Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 1014/41-168

 In the name of Allah the most gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Tawaf al-Wida (Farewell Tawaf) is performed by the pilgrims just before leaving Makkah after completing the Hajj.  It is the final rite that is performed in Makkah prior to moving on to the next destination. Doing tawaf-e-Wida is wajib for an Afaqi. The time of Tawaf-e-Widaa begins just after Tawaf-e-Ziyarat. If a person performed any tawaf after tawaf-e-ziayarat that will suffice from Tawaf-e-Widaa. However, if a person leaves Tawaf-e-Widaa completely, then Dum (slaughtering) becomes obligatory on him which is to be sacrificed in the premises of the holy Haram. If he is not there, he can send money to a person who will pay the Dum on his behalf. In the case you mention, your wife is Halal for you.

And Allah knows best

Darul ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

نکاح و شادی

Ref. No. 955/41-102 B

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  جہاں مال اور دولت ہوتی ہے، چور اور ڈاکو اسی جگہ حملہ کرتے ہیں۔ زید کے پاس ایمان کی دولت ہے اور شیطان اس پر حملہ کرکے اس دولت کو چھیننا چاہتا ہے، زید نے لاحول ولا قوۃ الا باللہ پڑھ کر شیطان کو نامراد و ناکام واپس کردیا ہے ۔ ایسے وساوس ایمان کی علامت ہیں۔ ان سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑا، نکاح بدستور باقی ہے۔ کوئی پریشانی کی بات نہیں۔

عن ابی هريرة قال: جاء ناس من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم الی النبی ﷺ فسألوه: إنا نجد في أنفسنا ما يتعاظم أحدنا أن يتكلم به. قال: " وقد وجدتموه؟ " قالوا: نعم، قال: " ذاك صريح الإيمان " (مشکوۃ ص87 باب الوسوسۃ)۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1061/41-246

الجواب وباللہ التوفیق     

بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔  اگر سجدہ میں دشواری ہو تو بیٹھ کر نماز پڑھ سکتے ہیں. 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Miscellaneous

Ref. No. 1158/42-394

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ وراثت کے لئے ہم وطن ہونے کی شرط نہیں ہے۔ وارث دنیا کے کسی بھی حصہ میں ہوگا ، اس کو وراثت میں حصہ ملے گا۔  اس لئے آپ کے والد کا وراثت میں حصہ ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 1518/42-1003

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  صرف ہمم کہنے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ یہ لفظ  طلاق کے لئے صریح ہے نہ کنایہ۔  طلاق کے لئے لفظ کا صریح ہونا یا کنایہ کے طورپر استعمال ہونا ممکن ہو تو اس سے نیت کے ساتھ طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ اس میں بیوی کی جانب طلاق کی نسبت کی بھی کوئی شکل نہیں ہے۔ اس طرح کے وسوسوں کو دل میں جگہ نہ دیں، اور اس طرح کے خیال آنے پر خود کو کسی کام میں مصروف کرلیں تاآنکہ وسوسہ جاتارہے۔

أن الصريح لا يحتاج إلى النية، ولكن لا بد في وقوعه قضاء وديانة من قصد إضافة لفظ الطلاق إليها عالما بمعناه (شامی، باب صریح الطلاق 3/250) وليس لفظ اليمين كذا إذا لا يصح بأن يخاطبها بأنت يمين فضلا عن إرادة إنشاء الطلاق به أو الإخبار بأنه أوقعه حتى لو قال أنت يمين لأني طلقتك لا يصح فليس كل ما احتمل الطلاق من كنايته بل بهذين القيدين ولا بد من ثالث هو كون اللفظ مسببا عن الطلاق وناشئا عنه كالحرمة في أنت حرام ونقل في البحر عدم الوقوع، بلا أحبك لا أشتهيك لا رغبة لي فيك وإن نوى. (شامی، باب الکنایات 3/296)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایمان عربی لفظ ہے، امن سے مشتق ہے امن کسی خوف سے محفوظ ہوجانے، دل کے مطمئن ہوجانے اور انسان کے خیر و عافیت سے ہمکنار ہونے کو کہا جاتا ہے(۲) اور کسی پر ایمان لانے سے مراد دل سے اس کی تصدیق کرنا اور اس پر یقین رکھنا ہے عقیدہ، عقد سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں گرہ باندھنا۔ عقیدہ سے مراد کسی شیٔ کو حق اور سچ جان کر ایسی تصدیق کرنا کہ جس میں شک کی کوئی گنجائش نہ ہو، عقیدہ کو ایمان کے مفہوم میں بھی استعمال کیا جاتا ہے اس وقت معنی ہوں گے ان حقائق کی بلا شک و شبہ تصدیق کرنا ہے جن کی تعلیم اللہ تبارک و تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے ہمیں عطا فرمائی ہے۔ نیز کسی چیز پر ایمان لانا وہی عقیدہ ہے۔

’’وہو التصدیق الذي معہ أمن وطمانینۃ لغۃ، وفي الشرع تصدیق القلب بما جاء من عند الرب فکأن المؤمن یجعل بہ نفسہ آمنۃ من العذاب في الدارین، أو من التکذیب والمخالفۃ وہو إفعال من الأمن یقال آمنت وآمنت غیري، ثم یقال: آمنہ إذا صدقہ۔(۱) العقیدۃ: بفتح العین جمع عقائد ما عقد علیہ القلب واطمأن إلیہ‘‘ أرکان العقیدۃ: الإیمان باللّٰہ وملائکتہ وکتبہ ورسلہ والیوم الآخر والقضاء والقدر‘‘۔(۲)

(۱) ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۵۔

(۲) محمد رواس، حامدصادق، معجم لغۃ الفقہاء، ’’حرف العین‘‘: ج۱، ص: ۳۱۸۔

(۳) سورۃ النساء: ۷۹

نکاح و شادی

Ref. No. 2086/44-2087

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جھوٹی قسم کھانا یا غیراللہ کی قسم کھانا گناہ ہے، تاہم اس سے قسم کھانے والے کے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، نکاح بدستور باقی ہے۔ شوہر کو چاہئے کہ توبہ واستغفار کرے، اور آئندہ اس طرح کی قسم کھانے سے احتراز کرے۔

من کان حالفاً فلیحلف بالله أو لیصمت (بخاری ومسلم) "عن ابن عمر رضي الله عنه قال : قال رسول الله ﷺ :  من حلف بغیر الله فقد أشرک".( الترمذی)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

 

اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مشہور چار فرشتے یہ ہیں حضرت جبرئیل، حضرت میکائیل، حضرت اسرافیل، حضرت عزرائیل، ہمیں ان فرشتوں کے تمام کاموں کا تو علم نہیں البتہ اللہ تعالیٰ نے جن کاموں کی صراحت قرآن وحدیث میں کی ہے اس کا مختصر تذکرہ یہاں کیا جاتاہے۔ حضرت جبرئیل: آپ کو روح القدس اور روح الامین بھی کہا جاتاہے، قرآن کریم میں اللہ تعالی نے متعدد مقامات پر حضرت جبرئیل کی تعریف و توصیف بیان فرمائی ہے: {إِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍہلا۱۹ ذِيْ قُوَّۃٍ عِنْدَ ذِی الْعَرْشِ مَکِیْنٍہلا ۲۰ مُّطَاعٍ ثَمَّ أَمِیْنٍہط۲۱}(۱) بے شک یہ قرآن ایک معزز فرشتے کا لایا ہوا کلام ہے ،قوت والا ہے اور عرش والے کے پاس بڑے مرتبے والا ہے ،وہاں وہ سردار اور امانت دار ہے۔ ان کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ نبی اور رسول تک اللہ تعالی کا پیغام پہچاتے ہیں ،یہ بندوں اور رب کے درمیان واسطہ بنتے ہیں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: {وَإِنَّہٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَہط۱۹۲ نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْأَمِیْنُہلا ۱۹۳عَلٰی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَہلا ۱۹۴بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِیْنٍ ہط۱۹۵}(۲) اور بے شک یہ قرآن پروردگار کا نازل کیا ہوا ہے ، اس کو تمہارے دل پر روح الامین نے صاف عربی زبان میں نازل کیا ہے تاکہ تم ڈرانے والوں میں سے ہو جاؤ۔ واقعہ معراج جس کی تفصیل مشہور ہے اس سفر کا آغاز مسجد حرام سے اور اختتام ملأ اعلی میں سدرۃ المنتہی پر ہوا تھا اس سفر میں آپ کے رفیق حضرت جبرئیل ہی تھے انہی کی معیت میں سفر کا زیادہ حصہ طے ہوا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرئیل کو دو مرتبہ اصلی صورت میں دیکھا تھا ایک مرتبہ بعثت کے ابتدائی دور میں اور دوسری مرتبہ معراج کی رات سدرۃ المنتہی کے پاس۔ حضرت میکائیل: حضرت میکائیل کے ذمہ بارش اور روزی پہچانے کا کام ہے ان کا شمار بھی مقرب فرشتوں میں ہوتا ہے، ان کے ساتھ بہت سے مدد گار فرشتے ہیں جو بارش اور ہواؤں کو اللہ تعالی کے حکم سے مختلف سمتوں میں لے جاتے ہیں علامہ ابن کثیر نے حضرت میکائیل کے متعلق لکھا ہے: اور میکائیل علیہ السلام بارش اور اگنے والی چیزوں پر مقرر ہیں جن دونوں سے رزق پیدا ہوتا ہے اور حضرت میکائیل کے مددگار ہیں جو اللہ کے حکم سے حضرت میکائیل کی رہنمائی میں کام کرتے ہیں مثلا ہواؤں کا رخ بدلتے ہیں ، اسی طرح بادلوں کا بھی رخ بدلتے ہیں اپنے رب کی مرضی کے مطابق اور یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ آسمان سے بارش کا کوئی قطرہ نہیں گرتا ہے مگر اس کے ساتھ ایک فرشتہ ہوتا ہے جو زمین میں مقررہ جگہ تک اس کو پہچادیتا ہے۔(۱) حضرت اسرافیل: حضرت اسرافیل کی ذمہ داری صور پھونکناہے ، یہ ایک بار قیامت کے قریب اللہ کے حکم سے صور پھونکیں گے تو سب لوگ ہلاک ہو جائیں گے، پھر دوبارہ پھپونکیں گے تو سب لوگ زند ہ ہو جائیں گے اور میدان حشر کی طرف دوڑیں گے جہاں ان کے اعمال کا حساب ہوگا۔قرآن کریم میں نفخ صور (صور پھونکنے) کا تذکرہ ہے البتہ حضرت اسرافیل علیہ السلام کا نام کہیں نہیں آیا ہے ہاں حدیث میں ان کے نام کی صراحت ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حضرت اسرافیل علیہ السلام جب سے صور پھونکنے پر مقرر ہوئے ہیں تب سے تیار ہیں، عرش کے ارد گرد اس خوف سے نظر کر رہے ہیں کہ نظر جھپکنے سے پہلے حکم نہ دے دیا جائے اس کی دونوں آنکھیں گویا چمکدار ستارے ہیں(۲) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی فرشتہ کے بارے میں فرماتے تھے میں کیسے خوش رہ سکتا ہوں جبکہ سینگ والا اپنا صور منہ میں رکھے ہوئے ہیں اوراپنی پیشانی جھکائے ہوئے ہیں اور منتظر ہیں کہ کب حکم ملے کہ صور پھونک دوں صحابہؓ نے عرض کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کیا کہنا چاہئے آپ نے فرمایا یوں کہو ’’حسبنا اللہ و نعم الوکیل علی اللہ توکلنا‘‘(۱) حضرت عزرائیل: موت یعنی روح قبض کرنے کا کام ان کے سپرد ہے ، قرآن کریم میں ملک الموت ذکر کیا گیا ہے اللہ تعالی کا ارشاد ہے: {قُلْ یَتَوَفّٰئکُمْ مَّلَکُ الْمَوْتِ الَّذِيْ وُکِّلَ بِکُمْ ثُمَّ إِلٰی رَبِّکُمْ تُرْجَعُوْنَہع۱۱}(۲) ان سے کہو موت کا وہ فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے تم کو پورا کا پورا اپنے قبضہ میں لے لے گا پھر تم لوگ اپنے پر وردگار کی طرف لوٹادئے جاؤگے۔ حضرت عزرائیل کے دو فرشتے معاون ہیں رحمت کے فرشتے اور عذاب کے فرشتے اللہ تعالی کا ارشاد ہے: {حَتّیٰٓ إِذَا جَآئَ أَحَدَکُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْہُ رُسُلُنَا وَھُمْ لَا یُفَرِّطُوْنَہ۶۱}(۳) یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجاتا ہے تو اس کی جان ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے قبض کرلیتے ہیں اور وہ کوتاہی نہیں کرتے ہیں۔ قرآن کریم میں موت کے ان فرشتوں کو النازعات اور الناشطات کہا گیا ہے ۔النازعات سے مراد وہ فرشتے ہیں جو کافروں کی روح انتہائی سختی اور عذاب دے کر کھینچتے ہیں اور الناشطات سے مراد وہ فرشتے ہیں جو اہل ایمان اور متقی حضرات کی روح انتہائی نرمی اور محبت سے کھینچتے ہیں۔ (۱) سورۃ التکویر: ۱۹-۲۱۔ (۲) سورۃ الشعراء: ۱۹۲-۱۹۵۔ (۱) ابن کثیر، البدایۃ والنہایۃ، ’’باب ذکر خلق الملائکۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۶۔ (۲) أخرجہ الحاکم، فی مستدرکہ، ج۳، ص۱۱۴ (۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الزہد، باب ما جاء في شأن الصور‘‘: ج ۲،ص: ۶۹، رقم: ۲۴۳۱) (۲) سورۃ السجدہ: ۱۱۔ (۳) سورۃ الأنعام: ۶۱۔ فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص267

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:یکم سے دس عاشورہ محرم میں اولاد کی نیت سے زوجہ سے ہم بستری نہ کرنا اس کی کوئی اصل اور اس کا کوئی شرعی ثبوت نہیں بلکہ بے اصل و بے بنیاد بات ہے ایسا عقیدہ رکھنا غلط ہے۔(۲)

(۲) ویظہر الناس الحزن والبکاء، وکثیر منہم لا یشرب الماء لیلتئذ موافقۃ للحسین لأنہ قتل عطشانا … إلی غیر ذلک من البدع الشنیعۃ۔ (أبو الفداء إسماعیل، البدایۃ والنہایۃ، ’’فصل: وکان مقتل حسین رضي اللّٰہ عنہ یوم الجمعۃ‘‘: ج ۸، ص: ۲۴۸)
قال الکشمیري: ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (علامہ أنور شاہ، الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص:۵۶۸)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص517

قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن پاک اچھی آواز سے پڑھنا مراد ہے جو مستحب ہے، لیکن مروجہ گانے کی طرح آواز بنا کر پڑھنا مکروہ ہے۔(۲)

(۲) عن عبد الرحمن بن السائب، قال: قدم علینا سعد بن أبي وقاص، وقد کف بصرہ، فسلمت علیہ، فقال من أنت؟ فأخبرتہ، فقال: مرحباً بابن أخي، بلغني أنک حسن الصوت بالقرآن، سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: (إن ہذا القرآن نزل بحزن، فإذا قرأتموہ فأبکوا، فإن لم تبکوا فتباکوا،… وتغنوا بہ فمن لم یتغن بہ فلیس منا)۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’کتاب إقامۃ الصلوٰۃ والسنۃ: باب في حسن الصوت بالقرآن‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۶، رقم: ۱۳۳۷)
والخلاف جار في الحدیث الأخر لیس منا من لم یتغن بالقرآن والصحیح أنہ من تحسین الصوت ویؤیدہ الروایۃ الأخری، یتغني بالقرآن یجہر بہ۔ (علامہ نووي، علی شرح المسلم، ’’کتاب فضائل القرآن: باب استحباب تحسین الصوت بالقرآن‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۸)
وقال النووي رحمہ اللّٰہ، أیضاً: قال القاضي أجمع العلماء علی استحباب تحسین الصوت بالقرأۃ وترتیلہا، قال أبو عبید: والأحادیث الواردۃ في ذلک محمولۃ علی التحزین والتشویق، قال: واختلفوا في القرأۃ بالألحان فکرہما مالک والجمہور رحمہم اللّٰہ لخروجہا عما جاء القرآن لہ من الخشوع والتفہم وأباحہا أبو حنیفۃ رحمہ اللّٰہ وجماعۃ من السلف للأحادیث الخ۔ (’’أیضاً:‘‘)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص59