فقہ

Ref. No. 39/1143

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   ہمارے اصحاب کا اگر کوئی قول کسی آیت  کے خلاف ہے تو ظاہر ہے اس کا مطلب یہ  نہیں لیا جاسکتا ہے کہ ان ماہرین کی نظر یہاں تک نہیں پہونچی ہوگی  بلکہ یہ سمجھا جائے گا کہ ان کو اس آیت کے منسوخ ہونے کا علم حاصل ہوگیا تھا اس لئے انھوں نے آیت پر عمل نہیں کیا اور ان کا قول آیت کے بظاہر خلاف ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے وہ آیت کے خلاف نہیں ہے ۔  یا بعض مرتبہ ایسا ہوا کہ دو آیتوں میں تعارض ہوگیا اورانکا تاریخ نزول کا ہمیں علم نہیں تو اب ان میں سے کس پر عمل کیا جائے اس میں ہمارے اصحاب کا قول  یقینا الگ ہوگا اور بظاہر آیت کے خلاف  معلوم ہوگا حالانکہ جب ان آیتوں پر عمل کرنا تاریخ نزول کا صحیح علم نہ ہونے کی  وجہ سے ممکن نہیں رہا تو کسی اور قول کا قائل ہونا امر لابدی ہے تاکہ اس سلسلہ میں دیگر نصوص  کو ترجیح حاصل ہو۔ جب اس طرح سے دوسری نصوص کو ترجیح دی جائے گی تو اس کے نتیجے میں احناف کے قول اور آیت میں تعارض ختم ہوگا اور موافقت کی راہ خود بخود نکل آئے گی۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 40/996

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:  محض اس جملہ مذکورہ سے کفر لازم نہیں آتا۔  واللہ  اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 41/1007

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  چار ماہ گزرنے کے بعد بچہ میں جان پڑجاتی  ہے،ڈاکٹروں کا اندازہ  اور  میڈکل رپورٹس بسا اوقات غلط ثابت  ہوتی ہیں ، اس لئے محض خدشہ کی بناء پر اسقاط جائز نہیں ہے۔ ایسی صورت میں پیدائش سے قبل دوا اور خصوصی دعا و صدقہ وغیرہ کا اہتمام کرنا چاہئے۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Marriage (Nikah)

Ref. No. 1097/42-289

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

If the bride’s family allows the groom’s family with pleasure to attend their home with many guests, it would be allowable. The guests should not burden the host and they must be avoiding customs. It is today’s custom to carry more and more people to the bride’s home for fame and so burden the host. It must be avoided.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

طلاق و تفریق
ایک آدمی کی بیوی کا نام فاطمہ ہے وہ بڑی شکی ہے شوہر نے اس کا شک ختم کرنے کے لئے کہا فاطمہ کے علاوہ سب بیویوں کو تین طلاق جبکہ سٹامپ پیپر پر کاغذ پر لکھ کر دیا امجد نامی فاطمہ کے شوہر کی فاطمہ کے علاوہ کوئی بیوی نہ ہے یہ کام اس نے فاطمہ کو خوش کرنے کے لئے کیا ہے کیا فاطمہ کو طلاق تو نہ ہوگی کیونکہ اس نے کہا ہے کہ فاطمہ کے علاوہ سب بیویوں کو طلاق جبکہ فاطمہ اس کی ایک بیوی ہے اور کوئی بیوی نہ پہلے تھی نہ اب ہے نہ اس نے فاطمہ کے علاوہ کسی سے نکاح کیا.

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2151/44-2229

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسافر اگر کسی جگہ پندرہ دن یا اس سے زیادہ  ٹھہرنےکی نیت کرلے تو وہ مقیم ہوجاتاہے خواہ وہ شہر ہو یا دیہات ہواور ایک ہی شہر ودیہات کی مختلف مسجدیں ہوں۔ اور اس کے لئے قصر جائز نہیں ہوگا بلکہ اتمام کرنا ہوگا۔  لہذا اگر آپ کا ارادہ کسی ایک جگہ  پندرہ دن ٹھہرنے کاہوجائے تو آپ مقیم ہوں گے، اور نماز میں اتمام  کریں گے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق: دوزخ کے لئے انیس فرشتے مقرر ہیں اور ان کا سردار مالک ہے۔(۱)

(۱) {سَأُصْلِیْہِ سَقَرَہ۲۶ وَمَآ أَدْرٰئکَ مَا سَقَرُہط ۲۷ لَا تُبْقِيْ وَلَا تَذَرُہج ۲۸ لَوَّاحَۃٌ لِّلْبَشَرِ ہجصلے ۲۹ عَلَیْھَا تِسْعَۃَ عَشَرَہط ۳۰}(المدثر: ۲۶ -۳۰)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص257

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مصافحہ فی نفسہٖ سنت ہے(۱) مگر نیا چاند دیکھ کر مبارکبادی کے وقت کی خصوصیت اور نماز جمعہ وعیدین کے بعد کی خصوصیت، بے اصل اور بے دلیل ہے؛ کیونکہ فقہاء کرام نے اس کو مکروہ لکھا ہے؛ اس لیے اس کا التزام بدعت ہے، جو قابل ترک ہے ورنہ باعث گناہ ہے۔(۲)

(۱) عن أنس رضي اللّٰہ عنہ، قال: کان أصحاب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا تلاقوا تصافحوا الخ۔ (أخرجہ الطبراني، في المعجم الأوسط: ج ۱، ص: ۴۱، رقم: ۹۷)
(۲) أنہ تکرہ المصافحۃ بعد أداء الصلاۃ بکل حال، لأن الصحابۃ رضي اللّٰہ تعالی عنہم ما صافحوا بعد أداء الصلاۃ، ولأنہا من سنن الروافض إلخ۔ ثم نقل عن ابن حجر عن الشافعیۃ: أنہا بدعۃ مکروہۃ، لا أصل لہا في الشرع۔ وقال ابن الحاج: إنہا من البدع، وموضع المصافحۃ في الشرع، إنما ہو عند لقاء المسلم لأخیہ لا في أدبار الصلوات إلخ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ: باب الاستبراء وغیرہ‘‘: ج ۹، ص: ۵۴۸)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص509

قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن کریم نے حضرت سلیمان علیہ السلام کا واقعہ بیان کرتے ہوئے اس خط کا تذکرہ فرمایا ہے، جو حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکۂ بلقیس کے نام لکھا تھا، اس خط کے شروع میں  حضرت سلیمان علیہ السلام نے لکھا فرمایا ’’إنہ من سلیمان وإنہ بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم‘‘ (۱)  معلوم ہوا کہ ’’بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم‘‘ اپنے ان ہی الفاظ کے ساتھ حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے سے بھی پہلے سے جاری ہے۔
 نبی اکرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن مقدس نازل ہوا تو ’’بسم اللّٰہ‘‘ سے اور پہلی وحی بھی ’’إقرأ بسم ربک الذي خلق‘‘(۲) ہے، اس میں بھی ’’بسم اللّٰہ‘‘ ہے، مگر ان مشہور الفاظ کے ساتھ نہیں ہے اور نہ ہی کسی روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس پہلی وحی میں ’’بسم اللّٰہ‘‘ کے الفاظ نازل ہوئے ہو سکتا ہے کہ فصل ما بین السورتین کے لیے اس کو پڑھے جانے کا حکم ہوا یا جب دوسری سورت نازل ہوئی، تو فصل کے لئے علیحدہ نازل ہوئی اتنا متعین ہے۔ کہ ’’بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم‘‘ پہلے ہی سے ان ہی الفاظ کے ساتھ رائج تھی اور ذبح کی دعاء اس وقت سے رائج ہے، جب سے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی دینے کے لئے گلے پر چھری رکھی اور چلائی تھی، پھر ان کی جگہ دنبہ ذبح فرمایا۔ گویا قربانی ہر قوم میں رہی، مگر اس طریقہ رائج کے موافق نہ تھی۔(۳)

(۱) سورۃ النحل: ۳۰۔
(۲) سورۃ العلق:۱۔
(۳) وقال الشعبي: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مکتب في بدء الأمر علی رسم قریش باسمک اللہم حتی نزلت، {وَقَالَ ارْکَبُوْا فِیْھَا بِسْمِ اللّٰہِ مَجْراؔھَا} (سورۃ الہود: ۴۱) فکتب باسم اللّٰہ حتی نزلت {قُلِ ادْعُوا اللّٰہَ أَوِادْعُوا الرَّحْمٰنَط} (سورۃ الإسراء: ۱۱۰) فکتب بسم اللّٰہ الرحمن حتی نزلت آیۃ {اِنَّہٗ مِنْ سُلَیْمٰنَ وَاِنَّہٗ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِہلا ۳۰} (سورۃ النمل: ۳۰)۔ (أبو محمد حسین البغوي، تفسیر بغوي، ’’سورۃ الفاتحہ‘‘: ج ۱، ص:
۷۳)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص56

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ جماعت سے نہیں پڑھی گئی؛ بلکہ علیحدہ علیحدہ پڑھی گئی، چونکہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے آخری وقت میں معلوم کیا تھا کہ آپ کی نماز جنازہ کون پڑھائے گا، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جب غسل وکفن سے فارغ ہوجاؤ، تو میرا جنازہ قبر کے قریب رکھ کر ہٹ جانا اور اول اہل بیت کے مرد نماز جنازہ پڑھیں گے، پھر ان کی عورتیں نماز جنازہ پڑھیں گی، پھر تم اور دیگر لوگ، ہم نے عرض کیا کہ قبر میں کون اتارے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے اہل بیت اور ان کے ساتھ ملائکہ ہوں گے۔(۱)

(۱) عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما، قال: لما أرادوا أن یحفروا لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم بعثوا إلی أبي عبیدۃ بن الجراح وکان یضرح کضریح أہل مکۃ۔ وبعثوا إلی أبي طلحۃ۔ وکان ہو الذي یحفر لأہل المدینۃ۔ وکان یلحد۔ فبعثوا إلیہما رسولین۔ فقالوا: اللہم خر لرسولک۔ فوجدوا أبا طلحۃ۔ فجيء بہ۔ ولم یوجد أبو عبیدۃ۔ فلحد لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم۔
قال: فلما فرغوا من جہازہ یوم الثلاثاء وضع علی سریرہ في بیتہ۔ ثم دخل الناس علی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم أرسالا۔ یصلون علیہ۔ حتی إذا فرغوا أدخلوا النساء۔ حتی إذا فرغوا أدخلوا الصبیان۔ ولم یؤم الناس علی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم أحد۔
 لقد اختلف المسلمون في المکان الذي یحفر لہ۔ فقال قائلون یدفن في مسجدہ۔ وقال قائلون یدفن مع أصحابہ۔ فقال أبو بکر رضي اللّٰہ عنہ: إني سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم یقول: ما قبض نبي إلا دفن حیث یقبض۔ قال: فرفعوا فراش رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم الذي توفی علیہ۔ فحفروا لہ ثم دفن صلی اللّٰہ علیہ و سلم وسط اللیل من لیلۃ الأربعاء۔ ونزل في حفرتہ علي بن أبي طالب والفضل بن العباس وقثم أخوہ وشقران مولی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم۔ وقال أوس بن خولی وہو أبو لیلی لعلي بن أبي طالب رضي اللّٰہ عنہ: أنشدک اللّٰہ وحظنا من رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم۔ قال لہ علي: أنزل۔ وکان شقران مولاہ أخذ قطیفۃ کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم یلبسہا۔ فدفنہا في القبر وقال: واللّٰہ لا یلبسہا أحد بعدک أبدا۔ فدفنت مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’أبواب ما جاء في الجنائز: باب ذکر وفاتہ ودفنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۱، ص: ۵۲۰، رقم: ۱۶۲۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص193