Frequently Asked Questions
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 1255-42-592
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایسی مجبوری میں از راہ انسانیت ان کا تعاون کرنے کی گنجائش ہے، تاہم جلانے میں کسی تعاون کی ضرورت نہیں ، اس لئےلاش کو جلانے کے عمل میں اور ان کے مذہبی رسومات میں تعاون سے گریز کریں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ذبیحہ / قربانی و عقیقہ
Ref. No. 1504/42-978
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جب جانور بیچنے والے نے جانور کی عمر وغیرہ سب کچھ کی وضاحت کردی تو اس کی کمائی حلال ہے۔یہ خریدنے والے کی ذمہ داری ہے کہ جن لوگوں نے قربانی کے لئے اس کو وکیل بنایاہے ان کی طرف سے واجب جانور کی قربانی کرے۔ ایسا جانور قربانی میں ذبح کرنا جس کی عمر مکمل نہ ہو جائز نہیں ہے اور جو لوگ اس طرح کی قربانی کریں گے وہ گنہگار ہوں گے اور دوسروں کی قربانی صحیح نہ ہونے کا گناہ بھی ان کے ہی سر جائے گا۔
لابأس بأن یواجر المسلم داراً من الذمي لیسکنها، فإن شرب فیها الخمر أو عبد فیها الصلیب أو أدخل فیها الخنازیر لم یلحق للمسلم أثم في شيءٍ من ذلک؛ لأنه لم یوجرها لذلک والمعصیة في فعل المستاجر دون قصد رب الدار فلا إثم علی رب الدار في ذلک. (المبسوط ج :17 ص: 309) وذكر الزعفراني أنه ابن سبعة أشهر. والثني منها ومن المعز سنة، ومن البقر ابن سنتين، ومن الإبل ابن خمس سنين، ويدخل في البقر الجاموس لأنه من جنسه (فتح القدیر، کتاب الاضحیۃ 9/517)م (تبیین الحقائق، مما تکون الاضحیۃ 6/7) (تحفۃ الفقھاء، کتاب الاضحیۃ 3/84)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1977/44-1919
بسم اللہ الرحمن الرحیم: سوال میں مذکور عمل کثیر کی تعریف درست ہے، اس کے علاوہ عمل کثیر کی یہ تعریف بھی کی گئی ہے کہ کوئی ایسا کام کرنا کہ دور سے دیکھنے والے کو یقین ہوجائے کہ یہ عمل کرنے والا نماز میں نہیں ہے، مثلا اگر کوئی ایک رکن میں تین بار اس طرح کھجائے کہ تین دفعہ ہاتھ اٹھانے کی درمیانی مدت تین تسبیح کہنے کی مقدار وقت سے کم ہو تو نماز فاسد ہوجائے گی، لیکن اگر رکن طویل ہو اور کھجانے کے لئے تین دفعہ ہاتھ اٹھانے کی درمیانی مدت تین تسبیح کہنے کی مقدار وقت سے زیادہ ہو تو دیکھنے والے کو اس شخص کے نماز میں نہ ہونے کا یقین نہیں ہوگا، اس لئے نماز فاسد نہیں ہوگی۔ باقی تفصیلات کتب فقہ میں موجود ہیں۔
"(و) يفسدها (كل عمل كثير) ليس من أعمالها ولا لإصلاحها، وفيه أقوال خمسة أصحها (ما لايشك) بسببه (الناظر) من بعيد (في فاعله أنه ليس فيها) وإن شك أنه فيها أم لا فقليل۔ ۔ ۔ ۔ (قوله: ليس من أعمالها) احتراز عما لو زاد ركوعا أو سجودا مثلا فإنه عمل كثير غير مفسد لكونه منها غير أنه يرفض لأن هذا سبيل ما دون الركعة ط قلت: والظاهر الاستغناء عن هذا القيد على تعريف العمل الكثير بما ذكره المصنف تأمل (قوله ولا لإصلاحها) خرج به الوضوء والمشي لسبق الحدث فإنهما لا يفسدانها ط. قلت: وينبغي أن يزاد ولا فعل لعذر احترازا عن قتل الحية أو العقرب بعمل كثير على أحد القولين كما يأتي، إلا أن يقال إنه لإصلاحها لأن تركه قد يؤدى إلى إفسادها تأمل (قوله: وفيه أقوال خمسة أصحها ما لا يشك إلخ) صححه في البدائع، وتابعه الزيلعي والولوالجي. وفي المحيط أنه الأحسن. وقال الصدر الشهيد: إنه الصواب. وفي الخانية والخلاصة: إنه اختيار العامة. وقال في المحيط وغيره: رواه الثلجي عن أصحابنا حلية.
القول الثاني أن ما يعمل عادة باليدين كثير وإن عمل بواحدة كالتعميم وشد السراويل وما عمل بواحدة قليل وإن عمل بهما كحل السراويل ولبس القلنسوة ونزعها إلا إذا تكرر ثلاثا متوالية وضعفه في البحر بأنه قاصر عن إفادة ما لا يعمل باليد كالمضغ والتقبيل. الثالث الحركات الثلاث المتوالية كثير وإلا فقليل۔ الرابع ما يكون مقصودا للفاعل بأن يفرد له مجلسا على حدة. قال في التتارخانية: وهذا القائل: يستدل بامرأة صلت فلمسها زوجها أو قبلها بشهوة أو مص صبي ثديها وخرج اللبن: تفسد صلاتها. الخامس التفويض إلى رأي المصلي، فإن استكثره فكثير وإلا فقليل قال القهستاني: وهو شامل للكل وأقرب إلى قول أبي حنيفة، فإنه لم يقدر في مثله بل يفوض إلى رأي المبتلى. اهـ. قال في شرح المنية: ولكنه غير مضبوط، وتفويض مثله إلى رأي العوام مما لا ينبغي، وأكثر الفروع أو جميعها مفرع على الأولين. والظاهر أن ثانيهما ليس خارجا عن الأول، لأن ما يقام باليدين عادة يغلب ظن الناظر أنه ليس في الصلاة، وكذا قول من اعتبر التكرار ثلاثا متوالية فإنه يغلب الظن بذلك، فلذا اختاره جمهور المشايخ. اهـ. (قوله: ما لا يشك إلخ) أي عمل لا يشك أي بل يظن ظنا غالبا شرح المنية وما بمعنى عمل، والضمير في بسببه عائد إليه والناظر فاعل يشك، والمراد به من ليس له علم بشروع المصلي بالصلاة كما في الحلية والبحر. وفي قول الشارح من بعيد تبعا للبدائع والنهر إشارة إليه لأن القريب لا يخفى عليه الحال عادة فافهم (قوله: وإن شك) أي اشتبه عليه وتردد"۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 624)
"(و) كره (كفه) أي رفعه ولو لتراب كمشمر كم أو ذيل (وعبثه به) أي بثوبه (وبجسده) للنهي إلا لحاجة۔ ۔ ۔ (قوله: وعبثه) هو فعل لغرض غير صحيح قال في النهاية: وحاصله أن كل عمل هو مفيد للمصلي فلا بأس به. أصله ما روي «أن النبي صلى الله عليه وسلم عرق في صلاته فسلت العرق عن جبينه» أي مسحه لأنه كان يؤذيه فكان مفيدا. وفي زمن الصيف كان إذا قام من السجود نفض ثوبه يمنة أو يسرة لأنه كان مفيداً كي لاتبقى صورة. فأما ما ليس بمفيد فهو العبث اهـوقوله كي لا تبقى صورة يعني حكاية صورة الألية كما في الحواشي السعدية، فليس نفضه للتراب. فلا يرد ما في البحر عن الحلية من أنه إذا كان يكره رفع الثوب كي لا يتترب، لا يكون نفضه من التراب عملا مفيدا (قوله للنهي) وهو ما أخرجه القضاعي عنه صلى الله عليه وسلم: «إن الله كره لكم ثلاثاً: العبث في الصلاة. والرفث في الصيام، والضحك في المقابر» " وهي كراهة تحريم كما في البحر (قوله: إلا لحاجة) كحك بدنه لشيء أكله وأضره وسلت عرق يؤلمه ويشغل قلبه. وهذا لو بدون عمل كثير. قال في الفيض: الحك بيد واحدة في ركن ثلاث مرات يفسد الصلاة إن رفع يده في كل مرة اهـ۔ وفي الجوهرة عن الفتاوى: اختلفوا في الحك. هل الذهاب والرجوع مرة أو الذهاب مرةً والرجوع أخرى" (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 640)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام سفر
Ref. No. 2149/44-2233
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر سفر کے ارادہ سے نکلا اور سفر کی مسافت شرعی پوری نہیں کی اور واپس آگیا، تو واپسی میں وہ مسافر نہیں رہا، البتہ جو نمازیں واپسی کے ارادہ سے قبل قصر کی ہیں ان کو دوبارہ اداکرنا ضروری نہیں ہے۔
اما اذا لم یسر ثلاثۃ ایام فعزم علی الرجوع او نوی الاقامۃ یصیر مقیما وان کان فی المفازۃ (الھندیۃ 1/199 الباب الخامس عشر فی صلوۃ المسافر، زکریا دیوبند)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 2272/44-2433
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قدرتی طور پر جتنی داڑھی ہے، اسی کو باقی رکھنا مناسب ہے تاہم بالوں کو بڑھانے والے پاک تیل کا استعمال بھی جائز ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وبا للّٰہ التوفیق:نفس دعا ثابت ہے، ’’الدعا مخ العبادۃ‘‘ نیز دعا کے لیے کوئی خاص وقت متعین نہیں ہے، کسی بھی وقت دعا کرسکتے ہیں، دعا کرنا پسندید عمل ہے قرآن کریم میں ہے {أدعوني استجب لکم} (۱) تاہم کسی وقت کو دعا کے لیے اس طرح خاص کردینا درست نہیں ہے کہ اس وقت دعا کو مباح ہی نہیں، بلکہ لازم وضروری سمجھا جائے اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو برا سمجھا جائے ایسا کرنا بدعت ہے حدیث ہے ’’من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد‘‘(۲) مذکورہ صورت میں چوں کہ دعا کو اس وقت میں لازم نہیں سمجھا جارہا ہے؛ بلکہ ایک مباح اور پسندیدہ امر کے طور پر دعا کرلیتے ہیں، اس لیے کبھی کبھی بعض لوگ دعا نہیں بھی کرتے جیسا کہ سوال میں مذکور ہے؛ اس لیے یہ امر بدعت نہیں ہے۔ (۳)
(۱) (سورۃ غافر: ۶۰)
(۲) (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)
(۳) عن النعمان بن بشیر قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: الدعاء ہو العبادۃ، ثم قرأ: {وقال ربکم ادعوني استجب لکم} (غافر: ۶۰) رواہ أحمد، والترمذي، وأبو داؤد، والنسائي وابن ماجہ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الدعوات: الفصل الثاني‘‘: ج ۵، ص: ۵۰۲، رقم: ۲۲۳۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص458
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے التزام کا ثبوت نہیں ہے؛ اس لیے اس سے پرہیز اولیٰ ہے۔ تاہم بلا التزام دعاء مانگنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (۲)
(۲) فافتتاح الدعاء علی اللّٰہ علی ما ہو أہلہ ثم الصلوٰۃ علیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وإن کان لہ في الشریعۃ … ثم ہذا التزام ثم تشدید النکیر علی التارک کل ذلک بعید عن السنۃ۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، معارف السنن: ج ۳، ص: ۱۲۵)
من أحدث في الإسلام حدثاً۔ فعلیہ {لَعْنَۃُ اللّٰہِ وَالْمَلٰٓئِکَۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ ا ۱۶۱}۔ (ابن حجر العسقلاني، المطالب العالیہ،ج۳، ص:۱۱۵ رقم: ۲۹۸۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص507
مساجد و مدارس
Ref. No. 2492/45-3802
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ منبرپرتقریر کے دوران کسی دینی کتاب کی رہنمائی کرنا دعوتِ دین ہے اور خیرخواہی پر مبنی ہے۔ دوران تقریرمسجد میں اس طرح کی بات کرنا بھی دینی بات ہی ہے، اس میں بلاوجہ شک نہ کیاجائے۔ یہ اعلان نہ تو مسجد کے ادب کے خلاف ہے اور نہ ہی یہ بیع فی المسجد کے مشابہ ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:سوال میں یہ وضاحت نہیں ہے کہ اللہ کے راستہ سے کیا مراد ہے؟ تاہم غزوہ خیبر میں ابتداًء حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عذر پیش کیا تھا؛ اس لئے عذر کرنے کو دین کی محنت کے مذاق سے تعبیر کرنا درست نہیں ہے۔(۱)
(۱) عن عبد الرحمن بن أبي لیلی قال: کان أبو لیلی یسمر مع علي فکان یلبس ثیاب الصیف في الشتاء وثیاب الشتاء في الصیف، فقلنا: لو سألتہ، فقال: إن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بعث إلي وأنا أرمد العین یوم خیبر، قلت یا رسول اللّٰہ إني أرمد العین فتفل في عیني، ثم قال: اللہم إذہب عنہ الحر والبرد، قال: فما وجدت حراً ولا برداً بعد یومئذ وقال: لأبعثن رجلاً یحب اللّٰہ ورسولہ، ویحبہ اللّٰہ ورسولہ لیسً بفرار) فتشرف لہ الناس فبعث إلي علي فأعطاہا إیاہ۔ (أخرجہ ابن ماجۃ، في سننہ، ’’المقدمۃ، باب في فضائل أصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فضل علي بن أبي طالب رضي اللّٰہ عنہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲، رقم: ۱۱۷)
عن زید بن ثابت رضي اللّٰہ عنہ، قال: کنت إلی جنب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فغشیتہ السکینۃ فوقعت فخذ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی فخذی، فما وجدت ثقل شيء أثقل من فخذ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ثم سری عنہ، فقال: (اکتب) فکتبت في کتفٍ {لایَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ} (سورۃ النساء: ۹۵) {وَالْمُجٰھِدُوْنَ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ} (سورۃ النساء: ۹۵) إلی آخر الآیۃ، فقام ابن أم مکتوم، وکان رجلا أعمی لما سمع فضیلۃ المجاہدین، فقال یا رسول اللّٰہ، فکیف بمن لا یستطیع الجہاد من المؤمنین فلما قضی کلامہ غشیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم السکینۃ فوقعت فخذہ علی فخذی ووجدت من ثقلہا في المرۃ الثانیۃ، کما وجدت في المرۃ الأولی ثم سری عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال: (اقرأ یا زید) فقرأت {لایَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ} (سورۃ النساء: ۹۵)، فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: {غَیْرُ أُولِی الضَّرَرِ} (سورۃ النساء: ۹۵)، الآیۃ کلہا، قال زیدٌ: فأنزلہا اللّٰہ وحدہا، فألحقتہا، والذي نفسي بیدہ کأني أنظر إلی ملحقہا عند صدع في کتف۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الجہاد: باب في الرخصۃ في العقود من العذر‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۹، رقم: ۲۵۰۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص305
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ پیر کا اپنے مزعومہ کشف کے ذریعہ نہ ماننے والوں کو بے ایمان،منافق، راندۂ درگاہ کہنا، کھلی ہوئی گمراہی ہے یا یہ کہنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گناہ معاف نہیں ہوئے ایسی گمراہی ہے جس پر کفر کا اندیشہ ہے(۱) اولا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی گناہ سرزد ہو نہیں سکتا اور اگر احتمال ہوتا بھی، تو قرآن کریم اور صحیح احادیث سے ان کی معافی کے اعلان کے بعد ایسا عقیدہ انتہائی غلط ہے،(۲) مذکورہ پیر کا لوگوں کو بیعت ہونے کے لئے مجبور کرنا یا خلفاء کے ذریعہ جھوٹی تشہیر کرانا، اپنے جھوٹے مشاہدات بیان کرنا یا کرانا، کسی دیندار جماعت کے بارے میں ایمان پر خاتمہ نہ ہونے کی پیشین گوئی کرنا یا اپنی قدم بوسی کرانا ناجائز ہے، ایسے پیر سے بیعت کا تعلق ختم کر کے علیحدہ ہو جانا فرض اور اس کے ساتھ رہنا حرام ہے، نیز ایسے پیر پر صدق دل سے توبہ کرنا فرض ہے۔(۳)
(۱) وقال مع ذلک إن معاصي الأنبیاء کانت عمداً فقد کفر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بالأنبیاء علیہم السلام‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۶)
(۲) {إِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًاہلا ۱ لِّیَغْفِرَلَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَمنْبِکَ وَمَا تَأَخَّرَ وَیُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ وَیَھْدِیَکَ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا ہلا ۲ } (سورۃ الفتح: ۱)
(۳) وإن کانت نیتہ الوجہ الذي یوجب التکفیر، لا تنفعہ فتویٰ المفتي، ویؤمر بالتوبۃ، والرجوع عن ذلک وبتجدید النکاح بینہ وبین امرأتہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص401