Frequently Asked Questions
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:آپ کی ولادت عام الفیل کے تین سال بعد ۵۷۱ء میں ہوئی تھی۔ (۱)
(۱) عن محمد بن اسحاق قال: ولد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یوم الإثنین لإثنتي عشرۃ لیلۃ خلت من شہر ربیع الأول عام الفیل۔ (ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ’’الکامل في التاریخ، ذکر مولد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۶ : ج ۱، ص: ۴۱۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص203
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:جب تک نجاست کا یقین نہ ہو اس وقت تک کپڑا ناپاک نہ ہوگا پس مذکورہ صورت میں کپڑا پاک ہی ہوگا کیونکہ نجاست یقینی نہیں ہے، ’’الیقین لا یزول بالشک‘‘(۱)
(۱) و دلیلھا ما رواہ مسلم عن أبي ھریرۃؓ مرفوعاً : إذا وجد أحدکم في بطنہ شیئاً، فأشکل علیہ أخرج منہ شيء أم لا؟ فلا یخرجنّ من المسجد حتی یسمع صوتاً أو یجد ریحاً۔ (ابن نجیم، الأشباہ والنظائر، القاعدۃ الثالثۃ، ص:۱۸۳-۱۸۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص414
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق: اگر چڑیا کنویں میں گر کر مر گئی اور پھول پھٹ گئی، تو اس کنویں سے دو سو سے تین سو تک ڈول پانی نکالے جائیں ’’تیسرا للناس‘‘ اسی قول پر فتویٰ ہے۔ شامی اورہدایہ وغیرہ میں امام محمد رحمۃ اللہ کا قول یہی نقل کیا ہے: شامی، کنز اور ملتقی نے اسی کو معتمد ومفتی بہ قرار دیا ہے ’’وقیل یفتی بمأۃ إلی ثلثۃ مأۃ وہذا أیسر وقال في رد المحتار وہو مروي عن محمد وعلیہ الفتویٰ خلاصۃ وجعلہ في العنایۃ روایۃ عن الإمام وہو المختار والأیسر‘‘ (۱) دو سو واجب اور تین سو مستحب ہیں۔
اگر کنویں کا پانی دو قسطوں میں نکالا گیا، تو بھی کنواں پاک ہو گیا، اصل مقصود دو سو ڈول نکالنا ہے، خواہ پانی زائد ہی ہو جائے ’’و صرح بأن الصحیح نزح مقدار ما بقي وقت الترک: أي فلا یجب نزح الزائد ۔۔۔۔ وأنہ لا یجب نزح ما زاد بعدہ‘‘ (۲)
اگر جانور کا کنویں میں گرنا متعین طور پر معلوم ہو اور دو آدمیوں کی شہادت مل جائے، تو جس وقت جانور کنویں میں گرا ہے، اس وقت اور اسی دن سے نمازوں کا حساب لگایا جائے گا اور ان کو لوٹایا جائے گا، اگر معلوم نہ ہو سکے اور جانور پھول پھٹ گیا، تو تین دن تین رات کی نمازیں لوٹائی جائیں ’’ویحکم بنجاستھا مغلظۃ من وقت الوقوع إن علم، و إلا فمذ یوم و لیلۃ إن لم ینتفخ و لم یتفسخ، و مذ ثلاثۃ أیام ولیالیہا إن انتفخ أو تفسخ۔‘‘(۳)
(۱)کما في الاختیار و أفاد في النھر أن المأتین واجبتان والمأۃ الثالثۃ مندوبۃ۔ (ابن عابدین، ردالمحتار علی الدر المختار، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، فصل في البئر، ج۱، ص:۳۷۱)
(۲) ایضاً: (۳)ایضاً:
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص461
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسا کرنے کی گنجائش ہے۔(۳)
(۳) و في المضمرات عن النصاب بہ سلس بول، فجعل القطنۃ في ذکرہ، و منعہ من الخروج، وھو یعلم أنہ لو لم یحش ظہر البول فأخرج القطنۃ و علیھا بلۃ، فھو محدث ساعۃ إخراج القطنۃ فقط۔ و علیہ الفتویٰ۔ (ابراہیم بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض والنفاس والاستحاضۃ،‘‘ص:۱۴۹، دارالکتاب دیوبند)، ولو حشت المرأۃ فرجھا بقطنۃ فإن وضعتھا في الفرج الخارج فابتل الجانب الداخل من القطنۃ کان حدثا، و إن لم ینفذ إلی الجانب الخارج لا یکون حدثا، (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، فصل بیان ما ینقض الوضوء، ج۱، ص:۱۲۴)
فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص131
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ بالا سوال میں جن چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے، ان سے وضو نہیں ٹوٹتا؛ البتہ وضو کرلینا مستحب ہے۔
الوضوء ثلاثۃ أنواع ۔۔۔۔ فرض علی المحدث للصلوٰۃ ۔۔۔ واجب للطواف ومندوب للنوم ۔۔۔ بعد غیبۃ وکذب، ونمیمۃ وانشاد شعر وقہقہۃ الخ (۱)
والکلام الفاحش لاینقض الوضوء وإن کان في الصلوٰۃ؛ لأن الحدث إسم لخارج نجس، ولم یوجد ہذا الحد في الکلام الفاحش،(۲)
(۱) محمد بن فرامرز، دررالحکام شرح غرر الأحکام، ’’باب نواقض الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۱۲،(مکتبۃ شاملۃ) حسن بن عمار ومراقي الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’فصل في أوصاف الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۳۴ (مکتبۃ عکاظ دیوبند)
(۲) أبوالمعالي، المحیط البرھاني، ’’ کتاب الطہارات، الفصل الثاني، نوع آخر من ھذا الفصل الثاني، نوع آخر من ھذا الفصل،‘‘ ج۱، ص:۷۵۔(مکتبۃ شاملۃ)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص231
طہارت / وضو و غسل
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: امامت کے لیے ضروری ہے کہ امام قرآن کریم صحیح پڑھنے والا ہو اگر قرآن کریم صحیح نہ پڑھے تو بعض مرتبہ تو نماز فاسد ہوجاتی ہے اور پتہ بھی نہیں چلتا؛ اس لیے ذمہ داران مسجد صحیح امام کا نظم کریں۔
’’والأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلاۃ ثم الأحسن تلاوۃ وتجویدا للقرأۃ … قال ابن عابدین: أفاد بذلک أن معنی قولہم أقرأ أي أجود لا أکثرہم حفظاً … ومعنــی الحســن في التــلاوۃ أن یکون عــالماً بکیفیۃ الحـروف والوقف و إما یتعلق بہا‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۴۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص218
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: صورت مذکورہ میں گاؤں والے اگر اس امام کی شرعی بناء پر مخالفت کرتے ہیں، تو اس کو چاہئے کہ امامت کو چھوڑ دے، کیوں کہ مشکوٰۃ شریف میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس امام سے نمازی کراہت کرتے ہوں اس کو امامت چھوڑ دینی چاہئے اور متولی عیدگاہ کو چاہئے کہ دیندار پرہیزگار امام متعین کریں۔لیکن اس کے الگ کرنے میں اگر فتنہ کا اندیشہ ہو، تو حسن تدبیر کے ساتھ ان کو ہٹانے کی کوشش کریں۔ اور جب تک وہ شخص امامت پر باقی رہے اس کی اقتداء میں نماز اداء کرتے رہیں اس کی امامت میں نماز بکراہت ادا ہوجاتی ہے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔(۱)
(۱) وعن ابن عمر -رضی اللّٰہ عنہما- قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ثلثۃ لاتقبل منہم صلوٰتہم من تقدم قوماً وہم لہ کارہون، ورجل أتی الصلاۃ دباراً والدبار أن یأتیہا بعد أن تفوتہ، ورجل اعتبد حجرۃ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، الفصل الثاني‘‘: ج۱، ص: ۱۰۰، رقم: ۱۱۲۳،یاسر ندیم دیوبند)
رجل أم قوما وہم لہ کارہون إن کانت الکراہۃ لفساد فیہ، أولأنہم أحق بالإمامۃ یکرہ ذلک وإن کان ہو أحق بالإمامۃ لایکرہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الامامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۴، زکریا دیوبند)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص302
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اذان کی طرح اقامت بھی سنت ہے اور خارج نماز ہے اس سنت کے ترک سے نماز کا اعادہ لازم نہیں اور سہوا ترک سے اس پر کوئی وعید بھی نہیں ہے۔
’’وھو أي الأذان سنۃ موکدۃ کالواجب، والإقامۃ کالأذان، ترک السنۃ لایوجب فسادا ولا سھوا بل إساء ۃ لوعامدا غیر مستخف، وقالوا: الإساء ۃ أدون من الکراہۃ‘‘(۱)
(۱) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح ’’کتاب الصلاۃ، فصل في سننہا‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۶)
ویکرہ أداء المکتوبۃ بالجماعۃ في المسجد بغیر أذان وإقامۃ کذا في فتاویٰ قاضي خان، ولا یکرہ ترکہما لمن یصلي في المصر إذا وجد في المحلۃ، ولا فرق بین الواحد والجماعۃ ہکذا في التبیین، والأفضل أن یصلی بالأذان والإقامۃ کذا في التمرتا شی۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني في الأذان‘‘: الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن، ج ۱، ص: ۱۱۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص199
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس سلسلہ میں ضابطہ یہ ہے کہ اگر اس نے بھولے سے امام کے ساتھ متصل سلام پھیرا تھا تو اس صورت میں اس پر سجدہ سہو واجب نہ ہوگا لیکن اگر مسبوق نے امام کے متصل سلام نہ پھیرا اس کے لفظ السلام کہنے میں امام سے تاخیر ہوئی ہو تو اس صورت میں بقیہ رکعات پوری کرنے کے بعد سجدہ سہو کرنا اس پر لازم ہے،اسی طرح اگر مسبوق بھولے سے دونوں طرف سلام پھیر دیا اگر اس نے نماز کے منافی کوئی کام نہ کیا ہو تو آخر میں سجدہ سہوکرلے اور اگر مسبوق عمداً امام کے ساتھ سلام پھیرا ہو یا یہ سمجھتے ہوئے سلام پھیرا ہو کہ اس پر امام کے ساتھ سلام پھیرنا لازم ہے، تو اس صورت میں اس کی نماز باطل ہو جائے گی، اعادہ ضروری ہوگا اور جن صورتوں میں مسبوق پر سجدہ سہو لازم ہوتا ہے اگر اس نے سجدہ سہو نہ کیا تو وقت کے اندر نماز واجب الاعادہ ہوگی۔
’’قولہ والمسبوق یسجد مع إمامہ … فإن سلم: فإن کان عامداً فسدت، وإلا لا، ولا سجود علیہ إن سلم سہواً قبل الإمام أو معہ؛ وإن سلم بعد لزمہ لکونہ منفرداً حینئذ، بحر۔ وأراد بالمعیۃ المقارنۃ، وہو نادر الوقوع کما في شرح المنیۃ۔ وفیہ : ولو سلم علیٰ ظن أن علیہ أن یسلم فہو سلام عمد یمنع البناء‘‘(۱)
’’ولو سلم ساہیا إن بعد إمامہ لزمہ السہو وإلا لا۔ ’’قولہ ولم سلم ساہیا: قید بہ لأنہ لو سلم مع الإمام علی ظن أنہ علیہ السلام معہ فہو سلام عمد فتفسد کمافي البحر عن الظہیریۃ۔ قولہ: لزمہ السہو لأنہ منفرد في ہذہ الحالۃ … قولہ وإلا لا … أي وإن سلم معہ أو قبلہ لا یلزمہ لأنہ مقتد في ہاتین الحالتین‘‘(۲)
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص:۵۴۶، ۵۴۷، زکریا۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب فیما لو أتی بالرکوع والسجود أو بہما مع الإمام الخ‘‘: ج ۲، ص: ۳۵۰۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص45