Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: سر چھپانا، ٹوپی اوڑھنا اسلامی لباس میں داخل ہے اور اس کی خاص فضیلت واہمیت اسلام نے بیان کی ہے اور کھلے سر سامنے آنا جانا بے ادبی شمار ہوتا ہے اور شرفاء وائمہ کرام وصحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کی عادت کے خلاف ہے۔(۱)
’’وتکرہ صلاتہ حاسراً أي کاشفاً رأسہ للتکاسل در مختار وعن بعض المشائخ أنہ لأجل الحرارۃ والتخفیف مکروہ‘‘(۲)
وتکرہ الصلاۃ حاسراً رأسہ إذا کان یجد العمامۃ وقد فعل ذلک تکاسلاً أو تہاوناً بالصلاۃ، ولا بأس بہ إذا فعلہ تدللاً وخشوعاً، بل ہو حسن، کذا في الذخیرۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع، الفصل الثاني فیما یکرہ في الصلاۃ و ما لا یکرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۵، زکریا دیوبند)
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مکروہات الصلاۃ و ما لا یکرہ، ومطلب في الخشوع‘‘: ج۲، ص: ۴۰۷،۴۰۸زکریا)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص132
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں امام کے ساتھ فرض نماز پڑھنے والا شخص اللہ اکبر کے بعد ثناء پڑھنے کے بعد خاموشی کے ساتھ قرأت سنے گا؛ کیوںکہ قرآن کریم کی آیت ہے {وَإِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَہ۲۰۴}(۱) یعنی جب قرآن کریم پڑھا جائے، تو تم لوگ خاموش رہو اور غور سے سنو! تاکہ تم لوگوں پر رحمت نازل کی جائے؛ البتہ مقتدی رکوع، قومہ، سجدہ اور جلسہ وغیرہ میں بدستور تسبیحات پڑھے گا، جیسا کہ مذکورہ آیت کی تفسیر میں علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں۔
’’وقال أبو حنیفۃ و أحمد بن حنبل: لا یجب علی المأموم قرائۃ أصلا في السریۃ ولا الجھریۃ … وقال علي ابن طلحۃ، عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما، في الآیۃ قولہ: {وَإِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا}، یعني: في الصلاۃ المفروضۃ‘‘(۲)
’’قولہ: (في السریۃ) یعلم منہ نفي القراء ۃ في الجھریۃ بالأولی والمراد التعریض‘‘
’’ومانسب لمحمد ضعیف کما بسطہ الکمال (فإن قرأ کرہ تحریما) وتصح في الأصح وفي (درر البحار) عن مبسوط خواھر زادہ إنھا تفسد ویکون فاسقا وھو مروي عن عدۃ من الصحابۃ فالمنع أحوط (بل یستمع) إذ جھر (وینصت) إذا أسر لقول أبي ھریرۃ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ: (کنا نقرء خلف الإمام) فنزل: {وَإِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا}‘‘
’’قولہ (وینصت إذا أسر) وکذا إذا جھر بالأولی۔ قال في البحر: وحاصل الآیۃ أن المطلوب بھا أمران: الاستماع، والسکوت فیعمل بکل منھما؛ والأول یخص الجھریۃ، والثاني لا، فیجري علی إطلاقہ فیجب السکوت عند القراء ۃ مطلقا‘‘(۳)
(۱) سورۃالأعراف: ۲۰۴۔
(۲) ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’الجزء التاسع، سورۃ الأعراف‘‘: ج۲، ص:۲۷۲، ۲۷۳، دارالاشاعت دیوبند۔)
(۳) ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: السنۃ تکون سنۃ عین وسنۃ کفایۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۲۶، ۲۶۷، زکریا۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص243
متفرقات
Ref. No. 2835/45-4451
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس طرح ہم کسی بھی بچے کو از راہ شفقت بیٹا کہہ کر پکارتے اور بلاتے ہیں، اسی طرح کسی بڑے کو از راہ احترام و عظمت 'ابا جی' یا' بابا' یا 'باباجی' کہدیتے ہیں، اس لئے اپنے کفیل کو 'بابا ' وغیرہ کہنا احتراما ہے، لہذا اس طرح کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس میں شبہہ نہ کیاجائے۔ رہی بات اپنی ولدیت اور نسبت تبدیل کرنا، وہ ایک الگ مسئلہ ہے، جو کہ قطعی حرام ہے۔
قال الحصکفي: ویکرہ أن یدعو الرجل أباہ، وأن تدعو المرأة زوجہا باسمہ۔ قال ابن عابدین: قولہ: ( ویکرہ أن یدعو الخ ) بل لابد من لفظ یفید التعظیم کیا سیدي و نحوہ لمزید حقہما علی الولد والزوجة۔۔۔ (رد المحتار مع الدر المختار: ۶/۴۱۸، کتاب الحظر والاباحة، ط: دار الفکر، بیروت )
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
خوردونوش
Ref. No. 1110 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ گٹکہ نشہ آور ہوتا ہے، نیز گٹکہ پر صاف لکھاہوتا ہے کہ یہ جان لیوا اورخطرناک ہے،اس سے بہت سی لاعلاج بیماریاں پیدا ہوسکتی ہیں، اور آدمی کی ہلاکت کا سبب بن سکتی ہیں،جبکہ قرآن کریم نے واضح طور پر فرمایا ولاتلقوا بایدیکم الی التھلکة کہ اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو۔ لہذا گٹکہ کھانا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے۔ اس کا استعمال مکرو ہ ہے۔جتنی کثرت ہوگی اسی قدر کراہت میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا۔ لہذا اس سے بچنا لازم ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Miscellaneous
اسلامی عقائد
Ref. No. 40/968
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دونوں جماعتوں کو مل کر کام کرنا چاہئے۔ کوئی جماعت اگر پہلے سے کسی مسجد میں ہو اور دوسری جماعت آجائے تو ان کو ساتھ لے کر کام کرنا چاہئے یہی پہلے سے اصول رہا ہے۔ دونوں کا مقصد ایک ہے ، ہر ایک کو مقصد میں لگ جانا چاہئے اور فساد کو دبادینا چاہئے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Zakat / Charity / Aid
Ref. No. 41/897
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
(1) As long as you expect the money given as debt to return to you, you have to include lent money into your total asset and pay zakat. When you lost your hope to get it back, you are not obliged to pay the lent money’s zakat, but you can wait and whenever you get back your money, pay the zakat of the previous years too which passed on that amount. (2) The interest received from bank cannot be given in its service charges. It must be given to poor and needy people without the intention of reward as you have been doing for many years.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
ذبیحہ / قربانی و عقیقہ
Ref. No. 1373/42-784
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح عقیقہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اللہ تعالی اس کی برکت سے بچہ کی حفاظت فرمائیں گے اور سنت بھی ادا ہوجائے گی ان شاء اللہ۔
يستحب لمن ولد له ولد أن يسميه يوم أسبوعه ويحلق رأسه ويتصدق عند الأئمة الثلاثة بزنة شعره فضة أو ذهبا ثم يعق عند الحلق عقيقة إباحة على ما في الجامع المحبوبي، أو تطوعا على ما في شرح الطحاوي، وهي شاة تصلح للأضحية تذبح للذكر والأنثى سواء فرق لحمها نيئا أو طبخه بحموضة أو بدونها مع كسر عظمها أو لا واتخاذ دعوة أو لا، وبه قال مالك. وسنها الشافعي وأحمد سنة مؤكدة شاتان عن الغلام وشاة عن الجارية غرر الأفكار ملخصا، والله تعالى أعلم. (شامی کتاب الحظر والاباحۃ 6/336) أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "في الغلام عقيقة فاهريقوا عنه دما وأميطوا عنه الأذى" (المعتصر من المختصر من مشکل الآثار، کتاب العقیقۃ 1/276)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 1675/43-1290
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اوجھڑی کو صاف کرکے اس کو کھانا جائز ہے، حلال جانوروں کے مندرجہ ذیل اعضاء کا کھانا ممنوع ہے: مادہ کی شرمگاہ، خصیہ، مثانہ یعنی پیشاب کی تھیلی، نر کا ذکر، غدود، پتہ جس میں کڑوا پانی رہتاہے، اور بہنے والا خون۔
کرہ تحریما علی الاوجہ من الشاة سبعة اشیاء وہو الفرج، والخصیہ، والمثانة، والذکر، والغدة، والمرارة، والدم المسفوح للاثر الوارد فی کراہة ذلک لکن فی عد الدم من المکروہ تسامح اھ ج: ۲/۷۴۳قال ابوحنیفة رحمہ اللہ تعالیٰ الدم حرام واکرہ الستة اھ زیلعی: ۶/۶۶۶
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ محمد اسعد جلال قاسمی
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Family Matters
Ref. No. 1774/43-1511
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
It is good to strive for higher education, but keep in mind that Shariah restrictions are only for the safety of our future. Even with a good education, there is no guarantee that your worries will go away, though there is a likelihood of job. Therefore, while remaining within the realm of Shariah, you can continue your education by using whatever means are available and avoid usury based endeavor, otherwise the situation may become more severe in the future due to the menace of usury. Money lender’s loans in particular should be avoided altogether.
In this regard, keep in mind the suggestions of ‘Fiqh Academy of India’: If a person does not have the financial means and cannot get a non-interest loan and fears that he will be deprived of the required education, then such students should seek the suggestions of a trustworthy Mufti. So, you should put your situation in front of a reliable mufti and follow their advice. (Naye Masail awr Fiq academy ke fasile P 249)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband