Frequently Asked Questions
قرآن کریم اور تفسیر
الجواب وباللّٰہ التوفیق:طبرانی نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ قرآن پاک کے دس لاکھ ستائیس ہزار حروف ہیں۔(۱)
(۱) وأخرج الطبراني عن عمر بن الخطاب رضي اللّٰہ عنہ، مرفوعاً: القرآن ألف ألف حرف وسبعۃ وعشرون ألف حرف۔ (عبد الرحمن بن أبي بکر، الإتقان في علوم القرآن: ج ۱، ص: ۲۴۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص63
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ حدیث متعدد کتب حدیث میں مذکور ہے، امام ترمذی نے اس پر حدیث ’’غریب‘‘ کا حکم لگایا ہے؛ جبکہ ترمذی کے بعض نسخوں میں ’’حسن غریب‘‘ مذکور ہے۔ سنن دارمی کے محقق نے حدیث کو حسن قرار دیا ہے، بعض حضراتِ محدثین نے حدیث کے ایک راوی خالد بن طہمان کی وجہ سے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے، تاہم فضائل اعمال کے باب میں یہ روایت قابل عمل ہے۔(۱)
(۱) عن معقل بن یسار عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من قال حین یصبح أعوذ باللّٰہ السمیع العلیم من الشیطان الرجیم وثلاث آیات من آخر سورۃ الحشر وکل اللّٰہ بہ سبعین ألف ملک یصلون علیہ حتی یمسي وإن قالہا مساء فمثل ذلک حتی یصبح، قال حسین: سلیم أسد: إسنادہ حسن۔ (أخرجہ عبد اللّٰہ بن عبد الرحمن، في سنن دارمي: ج ۲، ص: ۵۵۰، رقم: ۳۴۲۵)
ہذا حدیث حسن غریب صحیح، أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الدعوات، باب ما جاء في الدعاء إني أصبح وأمسیٰ‘: ج ۲، ص: ۱۷۶، رقم: ۳۳۸۸)
خالد بن طہمان، أبو العلاء الخفاف:
حدثني نافع بن أبي نافع عن معقل بن یسار عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من قال حین یصبح ثلاث مرات: أعوذ باللّٰہ السمیع العلیم من الشیطان الرجیم وقرأ ثلاث آیات من آخر سورۃ الحشر، وکل اللّٰہ بہ سبعین ألف ملک یصلون علیہ حتی یمسي، وإن مات في ذلک الیوم مات شہیداً، ومن قالہا: حین یمسي کان بتلک المنزلۃ ہذا حدیث حسن غریب، لا نعرفہ إلا من ہذا الوجہ۔ (محمد ناصر الدین، صحیح وضعیف سنن الترمذي: ج ۱، ص: ۳۱۵، رقم: ۲۹۲۲) عن أبي علاء خالد بن طہمان، عن نافع ولم ینسبہ عن معقل بن یسار رفعہ من قال حین یصبح أعوذ باللّٰہ السمیع العلیم من الشیطان الرجیم وثلاث آیات من سورۃ الحشر، وکل اللّٰہ تعالیٰ ألف ملک یصلون علیہ حتی یمسي الحدیث، وقال حسن غریب، لا نعرفہ إلا من ہذا الوجہ انتہی ولم یصفہ إلا بنافع بن أبي نافع وکذلک أخرجہ الدارمي في مسندہ، عن أبي ہریرۃ من طریق أبي أحمد الزبیري وأخرج الحلیمي في مسندہ عن أبي أحمد الزبیري ثلاثۃ أحادیث۔ (أحمد بن علي بن محمد، تہذیب التہذیب: ج ۱، ص: ۴۱۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص108
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئول عنہا میں اگر آلائش والی مرغی کو گرم پانی میں ڈالا اور گرم ہونے پرفوراً ہی نکال لیا، تاکہ بال وپر وغیرہ آسانی سے الگ ہو جائیں، تو اس صورت میں اس آلائش کی وجہ سے گوشت اگرچہ ناپاک تو ہوگا مگر دھونے سے پاک ہو جائے گا، اگر کھولتے ہوئے گرم پانی میں ڈالا اور اس کو کھولایا، تو اس آلائش (نجاست) کا اثر گوشت کے ہر ہر جز میں سرایت کر جائے گا اور پھر گوشت دھونے سے بھی پاک نہیں ہوگا(۱)۔ طحطاوی کی عبارت کا مقصد یہی ہے۔ دونوں صورتوں میں فرق واضح ہے۔
(۱)و کذلک دجاجۃ، الخ۔ ولا یترک فیہ إلا مقدار ما تصل الحرارۃ إلی ظاھر الجلد لتنحل مسام الصوف بل لو ترک یمنع إنقلاع الشعر۔ (ابن عابدین، رد المحتار، کتاب الطہارۃ،باب الأنجاس، مطلب في تطھیر الدھن والعسل، ج۱، ص:۵۴۴)؛ ولو ألقیت دجاجۃ حالۃ الغلیان في الماء قبل أن یشق بطنھا لتنتف أو کرش قبل الغسل لا یطھر أبداً۔۔۔ لکن العلۃ المذکورۃ لا تثبت حتی یصل الماء إلی حد الغلیان و یمکث فیہ اللحم بعد ذلک زمانا یقع في مثلہ للتشرب والدخول في باطن اللحم۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، کتاب الطہارۃ،باب الأنجاس و تطھیرہا، ج۱، ص:۲۱۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص412
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق : حوض کا طول وعرض یکساں ہونا ضروری نہیں ہے، کمی بیشی کی گنجائش ہے، جب کہ حساب دہ در دہ کا عمومی طور پر پورا ہو جائے، مثلث اور مربع ہونے کے اعتبار سے مجموعی مقدار دہ در دہ کے برابر ہو جانی چاہیے اور گہرائی اتنی مقدار میں ہونی چاہیے کہ چلو بھرنے سے زمین نظر نہ آئے(۱) ’’أما إذا کان عشراً في عشر بحوضٍ مربع أو ستۃ وثلاثین في مدور وعمقہ أن یکون بحال لا تنکشف أرضہ بالغرف منہ علی الصحیح(۲)ہذا القدر إذا ربع یکون عشراً في عشر وفي المثلث کل جانب منہ یکون ذرعہ خمسۃ عشر ذراعاً وربعاً وخمسًا‘‘۔ (۳)
(۱)و حقق في البحر أنہ المذہب، و بہ یعمل و أن التقدیر بعشر في عشر لا یرجع إلی أصل یعتمد علیہ و رد ما أجاب بہ صدر الشریعۃ، لکن في النھر: و أنت خبیر بأن المتبادر العشر أضبط ولا سیما في حق من لا رأی لہ من العوام فلذا أفتی بہ المتأخرون الأعلام: أي في الربع بأربعین، و في المدور بستۃ و ثلاثین وفي المثلث من کل جانب خمسۃ عشر و ربعا و خمسا بذراع الکرباس ولو لہ طول لا عرض لکنہ یبلغ عشرا في عشر جاز تیسیرہ ولو أعلاہ عشرا۔ (ابن عابدین رد الحتار علی الدر المختار،کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، مطلب:لو أدخل الماء من أعلی الحوض، ج۱، ص:۴۰؍۳۴۳)
(۲) احمد بن محمد بن اسماعیل الطحاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، شرح نورالإیضاح، کتاب الطہارۃ، قبیل فصل في بیان أحکام السؤر، ص:۲۷
(۳) ایضاً:
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص460
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: وضو نام ہے تین اعضاء (منہ، ہاتھ اور پاؤں) کے دھونے کا اور سر کے مسح کرنے کا۔ جب غسل ہو گیا ہے، تو ظاہر ہے کہ یہ اعضاء بھی دھل گئے اور غسل کے ساتھ وضو بھی ہو گیا؛ البتہ غسل سے پہلے وضو بنا لینا سنت ہے، اگر کسی نے پہلے وضو بنایا اورغسل کر لیا تب بھی وضو ہو گیا؛ اس لیے دوبارہ وضو کرنے کا التزام درست نہیں؛ بلکہ تحصیل حاصل ہوگا اور لازم سمجھتے ہوئے ایسا کرنا بدعت ہے۔(۱)
(۱)و عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا قالت: کان رسول اللّٰہ ﷺ لا یتوضأ بعد الغسل، رواہ مسلم۔ (بدرالدین العینی، البنایۃ، ’’کتاب الطہارۃ، فصل في الغسل‘‘ ،ج۱،ص:۳۱۹، زکریا بک ڈپو دیوبند)؛ و سنتہ أن یبدأ المغتسل فیغسل یدیہ و فرجہ و یزیل النجاسۃ إن کانت علی بدنہ ثم یتوضأ وضوء ہ للصلوۃ إلا رجلیہ۔(المرغینانی، الہدایہ، فصل في الغسل، ج۱،ص:۳۰)؛ وفي جامع الجوامع۔ ومن یوجب الوضوء مع الغسل غلط ( عالم بن العلاء، الفتاویٰ التاتارخانیہ، ’’کتاب الطہارۃ، نوع آخر في بیان فرائضہ و سننہ،‘‘ ج۱،ص:۲۷۶، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، لبنان)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص128
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:جس شخص کو بواسیر کی بیماری ہے اور مقعد باہر نکل آتی ہے اگر اس نے بذات خود اپنے ہاتھ یا کسی دوسرے کے ذریعے سے مقعد کو اندر کر دیا، تو وضو ٹوٹ جائے گا، دوبارہ اس کو وضو کرنا ہوگا اور اگر مقعد خود اندر چلی گئی، تووضو نہیں ٹوٹے گا۔ نیز اس صورت میں اگر نجاست ظاہر ہوگئی، تو وضو ٹوٹ جائے گا۔باسوري خرج دبرہ إن أدخلہ بیدہ انتقض وضوء ہ، و إن دخل بنفسہ لا۔(۱)
باسوري (باسو) خرج من دبرہ فإن عالجہ بیدہ أو بخرقہ حتی أدخلہ تنتقض، (تنقض) طہارتہ، لأنہ یلتزق بیدہ شيء من النجاسۃ إلا إن عطس فدخل بنفسہ۔(۲)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، مطب في ندب مراعات الخلاف،‘‘ ج۱، ص:۲۸۲
(۲) زین الدین ابن نجیم الحنفي، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ج۱، ص:۳۲)؛ و إذا خرج دبرہ إن عالجہ بیدہ أو بخرقۃ حتی أدخلہ، تنتقض طہارتہ۔ (جماعۃ من علماء الھند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب الأول في الوضوء، الفصل الخامس في نواقض الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۶۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص229
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر دانت یا خول اس طرح پیوست ہے کہ اس کا نکالنا ممکن نہیں، تو اس کا حکم اصل دانت کے مانند ہے، اس کے ظاہری حصہ کو دھونا کافی ہوگا اور اس کو اتارے بغیر غسل مکمل ہوجائے گا، لیکن اگر اس کو نکالنا ممکن ہو اور خول کو یا دانت کو الگ کرکے دھویا جاسکتا ہو، تو پھر صرف اس کے ظاہری حصہ کو دھونا کافی نہیں ہوگا؛ بلکہ ہر جانب پانی پہنچانا لازم ہوگا اور اگر آسانی سے پانی وہاں تک نہ پہنچ پاتا ہو، تو اس کو نکال کر دھونا ضروری ہوگا۔
ولو کان سنہ مجوفا فبقي فیہ أو في أسنانہ طعام أو درن رطب في أنفہ ثم غسلہ علی الأصح کذا في الزاہدي۔(۱)
(۱)جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب الثاني: في الغسل، الفصل الأول في فرائضہ‘‘ج۱، ص:۶۴
ولو کان سنہ مجوفا أو بین أسنانہ طعام أو دون رطب یجزئہ لأن الماء لطیف یصل إلی کل موضع غالبا (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’فصل في الغسل‘‘ ج ۱، ص:۶۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص317
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں بہتر یہ ہے کہ امام صاحب سے درخواست کی جائے کہ وہ قرآن کو درست کرلیں تاہم نماز ہوجائے گی مگر مکروہ ہوگی بشرطیکہ کوئی مفسد صلوٰۃ پیش نہ آئے، اگر ایسی غلطیاں کرتے ہیں جو مفسد صلوٰۃ ہیں تو پھر امام صاحب سے بڑے ادب و احترام کے ساتھ منصب امامت ترک کرنے کی درخواست کرکے کسی دوسرے شخص کو جس میں اوصاف امامت موجود ہوں امام تجویز کرلیا جائے اس کا بھی خیال رکھا جائے کہ جو کچھ کیا جائے اخلاص و للہیت کے جذبہ سے ہی ہو کسی اور جذبہ فاسد سے نہ ہو اور باہمی مشورہ سے کیا جائے تاکہ کوئی فتنہ برپا نہ ہو اللہ تعالیٰ سب کو اخلاص عطا فرمائیں۔(۱)
(۱) عن عبداللّٰہ بن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال: قال لنا علیہ السلام: یؤم القوم أقرأہم لکتاب اللّٰہ وأقدمہم قراء ۃ۔ (أخرجہ مسلم في صحیحہ، ’’کتاب: المساجد ومواضع الصلاۃ: باب من أحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۲۳۶، رقم: ۶۷۳؛ و أخرجہ الترمذي في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ: عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب من أحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۵۵، رقم: ۲۳۵)
الأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلاۃ ثم الأحسن تلاوۃ وتجویداً للقراء ۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴، زکریا)
فإن کان لایغیر المعنی لاتفسد صلاتہ ۔۔۔۔۔ عند عامۃ المشایخ ۔۔۔۔۔ہکذا في المحیط، وإن غیر المعنی نحو أن یقرأ وزرابیب مبثوثۃ مکان وزر ابي ۔۔۔۔۔ تفسد، ہکذا في الخلاصۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج۱، ص: ۱۳۷)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص216
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز کے بعد کتاب پڑھنا یا سننا ضروری نہیں ہے، اس لیے اس میں عدم شرکت کی بناء پر کوئی گناہ نہیں۔ تعلیم دین کے لیے نماز کے بعد کتاب پڑھی جاتی ہے۔ امام صاحب اپنے مقتدیوں کے معیارِ تعلیم اور ان کی ضرورت کو مد نظر رکھ کر کسی کتاب کا انتخاب کریں مشورہ بھی مقتدیوں سے کرلیں تو بہتر ہے۔ جس کتاب کا امام صاحب انتخاب کریں اس میں سب کو شریک ہونا چاہئے اگر کوئی کسی وجہ سے نہ بیٹھ سکے تو اس کو طعنہ دینا ہر گز جائز نہیں ہے اور صرف ان باتوں کی وجہ سے امام صاحب سے اختلاف ’’البغض في اللّٰہ‘‘ میں داخل نہیں، بغیر وجہ شرعی کے کسی عام انسان سے بغض رکھنا جائز نہیں، تو امام صاحب جو قابلِ عزت واحترام ہیں جو پیشوا ہیں ان سے کیسے درست ہوسکتا ہے؟ ہاں ایک نماز کے بعد امام صاحب کوئی کتاب تعلیم دین کے لیے پڑھیں اور دوسرے یا وہی لوگ دوسرے وقت دوسری کتاب حسب ضرورت پڑھیں اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہمیشہ کے لیے کسی ایک کتاب کو لازم سمجھ لینا بھی اصول تعلیم کے خلاف ہے۔(۱)
(۱) فإن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم لم یطالب أحداً بشيء سوی ماذکرناہ وکذلک الخلفاء الراشدون ومن سواہم من الصحابۃ ومن بعدہم من الصدر الأول، (شرح المہذب، ج۱، ص: ۲۴)، دارالفکر۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص301
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:صحابۂ کرامؓ اور اکابر واسلاف سے ایسا کرنا ثابت نہیں، اگر یہ عمل ضروری یا باعث ثواب ہوتا، تو صحابۂ کرامؓ وعلماء عظام ایسا ضرور کرتے، اس لیے اس نئی چیز سے امام موصوف کو احتراز کرنا چاہئے، بعض علماء نے تواقامت کہنے والے کو بھی چہرہ پھیرنے سے منع کیا ہے؛ کیوں کہ اقامت میں اس کی ضرورت نہیں رہی؛ اس لیے اقامت کہنے والے کے علاوہ لوگوں کو اس طرح کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔ (۱)
(۱) ویلتفت فیہ وکذا فیہا مطلقاً، وقیل: إن المحل متسعا یمیناً ویساراً فقط لئلا یستدبر القبلۃ بصلوٰۃ وفلاح ولو وحدہ، أشار بہ إلی رد قول الحلواني: إنہ لا یلتفت لعدم الحاجۃ إلیہ، وفي البحر عن السراج أنہ من سنن الأذان فلا یخل المنفرد بشيء منہا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في أول من بنی المنائر للأذان‘‘: ج ۲، ص: ۵۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص197