نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1790/43-1529

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  سنن مؤکدہ وقت کے اندر ادا نمازوں کے ساتھ ہی پڑھی جاتی ہیں ، سنن مؤکدہ  کی قضا نہیں ہے، صرف فرض نمازوں کی قضا  کی جائے گی۔  البتہ جس وقت قضا کریں اس وقت کی فرض نماز اور سنن مؤکدہ کو چھوڑنا جائز نہیں ہے۔  سنن مؤکدہ وقت کے اندر وقتیہ فرض کے ساتھ  پڑھنا واجب کے قریب ہے، اس کو ترک کرنا جائز نہیں ہے۔ اس لئے وقتیہ فرض اور سنن مؤکدہ کو ادا کرنے کے بعد چھوٹی ہوئی فرض  اورواجب  نماز  کی قضا پڑھے۔  

إن التطوع على وجهين سنة مؤكدة وهي السنن الرواتب وغير مؤكدة وهو ما زاد عليها والمصلي لا يخلو إما أن يؤدي الفرض بجماعة أو منفرد فإن كان يؤديه بجماعة فإنه يصلي السنن الرواتب قطعا ولا يتخير فيها مع الإمكان لكونها مؤكدة وإن كان يؤديه منفردا فكذلك الجواب في رواية وقيل يتخير؛ لأنه - عليه الصلاة والسلام - واظب عليها عند أداء المكتوبة بالجماعة ولم يرو أنه - عليه الصلاة والسلام - واظب عليها وهو يصلي منفردا فلا يكون سنة بدون المواظبة والأول أحوط؛ لأنها شرعت قبل الفرض لقطع طمع الشيطان عن المصلي وبعده لجبر نقصان يمكن في الفرض والمنفرد أحوج إلى ذلك والنص الوارد فيها لم يفرق فيجري على إطلاقه إلا إذا خاف الفوت لأن أداء الفرض في وقته واجب، (تبیین الحقائق، باب ادراک الفریضۃ 1/184)

بخلاف سنة الهدي، وهي السنن المؤكدة القريبة من الواجب التي يضلل تاركها؛ لأن تركها استخفاف بالدين، (الدرالمختار مع الشامی، سنن الوضوء 1/103)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:امی کے معنیٰ انپڑھ کے نہیں ہیں؛ بلکہ امی اس کو کہتے ہیں جس نے کسی شخص سے لکھنا پڑھنا نہ سیکھا ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے بذاتِ خود علم عطاء فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سے لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا؛ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو امی کہنا درست ہے۔ (۱) البتہ اگر کسی جگہ پر لوگ اس کا مفہوم نہ جانتے ہوں اور اس کے معنی ان پڑھ اور جاہل کے سمجھتے ہوں یا یہ کلمہ استحفاف کے طور پر بولا جاتا ہو تو وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے یہ لفظ استعمال نہیں کرنا چاہئے۔

(۱) {اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِيْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَھُمْ فِي التَّوْرٰئۃِ وَالْإِنْجِیْلِز یَأْمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھٰئہُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَیَضَعُ عَنْھُمْ إِصْرَھُمْ  وَالْأَغْلٰلَ الَّتِيْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ ط} (سورۃ الأعراف: ۱۵۷)
الأمي یعني محمدا صلی اللّٰہ علیہ وسلم منسوب إلی الأم یعني ہو علی ما ولدتہ أمہ لم یکتب ولم یقرأ۔ (محمد ثناء اللّٰہ، تفسیر مظہري’’سورۃ الأعراف: ۱۵۷‘‘: ج ۳، ص: ۴۴۲)
أیضاً: رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أعلم الخلق قاطبۃ بالعلوم ……… ما لم یصل إلی سرادقات ساحتہ أحد من الخلائق لا ملک مقرب ولا نبي مرسل ولقد أعطي علم الأولین والآخرین الخ۔ (خلیل أحمد سہارنفور، المہند علی المفند: ص: ۶۶)


 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند جلد اول ص 194

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:دسویں محرم (عاشوراء) کے دن اعلان کے ساتھ مسجد میں نوافل پڑھنے کا اہتمام و التزام (جس طرح سوال میں مذکور ہے) آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل اور فرمان سے یا حضرات صحابہؓ یا تابعین و تبع تابعین و ائمہ دین ؒ سے ثابت نہیں ہے؛ اس لیے یہ طریقہ ممنوع اور بدعت ہوگا اور قابل ترک ہوگا کہ یہ سب کچھ خلاف سنت اور ناجائز ہے۔(۱) سنت صرف روزہ رکھنا ہے(۲) باقی سب کچھ بے اصل ہے۔ باقی رہی نفل نماز ان مذکورہ حضرات کے ایصال ثواب کے لئے وہ کبھی بھی اور کسی وقت بھی پڑھی جاسکتی ہیں۔

(۱) ومن البدع التي أحدثو ہا في ہذا الشہر الکریم إن أول لیلۃ جمعۃ منہ یصلون في تلک اللیلۃ في الجوامع والمساجد وصلوٰۃ الرغائب ویجتمعون في بعض جوامع الأمصار إلخ۔ (أبو عبد اللّٰہ الشہیر بابن الحجاج، المدخل، ’’المواسم التي ینبونہا إلی شرع ولیست منہا‘‘: ج ۱، ص: ۲۹۳)
(۲) یستحب صوم یوم عاشوراء ویستحب أن یصوم قبلہ یوماً وبعدہ یوماً۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الصوم: باب صوم التطوع، الفصل الأول‘‘: ج ۴، ص: ۴۶۹، رقم: ۲۰۴۱)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص472

 

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ شریف کی چابی اس پہلے ہی متولی ومنتظم کو دیدی تھی، جن کا نام عثمان بن ابی طلحہ رضی اللہ عنہ تھا اور ان کے لئے دعا بھی فرمائی تھی کہ ’’خالدۃ تالدۃ‘‘ یعنی آپ کے پاس یہ چابی ہمیشہ ہمیشہ رہے گی۔(۱)

(۱) دخل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم البیت وصلی فیہ رکعتین فلما خرج سألہ العباس أن یعطیہ المفتاح وأن یجمع لہ بین السقایۃ والسدانۃ فأنزل اللّٰہ ہذہ الأیۃ فأمر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علیا أن یرد المفتاح إلی عثمان ویعتذر إلیہ۔ (’’تفسیر الخازن سورۃ النساء: ۵۸‘‘: ج ۱، ص: ۳۹؛ ومحمد ثناء اللّٰہ پاني پتي، تفسیر المظہري، ’’سورۃ النساء: ۵۸‘‘؛ ج ۲، ص: ۱۴۷)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص203

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق: شامی میں وضاحت ہے کہ کتا نجس العین نہیں ہے(۲)   لیکن اس کا لعاب اور پسینہ ناپاک ہے(۳)؛ اس لیے اگر کتے کا بدن (لعاب یا پسینہ سے) گیلا تھا اور کپڑااس سے مس ہو جائے، تو کپڑا ناپاک ہوگا؛ لیکن اگر کتے کا جسم پانی سے تر تھا اور اس کے بدن پر کوئی دوسری نجاست نہیں تھی، تو کتے کے تر جسم سے کپڑا لگنے سے کپڑا ناپاک نہیں ہوگا۔(۱)

(۲)واعلم أنہ لیس الکلب بنجس العین عند الإمام، و علیہ الفتویٰ، (ابن عابدین،الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ مطلب في أحکام باب الدباغۃ ،ج۱، ص:۳۶۲)
(۳)و سؤر خنزیر و کلب وسباع بھائم و شارب خمر فور شربھا و ھرۃ فور أکل فارۃ نجس۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار،کتاب الطہارۃ، باب المیاہ مطلب في السؤر،ج۱، ص:۳۸۳)، و سؤر الکلب والخنزیر و سباع البھائم نجس، (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، کتاب الطہارۃ، الفصل الثاني فیما لایجوز بہ الوضوء،ج ۱، ص:۷۶)
(۱)الکلب إذا أخذ عضو إنسان أو ثوبہ، لا یتنجّس مالم یظھر فیہ أثر البلل راضیا کان أو غضباناً۔  (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ،کتاب الطہارۃ، الباب السابع: في النجاسۃ و أحکامھا ، الفصل الثاني: في الأعیان النجسۃ، ج۱، ص:۱۰۳) إذا نام الکلب علی حصیر المسجد، إن کان یابساً، لا یتنجّس، و إن کان رطباً و لم یظھر أثر النجاسۃ فکذلک کذا في ’’فتاوی قاضي خاں‘‘(جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، کتاب الطہارۃ، الباب السابع: في النجاسۃ و أحکامھا، الفصل الثانيفي الأعیان النجسۃ، ج۱، ص:۱۰۳)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص414

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:جو حوض دہ در دہ سے کم ہو، جب تک اس میں نجاست گرنے کا یقین نہ ہو، تو وہ حوض پاک ہے، حنفی مسلک کے ماننے والوں کے لیے اس حوض سے وضو بناکر نماز پڑھنا درست ہے۔(۱)

(۱) والماء الراکد الأصل عندنا : أن الماء القلیل مالم یکن عشرا في عشر یتنجس بوقوع النجاسۃ فیہ (ابراہیم الحلبي، حلبي کبیري، فصل في أحکام الحیاض،ص:۸۲) ؛ واعلم أنھم اتفقوا علی أن الماء القلیل یتنجس بوقوع النجاسۃ فیہ۔ (عبدالرحمن بن محمد،مجمع الأنہر، کتاب الطہارۃ، ج۱، ص:۴۶)؛ و لا (أي لا ینجس) لو تغیر بطول مکث فلو علم نتنہ بنجاسۃ لم یجز، ولو شک فالأصل الطھارۃ (ابن عابدین،الدر المختار مع ردالمحتار، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، مطلب: حکم سائر المائعات کالماء في الأصح، ج،۱ ص:۳۳۲)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص463

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق: وضو نہیں ٹوٹتا؛ لیکن تمباکو نوشی کی بدبو منہ میں ہوتی ہے، اس لیے نماز یا مسجد میں جانے سے پہلے کلی کر لینی چاہیے۔(۱)

(۱)و منھا، الإغماء، والجنون، والغشي، والسکر۔ وحد السکر في ھذا الباب: أن لا یعرف الرجل من المرأۃ عند بعض المشائخ وھو اختیار الصدر الشھید (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ ، کتاب الطہارۃ، الباب الأول: في الوضوء، الفصل الخامس، في نواقض الوضوء، منہا الإغماء، والجنون، والغشي، والسکر،ج۱، ص۶۳)؛ و ینقضہ إغماء و منہ الغشي، و جنون، و سکر بأن یدخل في مشیہ تمایل۔ (ابن عابدین، ردالمحتار علی الدر المختار، مطلب نوم الأنبیاء غیر ناقض، ج۱، ص:۲۷۳، مکتبۃ زکریا دیوبند)
 

فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص132

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:نوم انبیاء ناقض وضو نہیں ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات میں سے ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نیند سے بیدار ہوتے تھے، تو بغیر وضو کے نماز کے لیے کھڑے ہو جاتے۔ کما قال أبوداؤد: عن ابن عباس ؓ أن رسول اللّٰہ ﷺ کان  یسجد و ینام و ینفخ ثم یقوم فیصلی ولا یتوضأ(۱) و لما ورد في حدیث آخر: تنام عینای و لا ینام قلبی (۲) ان عبارتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ علیہ الصلوٰۃ و السلام کا سونا ناقض وضو نہیں۔

(۱) أخرجہ: أبوداؤد، في سننہ، ’’باب الوضوء من النوم،‘‘ ج۱، ص:۲۶، رقم : ۲۰۲ (مکتبہ نعیمیہ دیوبند)
(۲)ایضاً:

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص231

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: عورت کا مرد کی شرم گاہ کو منہ میں لینے سے کسی پرغسل واجب نہیں ہوتا، ہاں اگر اس عمل کی وجہ سے انزال ہوجائے، تو اگر دونوں کا انزال ہوجائے تو دونوں پر یا جس کا انزال ہو اس پر غسل واجب ہوگا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ عورت کا مرد کی شرم گاہ کو منہ
میں لینا یا مرد کا عورت کی شرم کو منہ میں لینا یہ گھنائونا عمل ہے۔ اس سے احتراز ضروری ہے (و) لا عند (إدخال إصبع و نحوہ) کذکر غیر آدمی و ذکر خنثی و میت و صبي لا یشتھی وما یصنع نحو خشب (في الدبر أو القبل) علی المختار۔۔۔ (بلا إنزال) لقصور الشھوۃ أما بہ فیحال علیہ ۔۔۔ (قولہ: علی المختار) قال في التجنیس: رجل أدخل إصبعہ في دبرہ وھو صائم، اختلف في وجوب الغسل والقضاء۔ والمختار أنہ لا یجب الغسل ولا القضاء؛ لأن الإصبع لیس آلۃ للجماع فصار بمنزلۃ الخشبۃ ذکرہ في الصوم، و قید بالدبر؛ لأن المختار وجوب الغسل في القبل إذا قصدت الاستمتاع؛ لأن الشھوۃ فیھن غالبۃ فیقام السبب مقام المسبب دون الدبر لعدمھا نوح أفندی۔۔۔ (قولہ: أما بہ) أي ما فعل ھذہ الأشیاء المصاحب للإنزال فیحال وجوب الغسل علی الإنزال۔(۱)
منھا إدخال إصبع و نحوہ کشبہ ذکر مصنوع من نحو جلد في احد السبیلین علی المختار لقصور الشھوۃ۔(۲)
(۱)ابن عابدین، الدر المختار مع الرد، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في رطوبۃ الفرج‘‘ج۱، ص:ـ۳۰۶
(۲) الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’فصل: عشرۃ أشیاء لا یغتسل منھا‘‘ص:۱۰۱

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص321

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: لحنِ جلی سے پڑھنے کی صورت میں اگر کلمہ میں تغیر ہو تو نماز فاسد ہوجاتی ہے اور اگر لحن صرف حروف مدولین میں ہو تو نماز فاسد نہیں ہوتی ہے بشرطیکہ لحن جلی فاحش نہ ہو، جو نماز پڑھی گئی اور اس کی قرأت میں کسی کلمہ میںتغیر نہ ہو تو نماز آپ کی اور امام اوردوسرے مقتدی کی صحیح ہوجائے گی اس لیے جماعت ہی سے نماز پڑھا کریں۔(۱)

(۱) ومنہا القراء ۃ بالألحان إن غیر المعنی وإلا لا إلا في حرف مد ولین إذا فحش وإلا لا۔ بزازیۃ، (قولہ بالألحان) أي بالنغمات، وحاصلہا کما في الفتح إشباع الحرکات لمراعاۃ النغم (قولہ إن غیر المعنی) کما لو قرأ (الحمد للّٰہ رب العالمین) (الفاتحۃ:۲) وأشبع الحرکات حتی أتی بواو بعد الدال وبیاء بعد اللام والہاء وبألف بعد الراء، ومثلہ قول المبلغ رابنا لک الحامد بألف بعد الراء لأن الراب ہو زوج الأم کما في الصحاح والقاموس وابن الزوجۃ یسمی ربیبا۔ (قولہ: وإلا لا إلخ) أي وإن لم یغیر المعنی فلا فساد إلا في حرف مد ولین إن فحش فإنہ یفسد، وإن لم یغیر المعنی، وحروف المد واللین ہي حروف العلۃ الثلاثۃ الألف والواو والیاء إذا کانت ساکنۃ وقبلہا حرکۃ تجانسہا، فلو لم تجانسہا فہي حروف علۃ ولین لا مد۔ تتمۃ۔ فہم مما ذکرہ أن القراء ۃ بالألحان إذا لم تغیر الکلمۃ عن وضعہا ولم یحصل بہا تطویل الحروف حتی لا یصیر الحرف حرفین بل مجرد تحسین الصوت وتزیین القراء ۃ لا یضر، بل یستحب عندنا في الصلاۃ وخارجہا کذا فی التتارخانیۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا، مطلب مسائل زلۃ القاري‘‘: ج۲، ص: ۹۳، ۳۹۲)
والأحق بالإمامۃ) تقدیما بل نصبا مجمع الأنہر (الأعلم بأحکام الصلاۃ) فقط صحۃ وفسادا بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ) وحفظہ قدر فرض، وقیل واجب، وقیل سنۃ (ثم الأحسن تلاوۃ) وتجویدا (للقراء ۃ، ثم الأورع) أي الأکثر اتقاء للشبہات، والتقوی: اتقاء المحرمات۔ (قولہ: ثم الأحسن تلاوۃ وتجویدا) أفاد بذلک أن معنی قولہم أقرأ: أي أجود، لا أکثرہم حفظا وإن جعلہ في البحر متبادرا) ومعنی الحسن في التلاوۃ أن یکون عالما بکیفیۃ الحروف والوقف وما یتعلق بہا قہستاني۔ لایجوز إمامۃ الألثغ الذي لا یقدر علی التکلم بعض الحروف إلا لمثلہ إذا لم یکن في القوم من یقدر علی التکلم بتلک الحروف، فأما إذا کان في القوم من یقدر علی التکلم بہا، فسدت صلاتہ وصلاۃ القوم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)

 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص218