Frequently Asked Questions
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 39 / 884
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر مسجد میں دینا جبراً نہ ہو بلکہ دینے والے کی مرضی سے ہی ہو تو مذکورہ شکل اختیار کرنے کی گنجائش ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 41/1056
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
‘Alaihis Salam’ is mainly used for prophets. It is not allowable to use it after the names of others.
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
ذبیحہ / قربانی و عقیقہ
Ref. No. 1501/42-981
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔بڑے جانور کو اگر قابو میں کرنا مشکل ہو تو آسانی کے لئےجے سی بی کا استعمال کرنے کی گنجائش ہوگی، البتہ احترام پورا ملحوظ رہے اور اس کا خیال رکھا جائے کہ کسی طرح توہین کی شکل پیدا نہ ہو، اور جانور کو بلاوجہ کی کوئی تکلیف بھی نہ ہو۔
والذبح ما أعد للذبح وقد صح أن النبي عليه الصلاة والسلام نحر الإبل وذبح البقر والغنم إن شاء نحر الإبل في الهدايا قياما أو أضجعها وأي ذلك فعل فهو حسن والأفضل أن ينحرها قياما لما روي أنه عليه الصلاة والسلام " نحر الهدايا قياما " وأصحابه رضي الله عنهم كانوا ينحرونها قياما معقولة اليد اليسرى " ولا يذبح البقر والغنم قياما " لأن في حالة الاضطجاع المذبح أبين فيكون الذبح أيسر والذبح هو السنة فيهما.(الھدایۃ، باب الھدی 1/182)
قال: ويستحب أن يحد الذابح شفرته لقوله - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ -: «إن الله كتب الإحسان على كل شيء، فإذا قتلتم فأحسنوا القتلة، وإذا ذبحتم فأحسنوا الذبحة وليحد أحدكم شفرته وليرح ذبيحته» ويكره أن يضجعها ثم يحد الشفرة؛ لما روي «عن النبي - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - أنه رأى رجلا أضجع شاة وهو يحد شفرته فقال: " لقد أردت أن تميتها موتات هلا حددتها قبل أن تضجعها» (البنایۃ شرح الھدایۃ، الذبح باللیطۃ 11/560)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 1682/43-1299
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ انقلاب ماہیت اور چیز ہے اور اختلاط (تجزیہ و تبدیل) اور چیز ہے، اور دونوں کے حکم میں فرق ہے۔ انقلاب ماہیت یعنی جس میں تمام حرام اجزاء مکمل طور پر تبدیل ہوگئے ہوں، یا صرف بنیادی جزء کی تبدیلی ہوئی ہو تو احناف کے نزدیک وہ پاک ہے۔ مثلا شراب میں نشہ کا ہونا بنیادی وصف ہے، اس کی تبدیلی ہوجائے تو باقی اوصاف کا پایا جانا مضر نہیں ہے، بلکہ وہ چیز حلال ہوجائے گی۔ صابن میں ناپاک تیل اورناپاک چربی کی ماہیت تبدیل ہوتی ہے یا نہیں ، اس میں بھی علماء کا اختلاف ہے، بعض نے عموم بلوی کی وجہ سے اس کے جواز کا فتوی دیا ہے اور بعض نے انقلاب ماہیت کی وجہ سے جواز کا فتوی دیا ہے۔ اس لئے صابن کا استعمال جائز قراردیاگیاہے۔ اور اگر کسی چیز میں انقلاب ماہیت نہ ہو بلکہ بنیادی عمل تجزیہ و اختلاط کا ہو تو ایسی صورت میں پہلا حکم باقی رہے گا، کیونکہ اس ترکیبی عمل میں صرف اس حرام شیء کا نام، بو اور ذائقہ بدلا ہے نہ کہ اس کی حقیقت۔ اس لئے اگر وہ پہلے حرام تھی تو اب بھی حرام رہے گی۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے : فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند 2/454)
لأنَّ الشَّرْعَ رَتَّبَ وَصْفَ النِّجَاسَةِ عَلٰی تِلْکَ الْحَقِیْقَةِ وَتَنْتَفِی الْحَقِیْقَةُ باِنْتِفَاءِ بَعْضِ أجْزَاءِ مَفْہُوْمِہَا، فَکَیْفَ بِالْکُلِّ فَانَّ الْمِلْحَ غَیْرُ الْعَظْمِ وَاللَّحْمِ، فاذَا صَارَ مِلْحًا تَرَتَّبَ حُکْمُ الْمِلحِ“․ (ردالمحتار:۱/۲۳۹، رشیدیہ) انَّہ یُفْتیٰ بہ لِلْبَلْویٰ“ (ردالمحتار: ۱/۱۹، البحرالرائق:۱/۴۹۴) (جدید فقہی تحقیقات: ۱۰/۱۱۱، مکتبہ نعیمیہ دیوبند) (کفایت المفتی: ۲/۳۳۴، چوتھا باب) (فتاویٰ مظاہرعلوم:۱/۲۲)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Miscellaneous
Ref. No. 1975/44-1916
The correct pronunciation in English is Zinneerah (Zaa with Kasra, Noon with Tashdeed and Kasra, Yaa sakin, then Raa with Fat’ha and finally there is a haa). This was the name of a Sahabia. So the name is correct but I could not find its meaning in the dictionary. Moreover, the name zunaira is not correct. It can also be written ‘Zinnira’. (usudul Ghabah 7/124 No. 6948
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
حج و عمرہ
Ref. No. 2057/44-2162
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔
و باللہ التوفیق: طائف سے مکہ آتے ہوئے میقات آتی ہے اور احناف کے یہاں میقات سے بلا احرام کے گزرنا جائز نہیں ہے گنہگار ہوگا اور اس کو میقات جا کر احرام باندھنااور حج یا عمرہ کرنا لازم ہوگااس لیے بغیر احرام کے میقات سے گزرنے کی وجہ سے ایک دم لازم ہوتاہے لیکن اگر کوئی واپس میقات جاکر احرام باندھ کر حج یا عمرہ کرلے تو دم ساقط ہوجاتاہے ۔آپ نے کہاں یہ مسئلہ دیکھا نہیں معلوم ۔
ولا یجوز للآفاقی أن یدخل مکة بغیر إحرام نوی النسک أو لا ولو دخلہا فعلیہ حجة أو عمرة کذا فی محیط السرخسی(الفتاوی الہندیة:۱/۲۲۱)
وفی الدرالمختار: (وَ) یَجِبُ (عَلَی مَنْ دَخَلَ مَکَّةَ بِلَا إحْرَامٍ) لِکُلِّ مَرَّةٍ (حَجَّةٌ أَوْ عُمْرَةٌ) فَلَوْ عَادَ فَأَحْرَمَ بِنُسُکٍ أَجْزَأَہُ عَنْ آخِرِ دُخُولِہِ، وَتَمَامُہُ فِی الْفَتْحِ (وَصَحَّ مِنْہُ) أَیْ أَجْزَأَہُ عَمَّا لَزِمَہُ بِالدُّخُولِ (لَوْ أَحْرَمَ عَمَّا عَلَیْہِ) مِنْ حَجَّةِ الْإِسْلَامِ أَوْ نَذْرٍ أَوْ عُمْرَةٍ مَنْذُورَةٍ لَکِنْ (فِی عَامِہِ ذَلِکَ) لِتَدَارُکِہِ الْمَتْرُوکَ فِی وَقْتِہِ (لَا بَعْدَہُ) لِصَیْرُورَتِہِ دَیْنًا بِتَحْوِیلِ السَّنَةِ(الدرالمختار مع ردالمحتار:۳/۲۶۶ط:زکریا دیوبند)
(جَاوَزَ الْمِیقَاتَ) بِلَا إحْرَامٍ (فَأَحْرَمَ بِعُمْرَةٍ ثُمَّ أَفْسَدَہَا مَضَی وَقَضَی وَلَا دَمَ عَلَیْہِ) لِتَرْکِ الْوَقْتِ لِجَبْرِہِ بِالْإِحْرَامِ مِنْہُ فِی الْقَضَاءِ(الدرالمختار)وفی ردالمحتار: (قَوْلُہُ لِجَبْرِہِ بِالْإِحْرَامِ مِنْہُ فِی الْقَضَاءِ) عِلَّةٌ لِقَوْلِہِ وَلَا دَمَ عَلَیْہِ إلَخْ وَضَمِیرُ مِنْہُ لِلْوَقْتِ أَشَارَ بِہِ إلَی أَنَّہُ لَا بُدَّ فِی سُقُوطِ الدَّمِ مِنْ إحْرَامِہِ فِی الْقَضَاءِ مِنْ الْمِیقَاتِ کَمَا صُرِّحَ بِہِ فِی الْبَحْرِ، فَلَوْ أَحْرَمَ مِنْ الْمِیقَاتِ الْمَکِّیِّ لَمْ یَسْقُطْ الدَّمُ وَہُوَ مُسْتَفَادٌ أَیْضًا مِمَّا قَدَّمْنَاہُ عَنْ الشُّرُنْبُلَالِیَّةِ(الدرالمختار مع ردالمحتار :۳/۶۲۷ط:زکریا دیوبند)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 2142/44-2207
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس کمپنی میں پیسے جمع کرنے پر فکس نفع ملتاہو، اس میں پیسے لگاکر نفع کمانا اور اس سے جڑنا شرعا جائز نہیں ہے۔ اس لئے آپ ایسی کمپنی میں پیسے لگائیں جو شرعی ضابطوں کے مطابق کاروبار کرتی ہو او رمنافع شیئرز کے حساب سے فیصدی میں تقسیم کرتی ہو ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:عیدالفطر اور عیدالاضحی میں عیدگاہ تک جاتے ہوئے راستہ میں تکبیر تشریق (عید الفطر میں آہستہ آہستہ اور عید الاضحی میں بلند آواز کے ساتھ) پڑھنا مسنون و مستحب ہے(۱) اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے پس مذکورہ صورت میں اس کے برعکس جھنڈے لے کر جلوس بناکر نظمیں اور اشعار پڑھتے ہوئے جانا یقینا طریقہ مسنونہ کے خلاف ہونے کی وجہ سے بدعت ہے جس سے پرہیز کرنا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے۔(۲)
(۱) (اللّٰہ أکبر اللّٰہ أکبر لا إلہ إلا اللّٰہ واللّٰہ أکبر اللّٰہ أکبر وللّٰہ الحمد) ہو المأثور عن الخلیل۔ والمختار أن الذبیح إسماعیل۔ فقال: تکبیر التشریق سنۃ ماضیۃ نقلہا أہل العلم وأجمعوا علی العمل بہا۔ قال العینی: صفتہ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب العیدین‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۷)
(۲) من تعبد للّٰہ تعالیٰ بشيء من ہذہ العبادات الواقعۃ في غیر أزمانہا فقد تعبد ببدعۃ حقیقیۃ لا إضافیۃ فلا جہۃ لہا إلی المشروع بل غلبت علیہا جہۃ الابتداع فلا ثواب فیہا۔ (أبو اسحاق الشاطبي، الاعتصام: ج ۲، ص: ۲۶)
عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص504
متفرقات
Ref. No. 2490/45-3826
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شکار مباح ہوتاہے، اور اس کا مالک وہی شخص ہوتاہے جو اس کا شکار کرے، کوئی دوسرا اس میں شریک نہیں ہوتاہے۔ اس لئے شخص مذکور نے اگر زمین کو اس کام کے لئے تیار نہیں کیا ہے تو محض اس کے کھیت میں شکار کے آجانے سے اس کی شراکت داری قائم نہیں ہوگی، اور یہ عقد درست نہیں ہوگا۔ البتہ اگر کھیت والا اس کھیت میں شکار کے لئےدانے ڈالتاہےیا اسی طرح کوئی ایسا کام کرتاہے جس سے شکار کرنے میں مدد ملے تو پھر ایک مناسب اجرت لینا جائز ہوگا۔
اذا فرخ طیر فی ارض طیر فھو لمن اخذہ واذا باض فیھا وکذا اذا تکنس فیھا ظبی لانہ مباح سبقت یدہ الیہ (ھدایہ 3/104)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اسلام کی صحیح ترجمانی اور اس کی اشاعت کی ذمہ داری انبیاء علیہم السلام کے رخصت ہوجانے کے بعد علماء پر عائد ہوتی ہے، اس ذمہ داری کو انبیاء نے بدرجۂ اتم پورا فرمایا: علم کے ذریعہ بھی، عمل کے ذریعہ بھی، اقوال سے بھی، افعال سے بھی، پوری حکمت ودانشمندی کے ساتھ اس فرض کو پورا فرمایا(۱) اور اب یہ ذمہ داری علماء پر عائد ہوتی ہے کہ اسلام کو اپنے صحیح مفہوم کے ساتھ پیش کریں اس ذمہ داری کی سبکدوشی کے مختلف طریقے ہیں، ان میں سے ایک طریقہ تبلیغی جماعت کا بھی ہے، جس کا ایک مخصوص طریقہ ہے، مسلمانوں کو نماز، روزے سے قریب کرنے میں اس طریقہ نے بڑا اچھا اثر دکھایا، یہ اشاعت اسلام انبیاء علیہم السلام نے بھی اور ان کے بعد والے علماء نے بھی بیان، اجتماعات، ومدارس دینیہ، وغیرہ کے ذریعہ پروان چڑھائی، نیز احادیث میں بہت سی چیزیں اور اعمال ایسے ملتے ہیں جن پر ایمان پر خاتمہ کی خوش خبری ملتی ہے، نیز گشت مختلف طریقوں میں سے ایک ہے، جو اس کو چاہے اپنالے اور جو اس کے علاوہ دوسرا طریقہ دعوت، حکمت، موعظت کے ساتھ اپنالے اس کو بھی مطعون نہیں کیا جاسکتا (۱) اس وضاحت کے بعد عرض ہے کہ جن صاحب نے مذکورہ فی السوال تقریر فرمائی انہیں سے اس کی وضاحت طلب کی جائے، سیاق و سباق کی وجہ سے ہوسکتا ہے کہ مفہوم کچھ اور ہو یا کوئی لفظ ادھر ادھر ہوگیا ہو اگر کوئی کوتاہی ہوجائے اور جس سے کوتاہی ہو وہ مومن اور نیک ہو تو اس کوباعث نزاع بنانے سے بہتر وضاحت طلب کرنا ہے ورنہ درگذر کرنا ہے۔
(۱) التذکیر علی المنابر للوعظ والاتعاظ سنۃ الأنبیاء والمرسلین۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’فروع یکرہ إعطاء سائل المسجد‘‘: ج ۶، ص: ۴۲۱)
(۱) {أُدْعُ إِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِيْ ھِيَ أَحْسَنُط} (سورۃ النحل: ۱۲۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص301