نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1979/44-1921

بسم اللہ الرحمن الرحیم:   وہ کپڑے جن پر عربی کے مقدس کلمات لکھے  ہوئےہوں،  ان کو استعمال کرنے سے ان کلمات کی بے حرمتی ہوتی ہے، اس لئے ان کو پہننا مناسب نہیں ہے۔

جائے نماز پر پھولوں سے نقش و نگار بنایاجاتاہے ، اگر بہت غور سے دیکھاجائے تو بعض مرتبہ ایسا محسوس ہوتاہے کہ کسی جاندار کی تصویر ہے، حالانکہ وہ حقیقت میں تصویر نہیں  ہوتی ہے، اس لئے اس پر شبہہ نہ کیاجائے ، ان پر نماز درست ہوجاتی ہے۔  البتہ اگر ہر ایک کو اس پر جاندار کی  یا کسی دیوی وغیرہ کی تصویر  صاف نظر آتی ہو تو پھر  تصاویر محرمہ کے زمرے میں ہونے کی وجہ سے اس پر نماز درست  نہیں ہوگی۔ اور اس جائے نماز کو مسجد میں  بچھانا  بھی جائز نہیں ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

تجارت و ملازمت

Ref. No. 2054/44-2139

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس مقصد کے لئے چھٹی لی گئی ہے اگر اس میں کوئی کوتاہی نہ ہو تو پرائیویٹ نوکری کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:کراما کاتبین انسانوں کے اعمال لکھنے والے فرشتے  ہیں، قرآن میں ہے (تم پر نگہبان فرشتے مقرر ہیں۔ (جو) بہت معزز ہیں، (تمہارے اعمال نامے) لکھنے والے ہیں۔ وہ ان (تمام کاموں) کو جانتے ہیں جو تم کرتے ہو)۔
حضرت ابن جریج رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’کراماً کاتبین دو فرشتے ہیں ان میں سے ایک اس (انسان) کے دائیں طرف ہوتا ہے جو نیکیاں تحریر کرتا ہے اور ایک اس کے بائیں طرف ہوتا ہے جو برائیاں لکھتا ہے۔(۱)

(۱) قولہ تعالیٰ: {وَإِنَّ عَلَیْکُمْ لَحٰفِظِیْنَ ہلا ۱۰ کِرَامًا کَاتِبِیْنَ ہلا ۱۱ یَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ ہ۱۲} یعني وإن علیکم ملائکۃ حفظۃ کراماً فلا تقابلو ہم بالقبائح، فإنہم یکتبون علیکم جمیع أعمالکم۔ ……
عن مجاہد عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أکرموا الکرام الکاتبین الذین لا یفارقونکم إلا عند إحدی حالتین الجنابۃ، والغائط۔ وروایۃ آخر: لایفارقونکم إلا عند إحدی ثلاث حالات: الغائط والجنابۃ، والغسل۔ (ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’سورۃ الإنفطار: ۱۲‘‘: ج ۴، ص: ۴۱۷)
(۲) عن ابن جریج رحمہ اللّٰہ تعالیٰ، قال: ملکان أحدہما عن یمینہ یکتب الحسنات وملک عن یسارہ یکتب السیئات فالذي عن یمینہ یکتب بغیر شہادۃ من صاحبہ، والذي عن یسارہ لا یکتب إلا عن شہادۃ صاحبہ إلخ۔ (أبو محمد عبد اللّٰہ الأصبہاني، العظمۃ: ج ۳، ص: ۹۹۹، رقم: ۵۱۹)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص253

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ماہ محرم میں بھی شادی ونکاح وغیرہ سارے کام کرنا جائز ہیں، اس کو برا سمجھنا یا بد فال سمجھنا بالکل غلط ہے؛ ایسا عقیدہ خلاف شریعت اور واجب الترک ہے۔(۳)

(۳) عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال:…  لا عدوي ولا ہامۃ ولانوء ولا صفر۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب السلام: باب لا عدوي ولا طہري لا ہامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۳۱)
اللہم لا طیر إلا طیرک ولا خیر إلا خیرک ولا رب لنا غیرک۔ (مصنف ابن أبي شیبہ، ’’باب من رخص في الطیرۃ‘‘: ج ۵، ص: ۳۱۲، رقم: ۲۶۴۱۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص460


 

Miscellaneous

Ref. No. 2436/45-3686

In the name of Allah the most Gracious the most merciful

The answer to your question is as follows:

The relation between husband and wife is a precious gift of Allah. For a successful married life, mutual relationship and respect of each other is necessary and they are obliged to fulfill each other's rights. A Muslim is bound by the commandments of Allah and the Messenger of Allah in all the circumstances. Disagreement between husband and wife is not a new thing, but managing it and maintaining this relationship for a lifetime by tolerating each other is socially good and fruitful in the hereafter as well.

After a few months of marriage, the second blessing of Allah has been received, hopefully the present pregnancy will strengthen the mutual love and affection of both of you, and lay the foundation of a new life. Therefore, both of you must abstain from the sin of abortion and be in love with each other, and at present you both must pay attention to the coming child.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق: آپ کے سوالات کا جواب اس اصول کے سمجھنے پر موقوف ہے کہ انقلابِ حقیقت و ماہیت سے کیا مرادہے؟ اس بارے میں عرض ہے کہ انقلابِ حقیقت سے مراد یہ ہے کہ وہ چیز فی نفسہٖ اپنی حقیقت کو چھوڑ کر کسی دوسری حقیقت میں تبدیل ہوجائے، مثلاً شراب سرکہ بن جائے یا خون مشک بن جائے یا نطفہ گوشت کا لوتھڑا بن جائے کہ ان تمام صورتوں میں شراب، خون اور نطفے نے اپنی اصل حقیقت چھوڑ دی اور دوسری حقیقتوں میں تبدیل ہوگئے۔ واضح رہے کہ ماہیت و حقیقت بدل جانے کا حکم اسی وقت لگایا جائے گا جب پہلی حقیقت کے مخصوص آثار اس میں باقی نہ رہیں، جیسے خون کے مشک میں تبدیل ہوجانے سے خون کے مخصوص آثار بالکل زائل ہوجاتے ہیں۔ بعض آثار کا زائل ہوجانا یا قلیل ہونے کی وجہ سے محسوس نہ ہونا تبدیلِ حقیقت کو ثابت نہیں کرتا، جیسا کہ آپ نے سوالِ مذکور میںفقہاء کی یہ تصریح ذکر کی ہے کہ اگر آٹے میں کچھ شراب ملا کر گوندھ لیا جائے اور روٹی پکالی جائے تو روٹی ناپاک ہے۔ رد المحتار، ج۱، ص:۵۱۹، ۵۲۰ میں ہے ’’قلت: لکن قد یقال: إن الدّبس لیس فیہ انقلاب حقیقۃ؛ لأنہ عصیر جمد بالطبخ و کذا السمسم إذا درس واختلط دھنہ بأجزاء، ففیہ تغیّر وصف فقط، کلبن صار جبناً و برّ صار طحیناً، و طحین صار خبزاً بخلاف نحو خمر صار خلاًّ‘‘ اور وجہ اس کی یہ ہے کہ شراب نے اس صورت میں فی نفسہ اپنی حقیقت نہیں چھوڑی ہے بلکہ اجزاء کے قلیل ہونے کی وجہ سے وہ محسوس نہیں ہورہی ؛ کیوںکہ آٹے کے مقابلے میں شراب کے اجزاء کم تھے، پس یہ انقلابِ حقیقت نہیں ہے؛ بلکہ اختلاط ہے۔ اسی طرح حقیقتِ منقلبہ کے بعض غیرمخصوص آثار کا باقی رہ جانا، انقلابِ ماہیت سے مانع نہیں، جیسا کہ شراب کے سرکہ بن جانے کے وقت بھی اس کی رقت باقی رہتی ہے۔تو چوںکہ رقت، شراب کے ساتھ مخصوص نہیں ہے، اس لیے اس کا باقی رہ جانا انقلابِ حقیقت سے مانع نہیں  خلاصہ یہ ہے کہ انقلابِ ماہیت سے مراد یہ ہے کہ ایک شیٔ دوسری شیٔ میں اس طرح تبدیل ہوجائے کہ پہلی چیز کے مخصوص آثار و کیفیات میں سے کچھ باقی نہ رہے، بعض کیفیاتِ غیرمخصوصہ کا باقی رہ جانا تبدیلیٔ ماہیت سے مانع نہیں۔رہا صابون میں خنزیر کی چربی کا مسئلہ تو عرض ہے کہ صابون بن جانے کے بعد تبدیلی ماہیت کی وجہ سے وہ پاک ہوجاتی ہے اور اس کا استعمال جائز ہوگا:’’و یطھر زیت تنجس بجعلہ صابوناً، بہ یفتی للبلوی کتنور رش بماء نجس لا بأس بالخبز فیہ۔(۱)
جُعل الدھن النجس فی صابون، یفتی بطھارتہ؛ لأنہ تغیر، والتغیر یطھر عند محمد رحمہ اللہ و یفتی بہ للبلوی۔ (۲)
(۱) ابن عابدین، الدرالمختار مع رد المحتار، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، ج۱، ص:۵۱۹

(۲)ایضاً:

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص454

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:وضو خروج نجاست سے ٹوٹتا ہے اور وضو کی حالت میں موذی جانور کو مار نے سے وضو پر اثر نہیں پڑے گا(۱) نیز خون نجاستِ غلیظہ ہے اگر ہاتھوں یاجسم کے کسی حصے پر لگ جائے، تو اس کو دھو لیا جائے۔(۲)

(۱) قولہ لا ینقض الوضوء أي لعدم الخروج (ابن عابدین، ردالمحتار،’’کتاب الطھارۃ‘‘ ج۱، ص:۱۴۹)
(۲) في رقیق من مغلظۃ کعذرۃ، و دم مسفوح من سائر الحیوانات۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع ردالمحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، قبیل: مطلب في طہارۃ بولہ،‘‘ ج۱، ص:۲۲-۲۴)،… و وزناً بقدر مثقال في الکثیف من نجس مغلظ کالدم‘‘ (ابراہیم بن محمد، ملتقی الأبحر مع مجمع الأنہر، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس،‘‘ ج۱، ص:۹۳، بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)، النوع الأول: المغلظۃ ۔۔۔ و کذلک الخمر والدم المسفوح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل الثاني في الأعیان النجسۃ، النوع الأول: المغلظۃ،‘‘ ج۱،ص:۱۰۰)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص216

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق:اگر وہ موچی ہے اور نماز پڑھانی جانتا ہے اور قرآن پاک صحیح پڑھتا ہے تو اس کے پیچھے سب کی نماز درست ہوگی۔(۱)
مسجد محلہ جس میں کہ امام مقرر ہو محلہ کے اکثر نمازی اسی میں نماز پڑھتے ہوں تو مفتی بہ قول کی رو سے جماعت ثانیہ اس میں مکروہ ہوگی۔(۲)

(۱) والأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلوۃ فقط صحۃ وفسادًا بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ۔ وحفظہ قدر فرض ثم الأحسن تلاوۃ وتجویدًا للقراء ۃ ثم الأورع ثم الأسن ثم الأحسن، الخ۔ (الحصکفي، الدر المختار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)
والأحق بالإمامۃ تقدیمًا بل نصبًا۔ مجمع الأنہر۔ الأعلم بأحکام الصلاۃ فقط صحۃ وفسادًا بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ، وحفظہ قدر فرض، وقیل واجب، وقیل: سنۃ ثم الأحسن تلاوۃ وتجویدًا للقراء ۃ، ثم الأروع أي: الأکثر اتقاء للشبہات۔ (ابن عابدین، رد المحتار) (أیضًا:)
(۲) ویکرہ تکرار الجماعۃ بأذان وإقامۃ في مسجد محلۃ لافي مسجد طریق أو مسجد لا إمام لہ ولا مؤذن، قولہ: ویکرہ أي تحریمًا؛ لقول الکافي: لایجوز، والمجمع: لایباح، وشرح الجامع الصغیر: إنہ بدعۃ، کما في رسالۃ السندي، (قولہ: بأذان وإقامۃ الخ)۔۔۔۔ والمراد بمسجد المحلۃ مالہ إمام وجماعۃ معلومون، کما في الدرر وغیرہا۔ قال في المنبع: والتقیید بالمسجد المختص بالمحلۃ احتراز من الشارع، وبالأذان الثاني احتراز عما إذا صلی في مسجد المحلۃ جماعۃ بغیر أذان حیث یباح إجماعًا۔ ۱ہـ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: (أیضًا: ص: ۲۸۸)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص74

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق:  اگر مذکورہ اشخاص کی کمائی پوری کی پوری حرام ہو، کمائی کا کوئی جائز طریقہ موجود ہی نہ ہو تو ایسی صورت میں مذکورہ اشخاص کے ساتھ کھانا پینا وغیرہ درست نہیں ہے اور اگر کوئی جائز کمائی بھی ہو تو کھانے پینے کی گنجائش ہے؛ اسی اعتبار سے امام صاحب کو بھی عمل کرنا چاہئے اس کے خلاف عمل کرنا درست نہیں اگر اس کے خلاف عمل ہو تو امامت میں بھی کراہت ہے۔ (۱)

(۱) آکل الربا وکاسب الحرام أہدی إلیہ أو أضافہ وغالب مالہ حرام، لایقبل ولایأکل مالم یخبرہ أن ذلک المال أصلہ حلال ورثہ أو استقرضہ، وإن کان غالب مالہ حلالا  لابأس بقبول ہدیتہ والأکل منہا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ، الباب الثاني عشر في الہدایا والضیافات‘‘: ج۵، ص: ۳۹۷، زکریا، دیوبند)
کرہ إمامۃ الفاسق العالم لعدم اہتمامہ بالدین فتجب إہانتہ شرعًا فلایعظم بتقدیمہ للإمامۃ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ، فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳، شیخ الہند، دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص200

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: امامت عبادت ہے اور عبادت پر اجرت فقہاء مقتدمین کے نزدیک ناجائز ہے؛ اس لیے کہ طاعت پر اجرت لینا درست نہیں ہے، لیکن حضرات متاخرین نے طاعت پر اجرت کو ضرورتاً جائز قرار دیا ہے، کیوں کہ پہلے بیت المال سے دینی خدمت گاروں کو وظیفہ دیا جاتا تھا، اب بیت المال اور اوقاف کے نظام ختم ہو جانے کی وجہ سے وظیفہ نہیں دیا جاتا ہے اب اگر دینی خدمت گاروں کو تنخواہ نہیں دی گئی تو جمعہ وجماعت کا نظام متاثر ہو جائے گا، اس لیے امام کی تنخواہ مقرر کرنا درست ہے، دین کی بقاء اور آبیاری اس سے ہوتی ہے، اس سلسلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور تنخواہ لینے کی وجہ ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوتی ہے۔
’’إن المتقدمین منعوا أخذ الأجرۃ علی الطاعات وأفتی المتأخرون بجواز التعلیم والإمامۃ کان مذہب المتأخرین ہو المفتی بہ‘‘(۱)
’’ویفتی الیوم بصحتہا أي الإجارۃ علی تعلیم القرآن والفقہ والإمامۃ والأذان‘‘(۲)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الوقف: مطلب في استحقاق القاضي والمدرس الوظیفۃ في یوم البطالۃ‘‘: ج۶، ص:۵۶۸۔

(۲) أیضًا:۔

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص288