Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1613/43-1166
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔التحیات کی جگہ سورہ فاتحہ پڑھنا شروع کردیا تو اگر اس نے جملہ مکمل کردیا ہے تو سجدہ سہو لازم ہوگا ورنہ نہیں ہوگا مثلا "الحمد للہ " پڑھ دیا،یا قعدہ اولی میں "اللہم صل علی محمد" پڑھ دیا تو اس سے سجدہ سہو لازم ہوگا۔ اسی طرح کسی غیر محل میں "التحیات للہ" پڑھ دیا تو ان تمام صورتوں میں سجدہ سہو واجب ہوگا۔اور اگر ابھی صرف "الحمد" یا "التحیات" یا اللہم صل علی محم" کہا تھا اور یاد آنے پر خاموش ہوگیا تو ان صورتوں میں جملہ پورا نہ ہونے کی وجہ سے سجدہ سہو لازم نہ ہوگا۔
(ولا يزيد) في الفرض (على التشهد في القعدة الأولى) إجماعا (فإن زاد عامدا كره) فتجب الإعادة (أو ساهيا وجب عليه سجود السهو إذا قال: اللهم صل على محمد) فقط (شامی، فروع قرا بالفارسیۃ 1/510) وفي الزيلعي: الأصح وجوبه باللهم صل على محمد (شامی باب سجود السھو 2/81)
قال أبو شجاع: إذا قال في القعدة الأولى: اللهم صل على محمد يلزمه السهو، وعن أبي حنيفة إذا زاد حرفا يجب سجود السهو، وقال الإمام أبو منصور الماتريدي: لا يجب ما لم يقل وعلى آل محمد وعن الصفار: لا سهو عليه في هذا، وعن محمد أنه استقبح إن أوجب سجود السهو بالصلاة على النبي - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -، ولو قرأ فاتحة الكتاب قبل التشهد يلزمه السهو وبعده لا. (البنایۃ، حکم الشک فی عدد رکعات الصلوۃ 2/634)
والمختار كما صرح به في الخلاصة أنه يجب السجود للسهو إذا قال اللهم صل على محمد لا لأجل خصوص الصلاة بل لتأخير القيام المفروض واختاره قاضي خان وبهذا ظهر ضعف ما في منية المصلي من أنه إذا زاد حرفا واحدا وجب عليه سجود السهو على قول أكثر المشايخ؛ لأن الحرف أو الكلمة يسير يعسر التحرز عنه وما ذكره القاضي الإمام من أن السجود لا يجب حتى يقول وعلى آل محمد؛ لأن التأخير حاصل بما ذكرناه وما في الذخيرة من أنه لا يجب حتى يؤخر مقدر ما يؤدي ركنا فيه؛ لأنه لا دليل عليه. (البحرالرائق، آداب الصلوۃ 1/344)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
بدعات و منکرات
Ref. No. 1791/43-1531
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قرآن پاک کی تلاوت پر قاری کو ثواب ملتاہے اور ہر حرف پر دس نیکیاں اور اس سے زیادہ ملنے کی احادیث میں صراحت آئی ہے، البتہ شرط یہ ہے کہ قراءت قرآن کا مقصد اللہ کی خوشنودی ہو، ورنہ آدمی ثواب سے محروم رہے گا۔ جب کوئی بندہ اخلاص کے ساتھ تلاوت کرے تو اس کو جو ثواب حاصل ہوا اس کو دوسروں کوبھی پہونچاسکتاہے۔ لیکن اگر ریاکاری وغیرہ کسی وجہ سے اس کو خود ثواب حاصل نہیں ہوا تو دوسروں کو ایصال ثواب کیسے کرسکتاہے، اس لئے آج کل کی مروجہ قرآن خوانی میں اس کا اہتمام ہو کہ لوگوں سے انفرادی طور پر قرآن خوانی کی درخواست کردی جائے ، اجتماعی قرآن خوانی کا نظم نہ بنایا جائے۔جن لوگوں کو میت سے خصوصی تعلق تھا وہ خلوص کے ساتھ تلاوت کریں گے اور اس کا ثواب میت کو پہونچے گا، اور اس سے میت کو فائدہ پہونچے گا۔
عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم لقي ركبا بالروحاء، فقال: «من القوم؟» قالوا: المسلمون، فقالوا: من أنت؟ قال: «رسول الله»، فرفعت إليه امرأة صبيا، فقالت: ألهذا حج؟ قال: «نعم، ولك أجر»(صحیح مسلم کتاب الحج ،باب صحۃ حج الصبی واجر من حج بہ 2/974)
’ان المراد ان ذلك بسبب حملها له وتجنيبها اياه ما يجتنبہ المحرم واستدل به بعضهم على ان الصبي يثاب على طاعته ويكتب له حسناته وهو قول اكثر اهل العلم (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری،ج7،ص553،مطبوعہ ملتان)
وتصح عباداته وان لم تجب عليه واختلفوا في ثوابها والمعتمد انه له وللمعلم ثواب التعليم وكذا جميع حسناته‘‘(الاشباہ والنظائر،ص264،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ،بیروت) الاصل فی ھذا الباب ان الانسان له ان يجعل ثواب عمله لغيره) يعني سواء كان جعل ثواب عمله لغيره(صلاةاو صوما او صدقة او غيرها)كالحج وقراءة القران والاذكار وزيارة قبور الانبياءوالشهداء والاولياءوالصالحين وتكفين الموتى وجميع انواع البر (البنایہ شرح ھدایہ،کتاب الحج ،باب الحج عن الغیر،ج4،ص422،مطبوعہ کوئٹہ)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 2080/44-2092
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ منت ماننا درست نہیں ہے۔ اس لئے اس کو پورا کرنا بھی ضروری نہیں ہے۔ آپ بلا کسی تردد کے اس کی ختنہ کراسکتے ہیں۔غیرشرعی رسم و رواج کو فروغ دینے کے بجائے ان کی بیخ کنی کی فکر کرنی چاہئے۔
"ومنها ) أن يكون قربةً فلايصح النذر بما ليس بقربة رأسا كالنذر بالمعاصي بأن يقول : لله عز شأنه علي أن أشرب الخمر أو أقتل فلاناً أو أضربه أو أشتمه ونحو ذلك؛ لقوله عليه الصلاة والسلام: { لا نذر في معصية الله تعالى}، وقوله : عليه الصلاة والسلام: { من نذر أن يعصي الله تعالى فلايعصه }، ولأن حكم النذر وجوب المنذور به، ووجوب فعل المعصية محال، وكذا النذر بالمباحات من الأكل والشرب والجماع ونحو ذلك لعدم وصف القربة لاستوائهما فعلاً وتركاً". ) بدائع الصنائع (10/327(
"مصرف الزكاة والعشر: هو الفقير، وهو من له أدنى شيء". (الدر المختار)وفي الشامية: "وهو مصرف أيضاً لصدقة الفطر والكفارة والنذر وغير ذلك من الصدقات الواجبة" . (شامي ۲/۳۳۹(
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں زید نے اگر اعتقاداً حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ابن اللہ کہا تھا تو وہ مرتد ہوگیا اور اس کی بیو ی نکاح سے خارج ہوگئی تھی(۱) لیکن چونکہ اب وہ اپنے قول کا منکر ہے۔ اور یہ انکار توبہ اور اپنے قول سے رجوع ہے۔ اس لئے اس سے کچھ تعرض نہ کیا جائے اور حسب ضرورت اس کو سمجھایا جائے اگر اس کے ذہن میں کوئی خلجان ہو تو تسلی بخش جواب دیا جائے البتہ تجدید نکاح ضروری ہے۔
۱) شہدوا علی مسلم بالردۃ وہو منکر لا یتعرض لہ، لا لتکذیب الشہود العدول بل لأن إنکارہ توبۃ ورجوع یعني فیمتنع القتل فقط، وتثبت بقیۃ أحکام المرتد۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: جملۃ من لا یقتل إذا ارتد‘‘: ج ۶، ص: ۳۹۰)
وفي البحر: والحاصل أن من تکلم بکلمۃ الکفر ہازلا أو لا عبا کفر عند الکل ولا اعتبار باعتقادہ … ومن تکلم بہا عالما عامداً کفر عند الکل۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: ما یشک أنہ ردۃ لا یحکم بہا‘‘: ج ۶، ص: ۳۵۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند جلد اول ص 195
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:انسان اپنے عمل میں مختار ہے اس کو حق حاصل ہے کہ اگر چاہے تو اپنے عمل کا ثواب صاحب ایمان بزرگوں کی ارواحِ مبارکہ کو پہونچائے مگر اس کے لیے دن اور وقت اور مہینہ مقرر کرنے کو ضروری سمجھنا بدعت ہے اور ہر وہ چیز جس پر صاحب شریعت کی طرف سے ترغیب یا وقت مقرر نہ ہو بیکار فعل ہے اور مخالف سنت ہے اور سنت کے مخالف کرنا ناجائز ہے اس لئے ہرگز جائز نہیں ہے۔(۱) اس میں میت کا صریح نقصان ہے اور مخالف سنت امور میں کوئی خیر نہیں ہوتی۔(۲)
(۱) ومنہا التزام العبادات المعینۃ في أوقات معینۃ لم یوجد لہا ذلک التعیین۔ (الشاطبي، الاعتصام، ’’فصل في تعریف البدع‘‘: ج ۱، ص: ۲۶)
وقال الإمام اللکنوي: ’’مقرر کردن روز سوم وغیرہ بالتخصیص و اورا ضروری انگاشتن در شریعت محمدیہ ثابت نیست‘‘۔ (مجموعۃ الفتاویٰ: ج ۱، ص: ۱۹۵)
(۲) مجموعہ فتاویٰ عزیزي: ج۱، ص: ۹۸،۹۹۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص473
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱، ۵) رسول اکرم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں جو منبر خطبہ کے لئے بنایا گیا تھا اس کی تین سیڑھیاں تھیں۔ ’’ومنبرُہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان ثلاث درجٍ غیر المسماۃ بالمستراح قال ابنُ حجر: في التحفۃ وبحث بعضہم أن مااعتید الآن من النزول في الخطبۃ الثانیۃ إلی درجہ سفلی ثم العود بدعۃ قبیحۃ شنیعۃ‘‘(۱) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے اوپر کی سیڑھی پر خطبہ دیتے تھے، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس سے زیریں سیڑھی پر اور عمر رضی اللہ عنہ تیسری سیڑھی پر، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے پھر اوپر ہی کی سیڑھی پر خطبہ دیا۔ تیسری پر نہیں کہ راحت کے لئے بیٹھنے کے وقت زمین پر پیر رکھنے پڑتے ہیں، شرح بخاری میں ہے ’’إن المنبر لم یزل علی حالہ ثلاث درجات‘‘(۲) اور طبرانی میں ہے ’’عن ابن عمر قال لم یجلس أبوبکر الصدیق في مجلس رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی المنبر حتی لقي اللّٰہ عزوجل ولم یجلس عمر في مجلس أبوبکر حتی لقي اللّٰہ، ولم یجلس عثمان في مجلس عمر، حتی لقي اللّٰہ‘‘(۳) پس مسنون طریقہ یہی ہے کہ منبر کی تین ہی سیڑھیاں ہوں؛ لیکن حسب ضرورت اور احوال کا لحاظ رکھتے ہوئے، اگر کم اور زیادہ کر لی جائیں، تو بھی جائز ہے۔ بہر صورت ایک درجہ سے زائد ہونی چاہئیں تاکہ زمین پر پیر نہ رکھنے پڑیں۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۶۱۔
(۲) العیني عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري، ’’باب الخطبۃ علی المنبر‘‘: ج ۶،ص: ۲۱۵، رقم: ۹۷۱۔
(۳) الطبراني، المعجم الأوسط، ’’باب من اسمہ محمود‘‘: ج ۸، ص: ۴۹، رقم: ۷۹۲۳۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص205
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:مٹی کا برتن خواہ کورا ہو یا استعمال شدہ، تین دفعہ دھونے سے پاک ہو جاتا ہے، کوئی الگ سے اس کا طریقہ نہیں ہے۔(۲)
(۲)و یطھر محلّ غیرھا أي غیر مرئیۃ بغلبۃ ظن غاسل۔۔۔۔ طھارۃ محلھا بلا عدد بہ یفتی۔ وقدر ذلک لموسوس بغسل و عصر ثلاثاً فیما ینعصر و بتثلیث جفاف أي إنقطاع تقاطر في غیرہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب في حکم الوشم،ج۱،ص:۵۳۹-۵۴۰)، و یطھر متنجس بنجاسۃ مرئیۃ بزوال عینھا ولو بمرّۃ علی الصحیح، ولا یضر بقاء أثر شق زوالہ، و غیر المرئیۃ بغلسھا ثلاثاً والعصر کل مرۃ۔ (الشرنبلالي،، نورالإیضاح، باب الأنجاس والطہارۃ عنھا،ج۱،ص:۵۳-۵۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص415
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:اگر حیض اور نجاست وغیرہ گرنے سے ناپاک ہو جائے، تو وہ حوض ناپاک ہے اور حوض کا تمام پانی نکالنے سے حوض پاک ہوگا۔(۲)
(۲) إذا وقعت نجاسۃ في بئر دون القدر الکثیر، أو مات فیھا حیوان دموي وانتفخ أو تفسخ، ینزح کل مائھا بعد إخراجہ۔ (ابن عابدین، تنویر الٔابصار مع الدر المختار و رد المحتار، کتاب الطہارۃ، فصل في البئر، ج۱، ص:۳۶۶-۳۶۷)؛ و إذا وقعت في البئر نجاسۃ، نزحت۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، کتاب الطہارۃ، النوع الثالث: ماء الآبار،ج۱، ص:۷۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص463
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ناخن ان اعضاء میں سے ہے جن کو وضو میں دھونا ضروری ہے اور پالش ان چیزوں میں ہے جو اپنی کثافت کی وجہ سے پانی کو ناخن تک پہنچنے میں رکاوٹ بنتی ہے، اسی لیے پالش لگا کر وضو کرنا درست نہیں ہے ا ور سرخی اس سے مختلف ہے؛ اس لیے اس کا حکم یہ نہیں ہے۔(۱)
(۱)و زوال مایمنع وصول الماء إلی الجسد کشمع و شحم أو کان فیہ ما یمنع الماء کعجین وجب غسلہ ما تحتہ و لا یمنع الدرن و خرء البراغیث۔(الشرنبلالی، نورالإیضاح، کتاب الطہارۃ، فصل في الوضوء، ص:۳۱ مکتبۃ عکاظ دیوبند)؛ و إن کان ممضوغاً مضغاً متاکداًبحیث تداخلت أجزاء ہ و صار لزوجۃ و علاکۃ کالعجین شرح المنیۃ۔ قولہ وھو الأصح صرح بہ في شرح المنیۃ و قال: لامتناع نفوذ الماء مع عدم الضرورۃ۔ والحرج۔ (ابن عابدین، ردالمحتار، کتاب الطہارۃ، مطلب في أبحاث الغسل، ج۱، ص:۲۸۹)؛ والخضاب إذا تجسد و یبس یمنع تمام الوضوء والغسل۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ،کتاب الطہارۃ، الباب الأول في الوضوء، الفرض الثاني: غسل الیدین،ج:۱، ص:۵۴، مکتبۃ فیصل دیوبند)؛ و أو لزق بأصل ظفرہ طین یابس أو رطب لم یجز، و إن تلطخ یدہ بخمیر أو حناء جاز۔(جماعۃ من علماء الہند، ’’کتاب الطہارۃ، الباب الأول في الوضوء، الفرض الثاني، في غسل الیدین‘‘، ج:۱، ص:۵۵)
فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص132
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: فقہ حنفی کی معتبر کتاب در مختار میں لکھا ہے کہ: باوضو شخص اگر شرمگاہ کو چھوتا ہے، تو چھونے کی وجہ سے وضو نہیں ٹوٹے گا، لیکن مستحب ہے کہ ہاتھ دھولے؛ ایسے ہی اگر اس نے عورت کو چھو لیا یا امرد کو ہاتھ لگا دیا؛ تویہ بھی ناقض وضو نہیں ہے۔
لا ینقضہ مس ذکر لکن یغسل یدہ ندباً۔ وامرأۃ و أمرد لکن یندب۔(۴) عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أنہ سألہ رجل فقال یا نبی اللّٰہ ماتری في مس الرجل ذکرہ بعد ما توضأ؟ فقال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ہل ہو إلا بضعۃ منک أو مضغۃ منک ہذا حدیث ملازم، صحیح مستقیم الإسناد،(۱) و منہا: مس إمرأۃ الخ۔(۲)
(۴) ابن عابدین، ردالمحتار، کتاب الطہارۃ، مطلب في ندب مراعاۃ الخلاف إذا لم یرتکب مکروہ مذہبہ، ج۱، ص:۱۴۷
(۱) أخرجہ أبوجعفر أحمد بن محمد، المعروف بـ الطحاوي، شرح معاني الآثار، ’’باب مس الفرج ھل یجب فیہ الوضوء أم لا‘‘، ج۱، ص:۷۶، رقم: ۴۶۱
(۲) مراقی الفلاح شرح متن نور الإیضاح، حسن بن عمار المصري الحنفي، وراجعہ، نعیم زردور۔ ’’کتاب الطہارۃ، فصل عشرۃ أشیاء لا تنقض الوضوء‘‘، ج۱، ص:۳۸
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص232