اسلامی عقائد

Ref. No. 2204/44-2318

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  صاحب شریعت کے لئے اس طرح کا جملہ  بطور اہانت کے استعمال کرنا موجب کفر ہے، ایسے شخص پر تجدید ایمان لازم ہے۔

ما کان في کونہ کفرا اختلافٌ فإن قائلہ یؤمر بتجدید النکاح و بالتوبۃ والرجوع عن ذلک بطریق الاحتیاط، وما کان خطأ من الألفاظ ولا یوجب الکفر، فقائلہ مؤمنٌ علی حالہ، ولا یؤمر بتجدید النکاح والرجوع عن ذلک، کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۳)

إن ما یکون کفراً اتفاقاً یبطل العمل والنکاح، وما فیہ خلاف یؤمر بالاستغفار والتوبۃ و تجدید النکاح، وظاہرہ أنہ أمر احتیاطي۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: الإسلام یکون بالفعل کالصلاۃ بجماعۃ‘‘: ج ۶، ص: ۳۶۷)

وإذا وصف اللّٰہ تعالیٰ بہا فہي نفي العجز عنہ ومحال أن یوصف غیر اللّٰہ بالقدرۃ المطلقۃ۔ (أبو القاسم الحسین بن محمد، المفردات في غریب القرآن، ’’قدر‘‘: ج ۱، ص: ۳۹۵(

 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس کا جواب مولانا احمد رضا خان صاحب نے یہ دیا ہے کہ بلاشبہ غیرکعبہ کا طواف تعظیمی ناجائز ہے اور غیر خدا کو سجدہ ہماری شریعت میں حرام ہے اور بوسہ قبر میں علماء کا اختلاف ہے اور احوط منع ہے خصوصاً مزارات طیبہ اولیاء کرام کہ ہمارے علماء نے تصریح فرمائی کہ کم ازکم چار ہاتھ کے فاصلہ پر کھڑا ہو یہ ادب ہے پھر تقبیل کیونکر مقصود ہے؛ لہٰذا مذکورہ تمام امور بدعت سیئہ ہیں، جن کو ترک کردینا ضروری ہے۔(۱)

(۱) احکام شریعت: ج ۳، ص: ۳، ۴۔ بہار شریعت: ج ۴، ص: ۱۵۷۔
عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو رد۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح: باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ض1ص370

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 2489/45-3856

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ میت کی تمام اولاد اگر آپسی رضامندی سے وراثت کی تقسیم  میں کمی زیادتی کرے تو اس کی گنجائش ہے ۔ لیکن بہتر یہ ہے کہ پہلے شرعی ضابطہ کے مطابق تقسیم عمل میں آئے پھر جوکوئی اپنا حصہ کسی دوسرے کو دینا چاہے وہ اپنی مرضی سے دوسرے کو دے سکتاہے۔  صورت مسئولہ میں بڑے بیٹے کا اپنی مرضی سے حصہ لینا درست نہیں ہے، اور باپ کی موجودگی میں جو کچھ اس نے تعمیر میں مدد کی وہ ازراہ تبرع تھی، اس کی وجہ سے وراثت میں سے زیادہ حصہ کا مطالبہ جائز نہیں ہے۔ تمام جائداد کی تقسیم میں جائداد کی مالیت کے اعتبار سے تقسیم عمل میں آئے گی۔ اس لئے زمین مع مکان اور خالی زمین کی تقسیم میں فرق ہوگا، اور مکان لینے والوں پر خالی زمین والے کو تعمیر کے عوض کچھ رقم دینے کا فیصلہ بھی  باہمی رضامندی سےدرست ہوگا۔ 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:مذکورہ طریقے سے پیشاب بدبودار اور مضرت رساں اجزاء کو نکال دیا گیا اور باقی جو اجزاء بچے وہ اسی پیشاب کے ہیں اور وہ اپنے تمام اجزاء کے ساتھ نجس العین ہے، اس لیے یہ باقی ماندہ اجزاء بھی نجس العین اور نجس بنجاستِ غلیظہ رہیں گے۔ (۳)
شامی میں ہے: و یرفع بماء ینعقد بہ ملح لا بماء حاصل بذوبان ملح لبقاء الأول علی طبیعۃ الأصلیۃ و انقلاب الثاني إلی طبیعۃ الملحیۃ۔ (۴)

(۳)مفتی نظام الدین اعظمی صاحب، منتخباتِ نظام الفتاویٰ، ج۱، ص:۱۱۵
(۴) ابن عابدین، رد المحتار،کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، ج۱، ص:۳۲۵

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص448

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسے شخص کو امامت پر نہ رکھنا چاہیے ایسے شخص کو ایسے عہدوں پر فائز رکھنا بھی جائز نہیں ہے ، فاسق کی امامت مکروہ تحریمی ہے اس کی مدد ’’اعانت علی المعصیۃ‘‘ ہے۔(۱)

(۱) وذکر الشارح وغیرہ أن الفاسق إذا تعذر منعہ یصلي الجمعۃ خلفہ وفي غیرہا ینتقل إلی مسجد آخر، وعلل لہ في المعراج بأن في غیر الجمعۃ یجد إماما غیرہ۔ (ابن نجیم، البحرائق، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۰)
وکرہ إمامۃ العبد والأعرابي والفاسق والمبتدع  إلخ) قال الرملي: ذکر الحلبي في شرح منیۃ المصلي أن کراہۃ تقدیم الفاسق والمبتدع کراہۃ التحریم۔ (أیضاً)
(ویکرہ) (إمامۃ عبد) (وأعرابي) (وفاسق وأعمی) (ومبتدع) أي صاحب بدعۃ … وفي النہر عن المحیط: صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعۃ، … أفاد أن الصلاۃ خلفہما أولٰی من الإنفراد، لکن لا ینال کما ینال خلف تقي ورع لحدیث، من صلی خلف عالم تقي فکأنما صلی خلف نبي۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸)

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص282

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئول عنہا میں امام کے لیے بہتر تھا کہ رکوع کر دیتا یا دوسری جگہ سے پڑھ دیتا؛ لیکن اگر لقمہ لے لیا، تو اس سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آئی، البتہ مقتدیوں کو چاہئے کہ جب تک لقمہ دینے کی شدید ضرورت نہ ہو امام کو لقمہ نہ دیں۔
’’والصحیح أن ینوي الفتح علی إمامہ دون القرائۃ قالوا: إذا أرتج علیہ قبل أن یقرأ قدر ما تجوز بہ الصلاۃ أو بعد ما قرأ ولم یتحول إلی آیۃ أخری۔ وأما إذا قرأ أو تحول، ففتح علیہ، تفسد صلاۃ الفاتح، والصحیح: أنہا لا تفسد صلاۃ الفاتح بکل حال ولا صلاۃ الإمام لو أخذ منہ علی الصحیح، ہکذا في الکافي۔‘‘(۱)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب السابع فیما یفسد الخ ‘‘: ج ۱، ص:۱۵۷فیصل۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص134

 

قرآن کریم اور تفسیر

Ref. No. 1252/42-587

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آج کے دور میں ضرورت کی بناء پر علماء نے تعلیم قرآن پر اجرت لینا جائزقراردیاہے۔ اگر اجرت نہیں ہوگی تو سب لوگ تجارت میں لگ جائیں گے اور اس طرح تعلیم قرآن میں بڑی رکاوٹ پیدا ہوجائے گی، اس لئے تعلیم قرآن پر اجرت لینا جائز ہے۔

وإنما أفتى المتأخرون بجواز الاستئجار على تعليم القرآن لا على التلاوة وعللوه بالضرورة وهي خوف ضياع القرآن ( شامی 2/73 باب قضاء الفوائت)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1381/42-790

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔پیشاب کے قطروں سے نجات کا ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ انڈرویر کا استعمال کریں اور کچھ ٹشو پیپر اندر رکھ لیں۔ اگر قطرے صرف ٹشو پیپر پر ہوں تو ان کو نکال کر استنجا کرکےوضو کرلیں اور نماز پڑھ لیں۔ اور اگر انڈرویر تک تری آگئی ہو تو اس  انڈرویر نکال کر ایک تھیلی میں رکھ لیں اور استنجاکرکے وضو اور نماز ادا کرلیں۔ اس کے علاوہ کوئی اور بات ہو تو اس کی پوری وضاحت کرکے سوال دوبارہ لکھیں۔   

متى قدر المعذور على رد السيلان برباط أو حشو أو كان لو جلس لا يسيل ولو قام سال وجب رده ويخرج برده عن أن يكون صاحب عذر بخلاف الحائض إذا منعت الدرور فإنها حائض. كذا في البحر الرائق.  (الھندیۃ ، الفصل الاول فی تطھیر النجاسۃ 1/41)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Miscellaneous

Ref. No. 1599/43-1147

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

The companions of the prophet Mohammad (saws) are the criteria of faith. To follow the companions is already prescribed in Ahadith; it is not permissible to attribute wrong things to them. Uttering bad words against them is also illegal in Shariah. Calling a Companion a heretic in a particular matter will not necessitate disbelief though it will be a sinful act for the person. Our scholars have always been very careful in declaring someone as a kafir (disbeliever).

وقد روي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «أصحابي كالنجوم بأيهم اقتديتم اهتديتم» [ص:1691] قلت: فلو فعل إنسان فعلا كان له فيه قدوة بأحد من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم , كان على الطريق المستقيم , ومن فعل فعلا يخالف فيه الصحابة فنعوذ بالله منه , ما أسوأ حاله (الشریعۃ للآجری، باب ذکر فضل جمیع الصحابۃ رضی اللہ عنھم 4/1690)

إذا كان في المسألة وجوه توجب الكفر، ووجه واحد يمنع، فعلى المفتي أن يميل إلى ذلك الوجه كذا في الخلاصة في البزازية إلا إذا صرح بإرادة توجب الكفر، فلا ينفعه التأويل حينئذ كذا في البحر الرائق، ثم إن كانت نية القائل الوجه الذي يمنع التكفير، فهو مسلم، وإن كانت نيته الوجه الذي يوجب التكفير لا تنفعه فتوى المفتي، ويؤمر بالتوبة والرجوع عن ذلك وبتجديد النكاح بينه وبين امرأته كذا في المحيط. (الفتاوی الھندیۃ، مطلب فی موجبات الکفر، انواع منھا مایتعلق 2/282)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

قرآن کریم اور تفسیر

Ref. No. 1727/43-1681

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔

آپ نے قرآن خوانی کے تعلق سے تین باتیں معلوم کی ہیں : تینوں کا جواب بالترتیب دیا جارہاہے۔  (1) گھر یا دکان کے لیے قرآن خوانی کرنا درست ہےاور اس قرآن خوانی میں اگر ایصال ثواب کی نیت کر لی جائے توکوئی حرج کی بات نہیں ہے ۔ (2) اگر قرآن دنیوی مقصد کے لیے پڑھا گیا ہو جیسے کہ لوگ دکان یا کاروبار میں برکت کے لیے قرآن پڑھاتے ہیں تاکہ ہماری تجارت میں برکت ہو تو ایسی قرآن خوانی پر اجرت لینا جائز ہے ۔اس لیے ہر وہ کام جو دنیوی فائدہ کے لیے ہو اگر اس پر قرآن پڑھایا جائے اور اس پر اجرت لی جائے تو یہ جائز ہے ۔

عن ابن عباس: أن نفرا من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم مروا بماء، فيهم لديغ أو سليم، فعرض لهم رجل من أهل الماء، فقال: هل فيكم من راق، إن في الماء رجلا لديغا أو سليما، فانطلق رجل منهم، فقرأ بفاتحة الكتاب على شاء، فبرأ، فجاء بالشاء إلى أصحابه، فكرهوا ذلك وقالوا: أخذت على كتاب الله أجرا، حتى قدموا المدينة، فقالوا: يا رسول الله، أخذ على كتاب الله أجرا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن أحق ما أخذتم عليه أجرا كتاب الله(صحیح  البخاری،باب الشرط في الرقية بقطيع من الغنم،حدیث نمبر:5737)

 ایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی چوں کہ دینی مقصد کے لیے ہے اس پر اجرت لینا جائز نہیں ہے۔  

  قال تاج الشريعة في شرح الهداية: إن القرآن بالأجرة لا يستحق الثواب لا للميت ولا للقارئ. وقال العيني في شرح الهداية: ويمنع القارئ للدنيا، والآخذ والمعطي آثمان. فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لا يجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال؛ فإذا لم يكن للقارئ ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان بل جعلوا القرآن العظيم مكسبا ووسيلة إلى جمع الدنيا - إنا لله وإنا إليه راجعون - اهـ.(شامی ، مطلب فی الاستئجار علی المعاصی٦/٥٦)
(3)میت کے لیے ایصال ثواب کا ثبوت احادیث اور سلف کے تعامل سے ثابت ہے اور جس طرح مالی عبادت کا ثواب میت کو پہنچتاہے اسی طرح بدنی عبادت کا ثواب بھی میت کو پہنچتاہے ۔علامہ شامی نے اسے اہل السنت والجماعت کا مسلک قرار دیا ہے ۔

من دخل المقابر فقرأ سورة يس خفف الله عنهم يومئذ، وكان له بعدد من فيها حسنات  بحر. وفي شرح اللباب ويقرأ من القرآن ما تيسر له من الفاتحة وأول البقرة إلى المفلحون وآية الكرسي - وآمن الرسول - وسورة يس وتبارك الملك وسورة التكاثر والإخلاص اثني عشر مرة أو إحدى عشر أو سبعا أو ثلاثا، ثم يقول: اللهم أوصل ثواب ما قرأناه إلى فلان أو إليهم. اهـ. مطلب في القراءة للميت وإهداء ثوابها له [تنبيه]صرح علماؤنا في باب الحج عن الغير بأن للإنسان أن يجعل ثواب عمله لغيره صلاة أو صوما أو صدقة أو غيرها كذا في الهداية، بل في زكاة التتارخانية عن المحيط: الأفضل لمن يتصدق نفلا أن ينوي لجميع المؤمنين والمؤمنات لأنها تصل إليهم ولا ينقص من أج ره شي(رد المحتار،مطلب فی زیارۃ القبور ،2/243)۔

قرآن کریم کے ذریعہ میت کو ثواب پہنچانا بھی درست ہے او راس سے میت کو فائدہ پہنچتاہے اور یہ عمل بھی حدیث اور سلف کے تعا مل سے ثابت ہے۔

أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ويس قلب القرآن لا يقرؤها رجل يريد الله والدار الآخرة إلا غفر له، اقرءوها على موتاكم(السنن الکبری للنسائی،حدیث نمبر:10847) وعن مجالد، عن الشعبي " كانت الأنصار إذا حضروا قرؤوا عند الميت البقرة ". مجالد ضعيف.(خلاصۃ الاحکام،باب مایقولہ من مات لہ میت ،حدیث نمبر:3279 )ملا علی قاری مرقات میں لکھتے ہیں : وأن المسلمين ما زالوا في كل مصر وعصر يجتمعون ويقرءون لموتاهم من غير نكير، فكان ذلك إجماعا، ذكر ذلك كله الحافظ شمس الدين بن عبد الواحد المقدسي الحنبلي في جزء ألفه في المسألة، ثم قال السيوطي: وأما القراءة على القبر فجاز بمشروعيتها أصحابنا وغيرهم.(مرقات المفاتیح،باب دفن المیت ، 3/1229)۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند