Eating & Drinking

Ref. No. 39/1093

In the name of Allah the most Gracious the most merciful

The answer to your question is as follows:

Ulama have different opinions in regard to the prawn eating. Imam Abu Hanifa is of the opinion that prawn does not come under the category of fish which is lawful. So you are suggested to avoid prawn eating.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1772/43-1507

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔

احناف کے نزدیک سجدہ  سہوکی کیفیت یہ ہے کہ قعدہ اخیرہ میں تشہد پڑھ کر ایک سلام پھیرے پھر دو سجدہ کرے اور اس کے بعد تشہد ، دورد اور دعائے ماثورہ پڑھے پھر دونوں طرف سلام پھير کر نماز سے نکل جائے جیسا کہ آپ نے پہلی صورت ذکر کی ہے۔

(ويسجد له بعد السلام سجدتين ثم يتشهد ويسلم) قال - عليه الصلاة والسلام -: «لكل سهو سجدتان بعد السلام» . وروى عمران بن حصين وجماعة من الصحابة: «أنه - صلى الله عليه وسلم - سجد سجدتي السهو بعد السلام» ، ثم قيل يسلم تسليمتين، وقيل تسليمة واحدة وهو الأحسن، ثم يكبر ويخر ساجدا ويسبح، ثم يرفع رأسه، ويفعل ذلك ثانيا، ثم يتشهد ويأتي بالدعاء ; لأن موضع الدعاء آخر الصلاة، وهذا آخرها.(الاختیار لتعلیل المختار،1/73)
وإذا عرف أن محله المسنون بعد السلام فإذا فرغ من التشهد الثاني يسلم ثم يكبر ويعود إلى سجود السهو، ثم يرفع رأسه مكبرا، ثم يتشهد ويصلي على النبي - صلى الله عليه وسلم - ويأتي بالدعوات، وهو اختيار الكرخي واختيار عامة مشايخنا بما وراء النهر (بدائع الصنائع:١٧٣/١
)

امام طحاوی کی رائے ہے کہ دونوں قعدہ میں درود اور دعائے ماثورہ پڑھے ، علامہ ابن الہمام نے اسی کو احوط قرار دیا ہے اور ایک رائے یہ بھی ہے کہ حضرات شیخین کے نزدیک سجدہ سہو کے ہی قعدہ میں درود اور دعائے ماثورہ پڑھ لے اور امام محمد کے مطابق قعدہ اخیرہ کے تشہد میں درود اور دعائے ماثورہ پڑھے ۔اس سے معلوم ہوتاہے کہ دونوں صورتوں کی گنجائش ہے ۔ حضرات فقہائے احناف نے سہو کے قعدہ میں درود اور دعائے ماثورہ اس لیے بھی پڑھنے سے منع کیا ہے تاکہ لوگوں کو معلوم ہوسکے کہ یہ قعدہ اخیرہ نہیں؛ بلکہ سہو کا قعدہ ہے اور مسبوق اس میں سلام پھیرنے سے رک سکے اس لیے جماعت کی نماز میں تو امام کو سہو کے قعدہ میں درود اور دعائے ماثورہ نہیں پڑھنا چاہیے ۔ہاں انفرادی نماز میں اگر سہو کے قعدہ میں تشہد کے ساتھ درود  اور دعائے ماثورہ پڑھ لے اور قعدہ اخیرہ میں صرف تشہد پڑھ کر سلام پھیر دے تو اس کی گنجائش ہے۔ نماز کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہوگی اس صورت میں دونوں طرف سلام پھیر کر بھی سجدہ سہو کیا جاسکتاہے اس لیے کہ احناف کے یہاں دونوں سلام کا بھی قول ہے اور روایت سے بھي دونوں سلام ثابت ہے۔

ويأتي بالصلاة على النبي - عليه الصلاة والسلام -، والدعاء في قعدة السهو هو الصحيح لأن الدعاء موضعه آخر الصلاة.-(قوله هو الصحيح) احتراز عما قال الطحاوي في القعدتين لأن كلا منهما آخر.وقيل قبل السجود عندهما وعند محمد بعده(فتح القدیر1/501)
وإذا عرف أن محله المسنون بعد السلام فإذا فرغ من التشهد الثاني يسلم ثم يكبر ويعود إلى سجود السهو، ثم يرفع رأسه مكبرا، ثم يتشهد ويصلي على النبي - صلى الله عليه وسلم - ويأتي بالدعوات، وهو اختيار الكرخي واختيار عامة مشايخنا بما وراء النهر، وذكر الطحاوي أنه يأتي بالدعاء قبل السلام وبعده وهو اختيار بعض مشايخنا، والأول أصح؛ لأن الدعاء إنما شرع بعد الفراغ من الأفعال والأذكار الموضوعة في الصلاة(بدائع الصنائع،1/173)

جہاں تک تیسری صورت کا تعلق ہے کہ سہو کے قعدہ میں ہی تشہد اور دورد اور دعائے ماثورہ پڑھ کرسلام پھیرے پھر دو سجدہ کرے اور بلا سلام کے نماز سے نکل جائے تو یہ صورت درست نہیں ہے اس سے سجدہ سہو ادا نہ ہو گا او رسجدہ سہو ادا نہ ہونے کی وجہ سے نماز واجب الاعادہ ہوگی ۔اس لیے کہ سجدہ سہو کے لیے تشہد اور سلام ضروری ہے۔

عن عبد اللہ ابن مسعود رضي اللہ عنہ: “إذا قام أحدکم في قعود، أو قعد في قیام، أو سلم في الرکعتین، فلیتم ثم لیسلم ثم یجسد سجدتین یتشہد فیہما ویسلم“ أخرجہ سحنون في المدونة الکبری لہ (۱/۱۲۸)(يجب(سجدتان. و) يجب أيضا (تشهد وسلام) لأن سجود السهو يرفع التشهد(رد المحتار،2/79)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Zakat / Charity / Aid

Ref. No. 1879/43-1735

  In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Zakat is not obligatory on the gold held by the bank as a security. And after withdrawing jewelry from the bank, Zakat of previous years too will not be obligatory.

"ومنها الملك التام وهو ما اجتمع فيه الملك واليد وأما إذا وجد الملك دون اليد كالصداق قبل القبض أو وجد اليد دون الملك كملك المكاتب والمديون لاتجب فيه الزكاة، كذا في السراج الوهاج ... ولا على الراهن إذا كان الرهن في يد المرتهن، هكذا في البحر الرائق". الفتاوى الهندية (1/ 172):

"ولا في مرهون بعد قبضه.. .  (قوله: ولا في مرهون) أي لا على المرتهن؛ لعدم ملك الرقبة، ولا على الراهن؛ لعدم اليد، وإذا استرده الراهن لايزكي عن السنين الماضية، وهو معنى قول الشارح بعد قبضه، ويدل عليه قول البحر: ومن موانع الوجوب الرهن ح، وظاهره ولو كان الرهن أزيد من الدين ) الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 263(

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

مساجد و مدارس

Ref. No. 1981/44-1924

بسم اللہ الرحمن الرحیم:  مدرسہ نے سالانہ جو فیس آپ سے لی ہے اس میں خوراکی فیس بھی ہے ، اب بچہ کو جومدرسہ سے کھانا ملے گا وہ اس کی اپنی جمع فیس سے ہی سمجھاجائے گا،  اس بارے میں کوئی  شبہہ  کی بات نہیں ہے۔ مدرسہ کی عمارت میں رہنا وغیرہ تمام چیزیں اس کے  لئے جائز ہیں ۔  اگر بچہ نابالغ ہے اور باپ مالدار ہے تو بچہ پر  زکوۃ کی رقم صرف نہیں کی جاسکتی ہے۔ لیکن  اگر بچہ بالغ  ہے اور صاحب نصاب نہیں ہے تو اس کے لئے زکوۃ کی رقم لینا، مدرسہ کا کھانا کھانا وغیرہ بلاتردد جائز ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 2353/44-3558

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دادی کے حقیقی بھائی بہن محارم ہیں ان سے پردہ نہیں، دادی کی بہن کی لڑکی آپ کے لیے غیر محرم ہے ان سے پردہ ہے، اگر کوئی شخص کسی عورت سے وطی کرے یا شہوت کے ساتھ بوس وکنار کرے تو اس سے حرمت مصاہرت ثابت ہو جاتی ہے حرمت مصاہرت کی وجہ سے چار رشتے حرام ہوتے ہیں (۱) بیوی کے اصول، (۲) بیوی کے فروع، (۳) اصول کی بیوی، (۴) فروع کی بیوی۔

’’أراد بحرمۃ المصاہرۃ الحرمات الأربع حرمۃ لمرأۃ علی أصول الزاني وفروعہ نسباً ورضاعاً حرمۃ أصولہا وفروعہا علی الزاني نسباً ورضاعاً کما في الوطئ الحلال‘‘ (رد المحتار: ج ۴، ص: ۳۲)

حرمت مصاہرت کے سلسلے میں مفتی سعید احمد پالنپوریؒ کی حرمت مصاہرت، اور مولانا حبیب الرحمن اعظمیؒ کی کتاب حرمت مصاہرت کا مطالعہ کریں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:پیشاب سے غسل واجب نہیں ہوتا، صرف وضو ٹوٹ جاتا ہے۔(۲)

(۲) و ینقضہ خروج کل خارج نجس منہ أي من المتوضي الحي معتاداً أو لا، من السبیلین أولا إلی ما یطہر الخ۔ (ابن عابدین، الدرالمختار مع الرد، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب نواقض الوضوء، ج۱، ص:۲۶۰، ۲۶۱)؛ و قال أصحابنا الثلاثۃ : ھو خروج النجس من الآدمي الحي، سواء کان من السبیلین:…بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر…
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص218

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق:  (۱) سوال میں مذکورہ افعال اگر امام خود نہیں کرتا؛ بلکہ وہ نوکر کرتا ہے جس کو اس کام کے لیے رکھا ہے اور امام کو اس کی اطلاع بھی ہوئی تو ایسی صورت میں اس غیر شرعی شکل میںامام کی شرکت بلا واسطہ نہیں ہوئی لہٰذا ان کی امامت میں نماز صحیح ہے۔(۱)
(۲) مذکورہ امام کے پیچھے نماز صحیح ہوجاتی ہے۔(۲)
(۳) مسجد سے متصل کمرے میں مذکورہ جملہ امور جائز اور صحیح ہیں؛ کیوں کہ یہ امور مساجد کی تعمیر کے مقاصد میں سے ہیں اور مقصد میں تعلیم وتعلم بھی ہے۔(۳)
(۴) اگر بغیر پگڑی کے نہیں مان رہا تھا تو پگڑی دے کر مکان لینے کی امام کے لیے گنجائش تھی اس لیے اس کی امامت بلا کراہت درست ہے۔(۱)

(۱) وشروط صحۃ الإمامۃ للرجال الأصحاء ستۃ أشیاء الإسلام والبلوغ والعقل والذکورۃ والقراء ۃ والسلامۃ من الأعذار۔ (الشرنبلالي، نور الإیضاح، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ص: ۷۷، مکتبہ عکاظ دیوبند)
لقولہ علیہ السلام: صلوا خلف کل بروفاجر۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ، فصل في بیان الاحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳، شیخ الہند)
أما الصحۃ فمبنیۃ علی وجود الأہلیۃ للصلوۃ مع أداء الأرکان وعموہما موجود ان من غیر نقص في الشرائط والأرکان۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۶۱۰، زکریا)
(۲) أیضاً:
(۳) قال المصنف في البحر لعلامۃ: لأن المسجد ملکا لأحد وعزاہ إلی النہایۃ ثم قال: ومن ہنا یعلم جہل بعض مدرسي زماننا من منعہم من یدرس في مسجد تقرر في تدریسہ أوکراہتہم…لذلک زاعمین الاختصاص بہ دون غیرہم وہذا جہل عظیم۔۔۔ لأن المسجد مابني إلا لہا من صلوۃ أو اعتکاف وذکر شرعي وتعلیم علم أو تعلمہ وقرأۃ قرآن، (ابن نجیم، الاشباہ والنظائر، ’’الفن الثالث من الأشباہ، القول في احکام المسجد‘‘: ج۴، ص: ۶۳)
(۱) وشروط صحۃ الإمامۃ للرجال الأصحاء ستۃ أشیاء الإسلام والبلوغ والعقل والذکورۃ والقراء ۃ والسلامۃ من الأعذار۔ (الشرنبلالي، نور الإیضاح، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ص: ۷۷، مکتبہ عکاظ دیوبند)
لقولہ علیہ السلام: صلوا خلف کل بروفاجر۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ، فصل في بیان الاحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳، شیخ الہند)
أما الصحۃ فمبنیۃ علی وجود الأہلیۃ للصلوۃ مع أداء الأرکان وعموہما موجود إن من غیر نقص في الشرائط والأرکان۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۶۱۰، زکریا)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص79

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق:  جو لوگ مذکورہ فی السوال قبائح و ناجائز امور کے مرتکب ہوں ان کی امامت مکروہ تحریمی ہے۔(۲)

(۲) ویکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق، وأما الفاسق عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لا یہتم لأمر دینہ وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ وقد وجب علیہم إہانتہ شرعاً۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص203

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: دوبارہ سوال نامہ بھی کسی ایک فریق کا معلوم ہوتا ہے، اگر یہ واقعہ صحیح ہے، تو دونوں فریق کے بیانات درج ہونے چاہئیں۔
دوسری بات: حکم اور فیصل طے کرنے سے پہلے آپسی رضامندی سے کسی کو حکم بنانا چاہیے تھا، پھر حکم کی بات کوقبول کرنی چاہئے، اگر ایسا نہیں ہوگا، تو کبھی بھی مسئلے کا حل نہیں نکل سکے گا، تیسری بات یہ کہ اب بھی واقعہ کی صداقت کی کوئی عملی دلیل نہیں ہے؛ اس لیے نفس واقعہ پر ہم کوئی رائے نہیں ظاہر کر سکتے ہیں، تاہم جو سوالات کیے گئے ہیں ان کے جوابات ذکر کیے جاتے ہیں۔
(۱) توبہ کی حقیقت اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا اپنے گناہوں سے معافی طلب کرنا اور اطاعت پر جمنا ہے۔ توبہ کی حقیقت میں چار چیزیں داخل ہیں: (۱) گناہ پر دل میں ندامت ہو (۲) فوری طور پر گناہ کو ترک کرے (۳) اور پختہ ارادہ کرے کہ دو بارہ یہ گناہ نہیں کرے گا، چناںچہ علامہ قرطبیؒ فرماتے ہیں ’’ہي الندم بالقلب وترک المعصیۃ في الحال والعزم علی أن لا یعود إلی مثلہا وأن یکون ذلک حیاء من اللّٰہ‘‘(۱) (۴) اگر اس گناہ کا تعلق حقوق العباد سے یا حقوق اللہ سے اس کی تلافی کرنا۔ مثلاً اگر نماز چھوڑی ہیں، تو توبہ کے ساتھ ان نمازوں کی قضاء کرے تب توبہ کی تکمیل ہوگی۔(۲) اگر روزہ چھوڑا ہے، تو توبہ کے بعد روزے کی قضاء کرے تب توبہ کی تکمیل ہوگی۔ اسی طرح اگر اس گناہ کا تعلق حقوق العباد سے ہو، تو اس کی تلافی ہر حال میں کرے، مثلاً کسی کا مال لیا ہے، تو وہ مال واپس کرے، کسی کی غیبت کی ہے، تو محض توبہ سے غیبت کے گناہ معاف نہیں ہوں گے؛ بلکہ جس کی غیبت کی ہے اس سے معافی بھی مانگے، غرض کہ حقوق کی مکمل تلافی کرے اور جس کا جو حق ہے اس کو ادا کرے۔
(۲) جو امام خائن یا فاسق ہو، تو اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے،(۳) لیکن اگر اس نے نماز پڑھائی، تو نماز ہو گئی ان نمازوں کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔ امام کے لیے امامت کرنا مکروہ ہے لیکن نماز ادا ہوجاتی ہے۔ نماز نیک اور فاسق ہر ایک کے پیچھے درست ہو جاتی ہے حدیث ’’صلو کل بر وفاجر‘‘(۴)
(۴) زکوٰۃ کے سلسلے میں جواب دے دیا گیا تھا اگر وصول کرنے والے نے زکوٰۃ کو اس کے مصرف میں استعمال نہیں کیا، تو زکوٰۃ ادا نہیں ہوئی اور وصول کرنے والا اس کا ذمہ دار ہوگا۔(۵)
(۵) فتوی حکم شرعی کا نام ہے یعنی مفتی سوال کرنے والے کو اللہ تعالیٰ کا حکم بتاتا ہے اس پر عمل کرنا اس کی دینی ذمہ داری ہوتی ہے۔

(۱) تفسیر قرطبي: ج ۵، ص: ۹۱۔

(۲) عن أنس بن مالک -رضی اللّٰہ عنہ- أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من نسي صلاۃ فلیصلہا إذا ذکرہا لا کفارۃ لہا إلا ذلک، قال قتادۃٰ: وأقم الصلاۃ لذکري۔ (أخرجہ مسلم في صحیحہ، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب قضاء الصلاۃ الفائتۃ‘‘: ج ۱، ص:۵۸، رقم: ۶۸۴)

ما یقضی بین الناس یوم القیامۃ في الدماء وظواہر الحدیث دالۃ علی أن الذي یقع أولاً المحاسبۃ علی حقوق اللّٰہ تعالیٰ قبل حقوق العباد۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: ‘‘: ج ۲، ص: ۷)
(۳) ویکرہ تقدیم الفاسق أیضاً لتساہلہ في الأمور الدینیۃ فلا یؤمن من تقصیرہ في الإتیان بالشرائط۔ (إبراہیم الحلبي، حلبي کبیر، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ‘‘: ص: ۳۱۷، دار الکتاب)
(۴) ملا علي قاري، عمدۃ القاري شرح البخاري: ج ۱۱، ص: ۴۸۔
(۵) {اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْعٰمِلِیْنَ عَلَیْھَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُھُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِیْنَ وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَابْنِ السَّبِیْلِط فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہِط وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیمٌہ۶۰} (سورۃ التوبہ: ۶۰)

توخذ من أغنیائہم فترد علی فقرائہم۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الزکاۃ، باب من لا تحل لہ الصدقۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۴، ص: ۲۲۴، رقم: ۱۷۷۲)
 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص292-293-294

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جس شخص کے کھانسنے سے نماز میں یا نماز کے کسی رکن میں خلل ہوتا ہے، تو ایسے شخص کو چاہیے کہ صف کے کنارہ پر آخر میں کھڑا ہو جائے، تاکہ دوسروں کو پریشانی نہ ہو اور دوسروں کی نماز میں خلل واقع نہ ہو اور لوگ اپنی نماز خشوع وخضوع کے ساتھ ادا کر سکیں۔(۳) اگرمرض زیادہ ہو تو گھر میں نماز پڑھنا بہتر ہے۔ البتہ جماعت سے نماز پڑھنا اس کے لیے بھی ضروری ہے(۱) احتیاط یہ ہے کہ مذکورہ صورت اختیار کر لے۔
(۱) والصلاۃ بالجماعۃ سنۃ في الأصح مؤکدۃ شبیہۃ بالواجب في القوۃ للرجال للمواظبۃ ولقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: صلاۃ الجماعۃ أفضل من صلاۃ أحدکم وحدہ بخمسۃ وعشرین جزء اً۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ص: ۲۹۶)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 5 ص: 410