اسلامی عقائد

 

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کا علم ہے انسان کے بارے میں پہلے ہی سے معلوم ہے کہ فلاں انسان کب برا کام کرے گا کب نیکی کرے گا کب توبہ کرے گا کس عمل پر اس کو اچھا بدلہ دینا ہے اور کس پر اس کو سزا دینی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہر بات ازل ہی سے ہے، اللہ

تعالیٰ نے ہر انسان کے ہر عمل کو اپنے علم کی وجہ سے پہلے ہی لکھ دیا ہے اب وہ جو بھی کرے گا وہ اس لکھے ہوئے کے مطابق کرے گا، اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کو لکھے ہوئے کے مطابق عمل کرنے پر مجبور کیا گیا ہے؛ بلکہ مطلب یہ ہے کہ عمل کرنے میں وہ آزاد ہے جو چاہے اپنے اختیار سے کرے؛ لیکن جو بھی وہ عمل کرے گا وہ پہلے سے اللہ کے علم میں ہے۔ اس کو لکھ دیا گیا ہے۔ جیسے کہ خالد نے مثلاً کل اپنے اختیار سے سفر کیا اخبار والوں کو اس کا سفر معلوم ہوگیا انہوں نے اخبارات میں شائع کردیا کہ کل خالد سفر کرے گا انہوں نے اپنے علم کی وجہ سے لکھ دیا اس کا مطلب یہ نہیں ہے۔ کہ کل خالد جو سفر کرے گا وہ اخبارات میں شائع ہونے کی وجہ سے مجبور ہوکر کرے گا سفر اس کا اپنے اختیار سے ہوگا البتہ اگر کوئی حادثہ پیش آجائے تو سفر نہیں بھی ہوسکتا اخبارات کی خبر خلاف واقعہ ہوسکتی ہے۔ جس کی وجہ ان کے علم کی کمی ہے۔ ان کو حادثہ کا ہونا یا نہ ہونا معلوم نہیں اس لئے وہ اس کی خبر نہیں دے سکتے اللہ تعالیٰ کو وہ حادثہ بھی معلوم ہے بہر حال تقدیر پہلے سے لکھی ہوئی ہے اس میں شک نہیں کرنا چاہئے نیز مسئلہ ذرا باریک ہے۔ اور غور طلب ہے۔ اور سمجھنے کا ہے اس لئے اس میں زیادہ بحث نہیں کرنی چاہئے۔ قرآن کریم میں {مَآ أَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ  فِي الْأَرْضِ وَلَا فِيْ أَنْفُسِکُمْ إِلَّا فِيْ کِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ أَنْ نَّبْرَأَھَاط} (۱) دوسری جگہ ہے: {إِنَّا کُلَّ شَیْئٍ خَلَقْنٰہُ بِقَدَرٍہ۴۹} (۲)

(۱) سورۃ الحدید: ۲۲۔

(۲) سورۃ القمر: ۴۹۔

عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: سمعت رسول اللّٰہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- یقول: من تکلم في شيء من القدر سئل عنہ یوم القیامۃ، ومن لم یتکلم فیہ لم یسأل عنہ، رواہ ابن ماجہ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الإیمان بالقدر، الفصل الثالث‘‘: ج ۱، ص: ۲۹۳، رقم: ۱۱۴)

(فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج 1 ص 188)

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قبروں پر اگر بتی جلانا یا پھول ڈالنا سنت سے ثابت نہیں ہے، اس لیے بدعت کہا جائے گا جو قابل ترک ہے، دفن کرنے کے بعد قبر پر انفرادی یا اجتماعی طور پر کچھ پڑھ کر ایصال ثواب کرنا جائز اور درست ہے؛ البتہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا مناسب نہیں ہے کہ اس میں اشتباہ ضرور ہے۔
اور اگر ہاتھ اٹھاکر دعاء ہی کرنی ہو تو قبلہ کی طرف منھ کرکے دعا کی جائے۔(۱)

(۱) فما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت وغیرہا وینقل إلی ضرائح الأولیاء تقربا إلیہم فحرام بإجماع المسلمین۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصوم: باب الاعتکاف‘‘: ج ۲، ص: ۳۲۱)
ویستحب …… بعد دفنہ لدعاء وقراء ۃ بقدر ما ینحر الجزور ویفرق لحمہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في دفن المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۳)
فقد یثبت أنہ علیہ الصلاۃ والسلام قرأ أول سورۃ البقرۃ عند رأس میت وآخرہا عند رجلیہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في زیارۃ القبور‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۱)
وإذا أراد الدعاء یقوم مستقبل القبلۃ کذا في خزانۃ الفتاوی۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب السادس عشر في زیارۃ القبور‘‘: ج ۵، ص: ۴۰۴)
وفي حدیث ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ، رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في قبر عبد اللّٰہ ذي النجادین الحدیث وفیہ فلما فرغ من دفنہ استقبل القبلۃ رافعاً یدیہ أخرجہ أبو عوانہ في صحیحہ۔ (ابن حجرالعسقلاني، فتح الباري، ’’کتاب الدعوات: قولہ باب الدعاء مستقبل القبلۃ‘‘: ج ۱۱، ص: ۱۶۵، رقم: ۶۳۴۳)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص372

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مہر فاطمی مقرر کرنا مستحب؛ بلکہ مسنون اور باعث خیر وبرکت ہے،(۱) جن لوگوں نے مہر فاطمی مقرر کیا ہو، ان کا بائکاٹ یہ کہہ کر کرنا کہ ہمارے مقرر کردہ ضابطوں کے خلاف ہے اور برادری کے خلاف کیا ہے، یہ بہت ہی غلط ہے، ایسا کرنے والے ظالم اور سخت گنہگار ہیں ان کو اپنا ضابطہ ہی ایسا مقرر کرنا چاہئے تھا، جو کہ شریعت کے مطابق ہو اور شریعت میں اس کی نظیر موجود ہو ایسا عرف ورواج جو شرعی اصولوں سے ٹکراتا ہو قابل رد اور قابل ترک ہے۔ البتہ اگر اتنی وسعت نہ ہو تو مہر اس سے کم حسب حیثیت مقرر کر لیا جائے؛ لیکن برادرانہ طور پر عرف نہ بنایا جائے۔(۲)

(۱) یستحب کون الصداق خمسمائۃ درہم۔ (النووي، شرح المسلم، ’’کتاب النکاح: باب الصداق، وجواز کونہ تعلیم قرآن‘‘: ج ۱، ص: ۴۵۷)
(۲) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو ردٌّ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)


فتاوی  دار العلوم وقف دیوبندج1 ص461

طلاق و تفریق

Ref. No. 2557/45-3911

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اسلام میں نکاح ایک پاکیزہ رشتے کا نام ہے،اسلام نے اس کی پائداری پر زور دیا ہے، اور اس کے لیے باہمی الفت ومحبت اور دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین کی ہے لیکن اگر کسی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان نااتفاقی ہونے لگے تو پہلے دونوں خاندان کے بزرگ کو صلح کرانے کی کوشش کرنی چاہیے؛ کیوںکہ اسلام میں طلاق ناپسندیدہ فعل ہے اور بلا ضرورت اسکا استعمال درست نہیں ہے۔ پھر بھی اگر نباہ کی کوئی صورت نہ بن سکے اور فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو تو ایک طلاق صریح دے کر دونوں کو الگ ہو جانے کا حکم ہے۔  ایک طلاق کے بعد اگر دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو عدت میں رجوع کے ذریعہ اور عدت کے بعد نکاح کے ذریعہ دونوں ساتھ رہ سکتے ہیں۔  ایک ساتھ تین طلاق دینا شرعاً گناہ ہے اور ملکی قانون کے مطابق قابل مواخذہ جرم ہے۔

بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں شوہر نے جب پہلی بار لکھا 'طلاق' تو اس سے ایک طلاق واقع ہوئی، پھر اس نے لکھا 'اب یہی باقی تھا ۔ ۔  طلاق' تو اگر اس سے تاکید مراد تھی تو اس کی بات قبول کی جائے گی اور اس لفظ سے طلاق واقع نہیں ہوگی،  پھر جب عورت نے نہ آنے کی بات کہی تو اس نے کہا'نہیں تو جا طلاق' تو اس سے اب دوسری  طلاق واقع ہوگئی۔  لہذا  صورت مسئولہ میں دو طلاقیں واقع ہوچکی ہیں، عدت کے اندر شوہر رجعت کرسکتاہے، نکاح کی ضرورت نہیں ہے، البتہ شوہر کو آئندہ صرف ایک طلاق کا اختیار ہوگا۔ اگر شوہر نے آئندہ ایک طلاق دی تو عورت اس پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجائے گی۔ 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:فقہ کی مختلف کتابوں میں لکھا ہے کہ درج ذیل اشیاء سے استنجا کرنا درست نہیں ہے، مثلاً: ہڈی کھانے کی چیزیں، لید اور تمام ناپاک چیزیں اور وہ ڈھیلا یاپتھر جس سے ایک مرتبہ استنجا ہو چکا ہو یعنی ناپاک ہو، پختہ اینٹ، شیشہ، کوئلہ، چونا، لوہا، چاندی، سونا وغیرہ اور ایسی چیزوں سے استنجا کرنا جو نجاست کو صاف نہ کریں، جیسے: سرکہ وغیرہ یا ایسی چیزیں جن کو جانور وغیرہ کھاتے ہوں، جیسے: بھوسہ اور گھاس وغیرہ،یا ایسی چیزیں جو قیمت والی ہوں، چاہے قیمت تھوڑی ہو یا زیادہ، جیسے: کپڑا،یعنی ایسا کپڑا جس کو اگر استنجا کے بعد دھویا جائے، تو اس کی قیمت میں کمی آجائے، جیسے: ریشم وغیرہ کا کپڑا، ان سے استنجا کر نا درست نہیں ہے۔ مزید تفصیلات فتاویٰ ہندیہ میں دیکھی جا سکتی ہیں۔(۱)
’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا تسنجو بالروث ولا بالعظام فإنہ زاد اخوانکم من الجن‘‘(۲)
اسی طرح آدمی کے اجزاء، جیسے: بال، ہڈی، گوشت، مسجد کی چٹائی یا کوڑا یا جھاڑو ،درختوں کے پتے، کاغذ چاہے لکھا ہو یا سادہ، زمزم کا پانی، بغیر اجازت دوسرے کے مال سے چاہے وہ پانی ہو یا کپڑا یا کوئی اور چیز، روئی اور تمام ایسی چیزیں جن سے انسان یا جانور نفع اٹھائیں،ایسی تمام چیزوں سے استنجا کرنا مکروہ ہے۔
’’یجوز في الاستنجاء استعمال الحجر: (وما قام مقامہ) أي ویجوز أیضاً بما قام مقام الحجر کالمدر والتراب والعود والخرقۃ والقطن والجلد ونحو ذلک‘‘(۳)
’’عن عائشۃ  رضي اللّٰہ عنہا ، قالت:  قدم سراقۃ بن مالک علی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فسألہ عن التغوط، فأمرہ أن یستعلی الریح وأن یتنکب القبلۃ، ولا یستقبلہا ولا یستدبرہا، وأن یستنجی بثلاثۃ أحجار ولیس فیہا رجیع، أو ثلاثۃ أعواد، أو ثلاث حثیات من تراب‘‘(۴) ’’إن لماء زمزم حرمۃ فإن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم مج في دلو زمزم ثم أمر بإفراغہ في بئر زمزم، فعن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما  قال: جاء النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إلیٰ زمزم فنزعنا لہ دلواً، فشرب ثم مج فیہا، ثم أفرغناہازمزم، ثم قال: لولا أن تغلبوا علیہالنزعت بیدي‘‘(۱)
’’عن أنس بن مالک، قال: کان أبو ذر یحدث أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم  قال: فرج عن سقف بیتي وأنا بمکۃ، فنزل جبریل علیہ السلام ففرج صدري، ثم غسلہ بماء زمزم، ثم جاء بطست من ذہب ممتلئ حکمۃ وإیمانا، فأفرغہ في صدري، ثم أطبقہ، ثم أخذ بیدي، فعرج بي إلی السماء الدنیا، فلما جئت إلی السماء الدنیا، قال جبریل: لخازن السماء افتح، قال: من ہذا؟ قال ہذا جبریل۔۔۔۔۔۔الخ‘‘(۲)

 

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب التاسع: في النجاسۃ وأحکامہا، الفصل الثالث في الاستنجاء، صفۃ الاستنجاء بالماء‘‘: ج ۱، ص: ۵۵۔
(۲) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الطہارۃ وسننہا، باب کراہیۃ الاستنجاء بالیمین‘‘: ج ۱، ص: ۱۰، رقم: ۱۸۔
(۳) بدر الدین العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’ما یجوز بہ الاستنجاء و ما لا یجوز‘‘: ج ۱، ص: ۷۴۹۔
(۴) أخرجہ البیہقي، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب ما ورد في الاستنجاء بالتراب‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۹، رقم: ۵۳۹۔
(۱) أخرجہ أحمد، في مسندہ، ’’الجزء الخامس ‘‘: ج ۵، ص: ۴۶۷۔(القاھرۃ، مؤسسۃ الرسالۃ، مصر)
(۲) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب کیف فرضت الصلاۃ في الإسراء‘‘: ج ۱، ص: ۵۰، رقم: ۳۴۹۔(مکتبہ نعیمیہ دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص113

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک خون نکلنے اور بہنے سے وضو نہیں ٹوٹتا؛ لیکن احناف کے نزدیک اگر اتنا خون بدن سے نکلے کہ وہ بہہ جائے یا بہہ سکے  تو وہ ناقض وضو ہے، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی دلیل حدیث شریف ہے: ’’أنہ علیہ الصلاۃ قاء فلم یتوضأ‘‘ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قے آئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو نہیں کیا، اس سے معلوم ہوا کہ سبیلین کے علاوہ سے اگر کوئی چیز نکلے، تو وہ ناقض وضو نہیں ہے۔ احناف کی دلیل دوسری حدیث ہے: ’’الوضوء من کل دم سائل‘‘ (۲)  کہ بہنے والا خون ناقض وضو ہے، احناف کہتے ہیں کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے جو حدیث دلیل کے طور پر پیش کی ہے، وہ غیر معروف ہے(۳)

 اور اگر اسے تسلیم بھی کر لیا جائے، تو اس کا مفہوم دوسری روایات کے سامنے رکھتے ہوئے یہ ہے کہ ’’من قاء أو رعف في صلاتہ فلینصرف ولیتوضأ ولیبن علی صلاتہ ما لم یتکلم‘‘ (۱)  کہ اگر نماز میں کسی کو قے یا نکسیر آجائے، تو وہ وضو کر کے آئے اور بنا کر لے شرط یہ ہے کہ اس نے کلام؛ یعنی: نماز کے منافی کوئی دیگر کام نہ کیا ہو؛ اس حدیث میں واضح ہو گیا کہ اگر نکسیر، یعنی: غیر سبیلین سے خون نکلنا ناقض وضو نہ ہوتا، تو نماز چھوڑ کر وضو کرنے کے لیے جانے کا حکم نہ دیا جاتا۔ احناف کی تیسری دلیل یہ ہے کہ بدن سے نجاست کا نکلنا زوال طہارت کے لیے مؤثر ہے اور خون نجاست ہے: ’’وأما الفرع فیہ فہو الخارج من غیر السبیلین وذلک، لأن علمائنا اعتبروا فاستنبطوا أن الخارج من السبیلین کان حدثا لکونہ نجساً خارجاً من بدن الإنسان من قولہ تعالیٰ: {أو جاء أحد منکم من الغائط} (الآیۃ) وہونص معلوم بذلک الوصف لظہور أثرہ في جنس الحکم المعلل بہ وہو إنتقاض الطہارۃ بخروج دم الحیض والنفاس، و وجدوا مثل ذلک في الخارج من غیر السبیلین فعدوا الحکم الأول إلیہ۔

(۲) و أما حدیث ’’الوضوء من کل دم سائل‘‘ فرواہ الدار قطنی من طرق ضعیفۃ، و رواہ ابن عدي في الکامل من أخری، و قال: لا نعرفہ إلا من حدیث أحمد بن فروخ، وھو ممن لا یحتج بحدیثہ؛ ولکنہ یکتب؛ فإن الناس مع ضعفہ قد احتملوا حدیثہ اھـ لکن قال ابن أي حاتم في کتاب العلل، قد کتبنا عنہ، و محلہ عندنا الصدق۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارات، فصل في نواقض الوضوء،‘‘ ج ۱، ص:۴۰-۴۱)؛ و قال ابن حجر في الدرایۃ: حدیث ’’الوضوء من کل دم سائل‘‘ الدار قطنی من حدیث تمیم الداري و فیہ ضعف و انقطاع، ومن حدیث زید بن ثابت أخرجہ ابن عدي في ترجمۃ أحمد بن الفرج۔ (المرغیناني، الہدایۃ، کتاب الطھارۃ ج ۱، ص:۲۲)
(۳)قال ابن الھمامؒ: أما حدیث ’’أنہ علیہ السلام قاء، فلم یتوضأ‘‘ فلم یعرف (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارات‘‘، ج ۱، ص:۴۰)؛ وقال ابن حجرؒ في الدرایۃ في تخریج احادیث الہدایہ: حدیث کتاب الطہارات ’’أن النبي ﷺ قاء، فلم یتوضأ‘‘ لم أجدہ۔ (المرغیناني، الہدایۃ ’’کتاب الطہارۃ‘‘ج ۱، ص:۲۲)

(۱)حدیث ’’من قاء أو رعف في صلاتہ الخ رواہ ابن ماجہ من حدیث عائشۃؓ بلفظ: ’’من أصابہ قئ أو رعاف أو قلس أو مذي، فلینصرف، فلیتوضأ ثم لیبن علی صلاتہ، وھو في ذلک مالا یتکلم۔ و أخرجہ الدار قطني نحوہ، و في إسنادہ اسماعیل بن عیاش، و روایتہ من غیر الشامیین ضعیفۃ، و ھذا منھا۔ (المرغیناني، الہدایۃ، ج ۱، ص:۲۲)؛ و أما حدیث ’’من قاء أو رعف الخ فرواہ ابن ماجہ عن اسماعیل بن عیاش عن إبن جریح عن ابن أبي ملیکۃ عن عائشۃ قالت: قال ﷺ: من أصابہ قيء أو رعاف أو قلس أو مذي، فلینصرف فلیتوضأ، ثم لیبن علی صلاتہ وھو في ذلک لایتکلم۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارات، فصل في نواقض الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۴۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص224

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: زوجہ اگر شوہر کے والدین کے ساتھ رہنا پسند نہیں کرتی تو شوہر پر لازم ہے کہ اس کے لیے الگ مکان کا انتظام کرے خواہ پورا مکان الگ ہو یا صحن ایک ہو کمرہ الگ ہو(۱) اس مقصد کے لیے اور دیگر اخراجات کو پورا کرنے کے لیے زیادہ آمدنی کی خاطر (وقف بورڈ) میں ملازمت کرنا اور تعویذ و عملیات کی اجرت لینا جائز اور درست ہے۔ شرط یہ ہے کہ جھوٹ کا سہارا نہ لے۔

(۱) وکذا تجب لہا السکنی في بیت خال عن أہلہ لأنہا تتضرر بمشارکۃ غیرہا فیہ لأنہا لاتأمن علی متاعہا ویمنعہا ذلک من المباشرۃ مع زوجہا ومن الاستمتاع إلا أن تختار ذلک لأنہا رضیت بانتقاص حقہا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطلاق: باب النفقۃ، مطلب في مسکن الزوجۃ‘‘ ج ۵، ص: ۳۲۰، زکریا)
 قال العینی کأنہ أراد المبالغۃ في تصویبہ إیاہم، فیہ جواز الرقیۃ، وبہ قالت الائمۃ الأربعۃ: وفیہ جواز أخذ الأجرۃ، قال محمد في المؤطأ: لا بأس بالرقی بما کان في القرآن وبما کان من ذکر اللّٰہ تعالیٰ۔ (أخرجہ أبو داؤد  في سننہ، ’’کتاب الطب، باب الرقی‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۴)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص84

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: جب امام محراب میں کھڑا ہوکر نماز پڑھائے، تو قدموں کا کچھ حصہ محراب سے باہر ہونا چاہئے اس کے خلاف کرنا مکروہ ہے؛ لیکن اگر برآمدہ یا صحن میں نماز ہو رہی ہو، تو پوری مسجد برابر ہے اس کے لحاظ کی ضرورت نہیں ہے بس امام اپنی جگہ پر مقتدیوں سے الگ ہو۔(۱)
(۱) وحقیقۃ اختلاف المکان تمنع الجواز فشبہۃ الاختلاف توجب الکراہۃ والمحراب وإن کان من المسجد فصورتہ وہیئتہ اقتضت شبہۃ الاختلاف اہـ ملخصا. قلت: أی لأن المحراب إنما بنی علامۃ لمحل قیام الإمام لیکون قیامہ وسط الصف کما ہو السنۃ، لا لأن یقوم في داخلہ، فہو وإن کان من بقاع المسجد لکن أشبہ مکانا آخر فأورث الکراہۃ، ولا یخفی حسن ہذا الکلام فافہم، لکن تقدم أن التشبہ إنما یکرہ في المذموم وفیما قصد بہ التشبہ لا مطلقا، ولعل ہذا من المذموم تأمل۔ ہذا وفي حاشیۃ البحر للرملي: الذی یظہر من کلامہم أنہا کراہۃ تنزیہ تأمل اہـ (تنبیہ) (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ: باب مایفسد الصلوۃ ومایکرہ فیہا، مطلب إذا تردد الحکم بین سنۃ وبدعۃ‘‘: ج۲، ص: ۴۱۵)
فالحاصل أن مقتضی ظاہر الروایۃ کراہۃ قیامہ في المحراب مطلقا سواء اشتبہ حال الإمام أو لا وسواء کان المحراب من المسجد أم لا وإنما لم یکرہ سجودہ في المحراب إذا کان قدماہ خارجہ لأن العبرۃ للقدم في مکان الصلاۃ حتی تشترط طہارتہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلوۃ: تغمیض عینیہ في الصلوۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۸)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 5 ص: 416

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: جن ممالک میں موسم گرما میں آفتاب غروب ہی نہ ہوتا ہو اور موسم سرما میں آفتاب طلوع ہی نہ ہوتا ہو اسی طرح وہ ممالک جہاں مسلسل چھ مہینے رات اور چھ مہینے دن رہتا ہو وہاں کے مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ قریب ترین ملک جہاں فرض نمازوں کے اوقات جدا جد ہوں وہاں کے اوقات نماز کے پیش نظر اپنی پنج وقتہ فرض نمازوں کے اوقات متعین کر لیں اور ہر چوبیس گھنٹے کے اندر پانچوں فرض نمازیں ادا کریں۔ مثلاً اگر قریب ترین معتدل علاقے میں نمازِ مغرب نوبجے ہوتی ہے اور عشاء ساڑھے دس بجے تو اِن میں بھی مغرب اور عشاء بالترتیب ۹؍ بجے اور ساڑھے دس بجے پڑھی جائے؛ کیوں کہ اسراء و معراج والی حدیث میں وارد ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت پر ایک دن اور ایک رات میں پچاس نمازیں فرض کی ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب سے امت کے لیے تخفیف کرواتے رہے یہاں تک کہ اللہ نے فرمایا: ’’اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ایک دن اور رات میں اب یہ کل پانچ نمازیں ہیں اور ہر نماز دس کے برابر ہے گویا یہ پچاس نمازیں ہیں‘‘ اسی طرح ایک حدیث میں آپ نے دجال کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ سورہ کہف کی تلاوت کیا کرو یہ تمہیں دجال سے بچائے گی اس پر صحابہؓ نے پوچھا کہ دجال کتنے دن رہے گا آپ نے فرمایا چالیس دن ایک دن ایک سال کے برابر ہوگا ایک دن ایک مہینہ کے برابر ہوگا ایک دن ایک ہفتہ کے برابر ہوگا باقی دن عام دنوں کی طرح ہوں گے اس پر صحابہؓ نے سوال کیا یا رسول اللہ کیا ہمیں ایک دن کی نماز کافی ہوگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں، بلکہ تم اندازا لگا کر نماز پڑھنااس سے بھی معلوم ہوتاہے کہ جن علاقوں میں دن اوررات چھ مہینہ کا ہوتاہے وہاں ایک دن کی نماز کافی نہیں ہوگی، بلکہ قریب ترین ممالک کو دیکھ کر نماز کے اوقات طے کئے جائیں گے۔(۱)
ذکر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الدجال، فقال: إن یخرج وأنا فیکم فأنا حجیجہ دونکم، وإن یخرج ولست فیکم فامرؤ حجیج نفسہ، واللّٰہ خلیفتی علی کل مسلم، فمن أدرکہ منکم فلیقرأ علیہ بفواتح سورۃ الکہف، فإنہا جوارکم من فتنتہ قلنا: وما لبثہ في الأرض؟ قال: أربعون یوما: یوم کسنۃ، ویوم کشہر، ویوم کجمعۃ، وسائر أیامہ کأیامکم فقلنا: یا رسول اللّٰہ، ہذا الیوم الذي کسنۃ، أتکفینا فیہ صلاۃ یوم ولیلۃ؟ قال: لا اقدروا لہ قدرہ‘‘(۲)
’’وحاصلہ أنا لا نسلم لزوم وجود السبب حقیقۃ بل یکفی تقدیرہ کما في أیام الدجال۔ ویحتمل أن المراد بالتقدیر المذکور ہو ما قالہ الشافعیۃ من أنہ یکون وقت العشاء في حقہم بقدر ما یغیب فیہ الشفق في أقرب البلاد إلیہم والمعنی الأول أظہر، کما یظہر لک من کلام الفتح الآتی حیث ألحق ہذہ المسألۃ بمسألۃ أیام الدجال‘‘(۱)

 

(۱) قال الرملي في شرح المنہاج ویجري ذلک فیما لو مکثت الشمس عند قوم مدہ: اھـ۔
قال في إمداد الفتاح قلت: وکذلک یقدر لجمیع الآجال کالصوم والزکاۃ والحج والعدۃ وآجال البیع والسلم والإجارۃ وینظر ابتداء الیوم فیقدر کل فصل من الفصول الأربعۃ بحسب ما یکون کل یوم من الزیادۃ والنقص کذا في کتب الأئمۃ الشافعیۃ ونحن نقول بمثلہ إذ اصل التقدیر مقول بہ اجماعاً في الصلوات۔ (ابن عـابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ مطلب: في طلوع من مغربہا: ج ۱، ص: ۳۶۵)
(۲) أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الملاحم :باب خروج الدجال‘‘: ج۲، ص: ۵۹۳، رقم: ۴۳۲۱۔
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ:  مطلب في فاقد وقت العشاء کأہل بلغار‘‘ ج۲، ص: ۱۹۔

 

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 60

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: تندرست شخص کے لیے نماز کی حالت میں قیام کرنا فرض ہے، اگر آپ بیٹھ کر سواری میں نماز ادا کریں گے تو آپ کی نماز درست نہیں ہوگی؛ نیز موجودہ دور کی بڑی سواری مثلاً: ریل گاڑیوں میں قبلہ رو ہوکر نماز اداء کرنے میں اور قیام کرنے میں کوئی دقت اور پریشانی عام طور پر نہیں ہوتی ہے؛ اس لیے ان جگہوں پر تو نماز درست ہو جائے گی؛ البتہ بس، کار اور بائک وغیرہ میں سفر کے دوران اگر ممکن ہو تو نماز کے وقت ان گاڑیوں کو روک کر کے نماز اداء کرلیں ورنہ بعد میں اداء کریں، ایسے ہی ہوائی جہاز وغیرہ میں نماز پڑھنے کا حکم یہ ہے کہ سفر کے بعد نماز ادا کرلی جائے ؛کیوں کہ فرض نماز کی ادائیگی کے لیے قیام ضروری ہے، اس لیے اگر تندرست آدمی بیٹھے بیٹھے نماز پڑھے تو نماز درست نہیں ہوتی ہے، اور ہوائی جہاز میں قیام ایسے ہی قبلہ کی طرف رخ اور سجدہ وغیرہ کرنا عام طور پر ممکن نہیں ہے؛ اس لیے سفر کے بعد فرض اور وتر کی قضاء کریں۔
خلاصہ: مذکورہ صورتوں کے مطابق اگر نماز ادا نہ کی جاسکتی ہو (مثلاً: قیام ہی ممکن نہ ہو، یا قیام تو ممکن ہو لیکن قبلہ رخ نہ ہوسکے، یا سجدہ نہ کیا جاسکتاہو، یا کار اور بس کا ڈرائیور بس نہ روکے اور ہوائی جہاز پرواز کر رہا ہو) ادھر نماز کا وقت نکل رہا ہو تو آپ فی الحال ’’تشبہ بالمصلین‘‘ (نمازیوں کی مشابہت اختیار) کرتے ہوئے نماز پڑھ لیں اور جب آپ گاڑی سے اتر جائیں اس کے بعد آپ پر فرض نماز اور وتر کی قضا لازم ہوگی۔
علامہ ابن نجیم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب البحر الرائق میں لکھا ہے:
’’وفي الخلاصۃ: وفتاوی قاضیخان وغیرہما: الأسیر في ید العدو إذا منعہ الکافر عن الوضوء والصلاۃ یتیمم ویصلي بالإیماء، ثم یعید إذا خرج … فعلم منہ أن العذر إن کان من قبل اللّٰہ تعالی لاتجب الإعادۃ، وإن کان من قبل العبد وجبت الإعادۃ ‘‘(۱)
’’(من فرائضہا) … (ومنہا القیام) (في فرض) (لقادر علیہ)، في الشامیۃ تحتہ، (قولہ: القادر علیہ) فلو عجز عنہ حقیقۃ وہو ظاہر أو حکما کما لو حصل لہ بہ ألم شدید أوخاف زیادۃ المرض وکالمسائل الآتیۃ الخ‘‘(۱)
’’وفیہ أیضاً: وکذا لو اجتمعوا في مکان ضیق لیس فیہ إلا موضع یسع أن یصلي قائما فقط یصبر ویصلي قائماً بعد الوقت کعاجز عن القیام والوضو في الوقت ویغلب علی ظنہ القدرۃ بعدہ الخ‘‘(۲)

(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ: باب التیمم‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۸۔
(۱) ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، بحث القیام‘‘: ج ۲، ص:۱۳۲۔
(۲) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب التیمم‘‘: ج ۱، ص: ۳۹۶۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص320