Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر کسی فتنہ کا خطرہ نہ ہو اور پردہ وغیرہ تمام شرائط کا لحاظ رکھا جائے، تو تبلیغ کے لئے دوسرے کے گھر جاکر سمجھانا درست ہے۔(۱)
(۱) یباح لہا الخروج إلی ما دون السفر بغیر محرم وإذا وجدت محرما لم یکن للزوج منعہا۔ (المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الحج‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۳)
المؤمنون والمؤمنات بعضہم أولیاء بعض، یوید بعضہم بعضا في طاعۃ اللّٰہ واعلاء دینہ یأ مرون بالمعروف بالإیمان والطاعۃ وینہون عن المنکر عن الشرک والنفاق ومعصیۃ الرسول واتباع الشہوات۔ (محمد ثناء اللّٰہ پاني پتي، تفسیر المظہري، ’’سورۃ التوبہ: ۷۱‘‘ : ج ۴، ص: ۲۴۲)
---------
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص324
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: وضو ہو گیا، مگریہ عمل خلافِ سنت ہے، جو مناسب نہیں ہے۔(۱)
(۱)و غسل الفم أي استیعابہ … بمیاہ ثلاثۃ والأنف ببلوغ الماء المارن بمیاہ وھما سنتان مؤکدتان۔ قال الشامي: قولہ (وھما سنتان مؤکدتان) فلو ترکھما، أتم علی الصحیح۔ ( ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الطہارۃ، مطلب : في منافع السواک، ج۱، ص:۲۳۶)؛ و یُسن في الوضوء ثمانیۃ عشر شیئاً … والمضمضۃ ثلاثاً ولو بغرفۃ، والاستنشاق بثلاث غرفات۔ (الشرنبلالی، نورالإیضاح، کتاب الطہارۃ، فصل: یسن في الوضوء، ص۳۲)(اتحاد بک ڈپو دیوبند)، و یتعلّق بترکھا (السنۃ المؤکدۃ) کراھۃ و إساء ۃ (حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی، کتاب الطہارۃ، فصل في سنن الوضوء، ص:۶۴)(دارالکتاب دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص126
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مشت زنی حصول شہوت کے لیے حرام ہے اور موجب عقوبت ہے۔ مراقی الفلاح میں ’’قولہ أي لا لجلبہا أي فیحرم، لما روي عنہ صلی اللہ علیہ وسلم ناکح الید ملعون، وقال ابن جریج سألت عنہ عن عطاء فقال مکروہ وسمعت قوماً یحشرون و أیدیہم حبالی فأظنہم ہؤلاء وقال سعید بن جبیر عذّب اللّٰہ أمۃً کانوا یعبثون بمذاکیرہم و ورد سبعۃ لا ینظر اللّٰہ إلیہم منہم الناکح یدہ‘‘(۱)
اس عمل پر شہوت کے ساتھ منی کا خروج ہوتا ہے؛ اس لیے غسل واجب ہے ’’یفترض الغسل بواحد من سبعۃ أشیاء أولہا خروج المني إلي ظاہر الجسد إذا انفصل عن مقرہ بشہوۃ من غیر جماع کاحتلام ولو بأول مرۃ لبلوغ في الأصح‘‘(۲)
(۱)الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، فصل فیما یوجب الاغتسال، ج ۱، ص:۹۶
(۲)عمار بن حسن، مراقي الفلاح شرح نورالإیضاح، ’’فصل فیما یجب فیہ الاغتسال‘‘ج ۱، ص:۳۹-۴۰ (مکتبہ اسعدی سہارنپور)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص312
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: تلاوت صحیح نہ کرنے سے کیا مراد ہے؟ اگر قرآن اس طرح غلط پڑھتا ہے کہ جس سے نمازیں فاسد ہوں، تو اس کی اقتداء درست نہیں ہے، فوری طور پر صحیح پڑھنے والے کا انتظام ضروری ہے، اگر ایسا نہیں ہے، تو پھر اس کی اقتداء میں پڑھے لکھے مقتدی کی نماز صحیح اور درست ہے۔ متولیان مسجد پر لازم ہے کہ ایسا امام رکھیں جو قرآن کریم صاف اور صحیح پڑھے۔(۲)
(۲) (قولہ بغیر حافظ لہا) شمل من یحفظہا أو أکثر منہا لکن بلحن مفسد للمعنیٰ لما في البحر: الأمي عندنا من لا یحسن القرائۃ المفروضۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب الواجب کفایۃ ہل یسقط بفعل الصبي وحدہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۲۴؛ ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ: اقتداء المفترض بإمام متنفل‘‘: ج ۱، ص: ۶۳۱)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص212
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ دونوں جماعتوں کے اجتماعات میں شرکت کرنا جائز ہے اور ایسے امام کی امامت میں نماز پڑھنا بھی جائز ہے مقامی لوگ اگر بغیر وجہ شرعی کے ان کی امامت کے خلاف ہیں تو وہ عاصی ہیں ان کے کہنے پر عمل جائز نہیں ہے۔(۱)
(۱) لو أم قوما وہم لہ کارہون إن الکراہۃ لفساد فیہ أولأنہم أحق بالإمامۃ منہ کرہ لہ ذلک تحریماً وإن ہو أحق لا والکراہۃ علیہم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘:ج۲، ص: ۲۹۸)
کذا في الھندیۃ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘:ج۱، ص: ۱۴۴)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص297
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ فی السوال مسبوق (جس کی امام سے کوئی رکعت رہ گئی) مطلقاً اپنے امام کے ساتھ سجدہ سہو کرے گا خواہ اقتداء سے پہلے امام بھولا ہو یا بعد میں۔
اور اگر امام کے فارغ ہونے کے بعد مقتدی اپنی بقیہ نماز پوری کرتے ہوئے بھول گیا تو دوبارہ اکیلا سجدہ سہو کرے۔ اور اگر امام کے ساتھ اس مسبوق نے سجدہ سہو نہیں کیا تھا، پھر وہ بھی امام کی طرح بھول گیا اسے دو بار سجدہ سہو کی بجائے ایک بار سجدہ سہو کرنا کافی ہے کیوں کہ سجدہ (سہو) میں تکرار نہیں ہوتا۔
’’(والمسبوق یسجد مع إمامہ مطلقا) سواء کان السہو قبل الاقتداء أو بعدہ (ثم یقضي مافاتہ) ولو سہا فیہ سجد ثانیا‘‘(۱)
علامہ شامی مذکورہ بالا عبارت کی شرح میں لکھتے ہیں:
’’(ولو سہا فیہ) أي فیما یقضیہ بعد فراغ الإمام یسجد ثانیا لأنہ منفرد فیہ، والمنفرد یسجد لسہوہ، وإن کان لم یسجد مع الإمام لسہوہ ثم سہا، ہو أیضا کفتہ سجدتان عن السہوین، لأن السجود لایتکرر‘‘(۲)
’’والمسبوق یسجد لسہوہ فیما یقضي ولو سہا إمامہ ولم یسجد المسبوق معہ وسہا ہو فیما یقضي یکفیہ سجدتان‘‘(۳)
خلاصہ: مذکورہ بالا عبارت کی رو سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ:
اگر مسبوق امام کے ساتھ سجدہ سہو نہ کرے تو اپنی نماز مکمل ہونے سے قبل اس پر سجدہ سہو کرنا ضروری ہے، ایسے میں اگر امام کے ساتھ اس نے سجدہ سہو کر لیا پھر چھوٹی ہوئی نماز کے درمیان اس پر دوبارہ سجدہ سہو لازم ہوا تو مسبوق دوبارہ سجدہ سہو کرے گا نیز مسبوق اگر امام کے ساتھ سجدہ سہو نہیں کر سکا پھر امام کے سلام پھیرنے کے بعد اس کے اوپر دوبارہ سجدہ سہو لازم ہوگیا اس صورت میں ایک ہی سجدہ سہو کر لینا کافی ہے دوبارہ سجدہ سہو نہیں گرے، جیسا کہ فتاویٰ عالمگیری میں لکھا ہے۔
(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۰۸، بیروت: دار المعرفۃ۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۷، زکریا۔
(۳) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۴۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص40
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: نماز کی حالت میں آنکھیں بند کر کے نماز پڑھنے کے سلسلے میں ایک اصول یاد رکھیں کہ بغیر کسی عذر اور بلا ضرورت آنکھیں بند کر کے نماز پڑھنا مکروہ تنزیہی ہے، البتہ خشوع وخضوع یا وساوس سے بچنے کے لیے آنکھیں بند کی جائیں تومکروہ نہیں ہے؛ لہٰذا ذکر کردہ سوال میں آنکھ کھول کر تلاوت کرنے کی صورت میں آپ آیات کریمہ کی تلاوت نہیں کرپاتے ہیں اور بھول جاتے ہیں اس لیے ذہن کو انتشار سے محفوظ رکھنے کے لیے آنکھیں بند کر کے آپ کے لئے نماز پڑھنا بلا کراہت جائز ہے، تاہم آنکھیں کھلی رکھ کر نماز پڑھنا زیادہ بہتر اور اولیٰ ہے، نیز آنکھیں بند کر کے نماز پڑھنا مکروہ اس لیے ہے کہ حالت قیام میں سجدہ کی جگہ کو دیکھنا سنت ہے، اور آنکھیں بند کرنے کی صورت میں ترکِ سنت کی وجہ سے سنت ادا نہیں ہوئی اس لیے مکروہ ہے لہٰذا آنکھیں کھول کر نماز پڑھنے کی عادت ڈالنی چاہئے؛ جیسا کہ علامہ کاسانی رحمۃ اللہ علیہ نے بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع میں لکھا ہے:
’’ویکرہ أن یغمض عینیہ في الصلاۃ؛ لما روي عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ نہی عن تغمیض العین في الصلاۃ؛ ولأن السنۃ أن یرمي ببصرہ إلی موضع سجودہ، وفي التغمیض ترک ہذہ السنۃ؛ ولأن کل عضو وطرف ذو حظ من ہذہ العبادۃ فکذا العین‘‘(۱)
’’وتغمیض عینیہ للنہي إلا لکمال الخشوع، (قولہ إلا لکمال الخشوع) بأن خاف فوت الخشوع بسبب رؤیۃ ما یفرق الخاطر فلا یکرہ، بل قال بعض العلماء: إنہ الأولی ولیس ببعید۔ حلیۃ وبحر‘‘(۱)
’’(ویکرہ) (تغمیض عینیہ) إلا لمصلحۃ لقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا قام أحد کم في الصلاۃ فلا یغمض عینیہ لأنہ یفوت النظر للمحل المندوب ولکل عضو وطرف حظ من العبادہ وبرویۃ ما یفوت الخشوع ویفرق الخاطر ربما یکون التغمیض أولیٰ من النظر۔
’’قولہ (إلا لمصلحۃ) کما إذا غمضھما لرؤیۃ ما یمنع خشوعہ نھر، أو کمال خشوعہ درأ۔ و قصد قطع النظر عن الأغیار، والتوجہ إلی جانب الملک الغفار مجمع الأنھر … (قولہ فلا یغمض عینیہ) ظاھرہ التحریم قال في البحر: وینبغي أن تکون الکراھۃ تنزیھیۃ إذا کان لغیر ضرورۃ ولا مصلحۃ‘‘(۲)
(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، کتاب الصلاۃ، بیان ما یستحب و ما یکرہ في الصلاۃ: ج ۱، ص:۵۰۷۔
(۱) الحصکفي، الدر المختار مع ردالمحتار، باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا: ج۲، ص: ۴۱۳، ۴۱۴۔
(۲) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’فصل في المکروہات‘‘: ص: ۳۵۴۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص154
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں قران کی آیت میں نہی کا صیغہ ہے اور نہی کی جگہ امر کا صیغہ پڑھا گیا جس سے معنی بالکل ہی بدل گئے اس لئے نماز فاسد ہوگئی۔(۱)
(۱) ولو زاد کلمۃ أو نقص کلمۃ أو نقص حرفاً أو قدمہ أو بدلہ بآخر نحو: من ثمرہ إذا اثمر واستحصد إلی قولہ لم تفسد مالم یتغیر المعنی إلا مایشق تمییزہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا، مطلب مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص:۳۹۵، ۳۹۶، زکریا دیوبند)
وإن کان في القرآن ولکن لاتتقاربان في المعنی نحو إن قرأ : وعداً علینا إن کنا غافلین مکان فاعلین ونحوہ مما لو اعتقدہ یکفر تفسد عند عامۃ مشایخنا، وہو الصحیح من مذہب أبي یوسف، ہکذا في الخلاصۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص272
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: سنت اور وتر لوٹانے کی ضرورت نہیں ہے، کیوں کہ بعد میں پڑھی جانے والی نماز باجماعت اس کے لیے نفل ہے اور فرض نماز کے ساتھ وہ سنت اور وتر پڑھ چکا ہے۔(۱)
(۱) التطوع المطلق یستحب أداء ہ في کل وقت، کذا في محیط السرخسي۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب التاسع في النوافل‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۲)
عن أبي سلمۃ قال: سألت عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، عن صلاۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فقالت: کان یصلي ثمان رکعات ثم یوتر ثم یصلي رکعتین وہو جالس، فإذا أراد أن یرکع قام فرکع، ثم یصلي رکعتین بین النداء والإقامۃ من صلاۃ الصبح۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’باب صلاۃ اللیل وعدد رکعات النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في اللیل وأن یوتر رکعۃ وإن الرکعۃ الخ‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۴، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص382
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1179 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔فجر کا وقت طلوع آفتاب یعنی سورج کا کنارہ ظاہر ہونے پر ختم ہوتا ہے، اس سے پہلے باقی رہتا ہے۔ طلوع آفتاب کا وقت مساجد میں لگے ٹائم ٹیبل اور اردو اخبارات میں عموماً موجود ہوتا ہے، ان سے مدد لے سکتے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند