نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: دوران نماز دیوار پر کلینڈر اور گھڑی دیکھ کر تاریخ اور ٹائم سمجھنے سے نماز پڑھنے والے کی نماز فاسد نہیں ہوتی البتہ نماز کی حالت میں دیوار کی طرف دیکھنا نماز کی روح یعنی خشوع وخضوع کے منافی ہے اور بالقصد ان چیزوں کی طرف دیکھنا کراہت سے خالی نہیں ہے، اس لیے اس سے پرہیز کرنا چاہئے۔
’’ولا یفسدہا نظرہ إلی مکتوب وفہمہ لو مستفہماً وإن کرہ (در مختار) قولہ: وإن کرہ أي لاشتغالہ بما لیس من أعمال الصلاۃ، وأما لو وقع علیہ نظر بلا قصد وفہمہ فلا یکرہ‘‘(۱)
’’إذا کان المکتوب علی المحراب غیر القرآن فنظر المصلي إلی ذلک وتأمل وفہم، فعلی قول أبي یوسفؒ : لا تفسد، وبہ أخذ مشائخنا‘‘(۲)

نیز نماز پڑھتے ہوئے اگر جیب سے موبائل نکال کر باضابطہ موبائل سوئچ آف کیا جائے تو یہ عمل نماز فاسد کرنے والا ہے، کیوں کہ دیکھنے والا یہ سمجھتا ہے کہ یہ شخص نماز میں نہیں ہے، اسی کو فقہی اصطلاح میں عمل کثیر کہا جاتا ہے اور عمل کثیر سے نماز فاسد ہو جاتی ہے اس لیے اس عمل سے نماز فاسد ہو جائے گی۔
البتہ اگر عمل قلیل کے ذریعہ موبائل بند کرنا ممکن ہو مثلاً موبائل کی گھنٹی بجنے پر انگلی سے بٹن بند کردے یا ایک ہی ہاتھ سے موبائل نکال کر موبائل کو بند کرے تو یہ عمل قلیل ہے اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی ہے تاہم احتیاط اسی میں ہے کہ جیب سے موبائل نکالے بغیر ہی ایک ہی ہاتھ سے جیب میں ہی موبائل بند کردے یا فون کاٹ دے۔
’’ویفسدہا کل عمل کثیر لیس من أعمالہا ولا لإصلاحہا، وفیہ أقوال خمسۃ: أصحہا ما لا یشک الناظر في فاعلہ أنہ لیس فیہا، وفي الشامیۃ: الثالث: الحرکات الثلاث المتوالیۃ کثیر وإلا فقلیل‘‘(۱)
’’ویفسدہا العمل الکثیر لا القلیل والفاصل بینہما أن الکثیر ہو الذي لا یشک الناظر لفاعلہ أنہ لیس في الصلاۃ‘‘(۲)
(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب إذا قرأ قولہ تعالیٰ جدک بدون ألف لا تفسد‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۷،۳۹۸، زکریا، : ج ۱، ص: ۶۳۴، کراچی۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ:کتاب الصلاۃ، الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا، ج ۱، ص: ۱۶۰؛ وکذا في الفتاوی التاتار خانیۃ: ج ۲، ص: ۲۲۸۔
(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’ باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا، مطلب في التشبہ بأھل الکتاب‘‘: ج ۲، ص:۳۸۴، ۳۸۵، زکریا۔)
(۲) أحمد بن محمد، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا‘‘ : ص: ۳۲۲۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص151

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ کی اس صورت میں کوئی نقص نہیں آیا اور نماز کو لوٹانا صحیح نہیں تھا اس لیے فرض نماز میں کچھ بھی ترک نہیں ہوا نہ سجدہ سہو واجب ہوا؛ کیوں کہ سجدہ سہو واجب کے ترک کرنے سے لازم آتا ہے اور یہاں پر قدر فرض وواجب کی قرأۃ ادا ہوگئی اور درمیان قرأت کے اگر کوئی آیت چھوٹ گئی تو بھی نماز جمعہ درست اور صحیح ہوگئی اور فرض نماز میں اگر ضرورت ہو تو لقمہ دیا جا سکتا ہے، اس سے نماز پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
’’ولوزاد کلمۃ أو نقص کلمۃ أو نقص حرفاً … لم تفسد ما لم یتغیر المعنیٰ‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، الدر المختار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا ، مطلب: …مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۵،۳۹۶، زکریا۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص271

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: شب قدر و شب برأت کا احیاء مستحب ہے، یہ راتیں عند اللہ بہت متبرک ہیں ان میں جتنی عبادت کی جائے بہت زیادہ اجر وثواب ہے، لیکن نوافل باجماعت نہ پڑھنی چاہئے،(۱) کیوں کہ یہ بدعت ومکروہ ہے اور کسی خاص اجتماع کی بھی ضرورت نہیں ہے۔(۲) فرداً فرداً نوافل، تلاوت کرنا چاہئے؛ البتہ شب معراج کی نہ تعیین ہے نہ کوئی فضیلت، اس میں عبادت کا خصوصی اہتمام بدعت ہے۔(۳)

(۱) واعلم أن النفل بالجماعۃ علی سبیل التداعي مکروہ۔ (إبراہیم حلبي، حلبي کبیري، ’’تتمات من النوافل‘‘: ج ۱، ص: ۴۳۲، سہیل اکیڈمی پاکستان)
(۲) وکل ہذہ بدع ومنکرات لا أصل لہا في الدین ولا مستندلہا من الکتاب والسنۃ ویجب علی أہل العلم أن ینکروہا وأن یبطلوا ہذا العبادات ما استطاعوا۔ (الکشمیري، معارف السنن، ’’باب التشدید في البول‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۶)
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من عمل عملاً لیس علیہ أمرنا فہو رد۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الاعتصام: باب إذا اجتہد العامل أو الحاکم فأخطأ‘‘: ج ۲، ص: ۱۰۹۲، رقم: ۱۷۱۸)
(۳) ویکرہ الاجتماع علی إحیاء لیلۃ من ہذہ اللیالي۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في تحیۃ المسجد الخ‘‘: ص: ۴۰۲)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص380

قرآن کریم اور تفسیر

Ref. No. 1171 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔سورہ مومنون کی آیت نمبر 14 ہے فتبارک اللہ احسن الخالقین۔ اس میں خالقین سے مراد پیداکرنے والے نہیں ہیں بلکہ صناع یعنی صرف جوڑ توڑ کرنے والے مراد ہیں۔ حقیقت میں حیات دینا اور بغیر کسی وسیلہ کے پیدا کرنا خاص اللہ ہی کا کام ہے۔ اور لفظ خلق کا اطلاق لغوی معنی کے اعتبارسے دوسرے صناع پر کردیا گیا ہے۔ لفظ خلق کے لغوی حقیقی معنی شیء معدوم کو بغیر کسی انسانی وسائل کے وجود میں لانا ہے جو صرف ذات باری تعالی پر ہی صادق آتا ہے۔ آیت مذکورہ میں ظاہری تقابل ہے مگر حقیقت میں دونوں میں کوئی مناسبت ہی نہیں ہے۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 38 / 1050

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: مرد و عورت کی نماز میں درج ذیل  اعمال میں فرق ہے (1) مرد اپنے ہاتھوں کو کانوں تک اٹھائے گا اور عورت سینے تک ہاتھوں کو اٹھائے گی (البحر الرائق1/35)۔  (2) مرد ناف کے نیچے ہاتھ باندھے اور عورت سینے پر ہاتھ باندھے گی(اعلاء السنن2/153)۔ (3) عورت رکوع میں کم جھکے گی اور رکوع میں عورت انگلیاں مرد کی طرح کشادہ نہیں رکھے گی(عالمگیری 1/74)۔ (4) مرد سجدے کی حالت میں پیٹ کو رانوں سے اور بازو  کو بغل سے جُدا رکھے گا اورکہنیاں زمین سے علیحدہ رکھے  گا،   جبکہ عورت  پیٹ کو   رانوں سے اور بازو کو بغل سے ملائے رکھے گی اور کہنیاں زمین پر بچھا کر سجدہ کرے گی(البحر الرائق 1/320)۔  (5) مرد جلسہ اور قعدہ میں اپنا دایاں پیر کھڑا کرکے بایاں پیر بچھاکر اس پر بیٹھ جائے  گا جبکہ  عورت اپنے دونوں پاؤں داہنی طرف نکال کر بائیں سرین پر بیٹھے گی(کبیری223)۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

حج و عمرہ

Ref. No. 41/922

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ایسی عورت مستحاضہ ہے، ایام حیض کے بعد گرچہ خون جاری رہے وہ عمرہ کرسکتی ہے، اس کے لئےطواف کرنے سے قبل وضو کرلینا کافی ہوگا۔  

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 1013/41-263

 In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

As you have written, it is not in the current versions of Mustadrak. I also searched and could not find it. However, ‘Mulla Ali Qari’ wrote in ‘Mirqatul Mafateeh’ with reference to ‘Mustadrak’ with the addition of 'علی'. So it could be read both ways (with or without 'علی'). Allama Nawawi has also declared it in ‘Azkar’ as Sunnah to recite Bismillahir-Rahmanir-Raheem and Bismillah in the supplication of food. So there is an extension in this matter.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1157/42-393

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر کپڑے پر نجاست اس قدر لگی ہے  جو منافی صلوۃ ہے  یعنی ایک درھم کے برابر نجاست ہےتو ایسی صورت میں نماز کا اعادہ لازم ہوگا۔ اور اگر نجاست ایک درہم کی مقدار سے کم ہے تو نماز لوٹانے کی ضرورت نہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 1513/42-987

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ -1ایسے شخص کی قربانی  شرعا جائز نہیں  ہے، مال خبیث سے شرکت کرنے والے کو قربانی کاثواب نہیں ملے گا، تاہم  جن لوگوں کے ساتھ قربانی کے جانور میں وہ شریک تھا سب کی قربانی درست ہوگی۔2 قربانی کے جانور کی کھال کو اگر کوڑے پر سے کسی نے اٹھایا تو وہ اس کا مالک ہے، وہ اس کو استعمال کرسکتاہے اور بیچ بھی سکتاہے۔ پھینکے والے کی نیت یہی ہوتی ہے کہ اگر کسی کو ضرورت ہو تو وہ اس کو لے جائے، اس کی طرف سے ہدیہ کے حکم  میں ہے۔  

وقد یتصف بالحرمة کالحج بمال حرام.........(قولہ کالحج بمال حرام) کذا فی البحر والأولی التمثیل بالحج ریاء وسمعة، فقد یقال إن الحج نفسہ الذی ہو زیارة مکان مخصوص إلخ لیس حراما بل الحرام ہو إنفاق المال الحرام، ولا تلازم بینہما، کما أن الصلاة فی الأرض المغصوبة تقع فرضا، وإنما الحرام شغل المکان المغصوب لا من حیث کون الفعل صلاة لأن الفرض لا یمکن اتصافہ بالحرمة، وہنا کذلک فإن الحج فی نفسہ مأمور بہ ، وإنما یحرم من حیث الإنفاق، وکأنہ أطلق علیہ الحرمة لأن للمال دخلا فیہ، فإن الحج عبادة مرکبة من عمل البدن والمال کما قدمناہ، ولذا قال فی البحر ویجتہد فی تحصیل نفقة حلال ، فإنہ لا یقبل بالنفقة الحرام کما ورد فی الحدیث ، مع أنہ یسقط الفرض عنہ معہا ولا تنافی بین سقوطہ، وعدم قبولہ فلا یثاب لعدم القبول ، ولایعاقب عقاب تارک الحج. اہ.(الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 3/ 453، مطلب فیمن حج بمال حرام،ط: زکریا،دیوبند) ....لوأخرج زکاة المال الحلال من مال حرام ذکر فی الوہبانیة أنہ یجزء عند البعض، ونقل القولین فی القنیة.وقال فی البزازیة: ولو نوی فی المال الخبیث الذی وجبت صدقتہ أن یقع عن الزکاة وقع عنہا اہ أی نوی فی الذی وجب التصدق بہ لجہل أربابہ، وفیہ تقیید لقول الظہیریة: رجل دفع إلی فقیر من المال الحرام شیئا یرجو بہ الثواب یکفر، ولو علم الفقیر بذلک فدعا لہ وأمن المعطی کفرا جمیعا.(الدرالمختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 3/ 219، ط: مطلب فی التصدق من المال الحرام،ط: زکریا، دیوبند)

وله أن ينتفع بجلد أضحيته في بيته بأن يجعله سقاء أو فروا أو غير ذلك؛ لما روي عن سيدتنا عائشة - رضي الله عنها - أنها اتخذت من جلد أضحيتها سقاء ولأنه يجوز الانتفاع بلحمها فكذا بجلدها، وله أن يبيع هذه الأشياء بما يمكن الانتفاع به مع بقاء عينه من متاع البيت كالجراب والمنخل؛ لأن البدل الذي يمكن الانتفاع به مع بقاء عينه يقوم مقام المبدل فكان المبدل قائما معنى فكان الانتفاع به كالانتفاع بعين الجلد   (بدائع الصنائع، بیان رکن النذر 5/81)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب و باللّٰہ التوفیق:یہ شخص کافر ہوگیا ہے، اس کے لئے تجدید ایمان اور تجدید  نکاح ضروری ہے اور توبہ و استغفار بھی ضروری ہے۔  (۱

(۱) من قال: لا أدري صفۃ الإسلام فہو کافر، وذکر شمس الأمۃ الحلواني رحمہ اللّٰہ تعالیٰ ہذہ المسئلۃ وبالغ فیہا، فقال: ہذا الرجل لیس لہ دین ولا صلوٰۃ ولا صیام ولا طاعۃ ولا نکاح، وأولادہ أو لاد الزنا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بالإیمان والإسلام‘‘:  ج ۲، ص: ۲۷۰)

ولا بقولہ: ہذا مکان لا إلہ فیہ ولا رسول إلا إذا قصد بہ إنکار الدین۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب السیر: باب أحکام المرتدین‘‘: ج ۵، ص: ۲۰۴)

)