Frequently Asked Questions
مساجد و مدارس
Ref. No. 2058/44-0000
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مہتمم صاحب جو آپ کو ہدیہ دیتے ہیں اس کا لینا آپ کے لئے درست ہے، اور اس کی تحقیق آپ کے ذمہ لازم نہیں کہ وہ کون سا پیسہ ہے۔ اگر مہتمم صاحب نے مدرسہ کی رقم کو غلط مصرف میں خرچ کیا تو وہ ذمہ دار ہوں گے، مدرسہ میں مختلف قسم کی آمدات ہوتی ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف
بدعات و منکرات
Ref. No. 2205/44-2340
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عبرت اور تذکرہ آخرت کے لئے زیارت قبور ایک جائز امر ہے، لیکن عام طور پر عورتیں نرم دل ہوتی ہیں اور قبر وغیرہ دیکھ کر اپنے متعقلین کو یاد کرکے جزع فزع کرنے لگتی ہیں، نیز محارم سے اختلاط بھی بسا اوقات پایاجاتاہے۔ اس لئے عورتوں کو زیارت قبور سے منع کیاجاتاہے۔ تاہم اگر قبرستان میں عورتوں کے آنے جانے کا الگ نظم ہو یا الگ ایک وقت متعین ہو تو ان کو زیارت قبور کی اجازت ہوگی، لیکن پھر بھی ان کا اپنے گھروں پر رہ کر میت کے لئے اور متعقلین کے لئے دعاکرنا زیادہ احوط ہے اور اسمیں کسی مفسدہ کا خدشہ بھی نہیں ہے۔ البتہ بہت بوڑھی عورتوں کے لئے کچھ سہولت دی جاتی ہے بشرطیکہ وہ جزع فزع نہ کریں کیونکہ ان کے ساتھ کسی فتنہ کا اندیشہ عام طور پرنہیں ہوتاہے۔
"عن ابن عباس، قال: ’’لعن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم زائرات القبور، والمتخذین علیها المساجد والسرج.‘‘ (سنن أبي داؤد، ۳/۲۱۸، أخرجه الترمذي، ۲/۳۶ (۳۲۰) وقال: حدیث حسن)
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (2/ 210):
"(قوله: وقيل: تحرم على النساء إلخ) قال الرملي: أما النساء إذا أردن زيارة القبور إن كان ذلك لتجديد الحزن والبكاء والندب على ما جرت به عادتهن فلاتجوز لهن الزيارة، وعليه حمل الحديث: «لعن الله زائرات القبور»، وإن كان للاعتبار والترحم والتبرك بزيارة قبور الصالحين فلا بأس إذا كن عجائز، ويكره إذا كن شواب، كحضور الجماعة في المساجد".
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:جب تک کسی پنیر کے بارے میں یہ بات دلیل سے متحقق نہ ہوجائے کہ اس میں حرام یا ناپاک چیز کا استعمال ہوا ہے، اس وقت تک اس پر حرام یا ناپاک ہونے کا حکم نہیں لگائیں گے اور جب یہ دلیل سے یقین ہوجائے اور ثبوت مل جائے کہ اس میں کوئی حرام یا ناپاک چیز ملی ہے، تو اس کو ہرگز استعمال نہ کیا جائے، (۱)
الاشباہ والنظائر میں ہے: الأصل في الأشیاء الأباحۃ۔ باب :الیقین لا یزول بالشک۔ (۲)
(۱) أقول۔ و صرح في التحریر بأن الاصل الإباحۃ عند الجمہور من الحنفیۃ والشافعیۃ۔ (ابن عابدین، ردالمحتار،کتاب الطہارۃ، مطلب المختار أن الأصل في الأشیاء الإباحۃ،ج۱، ص:۲۲۱)
(۲)ابن نجیم، الأشباہ والنظائر، الأصل في الأشیاء الإباحۃ، الفن الثالث،ج۱، ص:۲۰۹
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص449
عائلی مسائل
Ref. No. 2708/45-4218
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر بیوی اس طرح کی غلط حرکت کرتی ہے اور شوہر کو یقین ہو تو شوہر کو چاہئے کہ اسے سمجھائے اور خدا اور آخرت کا واسطہ دے، اس کے علاوہ اگر خود سمجھانے سے کام نہ چل سکے تو عورت کے گھر والوں سے بات چیت کرے اس کے علاوہ سمجھانے کی حد تک جو ضروری اور مناسب ہو وہ اقدام کرے، اسی طرح ایک شوہر کا حق ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر عورت گھر سے باہر نہ نکلے شوہر اپنےاس حق کو استعمال کر سکتا ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ ناراضگی اگر کسی غیر شرعی عمل کی وجہ سے ہو تو امام کو چاہیے کہ اس غیر شرعی عمل کو ترک کردے اور اگر ذاتی اغراض کی بنا پر ناراضگی ہو تو ان کی ناراضگی سے امامت کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے؛ تاہم نرم انداز میں، خوش اسلوبی کے ساتھ ان کو سمجھانے کی کوشش کی جائے؛ تاکہ آپسی ناراضگی دور ہو جائے۔(۱)
(۱) نظام الألفۃ وتعلم الجاہل من العالم (قولہ نظام الألفۃ) بتحصیل التعاہد باللقاء في أوقات الصلات بین الجیران۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۸۷)
أم قوما وہم لہ کارہون إن کانت الکراہۃ لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ یکرہ لہ ذلک وإن کان ہو أحق بالإمامۃ لا یکرہ، ہکذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۴)
(ولو أم قوما وہم لہ کارہون، إن) الکراہۃ (لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ منہ کرہ) لہ ذلک تحریما لحدیث أبي داود لا یقبل اللّٰہ صلاۃ من تقدم قوما وہم لہ کارہون، (وإن ہو أحق لا) والکراہۃ علیہم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۴)
(وإمام قوم) أي: الإمامۃ الکبری، أو إمامۃ الصلاۃ (وہم لہ): وفي نسخۃ: لہا، أي الإمامۃ (کارہون) أي: لمعنی مذموم في الشرع، وإن کرہوا لخلاف ذلک، فالعیب علیہم ولا کراہۃ، قال ابن الملک، أي کارہون لبدعتہ أو فسقہ أو جہلہ، أما إذا کان بینہ وبینہم کراہۃ وعداوۃ بسبب أمر دنیوي، فلا یکون لہ ہذا الحکم۔ في شرح السنۃ قیل: المراد إمام ظالم، وأما من أقام السنۃ فاللوم علی من کرہہ، وقیل: ہو إمام الصلاۃ ولیس من أہلہا، فیتغلب فإن کان مستحقا لہا فاللوم علی من کرہہ، قال أحمد: إذا کرہہ واحد أو إثنان أو ثلاثۃ، فلہ أن یصلي بہم حتی یکرہہ أکثر الجماعۃ۔ (رواہ الترمذي وقال: ہذا حدیث غریب): قال ابن حجر: ہذا حدیث حسن غریب۔ (ملاعلي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، الفصل الثاني‘‘: ج ۳، ص:۱۷۹، رقم: ۱۱۲۲)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص282
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں پہلی محراب کو بند کر کے درمیان میں بنا لینا چاہئے یہ ہی طریقہ مسنون ہے اس طرح کر لینے سے تمام جماعتیں اور نمازیں مطابق سنت ہو جائیں گی جس میں مزید اجر وثواب ہوگا؛ البتہ اگر کوئی ایسی سخت مجبوری ہے جس کی وجہ سے محراب درمیان میں نہیں بنائی جا سکتی ہے اور کوشش کے باوجود محراب درمیان میں نہ آسکتی ہو تو پھر اس صورت میں بھی امام وسطِ صف میں کھڑا ہو جائے جماعت اور نمازیںبہرصورت درست اور جائز ہوں گی۔(۱)
(۱) السنۃ أن یقوم في المحراب لیعتدل الطرفان ولو قام في أحد جانبي الصف یکرہ ولو کان المسجد الصیفي بحنب الشتوي وامتلأ المسجد یقوم الإمام في جانب الحائط لیستوی القوم من جانبیہ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ: مطلب ہل الإساء ۃ دون الکراہۃ أو أفحش منہا‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۰)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص400
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:نماز کے شروع کرنے سے پہلے تمام آداب و مستحبات کی تکمیل مناسب ہے کہ خداوند کریم کے روبرو اور دربار خداوندی میں بندہ ہدایت ورحمت کے لیے حاضر ہو رہا ہے تو ایک سوالی کو اپنے مالک کے حضور فرض کی ادائیگی کے لیے ہر طرح سے اپنے کو سنوار کر اور سدھار کر جانا چاہئے۔ آستین کا اتارنا بھی آداب میں سے ہے اگر جان بوجھ کر ایسا کرے گا تو کراہت تنزیہی ہوگی۔(۲)
(۲) عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: أمرت أن أسجد علی سبعۃ أعظم ولا أکف ثوباً ولا شعراً۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب أعضاء السجود والنھي عن کف الشعر ‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۳، رقم: ۴۹۰)
…(و) کرہ (کفہ) أي رفعہ ولو لتراب کمشمر کم أو ذیل۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار،’’کتاب الصلاۃ ، باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا‘‘: ج ۱، ص: ۴۰۶)
قولہ کمشمرکم أو ذیل أي کما لو دخل في الصلاۃ وہو مشمرکمہ أو ذیلہ، وأشار بذلک إلیٰ أن الکراہۃ لا تختص بالکف وہو في الصلاۃ، کما أفادہ في شرح المنیۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’مطلب في الکراھۃ التحریمیۃ و التنزیھیۃ‘‘: ج۲، ص:۴۰۶)
ولو صلی رافعاً کمیہ إلیٰ المرفقین، کرہ کذا في فتاویٰ قاضي خان۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ الخ، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۵، فیصل)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص135
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 943 Alif
الجواب وباللہ التوفیق:
لایجوز المرور بین یدی المصلی مطلقا ان کان المسجد صغیرا وان کان کبیرا فیجوز بشرط ان لا یقل خشوع المصلی بمرورہ۔ والمسجد ان کان اربعین ذراعا او اکثر فکبیر واِلا فصغیر ۔ قال فی الشامی ان کان اربعین ذراعا فھی کبیرۃ واِلا فصغیرۃ ھذا ھو المختار۔ واللہ تعالی اعلم
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
آداب و اخلاق
Ref. No. 1113 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ قسم کھانے سے احتراز ہی بہتر ہے، تاہم اگر کسی نے جائز امر کی قسم کھائی ہے تو اسکو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔لیکن اگرکوئی اپنی قسم پوری نہ کرسکے تو توبہ واستغفار کرے اورقسم توڑنے کا کفارہ دے۔ کفارہ میں دس مسکینوں کو کھانا کھلائے یا کپڑے دیدے ۔ اگر ان دونوں کی استطاعت نہ ہو تو تین روزے رکھے۔فکفارتہ اطع ام عشرة مساکین من اوسط ماتطعمون اہلیکم او کسوتہم او تحریر رقبة فمن لم یجد فصیام ثلثة ایام ذلک کفارة ایمانکم اذا حلفتم۔پارہ نمبر ۷ رکوع نمبر۲۔ تاہم اگر آپ اپنی قسم کی پوری تفصیل بھیجیں تو صورت حال کے اعتبار سے مزید وضاحت کی جائے گی۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Divorce & Separation
Ref. No. 893 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: صریح الفاظ میں نیت پر فیصلہ نہیں ہوتا بلکہ منھ سے نکلے الفاظ پر حکم لگتا ہے۔ اس لئے صورت مسئولہ میں بیوی پرفقہ حنفی کے اعتبار سے تین طلاقیں واقع ہوگئیں ؛ اب رجوع کی کوئی شکل باقی نہیں رہی۔ دونوں میں علیحدگی لازم ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند