نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اذان میں ’’حي علی الصلوۃ‘‘ کے وقت چہرہ کو دائیں جانب پھیرنا، اور ’’حي علی الفلاح‘‘ کے وقت بائیں جانب چہرہ پھیر نامسنون ہے۔ سنت کے خلاف عمل جان بوجھ کر نہیں کرنا چاہئے، ایسا کر نا مکر وہ ہے، لیکن اگر کبھی اتفاق سے ایسا ہو گیا تو کوئی حرج نہیں ہے، اذان ہو گئی اور اس کے بعد پڑھی گئی نماز بلا کر اہت درست ہو گئی۔ جو شخص اذان دے اقامت کہنا بھی اس کا حق ہے، اذان کہنے والے کی اجازت کے بغیر دوسرے شخص کا اقامت کہنا مکروہ ہے، اگر مؤذن ناراض ہو تاہو، لیکن اگر مؤذن نے اجازت دیدی، یا مؤذن ناراض نہیں ہو تا ہے تو دوسرا شخص بلا اجازت بھی اقامت کہہ سکتا ہے۔ نماز بہر صورت درست ہو جاتی ہے۔
’’قولہ: ویلتفت یمینا وشمالا بالصلاۃ والفلاح لما قدمناہ ولفعل بلال رضي اللّٰہ عنہ علی ما رواہ الجماعۃ، ثم أطلقہ فشمل ما إذا کان وحدہ علی الصحیح؛ لکونہ سنۃ الأذان فلایترکہ خلافا للحلواني؛ لعدم الحاجۃ إلیہ، وفي السراج الوہاج: أنہ من سنن الأذان فلایخل المنفرد بشيء منہا، حتی قالوا في الذي یؤذن للمولود ینبغي أن یحول‘‘
’’وقید بالیمین والشمال؛ لأنہ لایحول وراء ہ لما فیہ من استدبار القبلۃ، ولا أمامہ لحصول الإعلام في الجملۃ بغیرہا من کلمات الأذان، وقولہ بالصلاۃ والفلاح لف ونشر مرتب یعني أنہ یلتفت یمینا بالصلاۃ وشمالاً بالفلاح، وہو الصحیح خلافا لمن قال: إن الصلاۃ بالیمین والشمال والفلاح کذلک، وفي فتح القدیر: أنہ الأوجہ، ولم یبین وجہہ، وقید بالالتفات؛ لأنہ لایحول قدمیہ؛ لما رواہ الدارقطني عن بلال قال: أمرنا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا أذنا أو أقمنا أن لانزیل أقدامنا عن مواضعہا، وأطلق في الالتفات ولم یقیدہ بالأذان، وقدمنا من الغنیۃ أنہ یحول في الإقامۃ أیضًا، وفي السراج الوہاج لایحول فیہا  لأنہا لإعلام الحاضرین بخلاف الأذان فإنہ إعلام للغائبین، وقیل: یحول، إذا کان الموضع متسعًا ‘‘(۱)
’’ویحول في الإقامۃ إذا کان المکان متسعًا وہو أعدل الأقوال کما في النہر‘‘(۲)
’’أقام غیر من أذن بغیبتہ) أي المؤذن (لا یکرہ مطلقاً)، وإن بحضورہ کرہ أن لحقہ وحشۃ‘‘(۱)

(۱) ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘:  ج۱، ص: ۴۴۹،۴۵۰۔
(۲) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ص: ۱۹۷۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب في أذانہ، ج۲، ص: ۶۴۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص182


 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: {أحد} کی دال پر تنوین ہے اور تنوین میں نون ساکن ہوتا ہے اور ساکن کا قاعدہ یہ ہے کہ اگر اس کو اگلے حرف سے ملانا ہو تو اس ساکن پر کسرہ پڑھا جاتا ہے ’’الساکن إذا حرک حرک بالکسر‘‘(۱)؛ اس لیے {أحدُنِ اللّٰہ} پڑھنے سے نماز میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ نماز درست ہے۔

(۱) وفیما قریٔ من قولہ تعالیٰ: قل ہو اللّٰہ أحد، اللّٰہ الصمد، فشاذ۔ والأصل في تحریک الساکن الأول الکسر لما ذکرنا أنہ من سجیۃ النفس إذا لم تستکرہ علی حرکۃ أخری۔ (ابن الحاجب، الرضي الاستراذي، ’’باب التقاء الساکنین‘‘: ج ۲، ص: ۲۳۵)
وحق الساکن إذا حرک بالکسر۔ (محمد بن عبداللّٰہ، علل النحو: ج ۱، ص: ۱۶۴)
فجملۃ ہذا الباب في التحرک أن یکون الساکن الأول مکسوراً وذلک قولک أضرب وأکرم الرجل وأذہب وقل ہو اللّٰہ أحد، اللّٰہ لأن التنوین ساکن وقع بعدہ حرف ساکن فصار بمنزلۃ باء أضرب ونحو ذلک۔ (الکتاب لسیبویہ، ’’إذا حذفت الف الوصل لالتقاء الساکنین‘‘: ج ۴، ص: ۱۵۲؛ و الأصول في النحو، ’’الف الوصل‘‘: ج ۲، ص: ۳۶۹)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص249

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر وہ سنتیں وقت ظہر شروع ہونے کے بعد پڑھی ہیں خواہ اذان سے پہلے ہی پڑھی ہو ں تو جائز اور درست ہیں، اعادہ ان کا بعد ِ اذان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔(۲)

(۱)  و أما الصلاۃ المسنونۃ فھي السنن المعھودۃ للصلوات المکتوبۃ ۔۔۔۔ أما الأوّل فوقت جملتھا وقت المکتوبات لأنھا توابع للمکتوبات، فکانت تابعۃ لھا في الوقت، (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع،کتاب الصلوٰۃ، ج۱، ص۲۸۴)
وھو سنۃ للفرائض الخمس في وقتھا ولو قضاء لأنہ سنۃ لصلاۃ حتی یبرد بہ لا للوقت لا یسن لغیرھا کعید (قولہ لعید أي وتر و جنازۃ و کسوف و استسقاء و تراویح و سنن رواتب لأنھا اتباع للفرائض۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار ج۱، ص۸۵-۳۸۴، کتاب الصلوٰۃ، سعید، کراچی)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص371

 

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No 918 Alif

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

The interest money you received from the bank is Haram and you have to get rid of it by giving it to poor and needy persons as charity. The charity should be made without the intention of reward. The interest received from the bank is haram for those who are wealthy as per shariah (Sahibe Nisab), but for those who are poor and needy, the interest is not Haram but it is Halal. Since the interest money is not lawful for us so we cannot like it for ourselves. But when it is Halal for others then we like it for them. Similarly we give the zakat of our wealth to widows, poor and needy who are eligible for zakat because it is halal for them and we cannot hold the zakat amount with us because it is haram for us.  

And Allah Knows Best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

متفرقات

Ref. no. 38 / 995 

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:  حدود وسزا کے نفاذ کے لئے دارالاسلام  اور امیرالمسلمین کا ہونا ضروری ہے، اس لئے ہندوستان میں حدود کا نفاذ نہیں ہوسکتا البتہ ملکی قوانین کے مطابق ان کو سزا ملنی ضروری ہے تا کہ جرائم کا انسداد ہو۔ تاہم ایک مسلمان پر ایسے فعل کے صادر ہونے پر سچے دل سے توبہ واستغفار لازم ہے، امید ہے کہ انشاء اللہ آخرت میں مواخذہ نہ ہو۔   واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Eating & Drinking

Ref. No. 39/1093

In the name of Allah the most Gracious the most merciful

The answer to your question is as follows:

Ulama have different opinions in regard to the prawn eating. Imam Abu Hanifa is of the opinion that prawn does not come under the category of fish which is lawful. So you are suggested to avoid prawn eating.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1772/43-1507

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔

احناف کے نزدیک سجدہ  سہوکی کیفیت یہ ہے کہ قعدہ اخیرہ میں تشہد پڑھ کر ایک سلام پھیرے پھر دو سجدہ کرے اور اس کے بعد تشہد ، دورد اور دعائے ماثورہ پڑھے پھر دونوں طرف سلام پھير کر نماز سے نکل جائے جیسا کہ آپ نے پہلی صورت ذکر کی ہے۔

(ويسجد له بعد السلام سجدتين ثم يتشهد ويسلم) قال - عليه الصلاة والسلام -: «لكل سهو سجدتان بعد السلام» . وروى عمران بن حصين وجماعة من الصحابة: «أنه - صلى الله عليه وسلم - سجد سجدتي السهو بعد السلام» ، ثم قيل يسلم تسليمتين، وقيل تسليمة واحدة وهو الأحسن، ثم يكبر ويخر ساجدا ويسبح، ثم يرفع رأسه، ويفعل ذلك ثانيا، ثم يتشهد ويأتي بالدعاء ; لأن موضع الدعاء آخر الصلاة، وهذا آخرها.(الاختیار لتعلیل المختار،1/73)
وإذا عرف أن محله المسنون بعد السلام فإذا فرغ من التشهد الثاني يسلم ثم يكبر ويعود إلى سجود السهو، ثم يرفع رأسه مكبرا، ثم يتشهد ويصلي على النبي - صلى الله عليه وسلم - ويأتي بالدعوات، وهو اختيار الكرخي واختيار عامة مشايخنا بما وراء النهر (بدائع الصنائع:١٧٣/١
)

امام طحاوی کی رائے ہے کہ دونوں قعدہ میں درود اور دعائے ماثورہ پڑھے ، علامہ ابن الہمام نے اسی کو احوط قرار دیا ہے اور ایک رائے یہ بھی ہے کہ حضرات شیخین کے نزدیک سجدہ سہو کے ہی قعدہ میں درود اور دعائے ماثورہ پڑھ لے اور امام محمد کے مطابق قعدہ اخیرہ کے تشہد میں درود اور دعائے ماثورہ پڑھے ۔اس سے معلوم ہوتاہے کہ دونوں صورتوں کی گنجائش ہے ۔ حضرات فقہائے احناف نے سہو کے قعدہ میں درود اور دعائے ماثورہ اس لیے بھی پڑھنے سے منع کیا ہے تاکہ لوگوں کو معلوم ہوسکے کہ یہ قعدہ اخیرہ نہیں؛ بلکہ سہو کا قعدہ ہے اور مسبوق اس میں سلام پھیرنے سے رک سکے اس لیے جماعت کی نماز میں تو امام کو سہو کے قعدہ میں درود اور دعائے ماثورہ نہیں پڑھنا چاہیے ۔ہاں انفرادی نماز میں اگر سہو کے قعدہ میں تشہد کے ساتھ درود  اور دعائے ماثورہ پڑھ لے اور قعدہ اخیرہ میں صرف تشہد پڑھ کر سلام پھیر دے تو اس کی گنجائش ہے۔ نماز کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہوگی اس صورت میں دونوں طرف سلام پھیر کر بھی سجدہ سہو کیا جاسکتاہے اس لیے کہ احناف کے یہاں دونوں سلام کا بھی قول ہے اور روایت سے بھي دونوں سلام ثابت ہے۔

ويأتي بالصلاة على النبي - عليه الصلاة والسلام -، والدعاء في قعدة السهو هو الصحيح لأن الدعاء موضعه آخر الصلاة.-(قوله هو الصحيح) احتراز عما قال الطحاوي في القعدتين لأن كلا منهما آخر.وقيل قبل السجود عندهما وعند محمد بعده(فتح القدیر1/501)
وإذا عرف أن محله المسنون بعد السلام فإذا فرغ من التشهد الثاني يسلم ثم يكبر ويعود إلى سجود السهو، ثم يرفع رأسه مكبرا، ثم يتشهد ويصلي على النبي - صلى الله عليه وسلم - ويأتي بالدعوات، وهو اختيار الكرخي واختيار عامة مشايخنا بما وراء النهر، وذكر الطحاوي أنه يأتي بالدعاء قبل السلام وبعده وهو اختيار بعض مشايخنا، والأول أصح؛ لأن الدعاء إنما شرع بعد الفراغ من الأفعال والأذكار الموضوعة في الصلاة(بدائع الصنائع،1/173)

جہاں تک تیسری صورت کا تعلق ہے کہ سہو کے قعدہ میں ہی تشہد اور دورد اور دعائے ماثورہ پڑھ کرسلام پھیرے پھر دو سجدہ کرے اور بلا سلام کے نماز سے نکل جائے تو یہ صورت درست نہیں ہے اس سے سجدہ سہو ادا نہ ہو گا او رسجدہ سہو ادا نہ ہونے کی وجہ سے نماز واجب الاعادہ ہوگی ۔اس لیے کہ سجدہ سہو کے لیے تشہد اور سلام ضروری ہے۔

عن عبد اللہ ابن مسعود رضي اللہ عنہ: “إذا قام أحدکم في قعود، أو قعد في قیام، أو سلم في الرکعتین، فلیتم ثم لیسلم ثم یجسد سجدتین یتشہد فیہما ویسلم“ أخرجہ سحنون في المدونة الکبری لہ (۱/۱۲۸)(يجب(سجدتان. و) يجب أيضا (تشهد وسلام) لأن سجود السهو يرفع التشهد(رد المحتار،2/79)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Zakat / Charity / Aid

Ref. No. 1879/43-1735

  In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Zakat is not obligatory on the gold held by the bank as a security. And after withdrawing jewelry from the bank, Zakat of previous years too will not be obligatory.

"ومنها الملك التام وهو ما اجتمع فيه الملك واليد وأما إذا وجد الملك دون اليد كالصداق قبل القبض أو وجد اليد دون الملك كملك المكاتب والمديون لاتجب فيه الزكاة، كذا في السراج الوهاج ... ولا على الراهن إذا كان الرهن في يد المرتهن، هكذا في البحر الرائق". الفتاوى الهندية (1/ 172):

"ولا في مرهون بعد قبضه.. .  (قوله: ولا في مرهون) أي لا على المرتهن؛ لعدم ملك الرقبة، ولا على الراهن؛ لعدم اليد، وإذا استرده الراهن لايزكي عن السنين الماضية، وهو معنى قول الشارح بعد قبضه، ويدل عليه قول البحر: ومن موانع الوجوب الرهن ح، وظاهره ولو كان الرهن أزيد من الدين ) الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 263(

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

مساجد و مدارس

Ref. No. 1981/44-1924

بسم اللہ الرحمن الرحیم:  مدرسہ نے سالانہ جو فیس آپ سے لی ہے اس میں خوراکی فیس بھی ہے ، اب بچہ کو جومدرسہ سے کھانا ملے گا وہ اس کی اپنی جمع فیس سے ہی سمجھاجائے گا،  اس بارے میں کوئی  شبہہ  کی بات نہیں ہے۔ مدرسہ کی عمارت میں رہنا وغیرہ تمام چیزیں اس کے  لئے جائز ہیں ۔  اگر بچہ نابالغ ہے اور باپ مالدار ہے تو بچہ پر  زکوۃ کی رقم صرف نہیں کی جاسکتی ہے۔ لیکن  اگر بچہ بالغ  ہے اور صاحب نصاب نہیں ہے تو اس کے لئے زکوۃ کی رقم لینا، مدرسہ کا کھانا کھانا وغیرہ بلاتردد جائز ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 2353/44-3558

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دادی کے حقیقی بھائی بہن محارم ہیں ان سے پردہ نہیں، دادی کی بہن کی لڑکی آپ کے لیے غیر محرم ہے ان سے پردہ ہے، اگر کوئی شخص کسی عورت سے وطی کرے یا شہوت کے ساتھ بوس وکنار کرے تو اس سے حرمت مصاہرت ثابت ہو جاتی ہے حرمت مصاہرت کی وجہ سے چار رشتے حرام ہوتے ہیں (۱) بیوی کے اصول، (۲) بیوی کے فروع، (۳) اصول کی بیوی، (۴) فروع کی بیوی۔

’’أراد بحرمۃ المصاہرۃ الحرمات الأربع حرمۃ لمرأۃ علی أصول الزاني وفروعہ نسباً ورضاعاً حرمۃ أصولہا وفروعہا علی الزاني نسباً ورضاعاً کما في الوطئ الحلال‘‘ (رد المحتار: ج ۴، ص: ۳۲)

حرمت مصاہرت کے سلسلے میں مفتی سعید احمد پالنپوریؒ کی حرمت مصاہرت، اور مولانا حبیب الرحمن اعظمیؒ کی کتاب حرمت مصاہرت کا مطالعہ کریں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند