Frequently Asked Questions
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 1873/43-1723
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نماز جنازہ پڑھانے کا حق سب سے پہلے سلطان کو ہے پھر اس کے نائب یعنی امیر شہرکو پھر قاضی کو پھر قاضی کے نائب کو پھر امام مسجد کو بشرطیکہ وہ ولی سے افضل ہو۔ اگر ولی میت خود نماز جنازہ پڑھائے تو اس کو یہ حق ہے لیکن اگر امام محلہ صالح دین دار اور ولی سے افضل ہے تو ولی میت کو چاہیے کہ امام سے نماز پڑھانے کی درخواست کرے ۔
رہا نماز جنازہ کے بعد دعا کا مسئلہ تو نمازِ جنازہ خود دعا ہے اور اس میں میت کے لیے مغفرت کی دعا کرنا ہی اصل ہے، جنازہ کی نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا قرآن و سنت، صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین سے ثابت نہیں ہے؛ اس لیے جنازہ کی نماز کے بعد اجتماعی طور پر ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا مکروہ و ممنوع ہے، ہاں تدفین کے بعد قبر کے پاس کھڑے ہوکر دعا کرنا ثابت ہے، اس پر عمل کرنا چاہئے۔
ویقدّم في الصلاة علیہ السلطان إن حضر أو نائبہ وہو أمیر المصر ثم القاضي ثم صاحب الشرط ثم خلیفة القاضي ثم إمام الحي فیہ إیہام وذلک أن تقدیم الولاة واجب وتقدیم إمام الحي مندوب فقط بشرط أن یکون أفضل من الولي وإلا فالولي أولی کما في المجتبی (درمختار)
ان تقدیم الوُلاة واجب، وتقدیم إمام الحی مندوب، فقط بشرط أن یکون أفضل من الولی، وإلاّ فالولی أولی کما فی المجتبی۔( الدر المختار) المحيط البرهاني في الفقه النعماني (ج:2، ص:205، ط:دار الكتب العلمية، ’’ولا يقوم الرجل بالدعاء بعد صلاة الجنازة؛ لأنه قد دعا مرة، لأن أكثر صلاة الجنازة الدعاء.‘‘ مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (ج:3، ص:1213، ط:دار الفكر، بيروت) ’’ولا يدعو للميت بعد صلاة الجنازة لأنه يشبه الزيادة في صلاة الجنازة.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: محمد اسعد جلال
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 2068/44-2067
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ زندگی میں اپنی اولاد کے درمیان اپنی جائداد تقسیم کرنا ہبہ کہلاتاہے اور اس کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ اپنی جائیداد میں سے اپنے لیے جتنا چاہے رکھ لے؛ تاکہ بوقتِ ضرورت کام آئے اور بقیہ مال اپنی تمام اولاد میں برابر تقسیم کرے، یعنی جتنا بیٹے کو دے اتنا ہی بیٹی کو دے، نہ کسی کو محروم کرے اور نہ ہی بلاوجہ کمی بیشی کرے۔ اور جو بیٹا مرحوم ہوگیا اس کے حصہ کے بقدر اس کی اولاد کو دینا بھی جائز ہے، اور اگر زیادہ ضرورتمند ہوں تو زیادہ بھی دے سکتاہے۔
' وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» و في رواية ...... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»'۔ (مشکاۃ المصابیح، 1/261، باب العطایا، ط: قدیمی)
"أقول: حاصل ما ذكره في الرسالة المذكورة أنه ورد في الحديث أنه صلى الله عليه وسلم قال: «سووا بين أولادكم في العطية ولو كنت مؤثرًا أحدًا لآثرت النساء على الرجال»، رواه سعيد في سننه وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير: «اتقوا الله واعدلوا في أولادكم»، فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة. وفي الخانية : و لو وهب شيئًا لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره، و روى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم، وعليه الفتوى، و قال محمد : ويعطي للذكر ضعف الأنثى، وفي التتارخانية معزيًا إلى تتمة الفتاوى قال: ذكر في الاستحسان في كتاب الوقف :وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في العطايا والعدل في ذلك التسوية بينهم في قول أبي يوسف وقد أخذ أبو يوسف حكم وجوب التسوية من الحديث، وتبعه أعيان المجتهدين، وأوجبوا التسوية بينهم وقالوا يكون آثما في التخصيص وفي التفضيل". (رد المحتار، كتاب الوقف 4/ 444 ط:سعيد)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:قبر میں عذاب وثواب کے سلسلے میں علماء کی مختلف رائےہیں، بعض کے نزدیک عذاب وثواب صرف جسم یا صرف روح کو ہوتا ہے؛ جبکہ علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے: قبر کی زندگی میں عذاب یا نعمتیں جسم اور روح دونوں کو ملتی ہیں:
’’محلہ الروح والبدن جمیعا باتفاق أہل السنۃ، وکذا القول في النعیم‘‘(۱)
ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے استاذ علامہ ابن تیمیہؒ سے قبر کی زندگی کے متعلق سوال کیا: تو انھوں نے جواب دیا عذاب اور ثواب روح اور جسم دونوں کو ہوتا ہے اور یہی اہل سنت والجماعت کا عقیدہ بھی ہے۔
’’وقد سئل شیخ الإسلام عن ہذہ المسألۃ، قال: العذاب والنعیم علی النفس والبدن جمیعا باتفاق أہل السنۃ‘‘(۲)
’’واختلف فیہ أنہ بالروح أو بالبدن أو بہما وہو الأصح منہما إلا أنا لا نؤمن بصحتہ ولا نشتغل بکیفیتہ‘‘(۳)
’’فیعذب اللحم متصلاً بالروح والروح متصلا بالجسد‘‘(۴)
(۱) جلال الدین، سیوطی، شرح الصدور، ’’فصل في فوائد ما ہو عذاب القبر ومتی یرفع‘‘: ص: ۳۵۰۔
(۲) ابن قیم، الروح، ’’قول السائل ہل عذاب القبر علی النفس والبدن الخ‘‘: ۵۹۔
(۳) أبو حنیفۃ -رحمہ اللّٰہ- شرح الفقہ الأکبر، ’’مبحث في أن عذاب القبر حق وبیان أن الأرواح تعاد للمیت‘‘: ص: ۱۷۴۔
(۴) علامہ سعد الدین تفتازاني، شرح العقائد النسفیۃ، ’’مبحث عذاب القبر‘‘: ص: ۹۸۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص249
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:قبر پر اذان اور تکبیر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم سے ثابت نہیں اگر یہ کام کرنا اچھا ہوتا تو حضرات صحابہؓ ضرور اس کام کو انجام دیتے پس ایسا کرنا بدعت اور گمراہی ہے اوردین کے اندر زیادتی ہے ہر مسلمان کو ایسی بدعات سے پرہیز کرنا واجب ہے۔ (۳) البتہ قبر پر ہاتھ اٹھا کر دعاء کرنا ثابت ہے، لیکن قبر سامنے نہ ہو اور قبلہ کی طرف رخ کر کے ہاتھ اٹھائے تاکہ صاحبِ قبر سے مانگنے کا شبہ نہ ہو۔(۱)
(۳) لا یسن الأذان عند إدخال المیت في قبرہ کما ہو المعتاد ألأٰن وقد صرح ابن حجر في فتاویہ بأنہ بدعۃ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في دفن المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۱)
۱) وإذا أراد الدعاء یقوم مستقبل القبلۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب السادس عشر في زیارۃ القبور‘‘: ج ۵، ص: ۴۰۴)
کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا فرغ من دفن المیت وقف علی قبرہ وقال استغفروا لأخیکم واسألو اللّٰہ لہ التثبیت فإنہ ألأٰن یسئل۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في دفن المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص368
Business & employment
Ref. No. 2565/45-3950
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is follows:
Mutual fund and share market are the same in view of Shariah. So investing in a mutual fund is allowed under the same conditions as share market, both can be bought and sold.
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:تبلیغ دین فرض علی الکفایہ ہے(۱) اور جہاں جس قدر ضرورت ہو وہاں پر اس کی اہمیت اسی قدر ہوگی، قرآن کریم میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم صراحتاً مذکور ہے(۲) سب سے بڑا معروف ایمان اور سب سے بڑا منکر کفر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسلام واحکام کی تبلیغ کا حکم ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ ذمہ داری ہر زمانہ کے علماء وصلحاء کی ہے، لیکن تبلیغ کو کسی خاص مروجہ صورت کے ساتھ مقید کرنا درست نہیں ہے، بعض لوگ تبلیغ کی کوئی صورت متعین کرکے تمام احکام کو اس متعینہ صورت پر منطبق کردیتے ہیں یہ درست نہیں ہے۔(۳)
(۱) إعلم أن تعلم العلم یکون فرض عین، وہو بقدر ما یحتاج إلیہ، وفرض کفایۃ، وہو ما زاد علیہ لنفع غیرہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’مقدمۃ، مطلب في فرض الکفایۃ وفرض العین‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۵)
إن العلماء اتفقوا علی أن الأمر بالمعروف والنہي عن المنکر من فروض الکفایات۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني: ج ۴، ص: ۲۱)
(۲) {کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِط} (سورۃ آل عمران: ۱۱۰)
(۳) قال تعالیٰ: {یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ آیٰتِہ} یعني القرآن {ویزکیہم} أي یأمرہم بالمعروف وینہا ہم عن المنکر لتزکوا نفوسہم وتطہر من الدنس والخبث الذي کانوا متلبسین بہ في حال شرکہم وجاہلیتہم {ویعلہم الکتب والحکمۃ} یعني القرآن والسنۃ۔ (ابن کثیر: تفسیر ابن کثیر، ’’سورۃ آل عمران: ۱۶۴‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص300
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حدیث کی کتابوں میں دم کرنا ثابت ہے، امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت نقل کی ہے:
’’عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا مرض أحد من أہلہ نفث علیہ بالمعوذات فلما مرض مرضہ الذي مات فیہ جعلت انفث علیہ وأمسحہ بید نفسہ لأنہا کانت أعظم برکۃ من یدي‘‘(۱)
ہر وہ دم جس میں شرک نہ ہو تو اسے دم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، ہاں! جس دم یا تعویذ میں شرکیہ الفاظ ہوں، غیر اللہ کی پکار ہو ایسا دم یا تعویذ قطعاً نا جائز ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے دم یا تعویذ سے منع فرمایا ہے۔ جیسا کہ شارح مسلم علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
’’المراد بہا الرقي التي ہي من کلام الکفار والرقي المجہولۃ والتي بغیر العربیۃ وما لا یعرف معناہا فہدہ مذمومۃ لاحتمال إن معناہا کفر وقریب منہ أو مکروہ‘‘(۲)
وہ دم ممنوع ہے جس میں کلام کفار سے مشابہت ہو مجہول ہو، غیر عربی میں ہو، جن کا معنیٰ نہ سمجھتا ہو ایسے دم مذموم ہیں ہو سکتا ہے کہ ان کا معنیٰ کفریہ ہو یا قریب کفر کے ہو یا مکروہ ہو۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ علیہ وسلم مجھے حکم فرماتے تھے کہ میں نظر بد سے دم کروں۔
’’عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا قالت: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یأمرني أن أسترقی من العین‘‘(۱)
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں جب کوئی بیمار ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم معوذات پڑھ کر اس پر دم کیا کرتے تھے۔
’’وأما ما کان من الآیات القرآنیۃ والأسماء والصفات الربانیۃ والدعوات المأثورۃ النبویۃ فلا بأس بل یستحب سواء کان تعویذا أو فیہ أو نشرۃ وأما علی لفۃ العبرانیۃ نحوہا فیمتنع لاحتمال الشرک فیہا‘‘(۲)
ان جملہ نصوص کی رو سے کلمات طیبہ اورآثار سے دم کرنا یا چھاڑ پھونک کرنا جائز اور مستحسن ہے۔
(۱) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب السلام: باب استحباب الرقیۃ من العین‘‘: ج ۲، ص: ۲۲۵، رقم: ۲۱۹۵۔
(۲) ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’الفصل الثاني: کتاب الطب والرقي‘‘: ج ۷، ص: ۱۸۱، رقم: ۴۵۵۳۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص393
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:یہ صورت جب ہوسکتی ہے، جب خون بہہ رہا ہو۔ اگر بہنا بند ہوجائے، تو پھر جب تک اثر زائل نہ ہوجائے دھویا جائے، ہاں اگر بہہ رہا ہے مگر کتھا یا دوا کی وجہ سے نظر نہیںآتا، تو جب تک زخم سے خون نکل رہا ہو وہ بہنے کے حکم میں ہوگا۔ درمختار میں ہے: لو مسح الدم کلما خرج ولو ترکہ لسال نقض وإلا لا۔
اور شامی میں ہے وکذا إذا وضع علیہ قطنا أو شیئا آخر حتی ینشف ثم وضعہ ثانیا و ثالثا فإنہ یجمع جمیع ما نشف۔ (۱)
(۱)ابن عابدین، ردالمحتار، کتاب الطہارۃ، باب نواقض الوضو،ج۱،ص:۲۶۲؛ ولو ظھر الدم علی رأس الجرح فمسحہ مراراً، فإن کان بحال لو ترکہ لسال یکون حدثا و إلا فلا۔ لأن الحکم متعلق بالسیلان۔ (الکاساني، بدائع الصنائع، کتاب الطہارۃ، ماینقض الوضوء، ج۱،ص:۱۲۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص447
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اصل مذہب یہ ہے کہ کسی طاعت مقصودہ پر اجرت لینا جائز نہیں ہے، مگر جن طاعات میں دوام یا پابندی کی ضرورت ہے اور وہ شعار دین میں سے ہیں کہ ان کے بند کرنے یا بند ہونے سے اخلال دین لازم آتا ہو اور کوئی دلجمعی سے اپنے حالات کی وجہ سے انجام نہیں دے سکتا تو ایسے امور کومتأخرین فقہاء نے اس کلیہ سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔
پس امامت بھی اس میں سے ہے۔ اور امامت کی اجرت لینے پر بلاشبہ فتویٰ جواز کا ہے؛ اس لیے امام مذکورہ کا قول قابل گرفت نہیں اس کی امامت درست ہے اعادہ کی ضرورت نہیں۔(۱)
(۱) قال في الہدایۃ: وبعض مشائخنا استحسنوا الاستئجار علی تعلیم القرآن الیوم لظہور التواني في الأمور الدینیۃ ففي الامتناع تضییع حفظ القرآن وعلیہ الفتویٰ۔۔۔۔۔ وزاد في متن المجمع الإمامۃ، ومثلہ في متن الملتقی ودرر البحار۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب في الاستئجار علی الطاعات‘‘: ج ۹، ص: ۷۶)
ویفتی الیوم بالجواز أي بجواز أخذ الأجرۃ علی الإمامۃ وتعلیم القرآن والفقہ۔ (محمد بن سلیمان آفندي، مجمع الأنہر في شرح ملتقی الأبحر، ’’کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۸۴)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص280
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صرف پستان منہ میں لینے سے نماز میں کوئی خرابی لازم نہیں آئی، البتہ اگر دودھ پیا ہو، یعنی بچہ کے منہ میں دودھ گیا تو نماز فاسد ہو جائے گی، عالمگیری میں ہے۔(۱)
’’صبي مص ثدي امرأۃٍ مصلیۃ، إن خرج اللبن فسدت، وإلا فلا؛ لأنہ متی خرج اللبن یکون إرضاعاً، وبدونہ لا، کذا في محیط السرخسي‘‘(۱)
(۱) قولہ أو مص ثدیہا ثلاثاً ہذا التفصیل مذکور في الخانیۃ والخلاصۃ، وہو مبنی علی تفسیر الکثیر بما اشتمل علی الثلاث المتوالیات، ولیس الاعتماد علیہ۔ وفي المحیط: إن خرج اللبن فسدت لأنہ یکون إرضاعاً، وإلا فلا، ولم یقیدہ بعدد، وصححہ في المعراج۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا، مطلب في المشي في الصلاۃ‘‘: ج۲، ص: ۳۹۰،زکریا)
فروع مہمۃ: أرضعتہ أو أرضعتہا ہو فنزل لبنہا فسدت ولو مص مصہ أو مصتین ولم ینزل لا تفسد ولو ثلاثاً فسدت وإن لم ینزل۔ (ابن نجیم، النہر الفائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۳، زکریا)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص132