نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:کھانے کے بعد صاحب خانہ کے گھر کے لئے خیر وبرکت کی دعاء مقصود ہو تو عمومی یا انفرادی طور پر دعاء مانگنے میں کوئی حرج نہیں ہے البتہ اس کا التزام درست نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صاحب خانہ کے لئے ضیافت کے موقع پر دعاء کا ثبوت ملتا ہے جس کو امام مسلم نے صحیح مسلم میں نقل کیا ہے: ’’عن عبد اللّٰہ بن بسر رضي اللّٰہ عنہ، قال: نزل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی أبي قال: فقربنا إلیہ طعاما ووطبۃ فأکل منہا ثم أتی بتمر فکان یأکلہ ویلقی النوی بین إصبعیہ ویجمع السبابۃ والوسطیٰ، قال شعبتہ: ہو ظني وہو فیہ إن شاء اللّٰہ إلقاء النوی بین الإصبعین ثم أتی بشراب فشربہ ثم ناولہ الذي عن یمینہ قال: فقال أبي: وأخذ بلجام دابتہ أدع اللّٰہ لنا فقال: اللہم بارک لہم في ما رزقتہم واغفرلہم وارحمہم‘‘(۱)
امام نوی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے:
’’وفیہ استحاب طلب الدعاء من الفاضل ودعاء الضیف بتوسعۃ الرزق والمغفرۃ والرحمۃ وقد جمع صلی اللّٰہ علیہ وسلم في ہذا الدعاء خیرات الدنیا والآخرۃ‘‘(۲)
کھانے کے بعد سنت طریقہ یہ ہے کہ: اللہ بتارک وتعالیٰ کی حمد وثناء کرے جیسا کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت میں نقل کی ہے۔
’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أکل طعاما فقال: الحمد للّٰہ الذي أطعمني ہذا ورزقنیہ من غیر حول منی ولا قوۃ غفرلہ ما تقدم من ذنبہ‘‘(۳) ’’وأیضاً: عن أبي سعید قال: کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا أکل أو شرب قال: الحمد للّٰہ الذي أطعمنا وسقانا وجعلنا مسلمین‘‘(۱)

مذکورہ احادیث اور وضاحت سے ثابت ہوا کہ کھانے کے بعد بطور شکر دعاء مانگنا مندوب ومستحب ہے اور اگر کوئی ساتھی اور رفقاء کھانے سے فارغ نہیں ہوئے تو دعاء میں اپنی آواز کو پست رکھنا مسنون ہے کہ کہیں دوسرے حضرات آواز سن کر کھانے سے رک نہ جائیں؛ اس لیے انتظار کر لے یا آہستہ سے دعاء پڑھ لے۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص395
 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:پیشاب کی جگہ ناپاک ہے، اگر اس سیٹ پر بیٹھا اور کپڑا پسینہ سے اس قدر تر ہوگیا کہ پسینہ سے سیٹ گیلی ہوگئی تو اس سے کپڑا ناپاک ہوجائے گا اور اگر کپڑا گیلا نہیں ہوا، تو ناپاکی کا حکم نہیں ہوگا۔(۲)

(۲) کما لا ینجس ثوب جاف طاھر في ثوب نجس رطب لا ینعصر الرطب لو عصر۔ (الشرنبلالي، نورالإیضاح، ص:۴۱)؛ و إذا لف الثوب النجس في الثوب الطاھر والنجس رطب، فظھرت نداوتہ في الثوب الطاھر، لکن لم یصر رطبا بحیث لو عصر یسیل منہ شيء ولا یتعاطر، فالأصح أنہ لا یصیر نجساً۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیۃ، کتاب الطہارۃ، الباب السابع، في النجاسۃ و أحکامھا، الفصل الثاني في الأعیان النجسۃ، والنوع الثاني المخففۃ، ومما یتصل بذلک مسائل، ج۱، ص:۱۰۲)؛ و لف طاھر في نجس مبتل بماء إن بحیث لو عصر تنجس و إلا فلا ۔۔۔ و اختار الحلواني أنہ لا ینجس إن کان الطاھر بحیث لا یسیل فیہ شيء ولا یتقاطر لو عصر، وھو الأصح کما في الخلاصۃ (ابن عابدین، رد المحتار، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب في الفرق بین الاستبراء والاستنقاء والاستنجاء، ج۱، ص:۵۶۱)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص450

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس سے وضو پر کوئی فرق نہیں پڑتا، دونوںقسم کے وضو اپنی اپنی جگہ پر صحیح ہیں اور باقی ہیں، دونوں سے نماز ادا کرنا صحیح ہے۔(۱)

(۱) (مفتی رشید احمد لدھیانویؒ، احسن الفتاویٰ، ’’کتاب الطہارۃ‘‘ج۲، ص:۲۴، زکریا بک ڈپو دیوبند) منھا ما یخرج من السبیلین من البول والغائط والریح الخارجۃ من الدبر والودي والمذي والمني الخ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل الخامس: في نواقض الوضوء‘‘ ج۱،ص:۶۰ مکتبۃ فیصل دیوبند) ، و منھا مایخرج من غیر السبیلین: و یسیل إلی ما یظھر من الدم والقیح الخ۔ ( جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الفصل الخامس في نواقض الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۶۱)؛ وضو خروج نجاست سے ٹوٹتا ہے اور ستر کھلنا یہ نجاست کا خروج نہیں ہے۔ بحرمیں ہے:و ینقضہ خروج نجس۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ‘‘،ج۱، ص:۶۶)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص212

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ شخص اگر واقعی طور پر ایسا ہی ہے اور اس کے مذکورہ حالات ہیں، تو وہ مرتکب گناہ کبیرہ ہوکر فاسق ہوگیا اور امامت فاسق کی مکروہ تحریمی ہے، دیندار شخص کوامام بنانا چاہیے۔(۱)

(۱) ویکرہ تقدیم العبد … والفاسق لأنہ لا یہتم لأمر دینہ، ش: فیردد فیہ الناس وفیہ تقلیل الجماعۃ … وفي المحیط: لو صلی خلف فاسق أو مبتدع یکون محرزاً ثواب الجماعۃ لقولہ علیہ السلام: صلوا خلف کل بر وفاجر۔ (العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب في الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۳۳، مکتبہ نعیمیہ دیوبند)
(قولہ وفاسق) من الفسق وہو الخروج عن الاستقامۃ المراد من یرتکب الکبائر۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸)

 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص284

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں نہ ملاکر بچھانا ضروری ہے نہ علا حدہ کر کے بچھانا ضروری ہے، بلکہ ایسے طریقہ پر مصلی بچھایا جائے کہ پیچھے کے مقتدی کو رکوع وسجود میں اور اٹھنے میں دقت نہ ہو۔(۱)
(۱) (والحائل لا یمنع) الاقتداء (إن لم یشتبہ حال إمامہ) بسماع أو رؤیۃ ولو من باب مشبک یمنع الوصول في الأصح (ولم یختلف المکان) حقیقۃ کمسجد وبیت في الأصح قنیۃ، ولا حکما عند اتصال الصفوف؛ ولو اقتدی من سطح دارہ المتصلۃ بالمسجد لم یجز لاختلاف المکان، درروبحر وغیرہما، وأقرہ المصنف لکن تعقبہ في الشرنبلالیۃ ونقل عن البرہان وغیرہ أن الصحیح اعتبار الاشتباہ فقط. قلت: وفي الأشباہ وزواہر الجواہر ومفتاح السعادۃ أنہ الأصح. وفي النہر عن الزاد أنہ اختیار جماعۃ من المتأخرین۔ (قولہ: ولم یختلف المکان) أی مکان المقتدي والإمام. وحاصلہ أنہ اشترط عدم الاشتباہ وعدم اختلاف المکان، ومفہومہ أنہ لو وجد کل من الاشتباہ والاختلاف أو أحدہما فقط منع الاقتداء، لکن المنع باختلاف المکان فقط فیہ کلام یأتي (قولہ: کمسجد وبیت) فإن المسجد مکان واحد، ولذا لم یعتبر فیہ الفصل بالخلاء إلا إذا کان المسجد کبیرا جدا وکذا البیت حکمہ حکم المسجد في ذلک لا حکم الصحراء کما قدمناہ عن القہستاني۔ وفي التتارخانیۃ عن المحیط: ذکر السرخسي إذا لم یکن علی الحائط العریض باب ولا ثقب؛ ففي روایۃ یمنع لاشتباہ حال الإمام، وفي روایۃ لا یمنع وعلیہ عمل الناس بمکۃ، فإن الإمام یقف في مقام إبراہیم، وبعض الناس وراء الکعبۃ من الجانب الآخر وبینہم وبین الإمام الکعبۃ ولم یمنعہم أحد من ذلک۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ مطلب الکافي للحاکم جمع کلام محمد في کتبہ ‘‘: ج۲، ص: ۳۳۳، ۳۳۶)

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص401

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام صاحب کو ایسی فضول حرکتوں سے احتراز کرنا چاہئے ان حرکتوں سے نماز مکروہ ہوجاتی ہے۔(۱)
’’ویکرہ أیضا: أن یکف ثوبہ وہو في الصلاۃ بعمل قلیل بأن یرفع من بین یدیہ أو من خلفہ عند السجود‘‘(۲)

(۱) وکرہ کفہ أي رفعہ ولو لتراب، قولہ أي رفعہ أي سواء کان من بین یدیہ أو من خلفہ عند الانحطاط للسجود۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب في الکراہۃ التحریمیۃ والتنزیہیۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۶، زکریا)
ولا یتشاغل بشيء غیر صلاتہ من عبث بثیابہ، أو بلحیتہ، لأن فیہ ترک الخشوع؛ لما روي أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم رأی رجلا یعبث بلحیتہ في الصلاۃ، فقال: أما ہذا لو خشع قلبہ لخشعت جوارحہ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ، بیان ما یستحب في الصلاۃ و ما یکرہ‘‘: ج ۱، ص: ۵۰۳، ۵۰۴، زکریا)
(۲) إبراہیم الحلبي، حلبي کبیري: ص: ۳۳۷۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص137

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مفتی بہ قول کے رو سے یہ سنتیں موکدہ ہیں اس لیے ان کو پڑھنا چاہئے؛ لیکن اگر جماعت کا وقت ہوگیا اور ان کے پڑھنے سے جماعت میں تاخیر ہوگی اور لوگ انتظار کرنے میں پریشانی محسوس کریں گے تو ان کو پڑھے بغیر نماز پڑھا سکتا ہے۔ ان سنتوں کو فرائض کے بعد پڑھ لے۔(۱)

(۱) ولا یقضیہا إلا بطریق التبعیۃ لقضاء فرضہا قبل الزوال لابعدہ في الأصح … بخلاف سنۃ الظہر۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، باب إدراک الفریضۃ ج ۲، ص: ۵۱۲)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص364

متفرقات

Ref. No. 40/987

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ لفظ مذکور کو کسی بھی طرح لکھیں طلاق واقع نہیں ہوگی۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 41/1054

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

  We could not find any clear specification in Quran and Hadith about the total number of Sahaba. Hafiz ibne Salah wrote in Muqaddama ibne Salah with  the reference to Imam abu Zur’aa Razi that the number of Sahaba was 1,14000.

۔ قبض رسول اللہ ﷺ عن ماۃ الف واربعۃ عشر الفا من الصحابۃ ممن روی عنہ وسمع منہ وفی روایۃ ممن رآہ وسمع منہ (مقدمہ ابن صلاح 1/400)۔

Moreover, Hafiz ibne Iraqi wrote that it is very difficult to mention the exact number of Sahaba for they moved to different locations in the world. While writing the occurrence of Kab bin malik in tabuk when he fell behind, Imam Bukhari wrote:

اصحاب رسول اللہ کثیر لایجمعھم کتاب حافظ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ 1/88) ۔

 

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

Death / Inheritance & Will

Ref. No. 1045/41-217

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Maximum 7 shares could be in a big animal slaughtered in Qurbani. In a small animal there must be only one share. A goat cannot be slaughtered in the name of more than one person. However, if a person offers a goat in qurbani in his name and sends its rewards to the persons mentioned above by you, there is nothing wrong in doing so.  

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband