طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:اگر یقینی طور سے معلوم ہوجائے کہ صابن میں ناپاک اشیاء کی آمیزش ہے، تو دیکھا جائے گا کہ ان اشیاء کی حقیقت تبدیل ہوئی تھی یا نہیں؟ اگر نہیں ہوئی، تو ناپاک ہے اور اگر حقیقت بدل گئی تھی، جیسا کہ عام طور سے دیکھا گیا ہے، تو پاک ہے اور اس کا استعمال درست ہے(۱) علامہ شامیؒ نے صراحت کی ہے: جعل الدھن النجس في صابون یفتی بطھارتہ لأنہ تغیر، والتغییر یطھر عند محمد رحمہ اللہ و یفتی بہ للبلوی۔(۲)

(۱) الأصل في الأشیاء الإباحۃ،  الفن الثالث ۔ باب :الیقین لا یزول بالشک۔ (ابن نجیم، الأشباہ والنظائر،ج۱، ص:۲۰۹)
 (۲) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس،ج۱، ص:۵۱۹

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص447

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام ومؤذن کو اس طرح فی سبیل اللہ نماز پڑھانا جائز اور باعث اجر وثواب ہے؛ مگر اس صورت میں وہ کسی معاہدہ کے پابند نہیں ہوں گے؛ کیوں کہ وہ تنخواہ دار نہیں ہیں (تنخواہ نقد ہو یا بطور مصلانہ ہو) بعض دفعہ بوقت مصلانہ نزاع پیدا ہوتا ہے؛ لہٰذا ایسا اجارہ فاسد ہے، جائز نہیں ہے؛ پس مذکورہ امام اگر نماز فی سبیل اللہ پڑھاتے ہیں تو وہ آپ کی شرطوں کے شرعاً پابند نہیں ہیں؛ اس لیے اگر ان سے کوئی کمی بھی ہوجائے تو شرعاً ان سے مؤاخذہ نہ کیا جائے۔(۱)

(۱) ہذا وفي القنیۃ من باب الإمامۃ إمام یترک الإمامۃ لزیارۃ أقربائہ في الرساتیق أسبوعا أو نحوہ أو لمصیبۃ أو لاستراحۃ لا بأس بہ، ومثلہ عفو في العادۃ والشرع۔ اہـ۔ وہذا مبني علی القول بأن خروجہ أقل من خمسۃ عشر یوما بلا عذر شرعي لا یسقط معلومہ۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الوقف، فیما إذا قبض المعلوم وغاب قبل تمام السنۃ‘‘: ج ۶، ص:۶۳۰)
 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص281

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز میں کبھی ایک پاؤں کبھی دوسرے پاؤں پر وزن ڈال کر کھڑے ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ درست ہے؛ البتہ ایک پیر پر پورا وزن ڈال کر دوسرے پیر کو بالکل ڈھیلا چھوڑ کر کھڑے ہونے میں ایک طرف کو جھکاؤ معلوم ہونے لگے جس طرح گھوڑا ایک پاؤں پر پورا وزن ڈال کر دوسرے پاؤں کو ٹیڑھا کر کے کھڑا ہوتا ہے اور کوئی عذر بھی نہ ہو، تو یہ مکروہ ہے۔(۱)
 ’’ویکرہ القیام علی أحد القدمین في الصلاۃ بلا عذر‘‘(۲)

(۱) ویکرہ التراوح بین القدمین في الصلاۃ إلا بعذر، و کذا القیام بإحدی القدمین، کذا في الظہیریۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب السابع: فیما یفسد الصلاۃ، و ما یکرہ فیہا، الفصل الثاني: فیما یکرہ الخ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۷، فیصل، دیوبند)
(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’ ‘‘: ج ۱، ص: ۶۶۶۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص133

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام کے پیچھے تلاوت کرنے کو فقہاء احناف نے مکروہ لکھا ہے؛ البتہ اس شخص کی گزشتہ پڑھی ہوئی تمام نمازیں درست ہیں ان نمازوں کا دہرانا مذکورہ شخص پر ضروری نہیں ہے۔
تاہم ایسے شخص کو چاہئے کہ وہ امام کے پیچھے قراء ت نہ کرے، فرمان باری تعالیٰ ہے {وَإِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا الخ}(۱) اس آیت میں مفسرین کے قول کے مطابق، جہری (بآواز بلند قرأت ہو) اور سری (آہستہ آواز سے قراء ت ہو) دونوں نمازوں میں مقتدی کے لیے حکم ہے کہ وہ امام کے پیچھے قراء ت نہ کرے، اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’من کان لہ إمام فقراء ۃ الإمام لہ قراء ۃ‘‘(۲) یعنی جس کا امام ہو تو اس کے امام کی قراء ت اس مقتدی کی قراء ت ہے۔ مزید فقہ حنفی کی کتابوں میں اس کی تفصیل موجود ہے کہ مقتدی امام کے پیچھے تلاوت نہ کیا کرے۔
’’وقال أبو حنیفۃ رحمہ اللّٰہ: لا یجب علی المأموم قراء ۃ أصلا في السریۃ ولا الجھریۃ… وقال علی ابن طلحۃ، عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما في الآیۃ قولہ: {وَإِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَہ۲۰۴}، یعني: في الصلاۃ المفروضۃ‘‘(۳)
’’والمؤتم لا یقرأ  مطلقاً، قولہ: ولا الفاتحۃ …… تقدیرہ لا غیر الفاتحۃ ولا الفاتحۃ‘‘
’’قولہ: (في السریۃ)  یعلم  منہ  نفي  في الجھریۃ بالأولی، والمراد التعریض‘‘
’’ومانسب لمحمد ضعیف کما بسطہ الکمال (فإن قرأ کرہ تحریما) وتصح في الأصح وفي (درر البحار) عن مبسوط خواھر زادہ أنھا تفسد ویکون فاسقا، وھو مروي عن عدۃ من الصحابۃ فالمنع أحوط (بل یستمع) إذا جھر (وینصت) إذا أسر لقول أبي ھریرۃ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ: (کنا نقرأ خلف الإمام) فنزل: {وَإِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا}(۱)

(۱) سورۃ الأعراف: ۲۰۴۔
(۲) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا، باب إذا قرأ الإمام فأنصتوا‘‘: ج ۱، ص: ۶۱، رقم: ۸۵۰۔)
(۳) ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’الجزء التاسع، سورۃ الأعراف‘‘: ج۲، ص: ۳۷۲، ۳۷۳ ، دارالاشاعت دیوبند۔)
(۱) الحصکفي ،  الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: السنۃ تکون سنۃ عین وسنۃ کفایۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۶، ۲۶۷۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص246

 

Slaughtering / Qurbani & Aqeeqah

In the name of Allah the Most Gracious the Most Merciful

The answer to your question is as follows:

To divide qurbani meat into three portion, as mentioned in the question, is mustahab (recommended), and not necessary. The person can keep more than two third to consume or to give to his relatives if he needs. You stated that ‘those who didn’t do qurbani’ denotes that there must be some faqeers (who were not able to do qurani). ‘Faqeer’ doesn’t mean that they are faqeer in term, but needy persons also come in category of faqeer. Though the faqeer in term is preferable. 

And Allah Knows Best 

 

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

بدعات و منکرات

Ref. No. 39 / 881

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جائز ہے، کوئی حرج نہیں۔

    واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 1380/42-796

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follow:

The chickens not slaughtered according to the Islamic method are considered dead for a Muslim. And selling and buying of dead are forbidden in Islam. Therefore, buying and selling of such chickens is not halal for a Muslim, thus the profit earned by it is not halal.

إنما حرم عليكم الميتة والدم ولحم الخنزير وما أهل لغير الله به فمن اضطر غير باغ ولا عاد فإن الله غفور رحيم (سورۃ النحل 114)

وإذا صارت ميتة صار نجسا ولم يجز بيعه انتهى (عمدۃ القاری 12/37) وإنما لا يجوز أخذ الثمن فيها لأنها ميتة لا يجوز تملكها ولا أخذ عوض عنها، وقد حرم الشارع ثمنها وثمن الأصنام في حديث جابر (عمدۃ القاری، باب طرح جیف المشرکین فی البئر 15/105)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

اسلامی عقائد

Ref. No. 1598/43-1150

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔اس سلسلہ میں آپ خود مختار ہیں، آپ پر کوئی پابندی نہیں اور کسی قسم کا کوئی گناہ نہیں۔ آپ بکرا اپنی جانب سے کریں  یا حضور ﷺ کی طرف سے، اس میں کوئی  فرق نہیں۔  ایک قربانی واجب ہے وہ بھی ادا ہوگی اور حضور ﷺ کی طرف سے نفلی قربانی ہوگی۔ اس لئے آپ کا دل جس پر مطمئن ہو وہ کرلیں۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1676/43-1289

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کولگیٹ، کلوزاپ وغیرہ پیسٹ  اور لکس صابن، اور چیونگم  کے اجزاء میں اگر کسی حرام چیز کی آمیزش نہیں ہے تو اس کا استعمال جائز ہوگا، اور جب تک تحقیق سے  اس کے اجزاء میں کسی حرام چیز کی آمیزش کا علم نہ ہو، اس کو  حلال قرار دیں گے اور اس کااستعمال کرنا جائز ہوگا۔ تاہم اگرتحقیق سے کسی حرام جزء کا ہونا معلوم ہوجائے تو پھر اس کا استعمال بھی حرام ہوگا۔ اور جس چیز کا استعمال کرنا جائز نہیں اس کا خریدنا و بیچنا بھی جائز نہیں ۔  حرام چیز کو حلال پیسے سے خریدنے سے وہ چیز حلال نہیں ہوگی۔  جس شخص کے بارے میں معلوم ہو کہ اس کی آمدنی مکمل حرام  ہے، اس سے  کوئی سامان فروخت کرنا جائز ہے، اور اگر خریدنے والا حرام مال کی تعیین نہ کرے ، بلکہ حسب  عرف سامان لے لے اور پیسے دیدے تو اس کی بھی گنجائش ہے۔   آج کل  حرام آمدنی کی کثرت کے باعث امام کرخی نے توسع سے کام لیا ہے اور اس کی گنجائش  دی ہے، گرچہ احتیاط اس کےخلاف میں ہے۔

قال اللہ تعالیٰ: وَلاَ تَتَبَدَّلُوا الْخَبِیْثَ بِالطَّیِّبِ، وعن ابن عباس قال: كان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قاعداً في المسجد مستقبلاً الحجْرَ، قال: فنظر إلى السماء فضحك، ثم قال: "لعن الله اليهود، حُرَّمت علَيهم الشحومُ فباعوها وأكَلُوا أثمانَها، وإن الله عز وجل إذا حرَّم على قوم أكَلَ شيء حَرَّم عليهم ثمنه" (مسند احمد شاکر، کلمۃ الاستاذ الشیخ محمد حامد 3/22، الرقم 2221) (سنن ابی داؤد، باب فی ثمن الخمر والمیتۃ 5/352)

توضيح المسألة ما في التتارخانية حيث قال رجل اكتسب مالا من حرام ثم اشتری فهذا علی خمسة أوجه أما إن دفع تلك الدراهم إلی البائع أولا ثم اشتری منه بها أو اشتری قبل الدفع بها ودفعها أو اشتری قبل الدفع بها ودفع غيرها أو اشتری مطلقا ودفع تلك الدراهم أو اشتری بدراهم أخر ودفع تلك الدراهم قال أبو نصر يطيب له ولا يجب عليه أن يتصدق إلا في الوجه الأول وإليه ذهب الفقيه أبو الليث لكن هذا خلاف ظاهر الرواية فإنه نص في الجامع الصغير إذا غصب ألفا فاشتری بها جارية وباعها بألفين تصدق بالربح وقال الكرخي في الوجه الأول والثاني لا يطيب وفي الثلاث الأخيرة يطيب وقال أبو بكر لا يطيب في الكل لكن الفتوی الآن علی قول الكرخي دفعا للحرج عن الناس وفي الولوالجية وقال بعضهم لا يطيب في الوجوه كلها وهو المختار لكن الفتوی اليوم علی قول الكرخي دفعا للحرج لكثرة الحرام وعلی هذا مشی المصنف في كتاب الغصب تبعا للدرر وغيرها. (حاشية ابن عابدين، كتاب البيوع، مطلب إذا اكتسب حراما ثم اشترى فهو على خمسة أوجه 5/235) الفتوی علی قول الكرخي لكثرة الحرام دفعا للحرج عن الناس في هذا الزمان وهذا قول الصدر الشهيد. (مجمع الانهر، كتاب الغصب، فصل غير الغاصب ما غصبه بالتصرف فيه 2/459)

اكتسب مالا من حرام ثم اشترى شيئا منه فإن دفع تلك الدراهم إلى البائع أولا ثم اشترى منه بتلك الدراهم فإنه لا يطيب له ويتصدق به، وإن اشترى قبل الدفع بتلك الدراهم ودفعها فكذلك في قول الكرخي وأبي بكر خلافا لأبي نصر، وإن اشترى قبل الدفع بتلك الدراهم ودفع غيرها أو اشترى مطلقا ودفع تلك الدراهم أو اشترى بدراهم أخرى ودفع تلك الدراهم قال أبو نصر يطيب ولا يجب عليه أن يتصدق وهو قول الكرخي والمختار قول أبي بكر إلا أن اليوم الفتوى على قول الكرخي كذا في الفتاوى الكبرى. (الھندیۃ، فصل فی الاحتکار 3/215)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref. No. 2059/44-2063

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قرآن کریم کی تلاوت پر اجرت لینا دینا جائز نہیں ہے، البتہ کسی بھی طرح اجرت نہ ہوتے ہوئے کوئی مدرسہ میں امدادی رقم دیدے تو اسے مدرسہ کے تمام مصارف میں خرچ کرسکتے ہیں۔ (شامی)  

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند