طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 2855/45-4498 الجواب بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ وقفہ وقفہ سے نکلنے والا خون بھی اگر اتنی مقدار میں ہے کہ اگر ایک ساتھ نکلتا تو بہنے کے قابل ہوجاتا تو ایسی صورت میں وضو ٹوٹ جائے گا، ایک ہی مجلس میں خون کا اپنی جگہ سے نکل کر بہنا یا سیلان کی مقدار کو پہونچنا شرط نہیں ہے۔ وينقضه) خروج منه كل خارج (نجس) بالفتح ويكسر(منه) أي من المتوضئ الحي معتادا أو لا، من السبيلين أو لا (إلى ما يطهر) بالبناء للمفعول: أي يلحقه حكم التطهير.ثم المراد بالخروج من السبيلين مجرد الظهور وفي غيرهما عين السيلان ولو بالقوة، لما قالوا: لو مسح الدم كلما خرج ولو تركه لسال نقض وإلا لا، كما لو سال في باطن عين أو جرح أو ذكر ولم يخرج."(شامی، 134/1) واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 2854/45-4497 الجواب بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اعضائے وضو کو دھونے میں اس قدر گیلا کرنا کافی ہے کہ ایک یا دو قطرے ٹپک جائیں، اس لئے کوشش ہو کہ گرم پانی کی تھوڑی مقدار سے وضو کرلیا جائے، اور باقی پانی پینے کے لئے بچالیاجائے، اور اگر پانی صرف پینے کے بقدر ہی ہو، تو پھر زمین کی جنس سے کسی چیز پر تیمم کیاجاسکتاہے۔ جو چیز جلانے سے نہ جلے، پگھلانے سے نہ پگھلے وہ زمین کی جنس سے ہے۔ ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ جب ایسے علاقہ میں جانے کا ارادہ ہو تو مٹی کا ایک ٹکڑا اپنے ساتھ لے جائے، تاہم اگر وضو کے لئے پانی نہ ہو اور تیمم کے لئے مٹی یا اس کے جنس کی کوئی چیز میسر نہ ہو تو ایسی صورت میں نماز کے وقت میں تشبہ بالمصلین کرے یعنی نمازیوں کی طرح ہیئت اختیار کرے البتہ قرآن کی تلاوت نہ کرے ، بعد میں اس نماز کی قضا کرے، گرچہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے قول کے مطابق ایسی صورت میں نمازکو موٴخر کرنے کی گنجائش ہے۔(الدر المختار مع رد المحتار: 1/252، سعید) واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2852/45-4494 الجواب بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ساہیوال سے آپ کی منزل مقصود نورپورتھل کی مسافت دیکھی جائے گی، اور یہ مسافت یقینا مسافت سفر ہے، اس لئے آپ قصر کریں گے۔ منزل مقصود کے لئے جو راستہ آپ نے اختیار کیا ہے اس کے اعتبار سے سفر کی مسافت پوری ہوجاتی ہے اس لئے آپ مسافر ہوں گے اور نماز قصر کریں گے۔ "ولو لموضع طريقان: أحدهما مدة السفر والآخر أقل قصر في الأول لا الثاني. (قوله: قصر في الأول) أي ولو كان اختار السلوك فيه بلا غرض صحيح، خلافاً للشافعي، كما في البدائع". (لدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 123) "وتعتبر المدة من أي طريق أخذ فيه، كذا في البحر الرائق. فإذا قصد بلدةً وإلى مقصده طريقان: أحدهما مسيرة ثلاثة أيام ولياليها، والآخر دونها، فسلك الطريق الأبعد كان مسافراً عندنا، هكذا في فتاوى قاضي خان. وإن سلك الأقصر يتم، كذا في البحر الرائق". (الفتاوى الهندية (1/ 138) "وقال أبو حنيفة: إذا خرج إلى مصر في ثلاثة أيام وأمكنه أن يصل إليه من طريق آخر في يوم واحد قصر" (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1/ 94) واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref. No. 1080 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔  سود کی رقم  مال حرام ہے،اور مال حرام کو بلاتملیک فقراء،مسجد کی تعمیر میں لگانا یا رمضان میں کھانے کی چیزوں میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ مسجد کے بیت الخلاء کی تعمیرمیں بھی استعمال کرنا درست نہیں  ہے۔  سود کی رقم کسی غریب کو بلا نیت ثواب دیدینا لازم ہے۔  اما اذا کان عند رجل مال خبیث فاما ان ملکہ بعقد فاسد او حصل لہ بغیر عقد ولایمکنہ ان یردہ الی مالکہ ویرید ان یدفع مظلمتہ عن نفسہ فلیس لہ حیلة الا ان یدفعہ الی الفقراء۔ ﴿بذل المجھود﴾ واللہ اعلم بالصواب

 

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 39 / 860

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:. شریعت نے نکاح میں کفو کا اعتبار کیا ہے۔  اور والدین کے منع کرنے کے باوجود مذکورہ شخص کا بے جا اصرار بہت غلط ہے؛ اولیاء کے لئے یہ شرم کی بات ہوتی ہے۔ اس سلسلہ میں کسی قریبی شرعی دارالقضاء سے رجوع کرلیا جائے اور قاضی صاحب کے فیصلہ کے مطابق عمل کیا جائے تو بہتر ہے۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No.41/856

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایزی لوڈ کے بارے میں ہمیں تفصیلات کا علم نہیں ہے۔ آپ تفصیلات  کے ساتھ مشتبہ امور کی نشاندہی کریں تاکہ جواب میں سہولت ہو۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

تجارت و ملازمت

Ref. No. 928/41-50B

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اپنی زمین کسی کو اس طرح کرایہ پر دینا کہ اس میں جو بھی غلہ پیدا ہوگا وہ مالک زمین اور کاشتکار میں نصف نصف  تقسیم ہوگا، یہ معاملہ  درست ہے۔  البتہ اس کا خیال رہے کہ غلہ کی پیداوار کم یا زیادہ بھی ہوسکتی ہے اس لئے فی صد ہی متعین ہو، اگر کسی نے اپنے لئے  کچھ غلہ متعین کرلیا کہ پیداوار جو بھی مجھے اس میں سے اتنی مقدار پہلے نکال دی جائے تو ایسا کرنا جائز نہیں ہوگا۔

فكل شرط يكون قاطعا للشركة يكون مفسدا للعقد ومنها أن يكون ذلك البعض من الخارج معلوم القدر من النصف أو الثلث أو الربع أو نحوه ومنها أن يكون جزءا شائعا من الجملة حتى لو شرط لأحدهما قفزان معلومة لا يصح العقد وكذا إذا ذكرا جزءا شائعا وشرطا زيادة أقفزة معلومة لا تصح المزارعة. (الفتاوی الھندیۃ 5/235)  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1135/42-353

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مذکورہ میں پہلے شخص پر دیت واجب نہیں ہوگی، اس لئے کہ سانپ نے دوسرے کو نقصان پہونچایا ہے، اسی طرح دوسرے اور تیسرے پر بھی دیت واجب نہیں  ہوگی۔ چوتھے شخص پر دیت واجب ہونے کی یہ تفصیل ہے کہ آخری یعنی پانچویں شخص کو اگر سانپ نے گرتے ہی نہیں کاٹا بلکہ پانچواں شخص اگر بچنا چاہتا تو بچ سکتا تھا تو پھر چوتھے شخص پر بھی  دیت واجب نہیں ہوگی۔

یہ واقعہ حضرت امام صاحب سے علماء کرام کی ایک مجلس سے پوچھاگیا تھا جس مجلس میں ابن ابی لیلی اور سفیان ثوری وغیرہ کبار فقہاء موجود تھے تو امام صاحب نے یہی جواب دیا تھا۔ ۔ اور حاضرین علماء نے اس کی تصویب کی تھی۔۔

(وقعت حية عليه فدفعها عن نفسه فسقطت على آخر فدفعها عن نفسه فوقعت على ثالث فلسعته) أي الثالث (فهلك) فعلى من الدية؟ هكذا سئل أبو حنيفة بحضرة جماعة، فقال: لا يضمن الأول لأن الحية لم تضر الثاني، وكذلك لا يضمن الثاني والثالث لو كثروا وأما الأخير (فإن لسعته مع سقوطها) فورا (من غير مهلة فعلى الدافع الدية) لورثة الهالك (وإلا) تلسعه فورا (لا) يضمن دافعها عليه أيضا فاستصوبوه جميعا، وهذه من مناقبه(ردالمحتار 6/559)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 1237/42-554

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال اگر پہلے کوئی طلاق نہیں دی تھی، تو اس خلع سے ایک طلا ق بائن واقع ہوگئی۔ دوبارہ نکاح کرکے دونوں ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔ البتہ شوہر آئندہ دو طلاقوں کا مالک ہوگا۔

وحکمہ ان الواقع بہ ای بالخلع وبلفظ البیع والمباراۃ ولوبلامال وبالطلاق الصریح علی مال طلاق بائن (ردالمحتار باب الخلع ۳/۴۴۴)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

عائلی مسائل

Ref. No. 1359/42-770

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ لڑکی غیرمحرم ہے، بالغ ہونے کے بعد اس سے پردہ لازم ہوگا۔ البتہ اگر عورت اپنا دودھ پلادے تو پھر عورت رضاعی ماں اور شوہر رضاعی باپ ہوجائےگا اور پردہ نہیں ہوگا۔ عورت کو دودھ نہ آتاہو تو کسی ڈاکٹر سے رابطہ کریں ، نیز اگر شوہر کی ماں دودھ پلادے تو اس سے بھی لڑکی محرم ہوجائے گی اور پردہ لازم نہیں ہوگا۔

فَلَمَّا قَضٰیْ زَیدٌ مِّنْھَا وَطَرًا زَوَّجْنٰکَھَا لِکَیْ لاَ یَکُوْنَ عَلٰی الْمُوْمِنِیْنَ حَرَجٌ فِیْ اَزْوَاجِ اَدْعِیَائِھِمْ اِذَا قَضَوْا مِنْھُنَّ وَطَرًا (سورۃ الاحزاب 37) (قوله: رضاع) فيحرم به ما يحرم من النسب إلا ما استثني (شامی فصل فی المحرمات 3/28)

لا خلاف بين الأمة أنه يحرم من الرضاع ما يحرم من النسب؛ لقوله تعالى: (وأمهاتكم اللاتى أرضعنكم وأخواتكم من الرضاعة) [النساء: 23] ، فإذا كانت الأم من الرضاع محرمة، كان كذلك زوجها، وصار أبًا لمن أرضعته زوجته؛ لأن اللبن منهما جميعًا، وإذا كان زوج التى أرضعت أبًا كان أخوه عمًا، وكانت أخت المرأة خالة، يحرم من الرضاع العمات، والخالات، والأعمام، والأخوال، والأخوات، وبناتهن، كما يحرم من النسب، هذا معنى قوله عليه السلام: (الرضاعة تحرم ما تحرم الولادة) (شرح صحیح البخاری لابن بطال، باب وامھاتکم الاتی ارضعنکم - النساء 7/193)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند