Frequently Asked Questions
بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسی کوئی روایت ہماری نظر سے نہیں گزری، ہوسکتا ہے کسی بزرگ کا قول ہو اور انھوں نے کسی خاص پس منظر میں کہا ہو؛ البتہ کار ثواب ہے، دین کی فکر میں لگے رہنا محبوب عمل ہے ’’إن شاء اللّٰہ‘‘ اس پر ثواب مرتب ہوگا۔(۱)
(۱) ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ’’لیس بحدیث إنما ہو کلام السری السقطی‘‘۔ (المصنوع في أحادیث الموضوع: ص: ۸۲)
رواہ أبو الشیخ عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ مرفوعاً، وفي إسنادہ عثمان بن عبد اللّٰہ القرشي وإسحاق بن نجیع المطلي کذّابان والمتہم بہ أحدہما، وقد رواہ الدیلمي من حدیث أنس رضي اللّٰہ عنہ من وجہ آخر: (الفوائد المجموعۃ: ص: ۲۴۲، عمدۃ الأقاویل في تحقیق الأباطیل: ص: ۲۴۷؍ ۲۷۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص310
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:بغیر حکمت جانے حکم کو تسلیم کرنے کا نام اطاعت ہے احکامِ شریعت کی حکمت تلاش کرنا شان عبدیت کے خلاف ہے، بس یہ سمجھنا چاہئے کہ جب حکم کرنے والا حکیم ہے، تو اس کے حکم میں ضرور کوئی حکمت ہوگی اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا، بندہ کا کام حکم بجا لانا ہے، نہ کہ وجہیں تلاش کرنا، ہاں ایسی حکمتیں تلاش کرنا جو حکم خداوندی کی عظمت میں اضافہ کرتی ہوں ممنوع نہیں ہے؛ اس لیے بعض علماء نے احکام خداوندی کی کچھ حکمتیں بیان کی ہیں، کہ ریح خارج ہونے سے ملائکہ سے دوری ہو جاتی ہے اور طبیعت میں سستی آ جاتی ہے، وضو کرنے سے طبیعت میں فرحت ونشاط پیدا ہو جاتا ہے اور فرشتوں کا قرب نصیب ہو جاتا ہے، شیاطین سے دوری ہو جاتی ہے، وضو اللہ تعالیٰ کی عبادت کی عظمت اور اس کی توقیر کا اظہار بھی ہے، اس جگہ کا دھونا جہاں سے ریح خارج ہوئی ہے؛ اس لئے ضروری نہیں کہا گیا کیونکہ وہاں سے کوئی نجاست کا خروج تو ہوا نہیں کہ اسے دھویا جائے۔
’’وقیل إن العبد إذا شرع في الخدمۃ یجب أن یجدد نظافتہ وأیسرہا تنقیۃ الأعضاء التي تنکشف کثیراً لتحصل بہا نظافۃ القلب إذ تنظیف الظاہر یوجب تنظیف الباطن‘‘(۱)
’’فلا یسن من ریح لأن عینہاطاہرۃ وإنما نقضت لانبعاثہا عن موضع النجاسۃ‘‘(۲)
(۱) بدر الدین العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۲۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في الاستنجاء‘‘: ج ۱، ص: ۵۴۵۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص107
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:سلفہ پی کر نشہ ہونے سے غسل واجب نہیں ہوتا؛ لیکن اگر نشہ اتنا ہو کہ نیند کی طرح غفلت ہو جائے، تو وضو ٹوٹ جاتا ہے۔(۱)
(۱) و منھا: الإغماء والجنون، والغشي والسکر … و حد السکر في ھذا الباب: أن لا یعرف الرجل من المرأۃ عند بعض المشائخ، وھو اختیار الصدر الشھید۔ والصحیح، ما نقل عن شمس الأئمۃ الحلواني: أنہ إذا دخل في بعض مشیتہ تحرک، کذا في الذخیرۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل الخامس: في نواقض الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۶۳)؛ و ینقضہ إغماء و منہ الغشي و جنون و سکر بأن یدخل في مشیہ تمایل۔(الدر المختار مع الرد، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب: نوم الأنبیاء غیر ناقض‘‘ ج۱، ص:۲۷۴)؛ وفي الخلاصۃ : السکر حدث إذا لم یعرف بہ الرجل من المرأۃ۔ و في المجتبیٰ: إذا دخل في مشیتہ تمایل، وھو الأصح۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارات، في نواقض الوضوء‘‘ ج۱، ص:۵۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص220
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وبا للّٰہ التوفیق: بشرط صحت سوال ہندہ کے شوہر کا امام بننا درست ہے امامت میں کوئی کراہت نہیں ہے ہندہ کو گھر میں رہنے کے لیے کہا جائے اور جس کام میں واقعۃ وہ معذور ہے اس پر زبردستی نہ کی جائے۔(۱)
(۱) قولہ بشرط اجتنابہ الخ، کذا في الدرایۃ المجتبی وعبارۃ الکافی وغیرہ الأعلم بالسنۃ أولی إلا أن یطعن علیہ في دینہ لأن الناس لا یرغبون في الاقتداء بہ۔ (الحصکفي، الدر المختار، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴، زکریا دیوبند)
{وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰیط وَاِنْ تَدْعُ مُثْقَلَۃٌ اِلٰی حِمْلِھَا لَایُحْمَلْ مِنْہُ شَیْئٌ وَّلَوْکَانَ ذَا قُرْبٰیط اِنَّمَا تُنْذِرُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَیْبِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَط وَمَنْ تَزَکّٰی فَاِنَّمَا یَتَزَکّٰی لِنَفْسِہٖط وَاِلَی اللّٰہِ الْمَصِیْرُہ۱۸} (الفاطر: ۱۸)
وقال البدر العیني: یجوز الاقتداء بالمخالف وکل بروفاجر عما لم یکن متبدعاً بدعۃ یکفر بہا ومالم یتحقق من إمامہ مفسداً لصلاتہ في اعتقادہ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۴، شیخ الہند دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص81
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئول عنہا میں زید بلا شبہ فاسق ہے اور علامت نفاق میں سے ایک امانت میں خیانت بھی ہے۔ حدیث شریف میں ’’إذا أوتمن خان‘‘ اور فاسق کی امامت مکروہ تحریمی ہے۔ در مختار میں ہے۔
’’وتکرہ إمامۃ عبد وفاسق، وقال في رد المحتار: مشی في شرح المنیۃ علی أن کراہۃ تقدیمہ کراہۃ تحریم‘‘(۱)
نیز شامی نے لکھا ہے کہ ایسا شخص قابل اہانت ہے اور امامت عہدۂ عظمت ہے وہ ایسے شخص کو نہ دیا جائے جو کہ واجب الاہانۃ ہو۔(۲)
لہٰذا ایسے شخص کو امامت ومدرسی سے الگ کر دیا جائے اور جو رقوم اس پر واجب الادا ہوں وہ وصول کی جائیں۔(۳)
(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸۔
(۲) وأما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لا یہتم لأمر دینہ وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ وقد وجب علیہم إہانتہ شرعاً۔ (أیضًا: ص: ۲۹۹، زکریا دیوبند)
(۳) لو صلی خلف فاسق أو مبتدع ینال فضل الجماعۃ؛ لکن لا ینال کما ینال خلف تقي ورع لقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من صلی خلف عالم تقي فکأنما صلی علی خلف نبي۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۰، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص205
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: مسلمان کا فرض ہے کہ کسی حال میں بھی دین کے احکامات سے روگردانی نہ کرے؛ اس لیے صورت مسئولہ میں تیجہ وغیرہ غیر شرعی رسومات میں امام کی شرکت جائز نہیں۔(۲)
(۲) عن عائشۃ -رضی اللّٰہ عنہا- قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا مالیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم في صحیحہ، ’’باب نقض الأحکام الباطلۃ ورد محدثات الأمور، کتاب الأقضیۃ‘‘: ج۲، ص: ۷۴، رقم: ۱۷۱۸)
یکرہ اتخاذ الضیافۃ من الطعام من أہل المیت لأنہ شرع في السرور لا في الشرور وہي بدعۃ مستقبحۃ، (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کراہۃ الضیافۃ من أہل البیت‘‘:ج۳، ص: ۱۴۸)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص296
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز میں صفوں کو درست کرنے کی بڑی تاکید آئی ہے اور صفوں کی درستگی میں مل مل کر کھڑا ہوناہے(۱) اور نماز کا متوارث طریقہ یہی ہے کہ لوگ مل مل کر کھڑے ہوں اس لیے اگر اتنا فاصلہ ہو کہ لوگوں کا ایک نماز میں ہونا معلوم نہ ہو تا ہو تونماز کے متوارث طریقہ کے خلاف ہونے کی وجہ سے یہ بالکل درست نہیں ۔(۲) ہاں اگر معمولی فاصلہ ہو جس میں بظاہر لوگوں کا ایک ہی نماز میں ہونا معلوم ہو تو موجودہ حالات میں اس کی گنجائش ہے۔ اسی طرح اگر کچھ لوگ تو صف میں متصل کھڑے ہوں؛ لیکن ایک دو آدمی مسجد میں ہی ایک میٹر کے فاصلے سے کھڑے ہوں تو اگر چہ ایسا کرنا بھی درست نہیں ہے تاہم اس کی نماز ہوجائے گی۔(۱)
(۱) وینبغي للقوم إذا قاموا إلی الصلاۃ أن یتراصوا ویسدوا الخلل ویسووا بین مناکبہم في الصفوف، ولا بأس أن یأمرہم الإمام بذلک، وینبغي أن یکملوا ما یلی الإمام من الصفوف، ثم ما یلی ما یلیہ، وہلمّ جرًّا، وإذا استوی جانبا الإمام فإنہ یقوم الجائی عن یمینہ، وإن ترجح الیمین فإنہ یقوم عن یسارہ، وإن وجد في الصف فرجۃ سدّہا، وإلا فینتظر حتی یجيء آخر کما قدمناہ، وفي فتح القدیر: وروي أبو داود والإمام أحمد عن ابن عمر أنہ قال: أقیموا الصفوف وحاذوا بین المناکب وسدوا الخلل ولینوا بأیدیکم (بأیدی) إخوانکم لاتذروا فرجات للشیطان، من وصل صفًّا وصلہ اللہ، ومن قطع صفًّا قطعہ اللّٰہ۔ وروي البزار بإسناد حسن عنہ من سدّ فرجۃً في الصفّ غفر لہ۔ وفي أبي داود عنہ: قال: خیارکم ألینکم مناکب في الصلاۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ’’وقوف المامومین في الصلاۃ خلف الإمام‘‘: ج۱، ص: ۳۷۵؛ الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في الکلام علی الصف الأول‘‘: ج۱، ص: ۵۶۸؛ وأحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۳۰۶)
(۲) (ویمنع من الاقتداء) صف من النساء بلا حائل قدر ذراع أو ارتفاعہن قدر قامۃ الرجل، مفتاح السعادۃ أو (طریق تجري فیہ عجلۃ) آلۃ یجرہا الثور أو نہر تجري فیہ السفن ولو زورقا ولو في المسجد ولو خلاء أي فضاء في الصحراء أو في مسجد کبیر جداً کمسجد القدس (یسع صفین) فأکثر إلا إذا اتصلت الصفوف فیصح مطلقاً۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ: مطلب إذا کانت الثغۃ یسیرۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۳۰)
عن أبي بکرۃ رضي اللّٰہ عنہ إنہ انتہي أي النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وہو راکع فرکع قبل أن یصل أي الصف فذکر ذلک النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فقال: زادک اللّٰہ حرصاً ولا تعد۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب إذا رکع دون الصف‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۱، رقم: ۷۵۰)
(۱) ذکر ما یستفاد منہ: فیہ: الأمر بتسویۃ الصفوف، وہي من سنۃ الصلاۃ عند أبي حنیفۃ والشافعي ومالک، وزعم ابن حزم أنہ فرض، لأن إقامۃ الصلاۃ فرض، وما کان من الفرض فہو فرض۔ قال صلی اللّٰہ علیہ وسلم: (فإن تسویۃ الصف من تمام الصلاۃ)۔ فإن قلت: الأصل في الأمر الوجوب ولا سیما فیہ الوعید علی ترک تسویۃ الصفوف، فدل علی أنہا واجبۃ۔ قلت: ہذا الوعید من باب التغلیظ والتشدید تأکیدا وتحریضا علی فعلہا، کذا قالہ الکرماني، ولیس بسدید۔ لأن الأمر المقرون بالوعید یدل علی الوجوب، بل الصواب أن یقول: فلتکن التسویۃ واجبۃ بمقتضی الأمر، ولکنہا لیست من واجبات الصلاۃ بحیث أنہ إذا ترکہا فسدت صلاتہ أو نقصتہا۔ غایۃ ما في الباب إذا ترکہا یأثم۔ (العیني، عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري: ج۵، ص: ۲۵۴)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 5 ص: 411
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:غروب آفتاب سے لے کر تقریباًایک سوا گھنٹے تک مغرب کی نماز کا وقت رہتا ہے، مگر احتیاطاً مغرب کی نماز جلدیپڑھنی چاہیے، اور ڈیڑھ گھنٹے کے بعد وقت عشاء شروع ہو جاتا ہے۔(۱)
(۱) ووقت المغرب منہ إلی غروب الشفق وہو الحمرۃ عند ہما وبہ قالت: الثلاثۃ وإلیہ رجع الإمام کما في شروح المجمع وغیرہا۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع در المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب في الصلاۃ الوسطی، ج ۲، ص: ۱۷)
وقال تلمیذہ العلامۃ قاسم في تصحیح القدوري: إن رجوعہ لم یثبت۔ أیضًا۔
ووقت المغرب منہ إلی غیبوبۃ الشفق وہو الحمرۃ عندہما وبہ یفتی۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوٰۃ: الباب الأول: في المواقیت: الفصل الأول: في أوقات الصلاۃ، ج ۱، ص: ۱۰۷)
وأول وقت المغرب منہ أي غروب الشمس إلی قبیل غروب الشفق (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح،’’کتاب الصلاۃ‘‘: ص: ۱۷۷، مکتبہ شیخ الہند، دیوبند)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 56
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: درست بات یہی ہے کہ آندھی، طوفان، زلزلہ یا دیگر آفات آسمانی پر اذان دینا سنت سے ثابت نہیں ہے؛ لہٰذا اگر لوگ یہ عمل سنت یا حکم شرعی سمجھ کر کرتے ہیں تو غلط ہوگا؛ لیکن اگر لوگ محض غموں کو دور کرنے کا آلہ یا ہتھیار سمجھتے ہیں؛ اس لیے اذان دیتے ہیں تاکہ لوگوں کو جمع خاطر نصیب ہو تو یہ عمل درست ہے۔ علامہ شامی نے مواقع اذان میں کتب شافعیہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ مغموم وغمزدہ شخص کی دل جوئی کے لیے اذان دی جائے؛ کیوں کہ اذان غموں کو کافور کردیتی ہے۔(۲) ’’قالوا یسن للمہموم أن یأمر غیرہ أن یؤذن فيأذنہ فإنہ یزیل الہم‘‘(۱)
(۲) قولہ: وخرج بالفرائض الخ) قال الرملي: أي الصلوات الخمس، فلا یسن للمنذورۃ۔ ورأیت في کتب الشافعیۃ: أنہ قد یسن الأذان لغیر الصلاۃ، کما في أذان المولود، والمہموم والمفزوع، والغضبان ومن ساء خلقہ من إنسان أو بہیمۃ، وعند مزدحم الجیش، وعند الحریق۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، ’’مطلب في المواضع التي یندب لہا الأذان في غیر الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۰)
وخرج بہا الأذان الذي یسن لغیر الصلاۃ کالأذان في أذن المولود الیمنٰی،…والإقامۃ في الیسریٰ، ویسن أیضاً عن الہم وسوء الخلق لخبر الدیلمي، عن علي، رآني النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم حزیناً فقال: (یا ابن أبي طالب إني أراک حزیناً فمر بعض أہلک یؤذن في أذنک، فإنہ درء الہم) قال: فجربتہ فوجدتہ کذلک۔ وقال: کل من رواتہ إلی علي أنہ جربہ، فوجدہ کذلک۔ وروي الدیلمي عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: (من ساء خلقہ من إنسان أو دابۃ فأذنوا في أذنہ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۰)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: مطلب في المواضع التي یندب لہا الأذان في غیر الصلاۃ، ج ۲، ص: ۵۰۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص186
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: تکبیر تحریمہ (اللہ اکبر) کہنا نماز کے شروع کرنے کے لیے ہر ایک نمازی (امام، مقتدی، مدرک، مسبوق) پر الگ الگ فرض ہے جس کے چھوڑ دینے سے ترک فرض لازم آئے گا اور نماز نہیں ہوگی پس مذکورہ دونوں مسئلوں میں جس طرح امام پر تکبیر تحریمہ فرض ہے اسی طرح مدرک و مسبوق پر بھی فرض ہے اس کے چھوڑ دینے کی صورت میں نماز نہیں ہوگی۔(۱)
(۱) فرائض الصلاۃ ستۃ: التحریمۃ والقیام والقراء ۃ والرکوع والسجود والقعدۃ في أخر الصلاۃ مقدار التشہد۔ (المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۹۸)
مفتاح الصلاۃ الطہور، وتحریمہا التکبیر، وتحلیلہا التسلیم۔(أخرجہ الترمذي في صحیحہ، ’’أبواب الصلاۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب ما جاء في تحریم الصلاۃ وتحلیلہا‘‘: ج ۱، ص: ۵۵، رقم: ۲۳۸)
وإن أدرک الإمام في الرکوع أو السجود، یتحری إن کان أکبر رأیہ أنہ لم أتی بہ أدرکہ في شيئٍ من الرکوع أو السجود یأتي بہ قائماً وإلا یتابع الإمام ولا یأتي بہ، وإذا لم یدرک الإمام في الرکوع أوالسجود لا یأتي بہما، وإن أدرک الإمام في القعدۃ لا یأتي بالثناء بل یکبر للافتتاح ثم للانحطاط ثم یقعد۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل السابع في المسبوق واللاحق‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۹)
ویشترط کونہ (قائما) فلو وجد الإمام راکعاً فکبر منحنیاً إن کان إلی القیام أقرب صح۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص315