Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 946/41-88

In the name of Allah the most Gracious the most merciful

The answer to your question is as follows:

The permanent employees working in schools, colleges, Madrasas or companies are called ‘particular employees’. These employees do not have a predetermined end date to their employment. They will remain on their employment until the administration issues new rules and regulations about the salary of the lockdown period. The particular employees’ duty is only to maintain their attendance and punctuality in the time of the service prescribed by the administrative body. And they deserve to get their salary on ground of presence at the time of their job and their salary is not subject to working. Hence those who stayed at home not by choice but by the government’s order while they were willing to work in the office and didn’t show any  remissness in their duty, they are entitled to receive the full salary amount of the lockdown period.

Nevertheless, if the management is not able to pay the full wages to the employees at the moment due to fiscal crunch prevalent everywhere in the world, they can pay them later. If the management paid half of the salary or paid nothing right now so once the financial condition of the companies gets stable they have to pay the salary of previous months whatever the payment is due: full or half. It is obvious that the organizations need these employees once the things go well.

It is stated in a Hadith: Your employees are your brethren upon whom Allah has given you authority. If one has one’s brother under his/her control one should feed them with the like of what one eats and clothe them with the like of what one wears. Even no workers can be compelled to do more than what they are capable of doing and the employer is obliged to provide safe workplace. You should not burden them with what they cannot bear and if you do so, help them in their job. (IbneMajah 4/648)

So, in the current scenario, dismissing the employees or deprive them fully of their salaries is not legally and morally encouraged. 

۔  قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "إخوانكم جعلهم الله تحت أيديكم، فأطعموهم مما تأكلون، وألبسوهم مما تلبسون، ولا تكلفوهم ما يعنيهم (1)، فإن كلفتموهم فأعينوهم"(سنن ابن ماجہ٤/٦٤٨)(والأجير الخاص) - ويسمى أجير واحدٍ أيضا - هو (الذي) يعمل لواحد عملا موقتا بالتخصيص، ومن أحكامه أنه (يستحق الأجرة بتسليم نفسه في المدة) المعقود عليها (وإن لم يعمل) وذلك (كمن استؤجر شهراً للخدمة أو لرعي الغنم) ؛ لأن المعقود عليه تسليم نفسه، لا عمله،(اللباب شرح الكتاب 2/94) الاجير يستحق الاجرة اذا كان في مدة الاجارة حاضرا للعمل و لا يشترط عمله بالفعل ولكن ليس له ان يمنع عن العمل واذا منع لا يستحق الاجرة ومعني كونه حاضرا للعمل ان يسلم نفسه للعمل و يكون قادرا في حال تمكنه من ايفاء ذلك العمل (دررالحكام شرح مجلة الاحكام " مادة 470،ا/٣٨٧)الاجیر الخاص من یستحق  الاجرۃ بتسلیم النفس و بمضی المدۃ و لایشترط العمل فی حقہ لاستحقاق  الاجرۃ۔ (تاتارخانیۃ١٥/٢٨١))

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

Prayer / Friday & Eidain prayers

Ref. No. 1041/41-216

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Yes, you should recite the Surahs to get blessings. It is a pleasure for a Muslim to follow our beloved Prophet (saws) in all actions. It is the symbol of love and affection toward the Prophet (saws).

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

حدیث و سنت

Ref. No. 1515/42-985

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ان خیالات کا آنا ایمان کی علامت ہے، مسلمان کا دل گناہوں پر اور شریعت کے مطابق زندگی نہ گرزارنے پر  اس کو ملامت کررہا ہے، یہ اچھی بات ہے۔ نیز یہ اس بات کی بھی علامت ہے کہ آدمی اپنے دین کے تعلق سے فکرمند ہے اور اس کے مزاج میں سچائی ہے وہ اللہ تعالی سے کئے ہوئے وعدوں کی خلاف ورزی سے ڈرتاہے، اور اپنی دینی حالت درست کرنا چاہتاہے، البتہ بعض مرتبہ بشری تقاضوں سے مغلوب ہوکر  وہ غلطی کربیٹھتاہے تاہم نادم و شرمندہ ہے۔ امید ہے اللہ تعالی اس کی مغفرت فرمائیں گے ان شاء اللہ۔

جاء ناس من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فسألوه: إنا نجد في أنفسنا ما يتعاظم أحدنا أن يتكلم به. قال: " وقد وجدتموه؟ " قالوا: نعم، قال: " ذاك صريح الإيمان " والمعنى: عن الذي يمنعكم من قبول ما يلقيه الشيطان إليكم حتى يصير ذلك وسوسة لا يتمكن من القلوب ولا تطمئن إليها النفوس صريح الإيمان، لا أن الوسوسة نفسها صريح الإيمان، لأنها من فعل الشيطان فكيف تكون إيمانا؟ (کشف المشکل من حدیث الصحیحین، کشف المشکل من مسند عبداللہ بن مسعود 1/327) (شرح النووی، باب بیان الوسوسۃ 2/153) (مرقاۃ المفاتیح، باب فی الوسوسۃ 1/136)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1594/43-1140

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کسی عام مسلمان کو برا بھلا کہنا گناہ کبیرہ ہے ،اور فسق ہے  لیکن  عالم اورقاضی کو برا بھلا کہنا سخت گناہ اورشدید فسق کا عمل ہے،اور بعض صورتوں میں کفر کا اندیشہ ہے؛  جس سے اجتناب ہر ایک کے لئے لازم ہے۔  تاہم ایسے شخص کو کافر قرار نہیں دیاجائے گا جب تک کہ وہ صریح کسی حکم شرعی کا انکار نہ کرے۔ اس شخص کو بہت شفقت کے ساتھ سمجھانا چاہئے۔ 

(ومنها ما يتعلق بالعلم والعلماء) في النصاب من أبغض عالما من غير سبب ظاهر خيف عليه الكفر، إذا قال لرجل مصلح: ديدا روى نزد من جنان است كه ديدار خوك يخاف عليه الكفر كذا في الخلاصة. ويخاف عليه الكفر إذا شتم عالما، أو فقيها من غير سبب، (الھندیۃ، مطلب فی موجبات الکفر انواع منھا ما یتعلق 2/270) (إذا كان المقول له فقيها) أي: عالما بالعلوم الدينية على وجه المزاح فلو قال بطريق الحقارة يخاف عليه الكفر؛ لأن إهانة العلم كفر على المختار (أو علويا) أي: منسوبا إلى علي - رضي الله تعالى عنه۔ وفي القهستاني ولعل المراد كل متق وإلا فالتخصيص غير ظاهر. (مجمع الانھر فی شرح ملتقی الابحر، فصل فی التعزیر 1/612)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 2052/44-2054

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔محض میاں بیوی کے الگ الگ رہنے سے نکاح پر کوئی فرق  نہیں پڑتا، اس لئے  مذکورہ نکاح ابھی باقی ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

بدعات و منکرات

Ref. No. 2561/45-3924

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اکابر علماء دیوبند کے یہاں ذکر کے دو طریقہ رائج ہیں یا تو انفرادی ذکر کرنا یا شیخ کے ساتھ ان کے مریدین بھی ذکر کرنے بیٹھ جائیں جس سے ایک اجتماعی شکل بن جاتی ہے، لیکن ہر شخص علاحدہ علاحدہ ذکر کرتا ہے کوئی سرا اور کوئی جہر خفی کے ساتھ اس کے علاوہ آپ نے سوال کا جس ذکر بالجہر کا تذکرہ کیا ہے اس کی صورت کی وضاحت نہیں ہے، مطلقاً ذکر جہری بدعت نہیں ہے، بلکہ دونوں طرح ذکر کرنا محقق علماء کے نزدیک جائز ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے بعد بلند آواز سے ’’لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وہو علی کل شیئ قدیر‘‘ پڑھا کرتے تھے۔ (مسلم شریف: حدیث نمبر: ٥٩٤)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱) تبلیغ کے لغوی معنی ہیں، ’’کسی چیز یا بات کو دوسرے تک پہونچانا‘‘ اور معنی شرعی ہیں، ’’دین کی بات کو دوسروں تک پہونچانا‘‘ یہ لفظ قرآن وحدیث میں اسی معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ ارشاد خدا وندی ہے {ٰٓیأَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ أُنْزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَط}(۱) ’’اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! دوسروں تک پہونچا دیجئے وہ سب کچھ جو اتارا گیا ہے آپ پر آپ کے رب کی طرف سے‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’’بلغوا عني ولو آیۃ‘‘(۲) میری بات دوسروں تک پہونچا دو اگرچہ وہ ایک ہی بات (حکم شرعی) ہو۔ مذکورہ آیت کریمہ اور حدیث میں حکم عام ہے جس میں اصل ایمان اور احکام اسلام دونوں کی تبلیغ داخل ہے،حضرت مولانا الیاس صاحب معتبر ومعتمد تھے انہوں نے دین کی بات دوسروں تک پہونچانے کے لئے دعوت کے قرآنی اصول {أُدْعُ إِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ} (۱) پر عمل کرتے ہوئے اس دور کے حالات کے پیش نظر چند اصول کی روشنی میں بعض احکام شرعیہ کی تبلیغ کو اہم اور ضروری سمجھا اور اس کے بعد جماعت کے ذمہ دار حضرات علماء اس کی اتباع کرتے ہوئے کام کر رہے ہیں اس لئے قرآن وحدیث کی روشنی میں اس جماعت کو تبلیغی جماعت کہنا بلا شک وشبہ صحیح ہے اور جماعت کی موافقت روز اول سے آج تک مسلک دیوبند کے ترجمان تمام مستند علماء نے کی ہے؛ بلکہ بعض اکابر نے حضرت مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے اس کام کی غیر معمولی تحسین وتعریف بھی کی ہے۔ (۲) سوال اول کے جواب میں جو آیت کریمہ بیان کی گئی ہے اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فرض منصبی اور کام تبلیغ کو قرار دیا گیا ہے اور آپ نے اس حکم کی مکمل تعمیل فرمائی حجۃ الوداع کے موقع پر آپ نے مفصل خطبہ دیا جس میں مختلف شعبہائے زندگی سے متعلق ضروری احکام بیان فرمائے اور آخر میں حاضرین کو مخاطب کر کے فرمایا ’’ألا ہل بلغت‘‘ بتاؤ کہ میں نے تبلیغ کردی یا نہیں یعنی جو میرا فرض منصبی اور کام تھا وہ میں نے پورا کر دیا یا نہیں؟ حاضرین نے جب تصدیق کردی ’’قالوا: نعم‘‘ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہم أشہد‘‘ اے اللہ آپ گواہ رہنا آپ کے اس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ تبلیغ کار نبوت ہے جس کو آپ نے بذات خود انجام دیا اور بعد میں آنے والے لوگوں کو یہ ذمہ داری سپرد کرنے کے لئے فرمایا: ’’فلیبلغ الشاہد الغائب‘‘(۲) چونکہ حضرت مولانا محمد الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی قائم کردہ جماعت، تبلیغی جماعت ہے تو جماعت کا وہ کام جو مولانا مرحوم کے طے کردہ اصول کے مطابق ہوگا وہ بلا شک وشبہ کار نبوت کہلائے گا یعنی تبلیغ کا جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے انجام دیا اور اپنے بعد آنے والے لوگوں کے لئے اپنے ارشاد کے ذریعہ اپنے اس سلسلہ کو جاری رکھنے کی ہدایت فرمائی تبلیغی جماعت کا کام بھی اسی سلسلہ سے وابستہ ہے۔ (۳) حضرت مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے دعوت کے قرآنی اصول کے پیش نظر اس دور کی ضرورت اور حالات کو پیش نظر رکھ کر تبلیغ کے لئے جو چند احکام شرعیہ کا انتخاب فرمایا اور تبلیغ کے لئے چند اصول وضع فرمائے، اور طریقہ کار تجویز فرمایا اس طریقہ وتبلیغ کے وہ بانی ہیں ان کو بانی کہنے میں کسی قسم کا شرعی یا عقلی اختلاف واشکال نہیں ہے، مسلک دیوبند کے ترجمان تمام مستند علماء اس جماعت کے کام کے مفید ونافع ہونے کے نہ صرف یہ کہ قائل ہیں بلکہ مدارس دینیہ کے ذمہ دارحضرات مرکز نظام الدین دہلی سے رابطہ کر کے مؤقر شخصیات کو طلبہ میں وعظ ونصیحت کرنے کے لئے مدعو کرتے ہیں؛ چنانچہ دار العلوم وقف بھی ہر سال اس کا اہتمام کرتا ہے جس کے نتیجہ میں دار العلوم وقف کے طلبہ اپنا معتد بہ وقت لگاتے ہیں شہر اور قرب وجوار میں جمعرات وجمعہ کو کام ہوتا ہے اور تعطیل کلاں میں زیادہ وقت لگاتے ہیں بلکہ چند سالوں سے یہ سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے کہ بعض طلبہ فراغت کے بعد پورا سال لگاتے ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرات علماء صرف قولاً ہی نہیں بلکہ عملاً جماعت کے موافق اور اس کام کو دین کی اہم ضرورت وخدمت اور عامۃ المسلمین کے لئے مفید ونافع سمجھتے ہیں اور مسلک دیوبند کے ترجمان تمام علماء اس پر متفق ہیں اور اگر کوئی شخص اس کے بر خلاف اس جماعت کو تبلیغی جماعت کہنے اور اس کے کام کو کار نبوت کہنے اور حضرت مولانا محمد الیاس رحمۃ اللہ علیہ کو بانیٔ جماعت کہنے کی مخالفت کرتے ہوئے اس کو غلط کہتا ہے تو ہمارے نزدیک وہ شخص غلط فہمی میں مبتلا ہے اور خطا کار ہے۔ فقط: ’’واللّٰہ أعلم بالصواب وہو یہدي إلی الصراط المستقیم‘‘ (۱) سورۃ المائدہ: ۶۷۔ (۲) عبد الرحمٰن المبارکفوري تحفۃ الأحوذي، ’’کتاب العلم‘‘: ص: ۳۶۰۔(۱) سورۃ النحل: ۱۲۵۔ (۱) مشکوۃ المصابیح، ’’الفصل الأول‘‘: ج ۲، ص: ۲۲۵رقم: ۲۶۵۹۔ فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص307

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 2655/45-4047

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

The items mentioned above and all the such products are halal. However, if a product is definitely known to be impure or to contain haram ingredients, it will be haram. However, if you have doubt about something, it is better to avoid it.

And Allah knows best

 

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں دیکھا جائے گا کہ اگر نجاست مخرج سے متجاوز نہیں ہوئی ہے، تو پانی سے استنجا سنت ہے نماز کا اعادہ ضروری نہیں ہے اور اگر نجاست مخرج سے متجاوز ہوگئی، تو اگر نجاست قدر درہم سے کم ہے، تو دھونا واجب ہے، نماز پوری کر کے اعادہ کر لے اور اگر نجاست قدر درہم سے زائد ہو گئی، تو دھونا فرض ہے، نماز باطل ہونے کی وجہ سے توڑدے اور از سر نو پڑھے۔
’’والغسل سنۃ ویجب إن جاوز المخرج نجس‘‘(۱)
’’وعفا عن قدر درہم وإن کرہ تحریماً فیجب غسلہ وما دونہ تنزیہاً فیسن وفوقہ مبطل فیفرض‘‘(۲)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس‘‘: ج ۱، ص: ۵۵۰۔
(۲)أیضًا، ’’کتاب الطہارۃ: باب الاستنجاء‘‘: ج ۱، ص: ۵۲۰۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص107

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ٹیک لگا کر سویا، گرا نہیں اور سرین زمین پر ٹکی رہی، تو اس کا وضو نہیں ٹوٹا۔(۱)

(۱) إذا استند ظھرہ إلی ساریۃ، أو نحوھا بحیث لولا استند، لما استمسک، فنام کذلک، فإن کانت إلیتاہ مستویتین مستوثقتین علی الأرض، لا وضوء علیہ في أصح القولین۔ (علي بن عثمان، الفتاویٰ السراجیہ، ’’کتاب الطہارۃ، باب ما ینقض الوضوء‘‘ ج۱، ص:۳۵)؛ و عن أبی یوسف أنہ قال: سألت أبا حنیفۃ عمن استند إلی ساریۃ أو رجل فنام۔ ولو لا الساریۃ والرجل لم یستمسک۔ قال: إذا کانت إلیتہ مستوثقۃ من الأرض فلا وضوء علیہ، و بہ أخذ عامۃ مشائخنا؛ وھو الأصح۔ (الکاساني، بدائع الصنائع، ’’کتاب الطہارۃ، نواقض الوضوء‘‘، ج۱، ص:۱۳۵)؛ ولو نام مستنداً إلی مالوأزیل عنہ لسقط، إن کانت مقعدتہ زائلۃً عن الأرض۔ نقض بالإجماع، و إن کانت غیر زائلۃ، فالصحیح أن لا ینقض۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ،  الفصل الخامس، في نواقض الوضوء، ومنھا: النوم‘‘ ج۱، ص:۶۳)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص219