Frequently Asked Questions
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر داڑھی گھنی نہ ہو اور بالوں کے اندر سے چہرہ بالکل صاف نظر آتا ہو، تو پوری ڈاڑھی کا دھونا فرض ہے؛ صرف مسح کرنا کافی نہیں ہوگا، اگر گھنی داڑھی ہو، تو نیچے جلد پر پانی پہونچانا ضروری نہیں ہے۔(۱)
(۱)ثم لا خلاف أن المسترسل لا یجب غسلہ ولا مسحہ: بل یسن، و أن الخفیفۃ التي تری بشرتھا، یجب غسل ما تحتھا۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطہارۃ، مطلب، في معنی الاستنشاق و تقسیمہ، ج۱، ص:۲۱۵)؛ والشعر المسترسل من الذقن، لا یجب غسلہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، کتاب الطہارۃ، الباب الأول في الوضوء، ج ۱، ص:۵۴)(مکتبۃ فیصل دیوبند)؛ و(یجب) یعني یفترض (غسل ظاھر اللحیۃ الکثۃ) وھي التي لا تری بشرتھا) في أصح ما یفتی بہ) (ویجب) یعني یفترض (إیصال الماء إلی بشرۃ اللحیۃ الخفیفۃ)۔(احمد بن اسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، کتاب الطہارۃ، فصل في تمام أحکام الوضوء، ص:۶۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص126
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:وضو اور غسل کی دعا یکساں ہے جو دعا وضو کی ہے وہی غسل کی ہے، غسل کے لیے علیحدہ کوئی دعا احادیث میںمنقول نہیں ہے۔ علامہ نوویؒ نے لکھا ہے کہ غسل کے اذکار مثل وضو کے ہیں، اس لیے غسل سے فارغ ہوکر وہ دعا پڑھنی چاہیے جو وضو کے بعد پڑھتے ہیں اور اگر غسل خانہ میں برہنہ حالت میں ہو، تو اس حالت میں ذکر نہیں کرنا چاہیے؛ بلکہ غسل سے فارغ ہوکر جب باہر آجائے تو اس وقت پڑھے(۳)’’یستحبّ للمغتسل أن یقول جمیع ما ذکرناہ في المتوضئ من التسمیۃ وغیرہا، ولا فرق في ذلک بین الجُنب والحائض وغیرہما، وقال بعض أصحابنا: إن کان جُنُباً أو حائضاً لم یأتِ بالتسمیۃ، والمشہور أنہا مستحبّۃ لہما کغیرہما، لکنہما لا یجوز لہما أن یقصدا بہا القرآن‘‘ (۱)
(۳)إلاّ حال انکشاف و في محل نجاسۃ فیسمی بقلبہ۔ الظاھر أن المراد أن یسمی قبل رفع ثیابہ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ‘‘ج۱، ص:ـ۲۲۷)
(۱)النووي، الأذکار’’ باب ما یقول علی اغتسال‘‘ ج۱، ص:۵۱(بیروت: دارابن حزم، لبنان)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص313
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ امام اگر نماز میں قرآن کریم صحیح پڑھتا ہو تو ان کی امامت شرعاً درست ہے۔ باقی امام کے تقرر یا بدلنے کے ذمہ دار مسجد کے متولی و مسجد کمیٹی یا وہ علماء ہیں جو اس مسجد میں نماز پڑھتے ہیں۔(۱)
(۱) عن شعبۃ عن إسماعیل بن رجائٍ قال سمعت أوس بن ضمعجٍ یقول سمعت أبا مسعود یقول: قال لنا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یؤم القوم أقرؤہم لکتاب اللّٰہ وأقدمہم قراء ۃً، فإن کانت قراء تہم سواء فلیؤمہم أقدمہم ہجرۃ، فإن کانوا في الہجرۃ سواء فلیؤمہم أکبرہم سناً، ولاتؤمن الرجل في أہلہ ولا في سلطانہ ولاتجلس علی تکرمتہ في بیتہ إلا أن یاذن لک أو بإذنہ۔(أخرجہ مسلم في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب من أحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۴۶۵، رقم: ۶۷۳)
والأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلاۃ ثم الأحسن تلاوۃ وتجویداً للقرأۃ ثم الأورع، والتقوی اتقاء المحرمات ثم الأسن أي الأقدم إسلاما فیقدم شاب علی شیخ أسلم، وقالوا: یقدم الأقدم ورعا، وفي النہر عن الزاد وعلیہ یقاس سائر الخصال فیقال: یقدم أقدمہم علما ونحوہ وحینئذ فقلما یحتاج للقرعۃ ثم الأحسن خلقا بالضم الفۃ بالناس ثم الأحسن وجہا أي أکثرہم تہجدا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘:ج۲، ص: ۲۹۴، ۲۹۵)
الأولٰی بالإمامۃ أعلمہم بأحکام الصلاۃ ہکذا في المضمرات وہو الظاہر، ہکذا في البحر الرائق۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثاني في بیان من أحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۱)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص213
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: حلال خور برادری اگر مسلمان ہے تو ان کی نماز جنازہ پڑھانا اور ان کے بچوں کے کانوں میں اذان پڑھنا درست ہے خواہ وہ لوگ گناہوں میں مبتلا ہوں(۱) تو ایسی صورت میں اس شخص کی امامت بلا کراہت درست ہے۔
(۱) قولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: صلوا علی کل بروفاجر، أخرجہ ابن الجوزی في العلل المتناہیۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ‘‘:ج۳، ص: ۱۰۲)
ویصلي علی کل مسلم مات بعد الولادۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الحادي والعشرون في الجنائز، الفصل الخامس في الصلاۃ علی المیت‘‘:ج۱، ص: ۲۲۴)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص298
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جو شخص اذان وتکبیر کے لیے مقرر ہے اس کی اجازت کے بغیر دوسرے کو تکبیر نہیں کہنی چاہیے(۱) اور اگر کسی نے اجازت کے بغیر تکبیر پڑھ دی تو اچھا نہیں کیا لیکن اس کی وجہ سے نماز میں کوئی خلل یا خرابی نہیں آئے گی۔(۲)
(۱) أقام غیر من أذن بغیبتہ أي المؤذن لا یکرہ مطلقا وإن بحضورہ کرہ إن لحقہ وحشۃ، کما کرہ مشیہ في إقامتہ، قولہ کرہ إن لحقہ وحشۃ أي بأن لم یرض بہ، … لکن في الخلاصۃ: إن لم یرض بہ یکرہ۔ وجواب الروایۃ إنہ لا بأس بہ مطلقاً۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب في أذانہ‘: ج ۲، ص: ۶۴)
(۲) ولکن الأفضل أن یکون المؤذن ہو المقیم أي لحدیث من أذن فہو یقیم۔ (أیضًا)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص195
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں زید کو ثنا (سبحانک اللہم الخ) تعوذ (أعوذ باللّٰہ الخ) اور تسمیہ (بسم اللّٰہ الخ) پڑھنی چاہئے۔(۱)
(۱) والمسبوق من سبقہ الإمام بہا أو بعضہا وہو منفرد حتی یثنی ویتعوذ ویقرا،ٔ وإن قرأ مع الإمام لعدم الاعتداد بہا لکراہتہا۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۴۶، ۳۴۷)
منہا : أنہ إذا أدرک الإمام في القراء ۃ في الرکعۃ التي یجہر فیہا، لا یأتي بالثناء، کذا في الخلاصۃ ہو الصحیح، کذا فيالتجنیس وہو الأصح … فإذا قام إلی قضاء ما سبق، یأتي بالثناء ویتعوذ للقراء ۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل السابع في المسبوق واللاحق‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۸)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص41
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مکروہ اور خلاف سنت ہے؛ بلکہ نگاہیں پیروں کی طرف ہونی چاہئیں۔(۱)
(۱) ومنہا نظر المصلي سواء کان رجلا أو امرأۃ إلی موضع سجودہ قائما حفظا لہ عن النظر إلی مایشغلہ عن الخشوع ونظرہ إلی ظاہر القدم راکعا، وإلی أرنبۃ أنفہ ساجدا، وإلی حجرہ جالسا ملاحظا قولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: اعبد اللّٰہ کأنک تراہ فإن لم تکن تراہ فإنہ یراک فلا یشتغل بسواہ … وإذا کان بصیرا أو في ظلمۃ فیلاحظ عظمۃ اللّٰہ تعالیٰ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’فصل من أدابہا‘‘: ج۱، ص: ۲۷۶، ۲۷۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص155
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: تراویح میں قرآن کریم اس طرح پڑھنا کہ الفاظ کٹ رہے ہوں اور کچھ سمجھ میں نہ آئے تو بسا اوقات نماز درست نہیں ہوتی ہے اس لیے امام کو اس پر تنبیہ کی جائے یا دوسرے امام کا انتظام کرلیا جائے۔(۱)
(۱) روی الحسن عن أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالی أنہ یقرأ في کل رکعۃ عشر آیات ونحوہا وہو الصحیح کذا في التبیین، ویکرہ الإسراع في القراء ۃ وفي أداء الأرکان، کذا في السراجیۃ وکلما رتل فہو حسن، کذا في فتاوی قاضي خان، والأفضل في زماننا: أن یقرأ بما لا یؤدي إلی تنفیر القوم عن الجماعۃ لکسلہم؛ لأن تکثیر الجمع أفضل من تطویل القراء ۃ، کذا في محیط السرخسي۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب التاسع في النوافل، فصل في التراویح‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۷، زکریا)
ویجتنب المنکرات ہذرمۃ القراء ۃ، وترک تعوذ وتسمیۃ، وطمأنینۃ، وتسبیح، واستراحۃ۔
(قولہ ہذرمۃ) بفتح الہاء وسکون الذال المعجمۃ وفتح الراء: سرعۃ الکلام والقراء ۃ قاموس، وہو منصوب علی البدلیۃ من المنکرات، ویجوز القطع۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل مبحث صلاۃ التراویح‘‘: ج ۲، ص:۴۹۹، ط،زکریا)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص273
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں مسجد میں نہ تحیۃ الوضوء ہے نہ تحیۃ المسجد ہے، کیوں کہ طلوع صبح صادق کے بعد فجر کی سنت اور فرض کے علاوہ کوئی نفل نماز حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے، البتہ بہتر یہ ہے کہ فجر کی سنت چوں کہ مؤکدہ ہیں، تو اس کو مسجد میں جاکر پڑھ لے تاکہ اس کے ضمن میں تحیۃ الوضو کا ثواب بھی مل جائے۔(۱)
(۱) وھي أفضل لتحیۃ المسجد إلا إذا دخل فیہ بعد الفجر أو العصر، فإنہ یسبح ویہلل ویصلي علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فإنہ حینئذٍ یؤدي حق المسجد، کما إذا دخل للمکتوبۃ، فإنہ غیر مأمور بہا حینئذ کما في التمرتاشي، قولہ: وأداء الفرض أو غیرہ الخ، قال في النہر: وینوب عنہا کل صلاۃ صلاہا عند الدخول فرضاً کانت أو سنۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص:۴۵۸، ۴۵۹، زکریا دیوبند)
إذا دخل المسجد بعد الفجر، أو العصر لا یأتي بالتحیۃ، بل یسبح، ویہلل، ویصلي علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم فإنہ حینئذ یؤدي حق المسجد۔ (الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في تحیۃ المسجد‘‘: ج ، ص: ۳۹۴، مکتبہ: شیخ الہند دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص382
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 949 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: جب تک پیشاب نکلنے کا یقین نہ ہو صرف شک او روہم ہوتے رہنے سے وضو نہیں ٹوٹے گا، اسکی پرواہ نہ کریں؛ پیشاب کرنے کے بعد کھانس کر یا اٹھ بیٹھ کر پیشاب کے قطروں سے تسلی حاصل کرلیں، شاید اس سے اس وسوسہ سے نجات مل جائے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند