Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:شریعت اسلامیہ میں اس کی کوئی حیثیت اور کوئی اصل نہیں ہے۔(۱)
(۱) من أحدث في الإسلام رأیا لم یکن لہ من الکتاب والسنۃ سند ظاہر أو خفي ملفوظ أو مستنبط فہو مردود۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۶، رقم: ۱۴۰)
قال الکشمیري: ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (علامہ أنور شاہ، الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص:۵۶۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص516
حدیث و سنت
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:جس عورت نے تفسیر وحدیث کی کتابیں پڑھی ہوں اس کو اپنی معلومات کے تحت وعظ ونصیحت اور مسئلہ بتلانے کا حق ہے، ازواج مطہراتؓ میں سے بعض نے مسائل بھی بتلائے ہیں(۲) اور احادیث بھی بیان کی ہیں اور یہی معمول دیگر صحابیاتؓ کا رہا ہے اور صحابہؓ نے بھی ان سے مسائل معلوم کئے ہیں اور ان سے اخذ علم کیا ہے اور وہ مسائل آج بھی معمول بہا ہیں ان کے سوا بھی قرونِ ثلاثہ کے بعد عورتوں کے علم سے مردوں نے استفادہ کیا ہے، عورتوں نے بھی علوم دینیہ کے حصول میں بہت محنت کی(۱)۔ بدائع الصنائع جس کے بارے میں علامہ شامی لکھتے ہیں کہ ہماری کتابوں میں اس کی نظیر نہیں ہے۔ صاحب بدائع جو فتوے لکھتے تھے ان کے فتووں پر ان کی لڑکی کے دستخط تصحیح کے لئے ہوتے تھے۔ اور قوم اسی کو زیادہ معتبر مانتی تھی؛ اس لئے سوال میں جو باتیں مذکورہ عالمہ کے بارے میں کہی گئی ہیں وہ غلط ہیں اور اس کی علمی استعداد وہی ہے جو سوال میں لکھی گئی ہے، تو بلا شبہ اس کو وعظ ونصیحت کرنے کا عورتوں کی مجلس میں حق ہے اور عورتوں کا اس اجتماع میں شرکت کرنا جائز ہے۔ فتویٰ میں ذاتی رائے کا استعمال کرنا (خصوصاً جب کہ وہ غلط پروپیگنڈے یا ذاتی عناد پر ہو) قطعاً جائز نہیں ہے۔ اور بغیر دلیل کے کسی کے قول کو صحیح اور معتبر نہیں مانا جاسکتا علوم دینیہ کا حصول عورتوں کے لئے ضروری ہے(۲) اگر کوئی عورت وعظ وتبلیغ کے ذریعہ سے علم دین کی اشاعت کا کام انجام دے رہی ہے، تو اس کو روکنا جائز نہیں ہے۔ (۳)
(۲) وکان النساء یبعثن إلی عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا بالدرجۃ فیہا الکرسف فیہ الصفرۃ من دم الحیض یسئلنہا عن الصلوٰۃ۔ (مؤطا إمام مالک ’’باب طہر الحائض‘‘: ص: ۲۰)
۱) إن إحدی بنات السمر قندي کانت تسمی فاطمۃ وکانت نسیج وحدہا في جمال صورتہا وسعۃ علمہا وفقہہا وکانت ثاقبۃ النظر مفرطۃ الذکاء حتی کانت تحفظ تحفۃ الفقہاء عن ظہر قلبہا۔ (أدلۃ الحنفیۃ: ج ۱، ص: ۷)
(۲) طلب العلم أي الشرعي فریضۃ أي: مفروض فرض عین علی کل مسلم أو کفایۃ والتاء للمبالغۃ أي ومسلمۃ کما في روایۃ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب العلم: الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۴، رقم: ۲۱۸)
(۳) المؤمنون والمؤمنات بعضہم أولیاء بعض، یوید بعضہم بعضا في طاعۃ اللّٰہ وإعلاء دینہ یأ مرون بالمعروف بالإیمان والطاعۃ وینہون عن المنکر عن الشرک والنفاق ومعصیۃ الرسول واتباع الشہوات۔ (محمد ثناء اللّٰہ پاني پتي، تفسیر المظہري، ’’سورۃ التوبہ: ۷۱‘‘: ج ۴، ص: ۲۴۲)
-------------
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص322
طلاق و تفریق
Ref. No. 2662/45-4190
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ طلاق دیدو کے جواب میں ٹھیک ہے کہنے کا مطلب ہے کہ میں اس سلسلہ میں سوچوں گا ، یا دیدوں گا۔ طلاق دینے کے لئے صریح طور پر اپنی بیوی کی جانب نسبت کرکے طلاق کے الفاظ بولے جاتے ہیں۔ اس لئے آپ کسی وہم اور وسوسہ کے شکار نہ ہوں، آپ کی بیوی آپ کے نکاح میں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جو عضو خشک رہ گیا ہے، اس کو دھو لینا کافی ہے؛ لیکن عمداً ایسا نہ کیا جائے کہ ایک عضو کو دھونے کے بعد دوسرے عضو کو دھونے میں تاخیر ہو۔(۱)
(۱)والترتیب والولاء بکسر الواو۔ المراد جفاف العضو حقیقۃ أو مقدارہ و حینئذ فیتجہ ذکر المسح فلو مکث بین مسح الجبیرۃ أو الرأس و بین مابعدہ بمقدار ما یجف فیہ عضو مغسول کان تارکا للولاء۔ (ابن عابدین، ردالمحتار، کتاب الطہارۃ، مطلب في تصریف قولھم معزیاً،ج۱،ص:۲۴۵، زکریا بک ڈپو دیوبند)، و إن غسل بعض أعضائہ و ترک البعض حتی جف ما قد غسل أجزأہ لأن الموالاۃ سنۃ عندنا۔ (ابوبکر محمد بن أحمد السرخسي، کتاب المبسوط، کتاب الطہارۃ، باب الوضوء والغسل، ج۱، ص:۱۷۰، بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص124
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:بشرط صحت سوال اس صورت میں اگر شرمگاہ سے پانی نکلا ہو، تو وضو واجب ہے اور اگر صرف محسوس ہوا اور کچھ بھی نکلا نہیں، تو وضو واجب نہیں، آپ کا وضو باقی ہے؛ البتہ وضو کرلینا بہتر ہے۔ منی نکلنے کی صورت میں ہی غسل واجب ہوتا ہے۔ اس لیے آپ پر غسل واجب نہیں ہے۔ وسوسہ کا شکار نہ ہوں۔(۱)
(۱) و أما رطوبۃ الفرج الخارج فطاھرۃ اتفاقاً، و في منھاج الإمام النووي: رطوبۃ الفرج لیست بنجسۃ في الأصح: و قال ابن حجر في شرحہ: وھي ماء البیض متردد بین المذي والعرق یخرج من باطن الفرج الذي لا یجب غسلہ الخ۔ (ابن عابدین، ردالمحتار علی الدر، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس‘‘ج۱، ص:۵۱۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص311
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر تحریر کردہ سوالات صحیح ہیں، تو مذکورہ امام کو جب کہ قرآن صحیح نہیں پڑھتا امامت سے الگ کر دیا جائے، اس کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے، کسی صحیح پڑھنے والے اور متدین کو جو کہ جھگڑا لو نہ ہو امام مقرر کر لیں(۱) مذکورہ صورت میں اس کی طرف داری کرنے والے غلطی پر ہیں، اگر یہ شرعی مسجد ہے، تو بلڈنگ وسوسائٹی کے لوگوں کا نمازیوں کو روکنا اور حقارت کی نظر سے دیکھنا جائز نہیں ہے اور اگر یہ صرف جماعت خانہ ہے، تو اہل محلہ کو مسجد کی تعمیر کی کوشش کرنی چاہئے۔
(۱) والأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلاۃ ثم الأحسن تلاوۃ للقراء ۃ …ثم الأورع ثم الأسن۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۴، زکریا دیوبند)
ولو أم قوماً وہم لہ کارہون، إن الکراہۃ لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ منہ کرہ لہ ذلک تحریماً۔ (أیضاً: ص: ۲۹۷، زکریا دیوبند)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص210
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2743/45-4280
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عبادات میں اصل یہ ہے کہ انہیں جلد از جلد ادا کیا جائے، البتہ کسی خاص صورت حال میں شریعت نے تاخیر کی اجازت دی ہے تو اس میں تاخیر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ صورتِ مسئولہ میں گرمی کے موسم میں ظہر کی نماز میں تاخیر اس لیے افضل ہے کہ ظہر کا اول وقت عمومًا شدیدگرمی کا ہوتا ہے جس میں بہت ممکن ہے کہ جماعت میں شرکت کرنے والوں کی تعداد کم ہو؛ لہذا جماعت میں زیادہ لوگوں کی شرکت کے پیشِ نظر گرمی کے دنوں میں ظہر میں تاخیر کرنا افضل ہے۔ سردی کے موسم میں چوں کہ ظہر کے اول وقت میں ایسی گرمی نہیں ہوتی جو تقلیل جماعت کا سبب بنے ؛ لہذا ان مواقع پر تاخیر کرنا افضل نہیں ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ گرمیوں میں ظہر کی نماز میں تاخیر مستحب ہے اور سردیوں میں ظہر کی نماز میں تعجیل مستحب ہے۔
"ويستحب تأخير الظهر في الصيف وتعجيله في الشتاء. هكذا في الكافي سواء كان يصلي الظهر وحده أو بجماعة." (الھندیۃ كتاب الصلاة، الباب الأول في مواقيت الصلاة، الفصل الثالث في بيان الأوقات التي لا تجوز فيها الصلاة وتكره فيها، 52/1، ط: رشيدية)
"و تعقبهم الأتقاني في غاية البيان بأنه سهو منهم بتصريح أئمتنا باستحباب تأخير بعض الصلوات بلا اشتراط جماعة.
و أجاب في السراج بأن تصريحهم محمول على ما إذا تضمن التأخير فضيلة وإلا لم يكن له فائدة، فلا يكون مستحبا، وانتصر في البحر للأتقاني بما فيه نظر كما أوضحناه فيما علقناه عليه. والذي يؤيد كلام الشراح أن ما ذكره أئمتنا من استحباب الإسفار بالفجر والإبراد بظهر الصيف معلل بأن فيه تكثير الجماعة وتأخير العصر لاتساع وقت النوافل وتأخير العشاء لما فيه من قطع السمر المنهي عنه، وكل هذه العلل مفقودة في حق المسافر؛ لأنه في الغالب يصلي منفردا، ولا يتنفل بعد العصر، ويباح له السمر بعد العشاء كما سيأتي، فكان التعجيل في حقه أفضل وقولهم كتكثير الجماعة مثال للفضيلة لا حصر فيها." (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) 1 / 249)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2763/45-4307
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔اشراق باب افعال کا مصدر ہے اشرقت الشمس کے معنی آتے ہیں آفتات کا طلوع ہونا۔چاشت عربی لفظ نہیں ہے بلکہ عربی میں اس کے لیے ضحی کا لفظ آتاہے جس کے معنی چاشت کا وقت ہے ۔جو نماز طلوع آفتاب سے زوال آفتاب کے درمیان اداکی جائے اسے صلوۃضحیٰ کہتے ہیں ہم اسے نماز چاشت یا شراق بھی کہتے ہیں اس کا ایک نام صلوٰۃ الاوابین بھی ہے۔اشراق اور چاشت یہ دونوں مختلف نمازیں ہیں او ر دونوں احادیث سے ثابت ہیں تاہم اشراق کی نماز کے لیے حدیث میں کوئی مستقل نام نہیں ذکر کیا گیا ہےجب کہ چاشت کے لیے صلاۃ الضحی کا لفظ آحادیث میں مذکور ہے ۔ ان دونوں نمازوں میں ابتداءِ وقت اور انتہاءِ وقت کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں؛ کیوں کہ دونوں کا ابتدائی اور انتہائی وقت ایک ہی ہے یعنی سورج نکلنے کے کم از کم دس منٹ بعد سے زوال تک، البتہ اشراق کی نماز اول وقت میں پڑھنا افضل ہے جب کہ چاشت کا افضل وقت چوتھائی دن گزرنے کے بعد ہے، جب سورج گرم ہوجاتاہے۔بعض علما طلوع آفتاب کے بعد صرف ایک نماز مانتے ہیں، یعنی: نماز چاشت ، وہ نماز اشراق نہیں مانتے۔ اور جو حضرات دو نمازیں (نماز اشراق اور نماز چاشت) مانتے ہیں، احادیث سے ان کے قول کی بھی تائید ہوتی ہے۔
(قال العلامة سراج أحمد في شرح الترمذي لہ: إن المتعارف في أول النہار صلاتان الأولی بعد طلوع الشمس وارتفاعہا قدر رمحٍ أو رمحین والثانیة عند ارتفاع الشمس قدر رمح النہار إلی ما قبل الزوال ویقال لہا صلاة الضحی واسم الضحی في کثیر من الأحادیث شامل لکلیہما، وقد ورد في بعضہا النظر الإشراق أیضًا (إعلاء السنن: ۷/۳۰) عاصم بن ضمرة السلولي، قال: سألنا عليًّا، عن تطوع رسول الله صلى الله عليه وسلم بالنهار فقال: إنكم لاتطيقونه، فقلنا: أخبرنا به نأخذ منه ما استطعنا، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم «إذا صلى الفجر يمهل، حتى إذا كانت الشمس من هاهنا - يعني من قبل المشرق - بمقدارها من صلاة العصر من هاهنا - يعني من قبل المغرب - قام فصلى ركعتين، ثم يمهل حتى إذا كانت الشمس من هاهنا، - يعني من قبل المشرق - مقدارها من صلاة الظهر من هاهنا قام فصلى أربعًا"سنن ابن ماجه (1/ 367):۔ قال العلامة سراج أحمد في شرح الترمذي لہ: إن المتعارف في أول النہار صلاتان الأولی بعد طلوع الشمس وارتفاعہا قدر رمحٍ أو رمحین والثانیة عند ارتفاع الشمس قدر رمح النہار إلی ما قبل الزوال ویقال لہا صلاة الضحی واسم الضحی في کثیر من الأحادیث شامل لکلیہما، وقد ورد في بعضہا النظر الإشراق أیضًا(إعلاء السنن: ۷/۳۰
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورۃ مسئول عنہا میں اگر ترک واجب سے نماز کا اعادہ کیا گیا اور اس اعادہ والی نماز میں اگر کوئی دوسرا مقتدی شامل ہو گیا، تو اس کی فرض نماز ادا نہیں ہوئی؛ اس لیے کہ یہ اعادہ والی نماز نفل ہے۔ قول اصح کی بناء پر اور اگر شامل ہونے والے مقتدی کو اس مسئلہ کا علم نہیں ہے، تو اس کی نماز ہو جائے گی۔ امام کو چاہئے کہ نماز میں جو خرابی آئی نقصان ہوا ہے اس کو مقتدیوں کے سامنے ظاہر کر دے۔(۱)
’’وکذا کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم تجب إعادتہا، والمختار أنہ جابر للأول۔ لأن الفرض لا یتکرر، وقال الشامي‘‘ (والمختار أنہ) ’’أي الفعل الثاني جابر للأول بمنزلۃ الجبر بسجود السہو، و بالأول یخرج عن العہدۃ وإن کان علی وجہ الکراہۃ علی الأصح، کذا في شرح الأکمل علی أصول البزدوي الخ‘‘(۲)
(۱) والمختار أن المعادۃ لترک واجب نفل جابر، والفرض سقط بالأولیٰ لأن الفرض لا یتکرر کما في الدر وغیرہ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان واجب الصلاۃ‘‘: ص: ۲۴۸، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)
(۲) الحصکفي، الدر المختار علی رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم تجب إعادتہا‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۸،زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص38