يقتضيه العقد ولا يلائمه”وفيه نفع لاحدهما أو) فيه نفع (لمبيع) هو (من أهل الاستحقاق) للنفع بأن يكون آدميا،(كشرط أن يقطعه) البائع (ويخيطه قباء) مثال لما لا يقتضيه العقد وفيه نفع للمشتري (أو يستخدمه) مثال لما فيه للبائع"(الدر المختار شرح تنویر الابصار وجامع البحار 1/417 ط:دار الکتب العلمیۃ (منهاشرط لا يقتضيه العقد وفيه منفعة للبائع أو للمشتري أو للمبيع إن كان من بني آدم كالرقيق وليس بملائم للعقد ولا مما جرى به التعامل بين الناس نحو ما إذا باع دارا على أن يسكنها البائع شهرا ثم يسلمها إليه أو أرضا على أن يزرعها سنة أو دابة على أن يركبها شهرا أو ثوبا على أن يلبسه أسبوعا ونحو ذلك؛ فالبيع في هذا كله فاسد؛ لأن زيادة منفعة مشروطة في البيع تكون ربا لأنها زيادة لا يقابلها عوض في عقد البيع وهو تفسير الرباوالبيع الذي فيه الربا فاسد أو فيه شبهة الربا، وإنها مفسدة للبيع كحقيقة الربا على ما نقرره إن شاء الله تعالى (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع5/169 ط:دارالکتب العلمیۃ)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref. No. 1978/44-1920

بسم اللہ الرحمن الرحیم:   حضرت مہتمم صاحب  کی طرف سے جو کچھ آپ کو ملتاہے وہ آپ کے لئے ہدیہ ہے۔ اگر آپ مستحق زکوۃ ہیں تو وہ آپ کو زکوۃ کی رقم سے بھی دے سکتے ہیں ، اور اگر آپ مستحق زکوۃ نہیں ہیں تو وہ اپنی تنخواہ سے آپ کو دیتے ہوں گے۔ حضرت مہتمم صاحب کو زکوۃ کے مصارف کا بخوبی علم ہوگا اس لئے اگر آپ مستحق ہوں گے تبھی وہ دیتے ہوں گے یا پھر اپنی جیب خاص سے دیتے ہوں گے۔ آپ اس میں بلاوجہ شبہہ نہ کریں اور جو کچھ وہ دیں اس کو قبول کرلیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:شادی کے موقع پر کوئی جلسہ وغیرہ کرنا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ بیان کرکے لوگوں کو شریعت کے مطابق شادی کرنے کی ترغیب دی جائے اور غلط رسم و رواج سے لوگوں کو روکا جائے، تو درست ہے۔(۱) لیکن مروجہ میلاد درست نہیں ہے۔(۲)

(۱) لا بأس بالجلوس للوعظ إذا أراد بہ وجہ اللّٰہ تعالیٰ کذا في الوجیز۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، الباب الخامس في آداب المسجد والقبلۃ‘‘: ج ۵، ص: ۳۷۱)
(۲) وشر الأمور محدثاتہا، وکل بدعۃٍ ضلالۃ۔ وفي روایۃ: وشر الأمور محدثاتہا، وکل محدثۃٍ بدعۃ۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ: ج ۲۳، ص: ۲۴۱، رقم: ۱۴۹۸۳)
من أحدث في الإسلام رأیا لم یکن لہ من الکتاب والسنۃ سند ظاہر أو خفي ملفوظ أو مستنبط فہو مردود۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۶)
ومن جملۃ ما أحدثوہ من البدع مع اعتقادہم أن ذلک من أکبر العبادات وإظہار الشعائر ما یفعلونہ في شہر ربیع الأول من مولدٍ وقد احتوی علی بدعٍ ومحرماتٍ۔ (أبو عبد اللّٰہ محمد بن محمد، المدخل: ج ۲، ص: ۲)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص459


 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس کا التزام درست نہیں ہے(۱) اور کیف ما التفق میں حرج نہیں ہے۔(۲)

(۱) ومنہا وضع الحدود والتزام الکیفیات والہیئات والمعینۃ والتزام العبادات المعینۃ في أوقات معینۃ لم یوجد لہا ذلک التعین في الشریعۃ۔ (أبو إسحاق، الشاطبي، الاعتصام، ’’الباب الأول في تعریف البدع إلخ‘‘: ج ۱، ص: ۲۵، ۲۶)…(۲) قولہ بزیارۃ القبور أي لا بأس بہا بل یندب کما في البحر عن المجتبیٰ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في زیارۃ القبور‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۰)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص508