Frequently Asked Questions
طلاق و تفریق
Ref. No. 1145/42-367
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ خلع سے عورت پر ایک طلاق بائن واقع ہوتی ہے۔اس لئے خلع کے بعد بھی عورت پر عدت گذارنا لازم ہے۔ حیض والی عورت کے لئے عدت کی مدت تین حیض ہے، اور جن عورتوں کو حیض نہیں آتا ہے ان کے لئے عدت تین ماہ ہے۔ اور حمل والی عورت کی عدت کی مدت وضع حمل یعنی بچہ کی ولادت ہے۔
والمطلقات يتربصن بأنفسهن ثلاثة قروء (سورۃ البقرہ 228) واللائي يئسن من المحيض من نسائكم إن ارتبتم فعدتهن ثلاثة أشهر واللائي لم يحضن وأولات الأحمال أجلهن أن يضعن حملهن (سورۃ الطلاق 4)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
آداب و اخلاق
Ref. No. 1253/42-586
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ یقینا اردو میں بہت کچھ موجود ہے اور اس کی حفاظت کی کوشش کرنا ایک ملی ضرورت کی تکمیل ہے، تاہم جو لوگ دوسری زبان اپنی سہولت سے استعمال کرتے ہیں، ان پر کوئی ملامت ہے نہ کوئی گناہ ہے، نہ وہ کسی جرم کے مستحق ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 1383/42-799
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ محض شک کی وجہ سے تجدید نکاح کرنا وسوسہ کو جنم دینا ہے، اس لئے تجدید نکاح کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اور اگر تجدید کرلی تو کوئی قباحت بھی نہیں ہے ، اور تجدید کے بعد ہمبستری لازم نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1502/43-1136
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔اگر پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ سے پہلے کوئی تشہد پڑھ لے تو اس پر سجدہ سہو نہیں ہے اور اگر دوسری رکعت میں سورہ فاتحہ سے پہلے کوئی تشہد پڑھ لے تو اس صورت میں سجدہ سہو کے وجوب میں حضرات فقہاکا اختلاف ہے اصولی طور پر سجدہ سہو واجب ہونا چاہیے اس لیے کہ واجب میں تاخیر کی بنا پر سجدہ سہو واجب ہوتا ہے پہلی رکعت میں تشہد یہ ثنا کی جگہ میں ہے اس لیے وہاں واجب میں تاخیر نہیں ہوئی لیکن دوسری رکعت میں واجب میں تاخیر ہوئی ہے اسی لیے بعض فقہاء نے اس صورت میں بھی سجدہ سہو کو واجب قرار دیا ہے چنانچہ طحطاوی میں ہے :
ولو قرأ التشهد مرتين في القعدة الأخيرة أو تشهد قائماً أو راكعاً أو ساجداً لا سهو عليه، منية المصلي۔ لكن إن قرأ في قيام الأولى قبل الفاتحة أو في الثانية بعد السورة أو في الأخيرتين مطلقاً لا سهو عليه، وإن قرأ في الأوليين بعد الفاتحة والسورة أو في الثانية قبل الفاتحة وجب عليه السجود؛ لأنه أخر واجباً(حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الايضاح ص: 461)
طحطاوی کی اسی عبارت کے پیش نظر فتاوی دارالعلوم زکریا، مطبوعہ مکتبہ اشرفیہ دیوبند میں 2/554 پربھی سجدہ سہو کے وجوب کا فتوی دیا گیا ہے ۔لیکن دیگر کتب کے اعتبار سے اس سلسلے میں مفتی بہ قول عدم وجوب سجدہ سہوکا ہے اس لیے کہ حضرات فقہاء نے اس سلسلے میں اختلاف کو نقل کرنے کے بعد اصح عدم وجوب سجدہ سہو کو قرار دیا ہے چنانچہ نہر الفائق میں ہے :
وقالوا: لو أتى بالتشهد في قيامه أو قعوده أو سجوده فلا شيء عليه؛ لأنها محل الثناء، وهذا يقتضي تخصيص القيام بالأولى، ومن ثم قال في (الظهيرية): إنه في الأولى فلا شيء عليه، واختلف المشايخ في الثانية، والصحيح أنه لا يجب، وقيده الشارح بما قبل الفاتحة، أما بعدها قبل السورة فيجب على الأصح؛ لتأخير السورة(النهر الفائق شرح كنز الدقائق 1/ 324)
ومنها: لو تشهد في قيامه بعد الفاتحة لزمه السجود، وقبلها لا، على الأصح؛ لتأخير الواجب في الأول ـ وهو السورة ـ ، وفي الثاني محل الثناء وهو منه، وفي الظهيرية: لو تشهد في القيام، إن كان في الركعة الأولى لا يلزمه ،شيء وإن كان في الثانية اختلف المشايخ فيه، والصحيح أنه لا يجب (.البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري 2/ 105)
ولو قرأ التشهد قائماً أو راكعاً أو ساجداً لا سهو عليه؛ لأن التشهد ثناء، والقيام موضع الثناء والقراءة.أرأيت لو افتتح فقال: السلام عليك أيها النبي إلى قوله عبده ورسوله، فإنه يكون بمنزلة الدعاء، ولا سهو عليه. وعن أبي يوسف رحمه الله: فيمن تشهد قائماً فلا سهو عليه، وإن قرأ في جلوسه فعليه السهو، أرأيت لو كبر فقرأ بعد الثناء : أشهد أن لا إله إلا الله، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله، فقال هذا أو نحوه، هل يجب عليه سجود السهو! ؛ لأنه إن كان في موضع الثناء، فموضع الثناء منه معروف، وإن قرأ في الركعتين الأخيرتين، فليس عليه سجود السهو؛ لأنه يتخير في الركعتين الآخيرتين(المحيط البرهاني في الفقه النعماني 1/ 504)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 1874/43-1724
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
A Muslim is obliged to give interest money (recieved from bank) to the poor and needy people without any intention of reward. It is not permissible to use it in any of his personal purposes. Interest money cannot be used as a fee in any kind of tests, X-rays or scanning. Nevertheless, a poor can use the interest money given to him in all his necessities.
رجل دفع اإلى فقير من المال الحرام شيئا يرجو به الثواب يكفر،ولو علم الفقير بذالك فدعا له و أمّن المعطي كفرا جميعاّ و نظمه في الوهبانيّة وفي شرحها: ينبغي أن يكون كذالك لو كان الموئمنا أجنبيّا غير المعطي والقابض و كثير من الناس عنه غافلون ومن الجهّال فيه واقعون ، قلتُ :الدفع اِلى الفقير غيرقيد بل مثله فيما يظهر لو بنى من الحرام بعينه مسجداّ و نحوه ممّا يرجو به التقرّب لانّ العلّة رجاء الثوب فيما فيه العقاب ولا يكون ذالك إلّا باعتقاد حله."
(رد المحتار، كتاب الزكاة، باب زكاة الغنم، مطلب في التصدق من مال االحرام، ج : 2، ص : 292، ط: سعید)
"وعلى هٰذا لو مات رجل و كسبه من الباذق و الظلم أو أخذ الرشوة تعود الورثة ولا ياخذون منه شيئاً و هو الأولى لهم ويردّونه على أربابه ان عرفوهم و اِلّا يتصدّقوا به لأنّ سبيل الكسب الخبيث التصدّق،إذا تعذّر الرّد." (البحر الرائق فصل في البیع ،ج:8، ص: 379، ط: دارالکتب العلمية)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
Death / Inheritance & Will
Ref. No. 2056/44-2268
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
If the father did not make a will to spend in the above-mentioned good deeds, but merely expressed his wish, then the total property will be divided among the brothers and sisters according to Sharia. Yes, if all the heirs agree to withdraw a certain amount for the above purposes, then there is nothing wrong in it. And if the father had made a will, then one-third of the total wealth will be fixed first for the same purpose, then the distribution will take place among the heirs in the rest property.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
مساجد و مدارس
Ref. No. 2147/44-2228
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قاری صاحب کی بائک قاری صاحب کی غلطی کی وجہ سے سیز ہوئی ہے، ضروری کاغذات کے بغیر گاڑی چلانا قانونا جرم ہے، اس لئے مذکورہ جرمانہ قاری صاحب خود اپنی جیب سے اداکریں گے، مدرسہ کا پیسہ اس جرمانہ میں دینا درست نہیں ہے۔ مہتمم صاحب خود اپنی جیب سے کچھ تعاون کردیں تو یہ الگ بات ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ناجائز ہے، کوئی گنجائش نہیں، اس رسم کو بھی بند کرانے والے عنداللہ اجر وثواب کے مستحق ہوں گے۔(۱)
(۱) وقال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: کل شیء یلہو بہ ابن آدم فہو باطلٌ۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ، ’’حدیث عقبۃ بن عامر الجہیني، رضي اللّٰہ عنہ‘‘: ج ۲۸، ص: ۵۷۳، رقم: ۱۷۳۳۷)
عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تشبہ بقوم فہو منہم۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب اللباس: باب في لبس الشہرۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۹، رقم: ۴۰۳۱)
عن ابن عمر رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہما، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تشبہ بقومٍ أي من شبہ نفسہ بالکفار مثلاً في اللباس وغیرہ أو بالفساق أو الفجار أو بأہل التصوف والصلحاء الأبرار فہو منہم أي في الإثم والخیر قال الطیبي: ہذا عام في الخلق والخلق والشعار۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الباس: الفصل الأول‘‘: ج ۵، ص: ۹۶، رقم: ۴۳۴۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص457
اسلامی عقائد
الجواب وبا اللّٰہ التوفیق:اس قسم کی رسوم اور پابندیاں جن کی اصل نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت اور نہ ہی صحابہ کرامؓ سے ثابت اور نہ ہی ائمہ دین سے اس کا ثبوت ہے؛ اس لئے مذکورہ کام باعث گناہ اور بدعت ہے۔(۱) ایسے ہی حلال چیز کو حرام سمجھنا بھی باعث گناہ ہے اور ان مذکورہ کاموں کو چھوڑ دینا ضروری اور لازمی ہے اور جو کام اب تک کیا اسی وقت توبہ کرنا ضروری ہے۔ تاکہ اس پر اللہ تعالیٰ کے یہاں پکڑ نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کے نام پر کھانا پکانا اور غرباء کو کھلانا باعث ثواب ہے۔ اس میں کسی تاریخ یا دن کو ثواب سمجھ کر ہمیشہ کے لیے مقرر کرلینا محض اپنے خیال میں (جس کی کوئی اصل شریعت میں نہ ہو) باعث گناہ اور بدعت ہے اس کو ترک کر دینا چاہئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین و ائمہ دین سے جو طریقہ ثابت ہے اسی پر عمل کرنا چاہئے کہ اس میں نجات ہے، حدیث میں ہے۔ ’’کل محدث بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ‘‘۔(۲) عید کا دن خوشی اور اللہ کی طرف سے انعام کا دن ہے۔ اس دن میں میٹھی چیز پکانا یا کھانا سلف صالحین کی سنت ہے؛ لیکن خوشی اور انعام کے دن میں حلال شئ مثلاً گوشت ہی کو اپنے اوپر حرام کرلینا کس قدر بدنصیبی اور بدبختی کی بات ہے، اور صورت مسئول عنہا میں جس سخت رسم کا ذکر ہے وہ تو ناجائز کیا؛ بلکہ حرام کے درجہ میں ہے، اس سے توبہ کرنی چاہئے اور اس جاہلانہ اور گندی رسم کو بالکل بند کردینا ضروری ہے۔(۱)
(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو ردٌّ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (علامہ، أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۸)
(۲) أخرجہ أحمد، في مسندہ: ج ۲۳، ص: ۲۴۱، رقم: ۱۴۹۸۳)
۱) من أحدث في الإسلام حدثاً۔ فعلیہ {لَعْنَۃُ اللّٰہِ وَالْمَلٰٓئِکَۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَہلا ۱۶۱}۔ (ابن حجر العسقلاني، المطالب العالیہ، ج ۳، ص: ۱۱۵، رقم: ۲۹۸۸)
{ٰٓیاَیُّھَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ أَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ ج تَبْتَغِيْ} (سوۃ التحریم: ۱)
فتاوی دارالعلوم، وقف دیوبند ج1ص505