اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:انسانوں اور جنوں کی طرح فرشتے بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی مخلوق ہیں، تمام فرشتوں کی لمبائی چوڑائی قد وقامت کے بارے میں تو تفصیلات قرآن وحدیث میں نہیں بتائی گئی ہیں؛ البتہ بعض فرشتوں سے متعلق احادیث میں قد وقامت کی طرف اشارہ ملتا ہے: امام ابودؤد نے لکھا ہے کہ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے اجازت ملی ہے کہ میں عرش کے اٹھانے والے فرشتوں میں سے ایک فرشتے کا حال بیان کروں جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اس کے کان کی لو سے اس کے مونڈھے تک کا فاصلہ سات سو برس کی مسافت ہے: ’’عن جابر بن عبد اللّٰہ -رضي اللّٰہ عنہ- عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: أذن لي أن أحدث عن ملک من ملائکۃ اللّٰہ من حملۃ العرش أنما بین شحمۃ أذنہ إلی عاتقہ مسیرۃ سبع مائۃ عام‘‘(۱) امام بخاری حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں: اللہ تبارک وتعالیٰ کے ارشاد {فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ أَوْ أَدْنٰیہج ۹ } (سورۃ نجم:) کے متعلق عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا، تو انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام کو اپنی اصل ہیئت اور صورت میں دیکھا، تو ’’ست مائۃ جناح‘‘ ان کے چھ سو بازو تھے ’’قال حدثنا ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ: أنہ رأي جبریل لہ ست مأئۃ جناح‘‘ (۲) اسی طرح امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے نقل کیا ہے کہ عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرئیل علیہ السلام کو باریک ریشمی جوڑا پہنے ہوئے دیکھا آسمان وزمین کی ساری جگہیں ان کے وجود سے بھر گئی تھی۔ ’’قال: رأی رسول اللّٰہ علیہ وسلم جبریل في حلۃ من رفرف قد ملأ ما بین السماء والأرض۔ قال أبو عیسی: ہذا حدیث حسن صحیح‘‘ (۳) ’’وفي مسند الإمام أحمد عن عبد اللّٰہ بن مسعود رضي اللّٰہ عنہ، قال: (رأی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم جبریل في صورتہ ولہ ستمائۃ جناح، کل جناح منہا قد سد الأفق یسقط من جناحہ من التہاویل والدرر والیاقوت ما اللّٰہ بہ علیم‘‘(۴) مذکورہ حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو اصلی صورت میں دیکھا ان کے چھ سو پر تے، ہر ایک ایسا، جس نے آسمان کے کنارے پُر کردئے تھے، ان سے زمرد موتی اور مروارید جھڑ رہے تھے۔ خلاصہ یہ ہے کہ سوال مذکور کی پوری حقیقت کی اطلاع نصوص میں موجود نہیں ہے؛ اس لیےاس طرح کی بحث ومباحثہ اور غور فکر میں نہیں پڑنا چاہئے، جہاں تک قرآن وحدیث میں مذکور ہے اسی پر ایمان لانا چاہئے۔ (۱) أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب السنۃ، باب في الجہیمۃ‘‘: ج ۲، ص: ۶۵، رقم: ۴۷۲۷۔ (۲) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب بدء الخلق، باب إذا قال أحدکم آمین والملائکۃ في السماء‘‘: ج ۱، ص: ۴۵۸، رقم: ۴۸۵۶۔ (۳) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب التفسیر: باب ومن سورۃ والنجم‘‘: ج ۲، ص: ۱۶۴، رقم: ۳۲۸۳۔(۴) أخرجہ أحمد بن حنبل، في مسندہ، ’’باب مسند عبد اللّٰہ بن مسعود رضي اللّٰہ عنہ‘‘: ج ۶، ص: ۲۹۴، رقم: ۳۷۴۸۔ فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص257

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:عیدالفطر کے دن میٹھی چیز کھانا مستحب ہے۔ خواہ کوئی بھی چیز ہو چھوارے ہوں تو زیادہ بہتر ہے۔ لیکن اس کا درجہ صرف استحباب کا ہے جب کہ سوئیوں کا استحباب بھی نہیں ہے؛ اس لیے اگر ان کو بھی ثواب سمجھا جائے اور لازم سمجھا جائے، تو بدعت ہوگا؛ لیکن ہمارے علاقے میں اس کو بالکل لازم نہیں سمجھا جاتا، بلکہ امر مباح سمجھا جاتا ہے؛ اس لیے اس صورت میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ (۱)

(۱) عن أنس رضي اللّٰہ عنہ، قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا یغد ویوم الفطر حتی یأکل تمراتٍ۔ وقال مرجَّأ بن رجائٍ حدثني عبید اللّٰہ قال: حدثني أنس عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ویأکلہن وتراً۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، کتاب العیدین: باب الأکل یوم الفطر قبل الخروج‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۰، رقم: ۹۵۳)
ویستحب کون ذلک المطعوم حلواً۔ (ابن نجیم، بحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب العیدین‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۱)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص510

قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن کریم اللہ تبارک وتعالیٰ کا وہ کلام ہے، جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا، اس کی تلاوت وقت نزول سے ہی کی جاتی ہے، وہ اس درجہ تواتر کو پہونچا ہوا ہے کہ اس کی کسی آیت یا حرف کے بارے میں یہ شبہ نہیں کیا جاسکتا کہ یہ قرآن کا حصہ ہے یا نہیں، لاکھوں حفاظ اس کی تلاوت کرنے والے ہر زمانے میں موجود رہے ہیں۔ اور حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام ہے؛ اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی وحی الٰہی کے بغیر دین کی کوئی بات نہیں بتاتے تھے، لیکن حدیث کی تلاوت نہیں کی جاتی اور احادیث کچھ متواتر ہیں، کچھ مشہور، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پورا کلام ہم تک تواتر کے ساتھ نہیں پہونچا؛ اس لیے اس میں سند بیان کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے تو قرآن وحی متلو اور حدیث وحی غیر متلو کا نام اور مذہب اسلام کا اصل مدار یہ ہی دو چیزیں ہیں۔(۱)

(۱) مفتي محمد شفیع عثمانيؒ، معارف القرآن، ’’سورۃ النساء: ۱۱۳‘‘ ، ج ۲، ص: ۵۴۴۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص58

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو بھی اپنا خلیفہ نہیں بنایا تھا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اپنا خلیفہ منتخب فرمایا۔(۱)

(۱) وقد اتفق الصحابۃ رضي اللّٰہ عنہم علی بیعۃ الصدیق في ذلک الوقت حتی علي ابن أبي طالب والزبیر بن العوام رضي اللّٰہ عنہما۔ (أبو الفداء ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، ’’خلافۃ أبي بکر صدیق‘‘: ج ۶، ص: ۳۶۹)  حدثني عبید اللّٰہ بن عمر القواریدي حدثنا عبد الأعلی بن عبد الأعلی حدثنا أبو داود بن أبي ہند عن أبي نصرۃ قال: لما اجتمع الناس علی أبي بکر رضي اللّٰہ عنہ، فقال: مالي لا أری علیاً، فقال فذہب رجل من الأنصار فجاء وابہ، فقال لہ یا علي قلت: ابن عم رسول اللّٰہ وفتن رسول اللّٰہ، فقال علي رضي اللّٰہ عنہ: لا تثریب یا خلیفۃ رسول اللّٰہ أبسط یدک فبسط یدہ فبایعہ، قال أبو بکر رضي اللّٰہ عنہ: مالي لا أری الزبیر، قال: فذہب رجال من الأنصار فجاء وا بہ، فقال: یا زبیر! قلت ابن عمۃ رسول اللّٰہ وحواري رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال الزبیر: لا تثریب یا خلیفۃ رسول اللّٰہ أبسط یدک فلبسط یدہ فبایعہ۔
عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما قال: لما مات رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أدخل الرجال فصلوا علیہ بغیر إمام أرسالاً حتی فرغوا، ثم دخل النساء فصلین علیہ ثم أدخل الصبیان فصلوا علیہ، ثم أدخل العبید فصلوا علیہ أرسالاً، لم یؤمہم علی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أحد۔ (أبو الفداء ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، ’’فصل في کیفیۃ الصلاۃ علیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۵، ص: ۳۰۴)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص194

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ہرکام میں اعتدال مطلوب ہے، کسی نیک کام اور عبادت میں جو اعتدال سے تجاوز ہو وہ درست نہیں۔ درس و تدریس وغیرہ امور بھی دین کی اہم اور بنیادی  ضروریات ہیں؛ بلکہ عام مروجہ تبلیغ کا سرچشمہ ہیں(۱) اور مروجہ تبلیغ کی افادیت بھی مسلم ہے۔(۲) اور ضرورت ہر طبقہ و ہر درجہ کی ہے۔ اس لئے کہ دین اسلام پوری زندگی پر محیط ہے۔ اور اس کے متعدد شعبہ جات ہیں۔ ہر شعبہ میں کام کی ضرورت ہے اور جو شخص ایک شعبہ میں کام کر رہا ہے اور دوسرے شعبہ کا شخص اس کی ذمہ داری ادا نہیں کر رہا تو اس کو اپنے شعبہ کے فرائض کی انجام دہی کو مقدم رکھنا چاہئے ’’لکل مقام مقال ولکل عمل رجال‘‘۔
تبلیغ جماعت میں چند افراد ایسے ہیں جن میں ضرورت سے زیادہ شدت ہے اور وہ مدارس کی ضرورت تک کا بھی انکار کردیتے ہیں، ایسے افراد کی باتوں کو خاطر میں لائے بغیر اپنے فریضہ کو انجام دیا جائے کہ ہر جماعت کا ہر فرد اعتدال پسند اور معتدل مزاج نہیں ہوتا، حسب موقع درس وتدریس تقریر وتحریر اور مروجہ تبلیغ وغیرہ کے ذریعہ دین کی خدمات کو انجام دیتے رہنا چاہئے، عام حالات میں صرف مستحبات پر عمل کرنے کیلئے والدین کی رضا کے خلاف چلنا بھی اچھا نہیں ہے، مدرسین علماء واہل علم ان امور کی ضرورت کو اچھی طرح سمجھتے رہیں۔

(۱) الأمر بالمعروف یحتاج إلی خمسۃ أشیاء: ألأول العلم لأن الجاہل لا یحسن الأمر بالمعروف۔ (جماعۃ من العلماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ: ج ۵، ص: ۳۵۳)
(۲) من دل علی خیر فلہ مثل أجر فاعلہ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الإمارۃ: باب فضل إعانۃ الغازي في سبیل اللّٰہ‘‘: ج ۲، ص: ۱۳۷)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص314

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگربدن خشک کر کے وہی کپڑے پہن لیے اور کپڑوں کی ناپاکی بدن پر نہیں لگی ہے، تو بدن ناپاک نہیں ہوا اور اگر گیلے بدن پر وہ ناپاک کپڑے پہن لیے، تو  ظاہر ہے کہ بدن پر ناپاکی لگ ہی گئی ہوگی، اس لیے بدن کے اس حصہ کو دھولے۔(۱)

(۱) نام أو مشی علی نجاسۃ، إن ظھر عینھا تنجس، و إلا لا۔ (ابن عابدین، الدر المختارمع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ،باب الأنجاس، مطلب في الفرق بین الاستبراء والاستسقاء والاستنجاء‘‘ج ۱، ص:۵۶۰) ؛ وإذا نام الرجل علی فراش فأصابہ مني و یبس، فعرق الرجل وابتل الفراش من عرقہ۔ إن لم یظھر أثر البلل في بدنہ لا ینجس، و إن کان العرق کثیراً حتی ابتل الفراش ثم أصاب بلل الفراش جسدہ، فظھر أثرہ في جسدہ، یتنجس بدنہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’الفصل الثاني في الأعیان النجسۃ، و مما یتصل بذلک مسائل‘‘ ج۱، ص:۱۰۲) ؛ ولو ابتلّ فراش أو تراب نجسان من عرق نائم أو بلل قدم، و ظھر أثر النجاسۃ في البدن والقدم تنجسا، و إلا فلا۔ (الشرنبلالي، نورالإیضاح، ’’باب الأنجاس والطہارۃ عنہا‘‘ ج۱،ص:۵۳، مکتبۃ عکاظ دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص301

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: امامت ایک اہم ذمہ داری ہے ’’الإمام ضامن‘‘ ہر کس وناکس کو امام بنانا درست نہیں ہے بلکہ اس کے لیے کچھ شرائط ہیں:
’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یؤم القوم أقرء ہم لکتاب اللّٰہ فإن کانوا في القرآۃ سواء فأعلمہم بالسنۃ فإن کانوا في السنۃ سواء فأقدہم ہجرۃ فإن کانوا في الجہرۃ سواء فأقدمہم إسلاما ولا یؤمن الرجل الرجل في سلطانہ ولا یقعد في بیتہ علی تکرمتہ إلا بإذنہ‘‘(۱) ’’والأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلاۃ ثم الأحسن تلاوۃ للقرأۃ ثم الأورع ثم الأسن ثم الأحسن خلقا ثم الأحسن وجہا ثم أصبحہم أي أسمحہم وجہا ثم أکثر ہم حسبا ثم الأنظف ثوباً ثم الأکبر رأساً الخ‘‘(۲)
اگر بستی یا محلہ میں کوئی عالم یا نماز کے ضروری مسائل سے واقف شخص موجود ہے، تو اس کو امام بنایا جائے اور اگر مذکورہ نمبر دار کے علاوہ کوئی صحیح قرآن پڑھنا نہیں جانتا، تو اس نمبر دار کو بھی امام بنانا درست ہے۔

(۱) أخرجہ مسلم في صحیحہ، ’’کتاب المساجد: باب من أحق بالإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۶؛ وأخرجہ أبوداؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلوۃ، باب من أحق بالإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۶؛ وأخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلوۃ، عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب من أحق بالإمامۃ‘: ج ۱، ص: ۵۵؛ وأخرجہ نسائي، في سننہ، ’’کتاب الإمامۃ، من أحق بالإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۹۰)
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص:۲۹۴۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص91

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: فجر کا وقت طلوع آفتاب یعنی سورج کا کنارہ ظاہر ہونے پر ختم ہوتا ہے، اس سے پہلے باقی رہتا ہے۔ طلوع آفتاب کا وقت مساجد میں لگے ٹائم ٹیبل میں عموماً موجود ہوتا ہے، اس سے مدد لے سکتے ہیں۔(۱)

(۱)وقت الفجر: من الصبح الصادق وہو البیاض المنتشر في الأفق إلی طلوع الشمس۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الأول، في المواقیت وما یتصل بہا‘‘ الفصل الأول، في أوقات الصلاۃ: ج ۱، ص: ۱۰۷، مکتبہ: زکریا، دیوبند)؛ وآخرہ (إلی قبیل طلوع الشمس) لقولہ علیہ السلام وقت صلاۃ الفجر ما لم یطلع قرن الشمس الأول۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ص: ۱۷۵، مکتبہ: شیخ الہند، دیوبند)
وآخر وقت الفجر حین تطلع الشمس فإذا طلعت الشمس خرج وقت الفجر۔ (عالم بن علاء الحنفي، الفتاویٰ التاتارخانیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل الأول، في المواقیت‘‘: ج ۲، ص: ۴، مکتبہ: زکریا، دیوبند)

 

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 67

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:داڑھی کٹانا یعنی ایک مشت سے کم کرنا، نماز چھوڑ نا، وی سی آر، پکچر وغیرہ دیکھنا یہ افعال موجب فسق ہیں جو شخص ایسے افعال کا مرتکب ہو وہ فاسق ہے اور فاسق کی اذان واقامت مکروہ تحریمی ہے؛ البتہ اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔(۱)

(۱) ویکرہ أذان الفاسق ولا یعاد: ہکذا في الذخیرۃ۔(جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني في الأذان‘‘: الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن، ج ۱، ص: ۱۱۰، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
ویکرہ أذان فاسق لأن خبرہ لا یقبل في الدیانات۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح: ص: ۲۰۰، مکتبہ: شیخ الہند، دیوبند)
وکذا یکرہ أذان الفاسق ولا یعاد أذانہ لحصول المقصود بہ۔ (عالم بن علاء، الفتاویٰ التاتار خانیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۵، مکتبہ: زکریا، دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص189

نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں اگر آپ کے والد صاحب کی کمر میں درد ہے اور وہ کھڑے ہونے سے عاجز اور معذور ہیں تو وہ بیٹھ کر نماز ادا کر سکتے ہیں، اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ کھڑے ہو کر نماز پڑھا کرو اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر نماز پڑھا کرو اور اگر بیٹھ کر بھی نماز پڑھنے کی طاقت نہ ہو تو پہلو کے بل لیٹ کر پڑھ لو۔ جیسا کہ امام بخاریؒ نے ایک روایت نقل کی ہے:
’’صل قائماً فإن لم تستطع فقاعداً فإن لم تستطع فعلی جنب‘‘(۱)
نیز بیٹھ کر نماز پڑھنے کی صورت میں رکوع کی کیفیت کے سلسلے میں فقہا نے لکھا ہے کہ: اتنا ہی جھکنا چاہئے کہ کوئی دیکھنے والا یہ تصور نہ کرے کہ یہ سجدہ کر رہا ہے، رکوع اور سجدہ میں واضح فرق ہونا چاہئے اس لیے رکوع میں پیشانی کو اتنا جھکائے کہ گھٹنوں کے مقابل کر دیا جائے تو رکوع ہو جائے گا جیسا کہ مراقی الفلاح میں ہے:
’’وفي الحموي فإن رکع جالسا ینبغي أن تحاذی جبہتہ رکبتیہ لیحصل الرکوع، ولعل مرادہ إنحناء الظہر عملا بالحقیقۃ لا أنہ یبالغ فیہ حتی یکون قریبا من السجود‘‘(۲)
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب إذا لم یطق قاعدا صلی علی جنب‘‘:ج ۱، ص: ۱۵۰، رقم: ۱۰۶۶۔
(۲) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوی علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ:  باب شروط الصلاۃ وأرکانہا‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۹۔

فتاوی دار العلوم وقف دیوبند: ج 4، ص: 329