Marriage (Nikah)

Ref. No 2384/44-3603

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نکاح کے صحیح ہونے کے لئے ضروری ہے کہ عورت کی سابقہ عدت گزرچکی ہو، اور پھر معتبر دوگواہوں  کی موجودگی میں  لڑکا و لڑکی ایجاب و قبول کریں۔ اس لئے صورت مسئولہ میں اگر عورت کی عدت وفات  (چار ماہ دس دن) گزرچکی ہے تو   صرف لڑکا ولڑکی کے تنہائی میں ایجاب وقبول سے نکاح منعقد وصحیح نہیں ہوگا۔ نکاح کے لئے گواہوں کا ہونا شرط ہے، بغیر گواہوں کے نکاح ہرگز نہیں ہوسکتاہے۔

 ولا ينعقد نكاح المسلمين إلا بحضور شاهدين حرين عاقلين بالغين مسلمين رجلين أو رجل وامرأتين عدولا كانوا أو غير عدول أو محدودين في القذف " قال رضي الله عنه: اعلم أن الشهادة شرط في باب النكاح لقوله عليه الصلاة والسلام " لا نكاح إلا بشهود . (الهداية في شرح بداية المبتدي (1/ 185):

 (ولا ينعقد نكاح المسلمين) بصيغة المثنى (إلا بحضور شاهدين حرين بالغين عاقلين مسلمين) سامعين معاً قولهما فاهمين كلامهما على المذهب كما في البحر. (اللباب في شرح الكتاب (3/ 3):

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2559/45-3906

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  صورت مسئولہ میں اگر فرش سوکھ جائے اور نجاست کا کوئی اثر باقی نہ رہے تو فرش پاک ہے۔

ومنھا الجفاف وزوال الاثر الارض تطھر بالیبس وذھاب الاثر للصلوۃ لا للتیمم ، ھکذا فی الکافی ، ولا فرق بین الجفاف بالشمس والنار والریح والظل ۔ (الھندیۃ ، الفصل الاول فی تطھیر الانجاس  1/44 دارالفکر)

اذا ذھب اثر النجاسۃ (ای ریحھا و لونھا) عن الارض وجفت جازت الصلوۃ علیھا دون التیمم منھا ۔ الشرنبلالی (نورالایضاح ص 54)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:سب سے افضل ومقدس کتاب قرآنِ کریم ہے، اس کے  بعد حدیث کی معروف کتاب بخاری اور مسلم شریف ہے۔ (۱) فضائل اعمال ہو یا دیگر کوئی کتاب ہو کسی کے بارے میں غلو درست نہیں، اگر سائل کی مراد یہ ہے کہ ہندوستان وغیرہ بعض ممالک میں قرآن کریم کے بعد زیادہ پڑھی جانے والی کتاب فضائل اعمال ہے، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔

(۱) أول من صنف الصحیح البخاري أبو عبد اللّٰہ محمد بن إسمعیل، وتلا أبو الحسین مسلم بن الحجاج القشیري ومسلم مع أنہ أخذ عن البخاري واستفاد منہ یشارکہ في أکثر شیوخہ، وکتاباہما أصح الکتب بعد کتاب اللّٰہ العزیز۔ (مقدمۃ ابن الصلاح ’’النوع الأول من أنواع علوم‘‘: ص: ۸۴)
وہما أصح الکتب بعد القرآن، والبخاري أصحہما واکثر ہما فوائد۔ (تدریب الراوي في شرح تقریب النووي تفضیل صحیح البخاري علی مسلم: ج ۱، ص: ۹۶)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص310

طلاق و تفریق

Ref. No. 2656/45-4048

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  )اسلام میں نکاح ایک پاکیزہ رشتے کا نام ہے،اسلام نے اس کی پائداری پر زور دیا ہے، اور اس کے لیے باہمی الفت ومحبت اور دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین کی ہے لیکن اگر کسی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان نااتفاقی ہونے لگے تو پہلے دونوں خاندان کے بزرگ کو صلح کرانے کی کوشش کرنی چاہیے؛ کیوں کہ اسلام میں طلاق ناپسندیدہ فعل ہے اور بلا ضرورت اسکا استعمال درست نہیں ہے۔ پھر بھی اگر نباہ کی کوئی صورت نہ بن سکے اور فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو تو ایک طلاق صریح دے کر دونوں کو الگ ہو جانے کا حکم ہے۔  ایک طلاق کے بعد اگر دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو عدت میں رجوع کے ذریعہ اور عدت کے بعد نکاح کے ذریعہ دونوں ساتھ رہ سکتے ہیں۔  ایک ساتھ تین طلاق دینا شرعاً گناہ ہے اور ملکی قانون کے مطابق قابل مواخذہ جرم ہے۔(

بظاہر طلاق کا ہی ذکر چل رہاتھا اور عورت کو طلاق دینے کی دھمکی دے رہاتھا اورپھر جب اس کو منع کیاگیا تو  طلاق کی نیت سے اس نے کہا کہ پردہ کرلو۔ اس لئے صورت مسئولہ میں یہ تیسری طلاق بھی واقع ہوگئی ۔ اور میاں بیوی کا رشتہ نکاح مکمل طور پر ختم ہوگیااور دونوں اجنبی ہوگئے۔ اب دونوں کا نکاح حرام ہے۔ عدت کے بعد عورت کسی دوسرے مرد سے نکاح کرنے کے لئے آزاد ہے ۔ 

كنايته) عند الفقهاء (ما لم يوضع له) أي الطلاق (واحتمله) وغيره (ف) - الكنايات (لا تطلق بها) قضاء (إلا بنية أو دلالة الحال) وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب، فالحالات ثلاث: رضا وغضب ومذاكرة، والكنايات ثلاث: ما يحتمل الرد، أو ما يصلح للسب، أو لا ولا (فنحو اخرجي واذهبي وقومي) تقنعي تخمري استتري انتقلي انطلقي اغربي اعزبي من الغربة أو من العزوبة (يحتمل ردا، ونحو خلية برية حرام بائن) ومرادفها كبتة بتلة (يصلح سبا، ونحو اعتدي واستبرئي رحمك... (الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار (ص: 214)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بریڈ میں جذب کرنے کی صلاحیت ہے، اس سے پیشاب تو جذب ہو جائے گا اور استنجا معتبر مانا جائے گا؛ البتہ کھانے پینے کی اشیاء سے استنجا کرنا مکروہ ہے حدیث میں اس کی ممانعت آئی ہے۔

’’عن ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا تستنجوا بالروث ولا بالعظام فإنہ زاد إخوانکم من الجن‘‘(۱)
’’ولا یستنجی بعظم ولا بروث لأن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم نہی عن ذلک ولو فعل یجزیہ لحصول المقصود ومعنی النہي في الروث للنجاسۃ وفي العظم کونہ زاد الجن، ولا یستنجی بطعام لأنہ إضاعۃ وإسراف‘‘(۲)

(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الطہارۃ: باب ما جاء في کراہیۃ ما یستنجی بہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۱، رقم:۱۸۔(مکتبہ نعیمیہ دیوبند)
(۲) ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارۃ: فصل الاستنجاء‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۷۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص108

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:پہلے اصل مسئلہ سمجھیں کہ غیرسبیلین سے اگر کوئی چیز نکلے  اور نکل کر اپنی جگہ سے بہہ جائے، تو وضو ٹوٹ جاتاہے اور اگر اتنی معمولی مقدار میں ہے کہ وہ اپنی جگہ سے نہ بہے، تو اس سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے۔ ’’لیس في القطرۃ والقطرتین من الدم وضوء إلا أن یکون سائلا‘‘(۱)اس مسئلہ کی روشنی میں اگر غورفرمائیں، تو پہلی عبارت درست ہے کہ زخم سے نجاست نکلی اور اتنی مقدار میں ہے کہ نچوڑنے کی صورت میں سیلان پایا جائے، تو اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؛ اگرچہ اس کی کیفیت یہ ہے کہ اگر نہ نچوڑا جاتا تو نہ بہتا۔
 جہاں تک ہدایہ کی عبارت کا تعلق ہے ’’أما إذا عصرھا فخرج بعصرہ ولو لم یعصرھا لم یخرج لم ینقض لأنہ مخرج ولیس بخارج‘‘ (۲)یہ درست نہیں ہے؛ اس لیے اس صورت میں بھی وضو ٹوٹ جائے گا؛ کیوںکہ وضو کے ٹوٹنے کا مدار خارج پر ہے اور مخرج سے بھی خارج کا وجود ہوجاتا ہے؛ چنانچہ علامہ لکھنویؒ صاحب نے ہدایہ کی اس عبارت پر نقد کیا ہے، وہ لکھتے ہیں کہ: ’’في الکافي الأصح أن المخرج ناقض انتہی۔ و کیف وجمیع الأدلۃ الموردۃ من السنۃ والقیاس تفید تعلیق النقض بالخارج النجس وھو الثابت في المخرج‘‘(۳)

(۱) فتح القدیر، ’’فصل في نواقض الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۴۶
(۲)محمد بن محمود، العنایۃ شرح الہدایۃ ، ’’فصل في نواقض الوضوء‘‘، ج۱، ص:۵۴
(۳)کمال الدین محمد بن عبدالواحد ابن الہمام، شرح فتح القدیر ، ’’فصل في نواقض الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۵۶

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص220

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: اگر کوئی غیر حافظ پابند شرع ایسا ہو جو نماز پڑھا سکے تو وہ نماز کے لیے مقدم ہے اور اگر کوئی ایسا نہ ہو کہ نماز بھی صحیح پڑھا سکے کہ اس کو چند سورتیں بھی یاد نہ ہوں تو بغیر جماعت نماز پڑھنے کے بجائے اسی غیر حافظ کو امام بنالیا جائے۔(۱)
’’والأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلاۃ فقط صحۃ وفسادا بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ وحفظہ فرض وقیل واجب وقیل سنۃ … قولہ قدر فرض … قدر ما تجوز بہ الصلاۃ‘‘(۲)

(۱) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۴۔
(۲) وشروط صحۃ الإمامۃ للرجال الأصحاء ستۃ أشیاء، الإسلام، والبلوغ والعقل والذکـورۃ والقراء ۃ، بحفظ آیۃ تصح بہا الصلوۃ علی الخلاف، قولہ بحفظ آیۃ، ولو قصیرۃ والأولی أن یقول بحفظ ما تصح بہ الصلوۃ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ‘‘: ص: ۲۸۸، شیخ الہند دیوبند)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص82

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مرد کا اجنبیہ عورت کو چھونا درست نہیں ہے؛ اس لیے امام صاحب کا یہ پیشہ قابلِ ترک ہے اگر امام صاحب چوڑیاں بیچیں مگر عورتوں کو اپنے ہاتھ سے نہ پہنائیں تو ان کی امامت میں کوئی حرج نہیں ہے؛ لیکن اگر باز نہ آئیں تو ان کی جگہ کسی اور مناسب آدمی کو امام بنادیا جائے۔(۱)

(۱) وإذا صلی الرجل خلف فاسق أو مبتدع یکون محرزا ثواب الجماعۃ لما روینا من الحدیث لکن لاینال ثواب من یصلي خلف عالم تقي۔ (قاضي خان، فتاویٰ قاضي خان، ’’کتاب الصلوۃ، فصل فیمن یصح الاقتداء بہ وفیمن لایصح‘‘:ج۱، ص: ۵۹)
ویکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق أي من الفسق وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر والزاني وآکل الرباء ونحو ذٰلک۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص:۲۹۸)  
کرہ إمامۃ الفاسق … والفسق لغۃً: خروج عن الإستقامۃ، وہو معنی قولہم: خروج الشيء عن الشيء علی وجہ الفساد، وشرعاً: خروج عن طاعۃ اللّٰہ تعالیٰ بارتکاب کبیرۃ۔ قال القہستاني: أي أو إصرار علی صغیرۃ۔ فتجب إہانتہ شرعًا، فلا یعظم بتقدیم الإمامۃ تبع فیہ الزیلغي ومفادہ کون الکراہۃ في الفاسق تحریمیۃ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ص:۳۰۳، ط: دارالکتب العلمیۃ)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص206

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صف بندی کا سنت طریقہ یہ ہے کہ پہلے بالغ مردوں کی صفیں لگائی جائیں اس کے بعد نابالغ لڑکوں کی صف بنائی جائے پس اگر نابالغ لڑکے نے بڑوں کی صف میں کھڑے ہوکر نماز پڑھی تو نماز ہوگئی اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔(۲)
(۲) ویصف الرجال ثم الصبیان ثم النساء لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: لیلینی منکم أولو الأحلام والنہي۔  (المرغیناني، الھدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب الامامۃ‘‘: ج۱، ص: ۵۸)
ویصف الرجال ثم الصبیان ثم الخناثی ثم النساء۔ (حسن بن عمار، مراقی الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، فصل في الأحق بالإمامۃ وترتیب الصفوف‘‘: ج۱، ص: ۱۱۶)
والترتیب الحاصر لہا أن یقدم الأحرار البالغون ثم الأحرار الصبیان ثم العبید البالغون ثم العبید الصبیان ثم الأحرار الخناثی الکبار ثم الأحرار الخناثی الصغار ثم الأرقاء الخناثی الکبار ثم الأرقاء الخناثی الصغار ثم الحرائر الکبار ثم الحرائر الصغار ثم الإماء الکبار ثم الإماء الصغار۔ (عبدالرحمٰن بن محمد، مجمع الأنھر، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، أولٰی الناس بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۰۹)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 5 ص: 413


 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: احناف کے نزدیک مفتی بہ قول کے مطابق جب ہر چیز کا سایہ دو مثل ہو جائے تو اس وقت ظہر کا وقت ختم ہو جاتا ہے اور عصر کی نماز کا وقت شروع ہو جاتا ہے جس کو عام زبان میں کہتے ہیں کہ عصر کی نماز مثل ثانی پر پڑھنی چاہئے یہ عصر کی نماز کا وقتِ جواز ہے اور اصفرار شمس سے پہلے پہلے تک عصر کی تاخیر مستحب ہے اور اصفرار تک موخر کرنا مکروہ ہے، اگر کسی وجہ سے عصر کی نماز مثل اول پر پڑھ لے تو نماز ادا ہو جائے گی، اعادہ کی ضرورت نہیں اس لیے کہ صاحبینؒ کے نزدیک عصر کی نماز کا وقت مثل اول پر ہی شروع ہوجاتا ہے۔(۱)

(۱) وقت العصر: من صیرورۃ الظل مثلیہ غیر فيء الزوال إلی غروب الشمس، ہکذا في شرح المجمع۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الأول: في المواقیت‘‘: الفصل الأول في أوقات الصلاۃ، ج ۱، ص: ۱۰۷، مکتبہ: زکریا، دیوبند)

وأول وقت العصر من ابتداء الزیادۃ علی المثل أو المثلین لما قدمناہ من الخلاف إلی غروب الشمس علی المشہور۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاويعلی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ص: ۱۷۷، مکتبہ: شیخ الہند، دیوبند)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 57