Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں نہ ملاکر بچھانا ضروری ہے نہ علا حدہ کر کے بچھانا ضروری ہے، بلکہ ایسے طریقہ پر مصلی بچھایا جائے کہ پیچھے کے مقتدی کو رکوع وسجود میں اور اٹھنے میں دقت نہ ہو۔(۱)
(۱) (والحائل لا یمنع) الاقتداء (إن لم یشتبہ حال إمامہ) بسماع أو رؤیۃ ولو من باب مشبک یمنع الوصول في الأصح (ولم یختلف المکان) حقیقۃ کمسجد وبیت في الأصح قنیۃ، ولا حکما عند اتصال الصفوف؛ ولو اقتدی من سطح دارہ المتصلۃ بالمسجد لم یجز لاختلاف المکان، درروبحر وغیرہما، وأقرہ المصنف لکن تعقبہ في الشرنبلالیۃ ونقل عن البرہان وغیرہ أن الصحیح اعتبار الاشتباہ فقط. قلت: وفي الأشباہ وزواہر الجواہر ومفتاح السعادۃ أنہ الأصح. وفي النہر عن الزاد أنہ اختیار جماعۃ من المتأخرین۔ (قولہ: ولم یختلف المکان) أی مکان المقتدي والإمام. وحاصلہ أنہ اشترط عدم الاشتباہ وعدم اختلاف المکان، ومفہومہ أنہ لو وجد کل من الاشتباہ والاختلاف أو أحدہما فقط منع الاقتداء، لکن المنع باختلاف المکان فقط فیہ کلام یأتي (قولہ: کمسجد وبیت) فإن المسجد مکان واحد، ولذا لم یعتبر فیہ الفصل بالخلاء إلا إذا کان المسجد کبیرا جدا وکذا البیت حکمہ حکم المسجد في ذلک لا حکم الصحراء کما قدمناہ عن القہستاني۔ وفي التتارخانیۃ عن المحیط: ذکر السرخسي إذا لم یکن علی الحائط العریض باب ولا ثقب؛ ففي روایۃ یمنع لاشتباہ حال الإمام، وفي روایۃ لا یمنع وعلیہ عمل الناس بمکۃ، فإن الإمام یقف في مقام إبراہیم، وبعض الناس وراء الکعبۃ من الجانب الآخر وبینہم وبین الإمام الکعبۃ ولم یمنعہم أحد من ذلک۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ مطلب الکافي للحاکم جمع کلام محمد في کتبہ ‘‘: ج۲، ص: ۳۳۳، ۳۳۶)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص401
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام صاحب کو ایسی فضول حرکتوں سے احتراز کرنا چاہئے ان حرکتوں سے نماز مکروہ ہوجاتی ہے۔(۱)
’’ویکرہ أیضا: أن یکف ثوبہ وہو في الصلاۃ بعمل قلیل بأن یرفع من بین یدیہ أو من خلفہ عند السجود‘‘(۲)
(۱) وکرہ کفہ أي رفعہ ولو لتراب، قولہ أي رفعہ أي سواء کان من بین یدیہ أو من خلفہ عند الانحطاط للسجود۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب في الکراہۃ التحریمیۃ والتنزیہیۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۶، زکریا)
ولا یتشاغل بشيء غیر صلاتہ من عبث بثیابہ، أو بلحیتہ، لأن فیہ ترک الخشوع؛ لما روي أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم رأی رجلا یعبث بلحیتہ في الصلاۃ، فقال: أما ہذا لو خشع قلبہ لخشعت جوارحہ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ، بیان ما یستحب في الصلاۃ و ما یکرہ‘‘: ج ۱، ص: ۵۰۳، ۵۰۴، زکریا)
(۲) إبراہیم الحلبي، حلبي کبیري: ص: ۳۳۷۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص137
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مفتی بہ قول کے رو سے یہ سنتیں موکدہ ہیں اس لیے ان کو پڑھنا چاہئے؛ لیکن اگر جماعت کا وقت ہوگیا اور ان کے پڑھنے سے جماعت میں تاخیر ہوگی اور لوگ انتظار کرنے میں پریشانی محسوس کریں گے تو ان کو پڑھے بغیر نماز پڑھا سکتا ہے۔ ان سنتوں کو فرائض کے بعد پڑھ لے۔(۱)
(۱) ولا یقضیہا إلا بطریق التبعیۃ لقضاء فرضہا قبل الزوال لابعدہ في الأصح … بخلاف سنۃ الظہر۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، باب إدراک الفریضۃ ج ۲، ص: ۵۱۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص364
متفرقات
Ref. No. 40/987
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ لفظ مذکور کو کسی بھی طرح لکھیں طلاق واقع نہیں ہوگی۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 41/1054
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
We could not find any clear specification in Quran and Hadith about the total number of Sahaba. Hafiz ibne Salah wrote in Muqaddama ibne Salah with the reference to Imam abu Zur’aa Razi that the number of Sahaba was 1,14000.
۔ قبض رسول اللہ ﷺ عن ماۃ الف واربعۃ عشر الفا من الصحابۃ ممن روی عنہ وسمع منہ وفی روایۃ ممن رآہ وسمع منہ (مقدمہ ابن صلاح 1/400)۔
Moreover, Hafiz ibne Iraqi wrote that it is very difficult to mention the exact number of Sahaba for they moved to different locations in the world. While writing the occurrence of Kab bin malik in tabuk when he fell behind, Imam Bukhari wrote:
اصحاب رسول اللہ کثیر لایجمعھم کتاب حافظ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ 1/88) ۔
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
Death / Inheritance & Will
Ref. No. 1045/41-217
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Maximum 7 shares could be in a big animal slaughtered in Qurbani. In a small animal there must be only one share. A goat cannot be slaughtered in the name of more than one person. However, if a person offers a goat in qurbani in his name and sends its rewards to the persons mentioned above by you, there is nothing wrong in doing so.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
طلاق و تفریق
Ref. No. 1145/42-367
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ خلع سے عورت پر ایک طلاق بائن واقع ہوتی ہے۔اس لئے خلع کے بعد بھی عورت پر عدت گذارنا لازم ہے۔ حیض والی عورت کے لئے عدت کی مدت تین حیض ہے، اور جن عورتوں کو حیض نہیں آتا ہے ان کے لئے عدت تین ماہ ہے۔ اور حمل والی عورت کی عدت کی مدت وضع حمل یعنی بچہ کی ولادت ہے۔
والمطلقات يتربصن بأنفسهن ثلاثة قروء (سورۃ البقرہ 228) واللائي يئسن من المحيض من نسائكم إن ارتبتم فعدتهن ثلاثة أشهر واللائي لم يحضن وأولات الأحمال أجلهن أن يضعن حملهن (سورۃ الطلاق 4)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
آداب و اخلاق
Ref. No. 1253/42-586
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ یقینا اردو میں بہت کچھ موجود ہے اور اس کی حفاظت کی کوشش کرنا ایک ملی ضرورت کی تکمیل ہے، تاہم جو لوگ دوسری زبان اپنی سہولت سے استعمال کرتے ہیں، ان پر کوئی ملامت ہے نہ کوئی گناہ ہے، نہ وہ کسی جرم کے مستحق ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 1383/42-799
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ محض شک کی وجہ سے تجدید نکاح کرنا وسوسہ کو جنم دینا ہے، اس لئے تجدید نکاح کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اور اگر تجدید کرلی تو کوئی قباحت بھی نہیں ہے ، اور تجدید کے بعد ہمبستری لازم نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1502/43-1136
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔اگر پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ سے پہلے کوئی تشہد پڑھ لے تو اس پر سجدہ سہو نہیں ہے اور اگر دوسری رکعت میں سورہ فاتحہ سے پہلے کوئی تشہد پڑھ لے تو اس صورت میں سجدہ سہو کے وجوب میں حضرات فقہاکا اختلاف ہے اصولی طور پر سجدہ سہو واجب ہونا چاہیے اس لیے کہ واجب میں تاخیر کی بنا پر سجدہ سہو واجب ہوتا ہے پہلی رکعت میں تشہد یہ ثنا کی جگہ میں ہے اس لیے وہاں واجب میں تاخیر نہیں ہوئی لیکن دوسری رکعت میں واجب میں تاخیر ہوئی ہے اسی لیے بعض فقہاء نے اس صورت میں بھی سجدہ سہو کو واجب قرار دیا ہے چنانچہ طحطاوی میں ہے :
ولو قرأ التشهد مرتين في القعدة الأخيرة أو تشهد قائماً أو راكعاً أو ساجداً لا سهو عليه، منية المصلي۔ لكن إن قرأ في قيام الأولى قبل الفاتحة أو في الثانية بعد السورة أو في الأخيرتين مطلقاً لا سهو عليه، وإن قرأ في الأوليين بعد الفاتحة والسورة أو في الثانية قبل الفاتحة وجب عليه السجود؛ لأنه أخر واجباً(حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الايضاح ص: 461)
طحطاوی کی اسی عبارت کے پیش نظر فتاوی دارالعلوم زکریا، مطبوعہ مکتبہ اشرفیہ دیوبند میں 2/554 پربھی سجدہ سہو کے وجوب کا فتوی دیا گیا ہے ۔لیکن دیگر کتب کے اعتبار سے اس سلسلے میں مفتی بہ قول عدم وجوب سجدہ سہوکا ہے اس لیے کہ حضرات فقہاء نے اس سلسلے میں اختلاف کو نقل کرنے کے بعد اصح عدم وجوب سجدہ سہو کو قرار دیا ہے چنانچہ نہر الفائق میں ہے :
وقالوا: لو أتى بالتشهد في قيامه أو قعوده أو سجوده فلا شيء عليه؛ لأنها محل الثناء، وهذا يقتضي تخصيص القيام بالأولى، ومن ثم قال في (الظهيرية): إنه في الأولى فلا شيء عليه، واختلف المشايخ في الثانية، والصحيح أنه لا يجب، وقيده الشارح بما قبل الفاتحة، أما بعدها قبل السورة فيجب على الأصح؛ لتأخير السورة(النهر الفائق شرح كنز الدقائق 1/ 324)
ومنها: لو تشهد في قيامه بعد الفاتحة لزمه السجود، وقبلها لا، على الأصح؛ لتأخير الواجب في الأول ـ وهو السورة ـ ، وفي الثاني محل الثناء وهو منه، وفي الظهيرية: لو تشهد في القيام، إن كان في الركعة الأولى لا يلزمه ،شيء وإن كان في الثانية اختلف المشايخ فيه، والصحيح أنه لا يجب (.البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري 2/ 105)
ولو قرأ التشهد قائماً أو راكعاً أو ساجداً لا سهو عليه؛ لأن التشهد ثناء، والقيام موضع الثناء والقراءة.أرأيت لو افتتح فقال: السلام عليك أيها النبي إلى قوله عبده ورسوله، فإنه يكون بمنزلة الدعاء، ولا سهو عليه. وعن أبي يوسف رحمه الله: فيمن تشهد قائماً فلا سهو عليه، وإن قرأ في جلوسه فعليه السهو، أرأيت لو كبر فقرأ بعد الثناء : أشهد أن لا إله إلا الله، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله، فقال هذا أو نحوه، هل يجب عليه سجود السهو! ؛ لأنه إن كان في موضع الثناء، فموضع الثناء منه معروف، وإن قرأ في الركعتين الأخيرتين، فليس عليه سجود السهو؛ لأنه يتخير في الركعتين الآخيرتين(المحيط البرهاني في الفقه النعماني 1/ 504)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند