اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مروّجہ عرس اور مذکورہ سوال کا حکم تو عدم جواز ہی کا ہے اور اس کی اتباع نہیں کرنی چاہئے، منکرات پر عمل کرنا باعث گناہ ہے اور بعض صورتوں میں وہ منکرات میں شمار ہوتا ہے۔(۱) ایسے مجامع کی رونق کے لیے شرکت کر نے کی بھی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
امام صاحب اگر دل سے برا جانتے ہیں جیسا کہ سوال میں مذکور ہے اور وہ شرکت کے لیے مجبور ہیں تو ان کے پیچھے پڑھی گئی نماز بلاشبہ ادا ہوگئی امامت کو صورت مسئول عنہا میں ناجائز کہنا درست نہ ہوگا؛ لیکن ان کے لئے یہ بھی ضروری ہوگا کہ اصلاح کی سعی کرتے رہیں مناسب وقت میں لوگوں کو سمجھاتے رہیں اور منکرات پر عمل کرنے کی دنیاء و آخرت میں ہونے والی خرابیوں سے آگاہ کرتے رہیں اور ایسا طریقہ اختیار کرنا جو کہ باعث فتنہ و فساد بن جائے اور نفرت کا اضافہ ہوجائے کہ اصل حکم سے ہی اعراض کرنے لگیں (جیسا کہ ہوتا ہے کہ نمازی آپ کی حق بات کو نہیں مانتے) تو اس طریقہ سے اسلام کا راستہ محدود ہوجاتا ہے اس لئے اس سے احتراز ہی کرنا ہوگا۔ نیز امام صاحب کے عقائد اگر اسلام کے خلاف اور کفریہ ہوں تو ان کے پیچھے نماز نہیں ہوتی ہے اور جن کے اعمال فسقیہ ہوں ان کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہوتی ہے اور عقائد کا تعلق اگرچہ دل سے ہوتا ہے، لیکن ظاہری اعمال سے ہی باطن پر حکم لگایا جاتا ہے۔(۱)
(۱) {وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰیص وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ} (سورۃ المائدہ: ۲)
(وفاسق وأعمیٰ) ونحوہ الأعشي، نہر، (إلا أن یکون) أي غیر الفاسق (أعلم القوم) فہو أولی (ومبتدع) أي صاحب بدعۃ وہي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول لا بمعاندۃ بل بنوع شبہۃ، وکل من کان من قبلتنا (لا یکفر بہا) حتی الخوارج الذین یستحلون دمائنا وأموالنا وسب الرسول، وینکرون صفاتہ تعالی وجواز رؤیتہ لکونہ عن تأویل وشبہۃ بدلیل قبول شہادتہم، إلا الخطابیۃ ومنا من کفرہم (وإن) أنکر بعض ما علم من الدین ضرورۃ (کفر بہا) کقولہ: إن اللّٰہ تعالیٰ جسم کالأجسام وإنکارہ صحبۃ الصدیق (فلا یصح الاقتداء بہ أصلا۔ قال ابن عابدین: (قولہ وہي اعتقاد إلخ) عزاہ ہذا التعریف في ہامش الخزائن إلی الحافظ ابن حجر في شرح النخبۃ، ولا یخفی أن الاعتقاد یشمل ما کان معہ عمل أو لا، فإن من تدین بعمل لا بد أن یعتقدہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب البدعۃ خمسۃ أقسام‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸ - ۳۰۰)


 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص372

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:دین کا کام کرنے کے متعدد طریقے ہیں نیز ایک ہی جماعت ہر ہر شعبہ میں کام کرے ایسا ہونا بھی مشکل ہے، کوئی کسی شعبہ میں کام کرتا ہے تو کوئی دوسرے شعبہ میں کام کرتا ہے حتی الوسع اخلاص کے ساتھ دین کا کام کرتے رہنا چاہئے باقی تفصیلات کے لئے کتابوں کا مطالعہ کریں۔(۲)

(۲) عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: الإیمان بضع وسبعون شعبۃ فأفضلہا: قول لا إلہ إلا اللّٰہ وأدناہا إماطۃ الأذی عن الطریق والحیاۃ شعبۃ من الإیمان: متفق علیہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۱۲، رقم: ۵)
وذلک الإیمان باللّٰہ، وصفاتہ، وحدوث ما دونہ، وبملائکتہ، وکتبہ، ورسلہ، والقدر، وبالیوم الآخر، والحبّ في اللّٰہ، والبغض فیہ، ومحبّۃ النبي صلّی اللّٰہ علیہ وسلم واعتقاد تعظیمہ، وفیہ الصّلاۃ علیہ، واتّباع سنّتہ، والإخلاص وفیہ ترک الریاء، والنّفاق، والتوبۃ، والخوف، والرجاء، والشکر، والوفاء، والصبر، والرضا بالقضاء، والحیاء، والتوکّل، والرحمۃ، والتواضع، وفیہ توقیر الکبیر، ورحمۃ الصغیر، وترک الکبر، والعجب، وترک الحسد والحقد، وترک الغضب، والنطق بالتوحید، وتلاوۃ القرآن، وتعلم العلم وتعلیمہ، والدعاء، والذکرالخ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان‘‘: ج ۱، ص: ۷۰؍ ۷۱، رقم: ۵)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص313

بدعات و منکرات

الجواب:بقدر ضرورت شرعی علم سیکھنا ضروری ہے یعنی فرض، واجب، عقائد وعبادات سے مطلع ہونا ضروری ہے اور ایسے ہی حلال وحرام کا ضروری علم بھی ہونا چاہئے تاکہ اس کے مطابق عمل کیا جا سکے۔ (۱)

(۱) تزکیۃ الأخلاق من أہم الأمور عند القوم …… ولا یتیسر ذلک إلا بالمجاہدۃ علی ید شیخ کامل قد جاہد نفسہ وخالف ہواہ …… إلی …… ومن ظن من نفسہ أنہ یظفر بذلک بمجرد العلم ودرس الکتب فقد ضل ضلالاً بعیداً فکما أن العلم بالتعلم من العلماء کذلک الخلق بالتخلق علی ید العرفاء فالخلق الحسن صفۃ سید المرسلین الخ۔ (ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن، ’’کتاب الأدب والتصوف‘‘: ج ۱۸، ص: ۴۵۳، ۳۵۴؛ ’’کتاب الأدب والتصوف‘‘: ج ۱۸، ص: ۴۴۲)

وإذا عرفت ذلک فاعلم أن التصوف شعبۃ من الفقۃ لکون الفقہ عبارۃ عن معرفۃ النفس ما لہا وما علیہا کما حکی عن أبي حنفیفۃ رحمہ اللّٰہ ولا یخفی أن معرفۃ طریق القرب إلی اللّٰہ علماً وعملاً داخل في ذلک بل ہو الفقہ في الحقیقۃ والفقیہ ہو المتقرب إلی اللّٰہ بعلمہ وعملہ لا العالم بالأحکام والدلائل فقط۔ (ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن، ’’کتاب الأدب والتصوف‘‘: ج ۱۸، ص: ۴۴۸ - ۴۴۹)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص405

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:استنجا میں صرف پانی پر اکتفاء کرنا یا صرف پتھر سے پوچھنا (جب کہ نجاست درہم کی مقدار سے زائد نہ ہو) تو دونوں صورتیں جائز ہیں؛ البتہ بہتر ہے کہ پانی سے استنجا کیا جائے، نیز فقہاء نے افضل طریقہ لکھا ہے کہ پہلے پتھر یا اس جیسی چیزوں سے نجاست کو پوچھنا چاہئے، پھر پانی سے دھو نا چاہئے، مذکورہ صورت صفائی ستھرائی اور پاکی میں اضافہ کا ذریعہ ہے، ایسے ہی کشف ستر کا خطرہ نہ ہو تو استنجا بالماء افضل ہے اور اگر کشف ستر کا خطرہ ہو تو استنجا بالاحجار کرنا چاہئے۔ جیسا کہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
’’والاستنجاء بالماء أفضل إن أمکنہ ذلک من غیرکشف العورۃ و إن احتاج إلی کشف العورۃ یستنجی بالحجر ولا یستنجی بالماء کذا فی فتاویٰ قاضیخان‘‘(۱)
’’ثم إعلم أن الجمع بین الماء والحجر أفضل ویلیہ في الفضل الاقتصار علی الماء‘‘(۲)
’’عن أبي سعید عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہما  عن النبي  صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من اکتحل فلیوتر من فعل فقد أحسن ومن لا فلا حرج ومن استجمر فلیوتر، من فعل فقد أحسن، ومن لا فلا حرج، ومن أکل فما تخلل فلیلفظ وما لاک بلسانہ فلیبتلع من فعل فقد أحسن ومن لا فلا حرج، ومن أتی الغائط فلیستتر فإن لم یجد إلا أن یجمع کثیبا من رمل فلیستدبرہ فإن الشیطان یلعب بمقاعد بني آدم، من فعل فقد أحسن ومن لا فلا حرج‘‘(۱)
’’عن عطاء بن أبي میمونۃ قال سمعت أنسا یقول:کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یأتي الخلاء فأتبعہ أنا وغلام من الأنصار بإداوۃ من ماء، فیستنجي بہا‘‘(۲)
’’عن أبي أیوب وجابر بن عبد اللّٰہ وأنس بن مالک الأنصاریین عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في ہذہ الآیۃ {فیہ رجال یحبون أن یتطہروا واللّٰہ یحب المتطہرین} فقال: یا معشر الأنصار إن اللّٰہ تعالی قد أثنی علیکم خیرا في الطہور فما طہورکم ہذا۔ قالوا یا رسول اللّٰہ نتوضأ للصلاۃ ونغتسل من الجنابۃ فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فہل مع ذلک من غیرہ۔ قالوا لا غیر أن أحدنا إذا خرج من الغائط أحب أن یستنجي بالماء۔ فقال: ہو ذاک فعلیکموہ‘‘(۳)

 

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب التاسع في النجاسۃ وأحکامہا، الفصل الثالث: في الاستنجاء‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۴۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب إذا دخل المستنجي في ماء قلیل‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۸۔
(۱) أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب الاستتار في الخلاء‘‘: ج ۱، ص: ۹، رقم: ۳۵۔(مکتبہ نعیمیہ دیوبند)
(۲) أخرجہ البیہقي، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب الاستنجاء بالماء‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۵۔(بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)
(۳) أخرجہ دار قطني، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب في الاستنجاء‘‘: ج ۱، ص: ۶۲۔(بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص111

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:  اگر آپ کان میںروئی رکھ دیتے ہیںاور روئی میں تری محسوس ہوتی ہے، تو روئی میں لگے اس پانی کا اندازہ کیا جائے اگر وہ اتنا ہو کہ روئی نہ رکھی جائے، تو بہہ پڑے؛ اس قدر پانی کا نکلنا ناقض وضو ہے اور اگر تری کی مقدار اس سے کم ہے، یعنی: اگر روئی نہ رکھیں،تو بھی سیلان نہ پایا جائے؛ اس سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے اور نماز فاسد نہیں ہوتی ہے؛ اس لیے کہ بظاہر اس میں سیلان نہیں ہے، اگر آپ ہاتھ نہ لے جاتے، تو وہ خود بخو د نہ بہتا۔ ’’ثم المراد بالخروج من السبیلین مجرد الظہور، وفي غیرہما عین السیلان ولو بالقوۃ، لما قالوا: لو مسح الدم کلما خرج ولو ترکہ لسال نقض وإلا لا، کما لو سال في باطن عین أو جرح أو ذکر ولم یخرج، وکدمع وعرق إلا عرق مدمن الخمر فناقض -تحتہ في الشامی- وکذا إذا وضع علیہ قطنا أو شیئا آخر حتی ینشف ثم وضعہ ثانیا وثالثا فإنہ یجمع جمیع ما نشف، فإن کان بحیث لو ترکہ سال نقض وإنما یعرف ہذا بالاجتہاد وغالب الظن، وکذا لو ألقی علیہ رمادا أو ترابا ثم ظہر ثانیا فتربہ ثم وثم فإنہ یجمع۔ قالوا: وإنما یجمع إذا کان في مجلس واحد مرۃ بعد أخری، فلو في مجالس فلا، تاتارخانیۃ، ومثلہ في البحر‘‘۔
أقول: وعلیہ فما یخرج من الجرح الذي ینز دائما ولیس فیہ قوۃ السیلان ولکنہ إذا ترک یتقوی باجتماعہ ویسیل عن محلہ، فإذا نشفہ أو ربطہ بخرقۃ وصار کلما خرج منہ شيء تشربتہ الخرقۃ ینظر، إن کان ما تشربتہ الخرقۃ في ذلک المجلس شیئا فشیئا بحیث لو ترک واجتمع أسال بنفسہ نقض، وإلا لا، ولا یجمع ما في مجلس إلی ما في مجلس آخر، وفي ذلک توسعۃ عظیمۃ لأصحاب القروح ولصاحب کي الحمصۃ‘‘(۱)

(۱)ابن عابدین ، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب نواقض الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۲۶۲-۲۶۳
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص223

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: عصر و عشاء سے قبل سنتیں غیر مؤکدہ ہیں جن کے پڑھنے پر ثواب ہوتا ہے اور نہ پڑھنے پر گناہ نہیں ہوتا اس لیے مذکورہ شخص کی امامت بلا کراہت درست ہے۔(۱)

(۱) ترکہ لا یوجب إساء ۃ ولا عتاباً کترک سنۃ الزوائد،  لکن فعلہ أفضل۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب صفۃ الصلوۃ، آداب الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۵)
وحکمہ الثواب بفعلہ وعدم اللوم علی ترکہ۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ، فصل في آداب الوضوء‘‘: ج۱، ص: ۱۱۲)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص83

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر قبرستان موقوفہ ہے، تو اس کا یہ تصرف ناجائز ہے وہ اور اس کی مدد کرنے والے گناہ گار ہیں اس کو امام بنانا مکروہ تحریمی ہے۔(۲)

(۲) قال ولو وکلہ بشراء شيء بعینہ فلیس لہ أن یشتریہ لنفسہ۔ (المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب البیوع، فصل في الشراء‘‘: ج ۳، ص: ۱۸۴)
 أن الغاصب أو المودع إذا تصرف فی المغصوب أو الودیعۃ وربح لا یطیب لہ الربح۔ (المرغیانی، الہدایۃ، ’’کتاب الغصب، فصل‘‘: ج ۳، ص: ۳۷۵)
 عن عبد اللّہ بن عمر وأن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال أربع من کن فیہ کان منافقا خالصا ومن کانت فیہ خصلۃ من النفاق حتی یدعہا إذا ائتمن خان۔ (ملا علي قاري، عمدۃ القاري، ’’کتاب الإیمان، باب الکبائر، باب علامات المنافق‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۱)
 وکرہ إمامۃ العبد والأعرابي والفاسق والمبتدع فالحاصل أنہ یکرہ إلخ) قال الرملي ذکر الحلبي في شرح منیۃ المصلي أن کراہۃ تقدیم الفاسق والمبتدع کراہۃ التحریم۔ (ابن نجیم، البحرائق، ’’کتاب الصلوۃ، باب إمامۃ العبد والأعرابي والفاسق‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۰)

 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص209

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: نماز میں سیدھا کھڑا ہونا واجب ہے، اگر دوسرے نمازی سے کندھا یا ٹخنہ ملانے کی سعی کریں گے، تو سیدھا کھڑا ہونا مشکل ہوگا؛ پس اس قدر مل کر کھڑا ہونا چاہئے کہ خلل درمیان میں نہ ہو۔(۲)
(۲) (قولہ ومنہا القیام) یشمل التام منہ وہو الانتصاب مع الاعتدال وغیر التام وہو الانحناء القلیل بحیث لا تنال یداہ رکبتیہ، وقولہ بحیث إلخ صادق بالصورتین أفادہ ط۔ ویکرہ القیام علی أحد القدمین فی الصلاۃ بلا عذر، وینبغی أن یکون بینہما مقدار أربع أصابع الید لأنہ أقرب إلی الخشوع، ہکذا روي عن أبي نصر الدبوسی إنہ کان یفعلہ کذا في الکبری۔ وما روی أنہم ألصقوا الکعاب بالکعاب أرید بہا الجماعۃ أی قام کل واحد بجانب الآخر کذا في فتاوی سمرقند، ولو قام علی أصابع رجلیہ أو عقبیہ بلا عذر یجوز، وقیل لا۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ: باب صفۃ الصلوۃ، بحث القیام‘‘: ج۲، ص:۱۳۱)
وقال ﷺ: استووا تستوی قلوبکم وتماسوا تراحموا، وقال ﷺ: أقیموا الصفوف وحاذوا بین المناکب وسدوا الخلل ولینوا بأیدي إخوانکم لا تذروا فرجات للشیطان من وصل صفا وصلہ اللہ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوی علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۳۰۶
)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 5 ص: 415

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:عیدین کی نماز میں تاخیر کرنے کے سلسلے میں تفصیل یہ ہے کہ: بارش یا کسی اور عذر کی وجہ سے عید الفطر کی نماز میں ایک دن تاخیر ہو جائے تو دوسرے دن ادا کر لینا جائز ہے اس کے بعد ادا نہیں کر سکتے جب کہ بقر عید کی نماز اگر دوسرے دن ادا نہ کر سکے تو تیسرے دن بھی ادا کر سکتے ہیں، جیسا کہ علامہ ابن عابدینؒ نے در مختار میں لکھا ہے:
’’(وتؤخر بعذر) کمطر (إلی الزوال من الغد فقط)‘‘(۱)
’’وتؤخر صلاۃ عید الفطر بعذر کأن غم الہلال وشہدوا بعد الزوال أو صلوہا في غیم فظہر أنہا کانت بعد الزوال فتؤخر إلی الغد فقط لأن الأصل فیہا أن لا تقضی کالجمعۃ إلا أنا ترکناہ بما روینا من أنہ علیہ السلام أخرہا إلی الغد بعذر … الخ‘‘(۲)
وفیہ أیضاً:
’’وتؤخر صلاۃ عید الأضحی بعذر لنفي الکراہۃ وبلا عـذر مع الکراہۃ لمخالفۃ المأثور إلی ثلاثۃ أیام‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاۃ: باب العیدین، مطلب: أمر الخلیفۃ لایبقی بعد موتہ، ج ۳، ص: ۵۹۔
(۲) أحمد بن محمد، حاشـیـۃ الطـحطاوي علی مراقي الفلاح: ’’کتاب الصــلاۃ: باب أحکام العیدین من الصلاۃ وغیرہا‘‘:  ص: ۵۳۶۔
(۱) أحمد بن محمد، حاشـیـۃ الطـحطاوي علی مراقي الفلاح: ’’کتاب الصــلاۃ: باب أحکام العیدین من الصلاۃ وغیرہا‘‘:  ص: ۵۳۸۔

 

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 59

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: (۱) شرعی عذر کی بنا پر اگر کوئی شخص کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھتا ہے تو اس کے لیے قیام کے وقت کھڑا ہونا بھی جائز ہے اور چوں کہ اشارہ سے رکوع، سجدہ کرنے والے شخض سے قیام کا فرض ساقط ہو جاتا ہے اس لیے ایسا شخص زمین پر بیٹھ کر یا مجبوری کی وجہ سے کرسی پر بیٹھ کر بھی نماز پڑھ سکتا ہے ۔
’’منہا القیام في فرض لقادر علیہ و علی السجود فلو قدر علیہ دون السجود ندب إیماؤہ قاعدا أي لقربہ من السجود و جاز إیماؤہ قائما کما في البحر‘‘(۱)
(۲) جو حضرات شرعی عذر کی بناء پر کرسی پر نماز پڑھیں تو کرسی رکھنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ کرسی اس طرح رکھی جائے کہ اس کے پچھلے پائے صف میں کھڑے مقتدیوں کی ایڑیوں کے برابر ہوں تاکہ بیٹھنے کی صورت میں ان معذورین کا کندھا دیگر نمازیوں کے کندھے کے برابر میں ہو؛ کیوں کہ حدیث میں صف بندی اور اقامت صفوف کی بڑی تاکید آئی ہے۔
’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أقیموا الصفوف وحاذوا  بین المناکب و الأعناق‘‘(۱)
(۳) کرسی پر نماز پڑھنے والا شخص صف کے کسی بھی حصہ میں نماز پڑھ سکتا ہے؛ البتہ بہتر ہے کہ وہ صف کے کنارے پرنماز پڑھے تاکہ درمیان میں کرسی رکھ کر نماز پڑھنے کی وجہ سے صف میں ٹیڑھا پن اور معمولی خلا سا جو پیدا ہوجاتا ہے وہ نہ ہو اور صف سیدھی معلوم ہو ۔
(۴) ایسے شخص کو صف کے کنارے نماز پڑھنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا ہے، ہاں صف کی درستگی کے لیے ان کو بہتر انداز میں سمجھا کر صف کے کنارے نماز پڑھنے کی ترغیب دی جا سکتی ہے۔

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، بحث القیام‘‘: ج ۲، ص: ۱۳۱، ۱۳۲۔
(۱) محمد بن المالکي، جمع الفوائد من جامع الأصول ومجمع الزوائد، ’’النوع الثاني في تسویۃ الصفوف‘‘: ج ۵، ص: ۶۰۹، رقم: ۳۸۶۶۔
قال حدثنا أنس رضي اللّٰہ عنہ أن نبي اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: راصوّا صفوفکم وقاربوا بینہا وحاذوا بالأعناق۔ (أخرجہ النسائي   في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: حث الإمام علی رصّ الصفوف والمقاربۃ بینہا‘‘: ج۱، ص: ۹۴، رقم: ۸۱۵)
إن کان ذلک الموضوع یصح السجود علیہ کان سجودا وإلا فإیماء۔ (ابن عابدین، رد المحتار، کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المریض‘‘: ج۲، ص: ۵۶۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص318