Business & employment

Ref. No. 39 / 901

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

You can continue your job in bank right now, but try to find another appropriate job. You may contact NGOs and Personal Laws to know about their activities.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 40/990

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شادی کے موقع پر کوئی جلسہ وغیرہ کرنا جس میں آپ ﷺ کی سیرت طیبہ بیان کرکے لوگوں کو شریعت کے مطابق شادی کرنے کی ترغیب دی جائے اور غلط رسم و رواج سے لوگوں کو روکا جائے، تو درست ہے۔ اس موقع پر دیگر غیرشرعی امور کے ارتکاب سے بچنا بھی ضروری ہے۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 41/1055

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

The above mentioned hadith is reported by Imam Ahmad (Hadith No. 22342) and Imam Tabrani (Hadith No. 7871). Allama Haithami remarks that the narrators of this hadith are sahih (correct). Imam Hakim labeled this narration as sahih (correct) according to the criteria of Imam Muslim.

(Jamiul Ahadith 19/344 hadith No. 20926)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

متفرقات

Ref. No. 1500/42-979

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔بشرط صحت سوال مذکورہ راستہ جو قبرستان کی زمین ہے اس میں عرفان کواپنا ذاتی دروازہ کھولنے کا حق نہیں ہے۔ عرفان کے لئے بہتر یہی ہے کہ وہ اس راستہ پر اپنا ذاتی دروازہ نہ کھولے۔ دروازہ کھولنے سے قبرستان آنے جانے والوں کو خلل بھی ہوگا اور بے پردگی کا بھی خطرہ ہے۔ اس لئے عرفان کے لئے بھی مناسب یہی ہے دروازہ دوسری جانب ہی کھولے۔ پھر بھی مشورہ یہی ہے مفتیان کرام سے معائنہ کرالیں .

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1601/43-1314

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مسجد میں تکثیرجماعت مطلوب ہے۔ مدرسہ میں جو نابالغ بچے ہیں  ان کو مدرسہ میں رہنے دیں، اور تمام مدرسین وبالغ طلبہ مسجد میں ہی نماز باجماعت ادا کرنے کا اہتمام کریں ۔ مدرسہ والوں کی نماز مدرسہ میں درست ہوجاتی ہے  البتہ مسجد کا ثواب نہیں ملتاہے اور بلاضرورت مسجد کی جماعت ترک کرنے کی  مستقل عادت بنالینا درست نہیں ہے۔ اگر کوئی واقعی ضرورت ہے تو اس کی وضاحت کریں۔

 (لقوله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: «الجماعة من سنن الهدى لا يتخلف عنها إلا منافق» ش: هذا من قول ابن مسعود - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - ورفعه إلى النبي - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - غير صحيح. وأخرجه مسلم عن أبي الأحوص قال: قال عبد الله بن مسعود: «لقد رأيتنا وما يتخلف عن الصلاة إلا منافق وإن رسول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - علمنا سنن الهدى، وإن من سنن الهدى الصلاة في المسجد الذي يؤذن فيه» .

وأخرج عنه أيضا قال: «من سره أن يلقى الله غدا مسلما فليحافظ على هؤلاء الصلوات حيث ينادى بهن، فإن الله شرع لنبيكم سنن الهدى، وإنهن من سنن الهدى، ولو أنكم صليتم في بيوتكم كما يصلي هذا المتخلف في بيته لتركتم سنة نبيكم، ولو تركتم سنة نبيكم لضللتم، ولقد رأيتنا وما تخلف عنها إلا منافق معلوم النفاق، ولقد كان الرجل يؤتى به يهادى بين الرجلين حتى يقام في الصف» فدل هذا الأثر أن الجماعة سنة مؤكدة؛ لأن إلحاق الوعيد إنما يكون بترك الواجب أو بترك السنة، ودل على أن الجماعة ليست بواجبة؛ لقوله: وإن في سنن الهدى الصلاة في المسجد الذي يؤذن فيه، فتكون سنة مؤكدة. (البنایۃ شرح الھدایۃ، حکم صلاۃ الجماعۃ 2/325)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1678/43-1384

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (1) خبروں کا چینل بنانا جائز ہے بشرطیکہ کسی غیرمحرم کی تصویراورناجائز اشتہار سے احتراز کیا جائے۔ (2) اگر یوٹیوب پر جاری امور جائزہیں تو ان سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی جائز ہوگی، اس لئے مذکورہ شرط کے ساتھ آمدنی حلال ہے، (3) بلاضرورت ڈیجیٹل تصاویر اور ویڈیوگرافی سے احترازکیا جائے، اور غیرمحرم کی  تصویر سے بہر صورت احتراز لازما کیاجائے۔ آج کے دور میں اشاعت دین، دفاع دین، وغیرہ کی ضرورت کی وجہ سے ڈیجیٹل تصاویر اور ویڈیوکی گنجائش  دی گئی ہے۔الضرورات تبیح المحظورات  (از تجاویز سیمینار،  اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا، منعقدہ 3،4 /اکتوبر 2021 المعہدالعالی  حیدرآباد)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

حدیث و سنت

Ref. No. 1974/44-1917

بسم اللہ الرحمن الرحیم:  اس کے گھروالے، رشتہ دار، دوست واحباب اور متعلقین واپس آجاتے ہیں، اسی طرح اس کا مال یعنی اس کے غلام، خادم اور مملوک ، میت کی چارپائی، چادر ، کفن دفن وغسل کا خرچ  وغیرہ ساتھ جاتے ہیں اور واپس آجاتے ہیں۔نیز زمانہ جاہلیت میں عربوں کی عادت تھی کہ وہ میت کے ساتھ جانوروں وغیرہ کو بھی ساتھ لے جاتے تھے ۔ ظاہر ہے کہ پھر یہ سب واپس آجاتے تھے،  اورانسان اپنے عمل کے ساتھ قبر کے حوالہ ہوجاتاہے۔ اس طرح دو چیزیں واپس آگئیں اور  صرف اس کا عمل  اس کے ساتھ قبر میں  رہ گیا۔  اگر نیک عمل ہوا تو نیک عمل ساتھ رہتا ہے اور اگر برا عمل ہوا تو برا عمل ساتھ رہے گا۔

حدثنا الحميدى حدثنا سفيان حدثنا عبد الله بن أبى بكر بن عمرو بن حزم سمع أنس بن مالك يقول قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - «يتبع الميت ثلاثة، فيرجع اثنان ويبقى معه واحد، يتبعه أهله وماله وعمله، فيرجع أهله وماله، ويبقى عمله». (فیض الباری، باب نفخ الصور 6/276)

قوله يتبعه أهله وماله وعمله هذا يقع في الأغلب ورب ميت لا يتبعه إلا عمله فقط والمراد من يتبع جنازته من أهله ورفقته ودوابه على ما جرت به عادة العرب وإذا انقضى أمر الحزن عليه رجعوا سواء أقاموا بعد الدفن أم لا.  (فتح الباری لابن حجر، باب سکرات الموت 11/365)

وهذا يقع في الأغلب، ورب ميت لا يتبعه إلا عمله فقط. قوله: (وماله) مثل رقيقه ودوابه على ما جرت به عادة العرب.  (عمدۃ القاری، باب سکرات الموت 23/97)

- (وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يتبع الميت) أي: إلى قبره (ثلاثة) أي: من أنواع الأشياء (فيرجع اثنان) أي: إلى مكانهما ويتركانه وحده (ويبقى معه واحد) أي: لا ينفك عنه (يتبعه أهله) أي: أولاده وأقاربه وأهل صحبته ومعرفته (وماله) : كالعبيد والإماء والدابة والخيمة ونحوها. قال المظهر: أراد بعض ماله وهو مماليكه. وقال الطيبي رحمه الله: اتباع الأهل على الحقيقة واتباع المال على الاتساع، فإن المال حينئذ له نوع تعلق بالميت من التجهيز والتكفين ومؤنة الغسل والحمل والدفن، فإذا دفن انقطع تعلقه بالكلية (وعمله) أي: من الصلاة وغيره. (فيرجع أهله وماله) أي: كما تشاهد حاله ومآله (ويبقى) أي: معه (عمله) أي: ما يترتب عليه من ثواب وعقاب، ولذا قيل: القبر صندوق العمل، وفي الحديث: " «القبر روضة من رياض الجنة أو حفرة من حفر النيران» " (متفق عليه) . (مرقاۃ المفاتیح، کتاب الرقاق 8/3235)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2075/44-2065

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (1) اگر کوئی داڑھی نہیں رکھتا اور اس کو ضروری بھی نہیں سمجھتا تو اس کا یہ عمل موجب گناہ ہے، لیکن یہ عمل کفریہ نہیں ہے، (2) داڑھی چونکہ انبیاء کی سنت ہے اور جمہور کے مطابق اس کا رکھنا واجب ہے اس لئے اس کا مذاق اڑانا کفریہ عمل ہوگا کیونکہ اس میں استخفاف دین ہے۔ (3) حجاب کا حکم قرآن و حدیث سے ثابت ہے اس لئے اس کو غیرضروری سمجھنا درست نہیں ہے لیکن اس کی وجہ سے تکفیر نہیں ہوگی،  اور نہ ہی تجدید ایمان وتجدید نکاح کی ضرورت ہوگی۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق: جب تک نجس ہونے کا یقین یا غالب گمان نہ ہو تو اس کو پاک سمجھا جائے گا۔(۱)

(۱) ابن نجیم، الأشباہ والنظائر، القاعدۃ الثالثۃ،الیقین لا یزول بالشک، ص:۱۸۳، القاعدۃ المطردۃ أن الیقین لا یزول بالشک (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، الفصل الثاني: في الأعیان النجسۃ، ج۱، ص:۱۰۲)؛  فلا نحکم بنجاسۃ بالشک علی الأصل المعہود أن الیقین لایزول بالشک (الکاساني، بدائع الصنائع، فصل في بیان المقدار الذي یصیر بہ، ج۱، ص:۲۱۷)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص449

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:کتا اور بلی کو پکڑنے سے وضو نہیں ٹوٹتا؛ البتہ گندگی وغیرہ ہاتھ پر لگ جائے، تو اس کو دھو لیا جائے۔(۱)

(۱)الکلب إذا أخذ عضو إنسان أو ثوبہ لا یتنجس مالم یظھر فیہ أثر البلل (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل الثاني :في الأعیان النجسۃ، والنوع الثاني: المخففۃ، و مما یتصل بذلک مسائل،‘‘ج۱،ص:۱۰۳ )؛  والکلب إذ أخذ عضو إنسان أو ثوبہ حالۃ المزاح یجب غسلہ و حالۃ الغضب لا۔ یہاں حالت مزاح اور غضب میں فرق کیا ہے؛ لیکن شامی میں ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے اور فتویٰ بھی شامی کے قول پر ہی ہے۔ (علي بن عثمان، الفتاویٰ السراجیہ،ج۱، ص:۵۲)؛ و  إذا انتقض فأصاب ثوباً لا ینجسہ مطلقا۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ،‘‘ ج۱، ص:۱۸۴)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص212