نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: دعا کے آداب میں سے یہ ہے کہ دونوں ہاتھ سینہ تک اٹھائیں اور دونوں ہاتھوں کے درمیان قدرے فاصلہ رکھیں۔(۱)

(۱) عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ قال: المسألۃ أن ترفع یدیک حذ ومنکبیک أو نحوہما۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب الدعاء‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۹، رقم: ۱۴۸۹)
عن عمر بن الخطاب رضي اللّٰہ عنہ قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا رفع یدیہ في الدعاء لم یحطہما حتی یمسح بہما وجہہ۔ (أخرجہ الترمذي في سننہ، ’’أبواب الدعوات عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب ما جاء في رفع الیدین عند الدعاء‘‘: ج ۲، ص: ۴۶۳، رقم: ۳۳۸۶)
فیبسط یدیہ حذاء صدرہ نحو السماء لأنہا قبلہ ویکون بینہما فرجۃ۔ (ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب فيإطالۃ الرکوع للجائي‘‘: ج ۲، ص: ۲۱۵)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص430

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: فرض نمازوں میں امام کا ایک سانس میں سورۂ فاتحہ پڑھنا کوئی کمال نہیں ہے۔ اور اس کی عادت ڈال لینا ناپسندیدہ ہے کراہت تنزیہی سے خالی نہیں ہے۔ لہٰذا جو حضرات اعتراض کرتے ہیں اور اس کو اچھا نہیں سمجھتے  وہ لوگ اپنی جگہ صحیح ہیں۔ ترتیل کے ساتھ معانی میں تدبر کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا چاہئے اس کی تائید حدیث سے بھی ہوتی ہے۔(۲)

(۲) عن یعلی بن مملک، أنہ سأل أم سلمۃ رضي اللّٰہ عنہا زوج النبي صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم عن قراء ۃ النبي صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم وصلاتہ، فقالت: مالکم وصلاتہ، کان یصلي، ثم ینام قدر ماصلی، ثم یصلي قدر مانام، ثم ینام قدر ما صلی حتی یصبح۔ ثم نعتت قرائتہ فإذا ہی تنعت …قرائۃ مفسرۃ حرفاً حرفاً۔ وقال أبو عیسی: ہذا حدیث حسن صحیح۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب فضائل القرآن عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب: کیف کانت قراء ۃ النبي‘‘: ج ۲، ص: ۱۲۰، رقم: ۲۹۲۳)
عن أبي حمزۃ قال: قلت لابن عباس رضي اللّٰہ عنہما: إني سریع القرآن إني أقرأ القرآن في ثلاث، قال: لئن أقرأ البقرۃ في لیلۃ أتدبرہا وارتلہا أحب إلی أن أقرأ کما تقرأ۔ (أخرجہ البیہقي، في شعب الإیمان، فصل في أومان تلاوۃ القرآن‘‘: ج ۳، ص: ۴۰۶، رقم: ۱۸۸۲)
عن عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یقال لصاحب القرآن: إقرأ وارتق، ورتل کما کنت ترتل في الدنیا؛ فإن منزلک عند آخر آیۃ تقرأہا۔ (أخرجہ أبوداؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب کیف یستحب الترتیل في القراء ۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۶، رقم: ۱۴۶۴)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص227

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: سنت مؤکدہ کبھی کبھار ترک ہو جائے تو کوئی حرج کی بات نہیں ہے، لیکن ترک پر اصرار کرنا گناہ کا باعث ہے  اور چھوڑ نے کی عادت بنا لینا موجب فسق ہے۔ سنت مؤکدہ کے ترک پر بہت سی احادیث میں وعیدیں وارد ہوئی ہیں، مثلاً: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ جو شخص ظہر کی پہلی چار سنت مؤکدہ چھوڑ دے اس کو میری شفاعت نصیب نہ ہوگی،(۱) اور مؤکدہ سنتوں کا پڑھنا بھی احادیث سے ثابت ہے، طبرانی میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں: کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا کہ آپ نے سفر وحضر یا مرض وصحت میں کبھی فجر کی سنتیں چھوڑی ہوں،(۲) ایک دوسری حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سے قبل چار رکعت سنت اور ظہر کے بعد دو رکعت سنت، مغرب کے بعد دو رکعت سنت اور عشاء کے بعد دو رکعت سنت اور فجر سے پہلے دو رکعت سنت پڑھتے تھے۔(۳) ان روایات سے سنن مؤکدہ کے پڑھنے کی تاکید اور چھوڑنے پر گناہ معلوم ہوتا ہے، سنت مؤکدہ کیوں مشروع ہوئیں؟ اس کی وضاحت فرمائی کہ فرض نماز سے پہلے شیطان انسانوں کو بہکاتا ہے جب انسان فرض سے پہلے سنت پڑھتا ہے تو شیطان یہ تصور کرتا ہے کہ جس نے فرض سے کم درجہ کی چیز سنت نہیں چھوڑی تو وہ فرض بدرجہ اولیٰ نہیں چھوڑے گا اور بہکانا بند کر دیتا ہے اور جب انسان فرض نماز ادا کرتا ہے تو اس میں کچھ نہ کچھ کوتا ہی ضرور ہو جاتی ہے خدا تعالیٰ کی یہ عبادت اس کی شایان شان نہیں ہو پائی تو بعد والی سنتوں سے اس نقصان کو پورا کیا جاتا ہے ایک حدیث میں ہے کہ نماز روزہ وزکوٰۃ کا فریضہ جب پورا نہ ہو تواس کو تطوع (سنت) سے پورا کیا جائے گا، جمہور علماء ومفتیان کے نزدیک یہ ہی وضاحت ہے،(۴) امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کے سنت مؤکدہ کا تذکرہ نہ کرنے سے سنت مؤکدہ کی تاکید کم نہیں ہوتی۔

(۱) لأن فیہا وعیداً معروفاً قال علیہ الصلاۃ و السلام من ترک أربعاً قبل الظہر لم تنلہ شفاعتي۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۸۶، زکریا دیوبند)
(۲) وفي أوسط الطبراني عنہا أیضاً: لم أراہ ترک الرکعتین قبل صلاۃ الفجر في سفر ولا حضر ولا صحۃ ولا سقم۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۸۳، ۸۴)
(۳) عن عبد اللّٰہ بن شقیق قال: سألت عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا عن صلاۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من التطوع فقالت: کان یصلي قبل الظہر أربعاً في بیتي الخ۔ (أخرجہ ابوداؤد،… في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب تفریع أبواب التطوع ورکعات السنۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۸، دار الکتاب دیوبند)
(۴) لأن السنۃ من لواحق الفریضۃ وتوابعہا ومکملاتہا فلم تکن أجنبیۃ عنہا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: ھل یفارقہ الملکان؟‘‘: ج ۲، ص: ۲۴۶، زکریا دیوبند)
(قولہ لجبر النقصان) أي لیقوم في الآخرۃ مقام ما ترک منہا لعذر کنسیان، وعلیہ یحمل الخبر الصحیح أن فریضۃ الصلاۃ والزکاۃ وغیرہما إذا لم تتم تکمل بالتطوع۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مطلب في السنن والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۵۲، زکریا دیوبند)
وفي التنجیس والنوازل والمحیط: رجل ترک سنن الصلوات الخمس إن لم یر السنن حقاً فقد کفر لأنہ ترک استخفافاً، وإن رأی حقاً منہم من قال لا یأثم والصحیح أنہ یأثم لأنہ جاء الوعید بالترک۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۸۶، زکریا دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص353


 

نکاح و شادی

Ref. No. 1081 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔  شرعاً اس کی کوئی  حیثیت نہیں۔ رسم و رواج سے اجتناب کیا جانا چاہئے۔ نیزدولہا وغیرہ کا آنگن میں جانا اور نامحرم عورتوں  کا سامنا کرنا ، یہ تمام غیرشرعی امور ہیں جن سے اجتناب کیا جانا ضروری ہے۔واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

کھیل کود اور تفریح

Ref. No. 837

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                         

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:  چونکہ تجربہ سے ثابت ہے کہ اس کھیل  میں غفلت حد درجہ پائی جاتی ہے، اس لئے احتراز کیا جا نا ضروری ہے۔ باقی تفصیل آپ کے گذشتہ سوال کے جواب میں لکھدی گئی ہے۔  واللہ تعالی اعلم  بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1029/41-259

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   دین  کی تعلیم ، تبلیغ اور عمل کے لئے قرآن اور احدیث کافی ہیں، صرف بخاری میں تمام صحیح احادیث  نہیں ہیں، بلکہ بخاری کے علاوہ دیگر کتابوں میں بھی صحیح احادیث ہیں۔ خود امام بخاری کا قول ہے کہ میں نے صحیح احادیث کو جمع کیا ہے ، میں نے تمام صحیح احادیث کو جمع نہیں کیا ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1240/42-561

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ احادیث میں مسواک کرنے کی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے، تاہم مسواک کرنے پر ثواب ہے اور نہ کرنے  پرکوئی ملامت اور کوئی گناہ نہیں ہے۔

واما ماورد من افضلیۃ الصلوۃ التی بسواک علی غیرھا فیدل علی الاستحباب  وھو الحق ( البحر الرائق 1/42 زکریا دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 1362/42-768

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایسا کرنا مناسب نہیں ہے۔ اس میں دینی چیزوں  کی ناقدری ہے اور  توہین ہے۔ اس لئے اس  سے بچنا چاہئے۔ لا يقرأ جهرا عند المشتغلين بالأعمال) الفتاوى الهندية :5/ 316(

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی
نعیم نے نجمہ کو 4 آدمیوں کے سامنے کہا نجمہ میری بیوی ہے کیا نکاح ہوگیا جبکہ نجمہ چپ رہی. جبکہ نجمہ کی ایسی نیت نہ تھی کے نعیم کو بطور شوہر قبول کرے.

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1663/43-1274

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔مسجد میں جماعت اولی کے ساتھ نماز پڑھنا ہی اصل سنت ہے، اور اسی کی تاکید ہے اور اسی پر بعض نے وجوب کاحکم لگایا ہے، اس کو ترک کرنے والا اس وعید کا مستحق ہوگا جو حدیث میں وارد ہوئی ہے، البتہ ترک کرنے سے مراد عادت بنالینا ہے، کبھی اتفاقی طور پر کسی وجہ سے ترک ہوجانامراد نہیں ہے۔ اس لئے اگر کبھی کسی  وجہ سے  جماعت چھوٹ جائے، توتنہا نماز پڑھنے سے بہتر ہے کہ  گھر میں جماعت  کرلی جائے جیسا کہ  ایسی صورت میں نبی علیہ السلام سے گھر جاکر جماعت سے نماز پڑھنا ثابت ہے۔  حضرت ابی بکرۃ ؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  مدینہ کے دیہی علاقوں سے لوٹ کر آئے اور نماز کی ادائیگی کا ارادہ کیا تو دیکھا کہ لوگ نماز سے فارغ ہوگئے ہیں لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  گھر چلے گئے اور گھر کے افراد کو جمع کیا اور ان کے ساتھ جماعت سے نماز پڑھی۔ ( معجم الکبیر للطبرانی، مجمع الزوائد ۲/۴۵، المعجم الاوسط ۵/۳۵ / ۴۶۰۱ ، ۷/۵۱/ ۶۸۲۰، المجروحین لابن حبان ۳ / ۴۔۔۵، الکامل لابن عدی ۶/۲۳۹۸

حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ ایک مرتبہ اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ مسجد میں نماز ادا کرنے کے لئے نکلے تو دیکھا کہ لوگ مسجد سے باہر آرہے ہیں اور جماعت ختم ہوگئی ہے۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ اپنے ساتھیوں کے ساتھ واپس گھر آئے اور جماعت کے ساتھ نماز ادا فرمائی۔ (اس روایت کو امام طبرانی نے "المعجم الکبیر ۹۳۸۰" میں صحیح سند کے ساتھ ذکر فرمائی ہے نیز ابن عبد الرزاق نے "مصنف ۲/۴۰۹/۳۸۸۳" میں ذکر فرمائی ہے)۔

عن أبی ہریرة قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لقد ہممت أن آمر فتیتي فیجمعوا لي حزماً من حطب ثم آتي قوما یصلون فی بیوتہم لیست بہم علة فأحرقہا علیہم“ (أبوداوٴد: ۱/۸۰، ط: اشرفی دیوبند) صَلَاةُ الْجَمَاعَةِ تَفْضُلُ صَلَاةَ الْفَذِّ بِسَبْعٍ وَعِشْرِيْنَ دَرَجَةً. بخاری، الصحيح، کتاب الأذان، باب فضل صلاة الجماعة، 1 : 231، رقم (619

قال فی الشامی: (قولہ: وتکرار الجماعة) لما روی عبد الرحمن بن أبي بکر عن أبیہ ”أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خرج من بیتہ لیصلح بین الأنصار فرجع وقد صلی فی المسجد بجماعة فدخل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی منزل بعض أہلہ فجمع أہلہ فصلی بہم جماعة“ (شامی: ۲/ ) المرأة إذا صلت مع زوجہا فی البیت إن کان قدمہا لحذاء قدم الزوج لاتجوز صلاتہما بالجماعة، وإن کان قدماہا خلف قدم الزوج إلا أنہا طویلة تقع رأس المرأة فی السجود قِبَل رأس الزوج جازت صلاتہا؛ لأن العبرة للقدم ۔ (درمختار مع الشامی: ۱/۵۷۲، کراچی) ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند