Frequently Asked Questions
Miscellaneous
Ref. No. 895 Alif
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
It is not correct to call him “Maulana”.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
فقہ
Ref. No. 39 / 895
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تقدیر کی بحث وتحقیق میں زیادہ پڑنے کی ضرورت نہیں بلکہ بچنا چاہئے۔ مختصرا سمجھ لیجئے کہ تقدیر کی دو قسمیں ہیں، تقدیر معلق اور تقدیر مبرم۔ تقدیر مبرم میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں البتہ تقدیر معلق میں اس کا امکان ہے ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
سیاست
Ref. No. 1042/41-211
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ جگہ کا نام بدلنے میں ممبراسمبلی کے پیش نظر آپ ﷺ کی جانب منسوب کرکے برکت حاصل کرنا ہے، اور منع کرنے والوں کے سامنے اس مقدس نام کی بے حرمتی کا خطرہ ہے؛ پس دونوں اپنی نیت میں سچے ہیں اور اجر کے مستحق ہیں۔ تاہم غالب گمان یہ ہے کہ بعد میں اس کی بے حرمتی ہوگی، اس لئے احتیاط کرنی چاہئے۔ لیکن اگر نام رکھ دیا گیا تو نام لینے پر درود پڑھنا لازم نہیں ہوگا۔ نیز آپسی انتشار سے بچنا ضروری ہے اس کا خیال رہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 1146/42-365
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہندوستان میں مسلم پرسنل لا بورڈ اور امارت شرعیہ کے تحت دارالقضاء کا نظام چل رہا ہے، جہاں دارالقضاء ہے وہاں یہی حضرات قاضی کا تقرر کرتے ہیں اور ضروری چیزوں سے واقف کراتے ہیں۔ اسی طرح جمعیت علماء ہند کے امارت شرعیہ ہند کے تحت شرعی پنچایت کا نظام پورے ملک میں جاری ہے۔ آپ حسب سہولت ان تینوں اداروں میں سے کسی سے بھی رابطہ کرسکتے ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 1256/42-593
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ لفظ 'مرید' اسمائے الہیہ میں سے نہیں ہے، جبکہ اسمائے الہیہ توقیفی ہیں ، لہذا ایسا وظیفہ پڑھنا درست نہیں ہے جن کا قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت نہ ہو۔اس لئے اس سے احتراز کریں اور اسمائے الہیہ میں سے کسی نام کا وظیفہ پڑھیں ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ذبیحہ / قربانی و عقیقہ
Ref. No. 1505/42-977
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔بیع کے اندر اس طرح کی شرط غیرمعتبر ہے۔ مسلمان خریدنے کے بعد اس جانور کا پورامالک ہوگیا وہ جو چاہے اپنی ملکیت میں تصرف کرے، ، بیچنے والے کا اس طرح کی شرط لگانا غیرمعتبر ہے؛ اس لئے اس وضاحت کے باوجود مسلمان اگر اس جانورکی قربانی کردے تو قربانی درست ہوجائے گی، کوئی کراہت نہیں ہوگی۔
فيصح) البيع (بشرط يقتضيه العقد) ... (أو لايقتضيه ولا نفع فيه لأحد) ... (كشرط أن لايبيع) عبر ابن الكمال بيركب (الدابة المبيعة) فإنها ليست بأهل للنفع (الدر المختار وحاشية ابن عابدين 5/87)
"الاصل الجامع في فساد العقد بسبب شرط (لا يقتضيه العقد ولا يلائمه”وفيه نفع لاحدهما أو) فيه نفع (لمبيع) هو (من أهل الاستحقاق) للنفع بأن يكون آدميا،(كشرط أن يقطعه) البائع (ويخيطه قباء) مثال لما لا يقتضيه العقد وفيه نفع للمشتري (أو يستخدمه) مثال لما فيه للبائع"(الدر المختار شرح تنویر الابصار وجامع البحار 1/417 ط:دار الکتب العلمیۃ (منهاشرط لا يقتضيه العقد وفيه منفعة للبائع أو للمشتري أو للمبيع إن كان من بني آدم كالرقيق وليس بملائم للعقد ولا مما جرى به التعامل بين الناس نحو ما إذا باع دارا على أن يسكنها البائع شهرا ثم يسلمها إليه أو أرضا على أن يزرعها سنة أو دابة على أن يركبها شهرا أو ثوبا على أن يلبسه أسبوعا ونحو ذلك؛ فالبيع في هذا كله فاسد؛ لأن زيادة منفعة مشروطة في البيع تكون ربا لأنها زيادة لا يقابلها عوض في عقد البيع وهو تفسير الرباوالبيع الذي فيه الربا فاسد أو فيه شبهة الربا، وإنها مفسدة للبيع كحقيقة الربا على ما نقرره إن شاء الله تعالى (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع5/169 ط:دارالکتب العلمیۃ)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
Ref. No. 1978/44-1920
بسم اللہ الرحمن الرحیم: حضرت مہتمم صاحب کی طرف سے جو کچھ آپ کو ملتاہے وہ آپ کے لئے ہدیہ ہے۔ اگر آپ مستحق زکوۃ ہیں تو وہ آپ کو زکوۃ کی رقم سے بھی دے سکتے ہیں ، اور اگر آپ مستحق زکوۃ نہیں ہیں تو وہ اپنی تنخواہ سے آپ کو دیتے ہوں گے۔ حضرت مہتمم صاحب کو زکوۃ کے مصارف کا بخوبی علم ہوگا اس لئے اگر آپ مستحق ہوں گے تبھی وہ دیتے ہوں گے یا پھر اپنی جیب خاص سے دیتے ہوں گے۔ آپ اس میں بلاوجہ شبہہ نہ کریں اور جو کچھ وہ دیں اس کو قبول کرلیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:شادی کے موقع پر کوئی جلسہ وغیرہ کرنا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ بیان کرکے لوگوں کو شریعت کے مطابق شادی کرنے کی ترغیب دی جائے اور غلط رسم و رواج سے لوگوں کو روکا جائے، تو درست ہے۔(۱) لیکن مروجہ میلاد درست نہیں ہے۔(۲)
(۱) لا بأس بالجلوس للوعظ إذا أراد بہ وجہ اللّٰہ تعالیٰ کذا في الوجیز۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، الباب الخامس في آداب المسجد والقبلۃ‘‘: ج ۵، ص: ۳۷۱)
(۲) وشر الأمور محدثاتہا، وکل بدعۃٍ ضلالۃ۔ وفي روایۃ: وشر الأمور محدثاتہا، وکل محدثۃٍ بدعۃ۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ: ج ۲۳، ص: ۲۴۱، رقم: ۱۴۹۸۳)
من أحدث في الإسلام رأیا لم یکن لہ من الکتاب والسنۃ سند ظاہر أو خفي ملفوظ أو مستنبط فہو مردود۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۶)
ومن جملۃ ما أحدثوہ من البدع مع اعتقادہم أن ذلک من أکبر العبادات وإظہار الشعائر ما یفعلونہ في شہر ربیع الأول من مولدٍ وقد احتوی علی بدعٍ ومحرماتٍ۔ (أبو عبد اللّٰہ محمد بن محمد، المدخل: ج ۲، ص: ۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص459
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس کا التزام درست نہیں ہے(۱) اور کیف ما التفق میں حرج نہیں ہے۔(۲)
(۱) ومنہا وضع الحدود والتزام الکیفیات والہیئات والمعینۃ والتزام العبادات المعینۃ في أوقات معینۃ لم یوجد لہا ذلک التعین في الشریعۃ۔ (أبو إسحاق، الشاطبي، الاعتصام، ’’الباب الأول في تعریف البدع إلخ‘‘: ج ۱، ص: ۲۵، ۲۶)…(۲) قولہ بزیارۃ القبور أي لا بأس بہا بل یندب کما في البحر عن المجتبیٰ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في زیارۃ القبور‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص508
بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ہر ایک مسلمان پر اتنا قرآن پڑھنا فرض ہے جس سے نمازیں درست ہوں اور مکمل قرآن پڑھنا بھی مطلوب ومسنون ہے، تعلیم کو بالکلیہ چھوڑ کر تبلیغ میں نکلنا یا بچوں کو نکالنا نادانی ہے اور تبلیغ بھی مطلوب ہے، لیکن تعلیم اہم ہے۔(۱)
(۱) {لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ إِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْ أَنْفُسِہِمْ یَتْلُوْاعَلَیْھِمْ أٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْہِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَج} (سورۃ آل عمران: ۱۶۴)
قال تعالیٰ: {یَتْلُوْاعَلَیْھِمْ أٰیٰتِہٖ} یعني: القرآن {وَ یُزَکِّیْہِمْ} أي یأمرہم بالمعروف وینہاہم عن المنکر لتزکو نفوسہم وتطہر لمن الدنس والخبث الذي کانوا متلبسین بہ في حال شرکہم وجاہلیتہم {وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَج} یعني: القرآن والسنۃ۔ (ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر ’’سورۃ آل عمران: ۱۶۴‘‘: ج ۲، ص: ۱۵۸)
عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، قال: من یرد اللّٰہ بہ خیراً یفقہ في الدین وفي الباب عن عمر رضي اللّٰہ عنہ، وأبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، ومعاویۃ رضي اللّٰہ عنہ، ہذا حدیثٌ حسنٌ صحیحٌ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب العلم: باب إذا أراد اللّٰہ بعبد خیرا فقہہ في الدین‘‘: ج ۲، ص: ۹۳، رقم: ۲۶۴۵)
عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من خرج في طلب العلم فہو في سبیل اللّٰہ حتی یرجع۔ ہذا حدیثٌ حسنٌ غریبٌ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب العلم، باب فضل طلب العلم‘‘: ج ۲، ص: ۹۳، ص: ۲۶۴۷)
عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من قرأ القرآن وعمل بما فیہ ومات في الجماعۃ بعثہ اللّٰہ یوم القیامۃ مع السفرۃ والبررۃ۔ (أخرجہ البیہقي، في شعب الإیمان: ج ۳، ص: ۳۷۶، رقم: ۱۸۳۷)عن عثمان رضي اللّٰہ عنہ، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب فضائل القرآن: باب خیرکم من تعلم القرآن‘‘: ج ۲، ص: ۷۵۲،رقم: ۵۰۲۷)
قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن أفضلکم من تعلم القرآن وعلمہ۔ (’’أیضاً‘‘: رقم: ۵۰۲۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص306