Death / Inheritance & Will

Ref. No. 1784/43-1535

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

After the death of your father, according to the government law, the amount of pension given to your sister is a gift from the government. In government pension, inheritance system is not applied. The one who is receiving pension from the government will be the sole owner of the same; and others have no right in it. Therefore, you and your elder sister have no right to this pension. However, your elder sister and you will be entitled only to share the property left by your father and mother. Nevertheless, since the sister is under your care and you bear all her expenses, if you take money from her to spend on her, then it is allowed and you can do so.

۔  امداد الفتاوی : ’’چوں کہ میراث مملوکہ اَموال میں جاری ہوتی ہے اور یہ وظیفہ محض تبرع واحسانِ سرکار ہے، بدون قبضہ کے مملوک نہیں ہوتا، لہذا آئندہ جو وظیفہ ملے گا اس میں میراث جاری نہیں ہوگی، سرکار کو اختیار ہے جس طرح چاہے  تقسیم کردے‘‘۔)امداد الفتاوی,4/343، کتاب الفرائض، عنوان: عدم جریان میراث در وظیفہ سرکاری تنخواہ، ط: دارالعلوم)

"لِأَنَّ الْإِرْثَ إنَّمَا يَجْرِي فِي الْمَتْرُوكِ مِنْ مِلْكٍ أَوْ حَقٍّ لِلْمُوَرَّثِ عَلَى مَا قَالَ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ: «مَنْ تَرَكَ مَالًا أَوْ حَقًّا فَهُوَ لِوَرَثَتِهِ» وَلَمْ يُوجَدْ شَيْءٌ مِنْ ذَلِكَ فَلَا يُوَرَّثُ وَلَايَجْرِي فِيهِ التَّدَاخُلُ؛ لِمَا ذَكَرْنَا، وَاَللَّهُ - سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى - أَعْلَمُ". ( كِتَابُ الْحُدُودِ، فَصْلٌ فِي بَيَانِ مِقْدَارِ الْوَاجِبِ مِنْ الْحُدُودِ، 7 / 58، ط: دار الكتب العلمية)

And Allah knows the best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

اسلامی عقائد

Ref. No. 1885/43-1764

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  جب اس نے صدقہ فطر سعودی میں نکال دیا تو اس کا صدقہ فطر ادا ہوگیا، انڈیا آنے کے بعد دوبارہ صدقہ فطر نکالنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی طرح اگر انڈیا میں اس کے گھر والوں نے اس کے کہنے پر اس کی طرف سے  فطرہ نکال دیا، تو اس طرح بھی ادائیگی درست ہوجائے گی اور دوبارہ نکالنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔   تاہم سعودیہ میں رہائش کی وجہ سے آپ پر سعودیہ عرب کے نرخ کے حساب سے دینا لازم ہوگا۔

قال فی الدر المنتقی فتجب علی مسافر ۔ ۔ ۔ ویعتبر مکانہ الخ وعلیہ الفتوی 1/226

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

Divorce & Separation

Ref. No. 2097/44-2146

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

In the above mentioned case, the husband has not said a word about giving divorce, so no divorce has taken place. But, in future the husband and wife both need to be very careful in the matter of divorce.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ عام لوگوں میں مشہور ہے، شریعت میں اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ (۱)

(۱) قال الکشمیري: ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (علامہ أنور شاہ، الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص:۵۶۸)
عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: …من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو ردٌّ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح: باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)
من أحدث في الإسلام رأیا لم یکن لہ من الکتاب والسنۃ سند ظاہر أو خفي ملفوظ أو مستنبط فہو مردود۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۶، رقم: ۱۴۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص517

حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ہجرت کے وقت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے اور نکیل پکڑ کر اونٹنی کو چلانے والے آپ ہی تھے اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے میزبانِ اول حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ تھے ان کو اول میزبانی کا شرف حاصل ہوا۔ (۱) (۱) أبو البرکات عبد الرؤف، أصح السیر: ۱۳۶۔ فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص201

زیب و زینت و حجاب

Ref. No. 2610/45-4054

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اجنبی مرد کا بالغہ یا نابالغ قابلِ شہوت لڑکی کا کان دیکھنا اور چھوناجائز نہیں ہے،اس لئے اجنبی مرد سے چھدوانا بھی جائز نہیں بلکہ گناہ ہے۔ البتہ چھوٹی بچی  ہو تواس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس لئے  جب بچی چھوٹی ہو تبھی کان چھدوالینا چاہئے یا پھر کسی عورت کو اس مقصد کے لئے تلاش کرنا چاہئے۔  تاہم اگر کوئی شدید مجبوری ہو  تو ایسی صورت میں سارے سر اور گردن وغیرہ کو اچھی طرح چھپاکر صرف کان کو کھول دیاجائے تو اس کی گنجائش ہے۔

"وَلَا يَجُوزُ لَهُ أَنْ يَمَسَّ وَجْهَهَا وَلَا كَفَّهَا وَإِنْ أَمِنَ الشَّهْوَةَ لِوُجُودِ الْمُحَرَّمِ وَلِانْعِدَامِ الضَّرُورَةِ وَقَالَ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ { : مَنْ مَسَّ كَفَّ امْرَأَةٍ لَيْسَ لَهُ فِيهَا سَبِيلٌ وُضِعَ عَلَى كَفِّهِ جَمْرٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ } قَالَ فِي التَّتَارْخَانِيَّة : أَصَابَ امْرَأَةً قُرْحَةٌ فِي مَوْضِعٍ لَا يَحِلُّ لِلرَّجُلِ النَّظَرُ إلَيْهِ فَإِنْ لَمْ يُوجَدْ امْرَأَةٌ تُدَاوِيهَا وَلَمْ يَقْدِرْ أَنْ يُعَلِّمَ امْرَأَةً تُدَاوِيهَا يَسْتُرُ مِنْهَا كُلَّ شَيْءٍ إلَّا مَوْضِعَ الْقُرْحَةِ وَيَغُضُّ بَصَرَهُ مَا أَمْكَنَ وَيُدَاوِيهَا وَفِي الْمُحِيطِ أَيْضًا." (البحر الرائق شرح كنز الدقائق كتاب الكراهية، فصل فى النظر والمس، ج:8، ص:219، ط:دارالكتاب الاسلامى) 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 2663/45-4433

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ہونے والی بیوی کا مطلب وہ عورت جس سے میرا نکاح ہو، اس لئے معنی کے اعتبار سے طلاق کو نکاح کی  طرف منسوب کیاگیا ہے ،  اور اس طرح طلاق کی تعلیق درست ہے اور اس سے احناف کے نزدیک  نکاح کے بعد طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ اس لیے صورت مسئولہ میں نکاح کرتے ہی اس شخص کی ہونے والی بیوی پر ایک طلاق بائنہ واقع ہوجائے گی، البتہ قسم بھی پوری ہوجائے گی، اس کے بعد اسی عورت سے دوبارہ یا کسی اور عورت سے نکاح کرنے پر ہونے والی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہ ہوگی۔ یہ بھی خیال رہے کہ اگر پہلی عورت ہی سے نکاح کیا تواس کو صرف دو طلاق کااختیار حاصل  ہوگا، اس لئے کہ اس کی جانب سے اس  کی بیوی پر ایک طلاق واقع ہوچکی ہے۔

ثم اعلم أن المراد ہنا بالإضافة معناہا اللغوي الشاملة للتعلیق المحض وللإضافة الاصطلاحیة الخ (شامی: ۴: ۵۹۳، ۵۹۴ مطبوعہ مکتبہ زکریا دیوبند) بخلاف غیر المعینة فلو قال: المرأة التي أتزوجہا طالق طلقت بتزوجہا (الدر المنتقی: ۲/۵۷، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:کپڑے کا جو حصہ ناپاک ہوا ہے اسے پاک کرنا ضروری ہے اور جو پاک ہو اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں۔
یجوز رفع نجاسۃ حقیقیۃ عن محلّھا۔(۱)و إزالتھا إن کانت مرئیۃ بإزالۃ عینھا، و أثرھا إن کانت شیئا یزول أثرہ۔ (۲)

(۱)ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس ، ج۱،ص:۵۰۹
(۲)جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، الباب السابع في النجاسۃ و أحکامھا، الفصل الأول، في تطہیر الأنجاس، منھا: الغسل، ج ۱، ص:۹۶

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2457

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن کریم کی کسی ایک آیت کو بھی بغیر وضو چھونا جائز نہیں ہے، تو کسی پارہ کو چھونا بھی جائز نہیں ہے؛ البتہ اگر کسی کتاب میں قرآن بھی لکھا ہو اور اس کے علاوہ دیگر باتیں بھی ہوں، وہ دیگر باتیں قرآن سے زائد ہوں، تو بغیر وضو چھونے کی گنجائش ہے اور اگر قرآن زیادہ ہو یا صرف قرآن ہی ہو، تو چھونا جائز نہیں۔ نورانی قاعدہ میں آیات قرآنی کم ہیں؛ اس لیے اس کو بلا وضو چھونے کی گنجائش ہے۔(۲)

(۲) و یعرف بہ أن القرآن إذا کتب في کتاب و رسالۃ مخلوطا بکلام آخر لا یشترط الطھارۃ لمسہ۔ (إعلاء السنن،  لا یمسہ القرآن إلا طاہر، ج۱، ص:۲۶۹)؛ و لکن لا یحرم في غیر المصحف إلا بالمکتوب أي موضع الکتابۃ کذا في باب الحیض (ابن عابدین، ردالمحتار،سنن الغسل، ج۱، ص:۱۷۳،زکریا بک ڈپو دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص125

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بغل اور زیر ناف بال بطریق خشک یا بطریق پانی دور کرنے سے غسل لازم نہیں آتا؛ ہاں اگر بال اکھڑ جائیں، تو دھو لینا بہتر ہے۔(۱)

(۱)و ذکر الشیخ الإمام شمس الأئمۃ الحلوانيؒ: أن بنفس خروج الدبر ینتقض وضوء ہ کذا في الذخیرۃ المذي ینقض الوضوء و کذا الودي والمني إذا خرج من غیر شھوۃ بأن حمل شیئا فسبقہ المني أو سقط من مکان مرتفع یوجب الوضوء کذا في المحیط ۔۔۔ و إن خرجت من قبل المرأۃ والذکر ۔۔۔ لا ینقض کما في الصوم کذا في الظھیریۃ الخ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ،’’کتاب الطہارۃ، الباب الأول: في الوضوء، الفصل الخامس، في نواقض الوضوء‘‘ج۱، ص:۶۱)؛ ولیس في المذي والودي غسل و فیھما الوضوء لقولہ علیہ الصلوٰۃ والسلام: کل فحل یمذي و فیہ الوضوء الخ۔ (المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الطہارات، فصل في الغسل‘‘ ج۱، ص:۳۳) زیر ناف بال صاف کرنا یہ موجباتِ غسل میں سے نہیں ہے، اسی لئے حضرات فقہاء نے زیر ناف بال صاف کرنے پر نہ تو غسل کو ضروری قرار دیا ہے اور نہ ہی مسنون اور مستحب قرار دیا ہے؛ بلکہ زیر ناف بال صاف کرنے کا تعلق نظافت سے ہے، طہارت سے اس کاکوئی تعلق نہیںہے۔  و سن لصلاۃ جمعۃ ولصلاۃ عید ولأجل إحرام و عرفۃ و ندب لمجنون أفاق و عند حجامۃ و في لیلۃ برأۃ الخ۔ (ابن عابدین، الدرالمختار مع رد المحتار، ج ۱، ص:ـ۳۱۰) ؛ وعن أنس بن مالک  رضي اللّٰہ عنہ قال: وقت لنا رسول اللّٰہ ﷺ حلق العانۃ و تقلیم الأظفار و قص الشارب و نتف الإبط أربعین یوما مرۃ۔ (أخرجہ ابو داود، في سننہ، ’’باب في أخذ الشارب‘‘ج۱، ص:۳۱۸، رقم۴۲۰۰)؛والأفضل أن یقلم أظفارہ و یحفی شاربہ و یحلق عانتہ و ینظف بدنہ بالاغتسال في کل أسبوع مرۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’الباب التاسع عشر: في الختان‘‘ج ۵، ص:۴۱۳)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص312