Frequently Asked Questions
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:فرض غسل کے اندر پورے جسم تک پانی پہنچانا فرض ہے اس لیے بلاضرورت اس طرح کے چپ کا استعمال درست نہیںہوگا اور اگر کوئی اس طرح کا چپ استعمال کرے، تو اس کا فرض غسل صحیح نہیں ہوگا، ہاں اگر مریض کو اس طریقۂ علاج کی ضرورت ہو اور اس طرح سے فائدہ کا یقین یا ظن غالب ہو، تو اس طرح کے چپ کے استعمال کی اجازت ہوگی اور اگر غسل فرض کی ضرورت ہو اور چپ نکالنے میں نقصان اور ضرر نہ ہو، تو چپ نکالنا ضروری ہے ورنہ اسی چپ کے ساتھ غسل کرلے۔ اس چپ کو پٹی کے مشابہ قرار دیا جائے گا اس کے ظاہر پر پانی پھیر لینا کافی ہوگا۔
و یجب أي یفرض (غسل) کل ما یمکن من البدن بلا حرج مرۃ کأذن و سرۃ و شارب و حاجب و أثناء لحیۃ و شعر رأس ولو متلبداً لما في -فاطھروا- من المبالغۃ.و أما إذا لم یضرہ فلا یمسح علی الجبائر.(۱) قال قاضی خاں : و یمسح علی العصابۃ کان تحتہ جراحۃ أو لا۔۔۔ لأن العصابۃ لا تعصب علی وجہ
یأتي علی موضع الجراحۃ۔ (۲)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في أبحاث الغسل‘‘ ج۱،ص:۲۸۵
(۲) محمد بن محمد، العنایۃ شرح الہدایۃ، ’’باب المسح علی الخفین‘‘ ج۱،ص:۱۵۷(بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص322
اسلامی عقائد
Ref. No. 2722/45-4466
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ وہ اسباب جن کی بناء پر شریعت کسی چیز کو حرام قرار دیتی ہے، وہ پانچ ہیں، ضرر، سکر، خبث، کرامت، نجاست۔
خبث سے مراد یہ ہے کہ ایک سلیم الفطرت انسان اس کو طبعی طور پر ناپسند کرے، اور اس کا مزاج اس سے گھن کھائے اور طبیعت نفرت کرے، اگر کوئی شیئ مضرت یا خبث کی وجہ سے حرام ہو، مگر مجموعہ میں جاکر اس کا خبث دور ہو جائے اور مضرت نہ رہے اور گھن محسوس نہ ہو تو اس کا استعمال جائز ہوگا۔آپ نے جس شیلاک کا ذکر کیا ہے یہ لیک نامی کیڑے سےنکالا جاتا ہے، اس شیلاک میں اگر کوئی خبث نہیں ہے تواس کا استعمال جائز ہوگا ، اس کو اگر کسی کھانے کی چیز میں ملایا جائے تو عدم استقذا شرط ہے اور اگر خارجی استعمال ہو تواس کے لئے عدم استقذاء شرط نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: بعض اوقات حرف کو گھٹانے یا بڑھانے سے معنیٰ میں فساد پیدا ہو جاتا ہے اور فسادِ معنی سے فسادِ نماز کا اندیشہ ہے، لہٰذا ایسے شخص کو امام صاحب کی غیر موجودگی میں امام نہیں بنانا چاہیے، بلکہ صحیح قرآن پڑھنے والے کو امام مقرر کرنا چاہیے جو قرآن کریم کے حروف کو قواعد کے مطابق صحیح ادائیگی کے ساتھ پڑھ سکے۔(۱)
نیز اگر نمازی میں اس امام سے بہتر کوئی قاری،حافظ اور عالم موجود ہوں تو مذکورہ شخص کے پیچھے نماز درست نہیں ہوگی اگر ان حضرات نے اس کے پیچھے نمازیں پڑھی ہیں تو وہ نماز واجب الاعادہ ہیں۔
البتہ مذکورہ شخص کو چاہئے کہ اس دوران قرآن کی تعلیم لیتا رہے اور حروف کی صحیح ادائیگی کی پوری کوشش کرتا رہے تو اس کے پیچھے ا س جیسا قرآن مجید پڑھنے والے مقتدیوں کی نماز تو درست ہو جائے گی تاہم صحیح پڑھنے والے عالم کا اس کے پیچھے نماز ادا کرنا درست نہیں ہے۔
’’في الدر المختار: (و) لا (غیر الالثغ بہ) أي بالألثغ (علی الأصح) کما في البحر عن المجتبیٰ، و حرر الحلبي وابن الشحنۃ أنہ بعد بذل جھدہ دائما حتما کالأمي فلا یؤم، إلا مثلہ‘‘
’’وفي الشامیۃ تحتہ: (قولہ ولا غیر الألثغ بہ) ھو بالثاء المثلثۃ بعد اللام من اللثغ بالتحریک … زاد في القاموس : أو من حرف إلی حرف … (قولہ فلا یؤم إلا مثلہ) یحتمل أن یراد المثلیۃ في مطلق اللثغ فیصح اقتداء من یبدل الراء المھملۃ غینا معجمۃ بمن یبد لھا لا ما۔ وفي الدر: واعلم أنہ (إذا فسد الاقتداء) بأي وجہ کان (لا یصح شروعہ في صلاۃ نفسہ)‘‘(۱)
’’في الدر المختار: ولا (حافظ آیۃ من القرآن بغیر حافظ لھا) وھو الأمي اھـ۔
’’وفي الشامیۃ تحتہ: (قولہ بغیر حافظ لھا) شمل من یحفظھا أو اکثر منھا لکن بلحن مفسد للمعنی لما في البحر: الأمي عندنا من لا یحسن القراء ۃ المفروضۃ اھـ‘‘(۲)
(۱) ظفر أحمد العثماني، إمداد الأحکام: ج ۲: ص: ۱۸۶۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في الألثغ‘‘: ج ۲، ص:۳۲۹-۳۲۷۔
(۲) أیضًا: ’’مطلب: الواجب کفایۃ ہل یسقط بفعل الصبي وحدہ‘‘: ج۲، ص: ۳۲۴؛ وکذا في مراقي الفلاح مع حاشیۃ للطحطاوي:ص: ۴۳۲۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص220
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں بعض حفاظ اپنا قرآن کریم پورا کرنے کے بعد دوسری مسجد میں قرآن کریم سنانے والے حفاظ کو پریشان کرتے ہیں اور مقتدیوں کی نظر میں اس کو رسوا کرنے کے لیے کئی کئی حافظ جاکر پیچھے کھڑے ہوجاتے ہیں اور سب غلطیاں بتلاتے ہیں شرعاً ایسا کرنا درست نہیں ہے اور یہ صورت بظاہر فتنہ ہی کی ہے۔ بلکہ ایک سامع متعین ہو اگر وہ غلطی نہ بتلاسکے تو دوسرا شخص بتلاسکتا ہے۔ اور اگر ایسی کوئی نیت نہ ہو اور حفاظ کرام غلطی بتلادیں، تو ان کو فتنہ وغیرہ برے الفاظ سے خطاب نہ کیا جائے ایسے شخص وامام کو زبان کی حفاظت لازم ہے اور آئندہ ایسے طرز گفتگو سے پرہیز کیا جائے تو شرعاً امامت درست ہے اور چاہیے کہ توبہ کا اعلان کردے۔(۱)
(۱) {وَالَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اکْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُھْتَانًا وَّاِثْمًا مُّبِیْنًاہع ۵۸}(سورۃ الاحزاب: ۵۸)
وعن أبي موسی ما أحد أصبر علی أذی یسمعہ من اللّٰہ یدعون لہ الولد ثم یعافیہم ویرزقہم، متفق علیہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان، الفصل الأول‘‘: ج۱، ص: ۱۳، رقم: ۲۳)
وعن أبي ہریرۃ -رضي اللّٰہ عنہ- قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ، والمؤمن من أمنہ الناس علی دمائہم وأموالہم، رواہ الترمذي۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان، الفصل الأول‘‘: ج۱، ص: ۳، رقم: ۵،مکتبہ یاسر ندیم دیوبند)
أخرج الحاکم في مستدرکہ مرفوعاً إن سرکم أن یقبل اللّٰہ صلاتکم فلیؤمکم خیارکم فإنہم وفدکم فیما بینکم وبین ربکم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۳۰۱، زکریا دیوبند)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص304
اسلامی عقائد
الجواب وباللہ التوفیق: اس صورت میں اس ضعیف کے لیے ضروری ہے کہ صف میں مل کر کھڑے ہوں(۲) طاقت ہو تو کھڑے ہوکر نماز پڑھیں اسی طرح دیوار کے سہارے سے کھڑے ہوکر پڑھنے کی بھی گنجائش ہے۔(۳)
(۲) قال الشمني، وینبغي أن یأمرہم بأن یتراصوا ویسدوا الخلل ویسوّوا …مناکبہم ویقف وسطاً، قال في المعراج: الأفضل أن یقف في الصف الآخر إذا خاف إیذا أحد، قال علیہ السلام: من ترک الصف الأوّل مخافۃ أن یؤذی مسلماً أضعف لہ أجر الصف الأول۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ، مطلب ہل الإساء ۃ دون الکراہۃ أو أفحش منہا‘‘: ج۲، ص: ۳۱۰)
(۳) ولو قدر علی القیام متکئاً الصحیح أنہ یصلي قائماً متکئاً ولا یجزیہ غیر ذلک وکذلک لو قدر علی أن یعتمد علی عصا أو علی خادم لہ فإنہ یقوم ویتکيء۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ: الباب الرابع عشر في صلاۃ المریض‘‘: ج۱، ص: ۱۹۶، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص418
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جان بوجھ کر ایسا کرنا تو غلط ہے؛ لیکن نماز ہوجاتی ہے نامکمل تکبیر کا نماز پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔(۱)
(۱) ویترسل فیہ بسکتۃ بین کل کلمتین یکرہ ترکہ وتندب إعادتہ۔ (ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: مطلب في أول من بنی المنائر للأذان، ج ۲، ص: ۵۳)
ویستقبل القبلۃ بہما ولو قدم فیہما مؤخرا أعاد ما قدم فقط۔ (ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: مطلب في أول من بنی المنابر للأذان، ج ۲، ص: ۵۳، ۵۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص200
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اگر مقتدی نے امام کو قیام کی حالت میں پایا اور امام قرأت نہیں کررہاہے تو مقتدی ثنا پڑھ کرامام کے پیچھے خاموش کھڑا رہے۔ اور امام کے ساتھ نماز پڑھتارہے۔ پھر امام کے سلام پھیرنے کے بعد اپنی چھوٹی رکعت ادا کرنے کے لیے کھڑا ہو تو تعوذ وتسمیہ اور قرات سے شروع کرے، اور ثنا نہ پڑھے۔
’’(منہا) أنہ إذا أدرک الإمام في القراء ۃ في الرکعۃ التي یجہر فیہا، لا یأتي بالثناء‘‘(۱)
’’فقلنا: بأن المسبوق یأتي بالثناء متی دخل مع الإمام في الصلاۃ، حتی یقع الثناء في محلہ، وہو ما قبل أداء الأرکان، واعتبرنا الحکم فیما أدرک، وفیما یقضی في حق القراء ۃ، فجعلنا ما أدرک آخر صلاتہ وما یقضی أول صلاتہ، فیجب القراء ۃ علیہ فیما یقضی؛ لأن القراء ۃ رکن لا تجوز الصلاۃ بدونہا‘‘(۲)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الھندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل السابع في المسبوق واللاحق‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۸۔
(۲) المحیط البرھاني في الفقہ النعماني، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل الثالث والثلاثون: المسبوق واللاحق‘‘: ج ۳، ص: ۱۱۵۔)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص47
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں نماز تو درست ہوجاتی ہے؛ لیکن یہ عادت اچھی نہیں اس کو چھوڑ دینا چاہئے۔(۳)
(۳) وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قٰنِتِیْنَ ہ۲۳۸ (سورۃ البقرۃ: ۲۳۸)
کل عمل ہو مفید لابأس بہ للمصلي … ومالیس بمفید یکرہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، الباب السابع، الفصل الثاني، ج۱، ص: ۱۶۴)
عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن اللّٰہ کرہ لکم ثلاثاً: العبت في الصلاۃ والرفث في الصیام، والضحک في المقابر۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدر المختار، باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا، مطلب في الکراھۃ التحریمیۃ و التنزیہیۃ۔ ج۲، ص: ۴۰۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص160
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: جان کر لحن جلی یا خفی کرنا جائز نہیں ہے بھول کر (نماز میں) لحن خفی ہوجائے تو نماز ہوجاتی ہے اور اگر بھول کر لحن جلی ہو تو نماز بھی اکثر صورتوں میں نہیں ہوتی تو جان کر بدرجہ اولی نہیں ہوگی۔ فرائض، واجبات اور تراویح سب کا حکم یکساں ہے، کوئی خاص صورت پیش آجائے تو اس کی پوری وضاحت کرکے سوال کیا جائے۔(۲)
(۲) (قولہ بالألحان) أي بالنغمات، وحاصلہا کما في الفتح إشباع الحرکات لمراعاۃ النغم (قولہ إن غیر المعنی) کما لو قرأ {الحمد للّٰہ رب العالمین} (الفاتحۃ: ۲) وأشبع الحرکات حتی أتی بواو بعد الدال وبیاء بعد اللام والہاء وبألف بعد الراء، ومثلہ قول المبلغ رابنا لک الحامد بألف بعد الراء لأن الراب ہو زوج الأم کما في الصحاح والقاموس، وابن الزوجۃ یسمی ربیبا۔ (قولہ وإلا لا إلخ) أي وإن لم یغیر المعنی فلا فساد، إلا في حرف مد ولین إن فحش فإنہ یفسد، وإن لم یغیر المعنی۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا، مطلب في المشي في الصلاۃ‘‘: ج۲، ص:۳۹۲، ۳۹۳)
(والأحق بالإمامۃ) تقدیما بل نصبا مجمع الأنہر (الأعلم بأحکام الصلاۃ) فقط صحۃ وفسادا بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ، وحفظہ قدر فرض، وقیل واجب، وقیل سنۃ (ثم الأحسن تلاوۃ) وتجویدا (للقراء ۃ، ثم الأورع) أي الأکثر اتقاء للشبہات۔ والتقوی: اتقاء المحرمات (قولہ ثم الأحسن تلاوۃ وتجویدا) أفاد بذلک أن معنی قولہم أقرأ: أي أجود، لا أکثرہم حفظا وإن جعلہ في البحر متبادرا، ومعنی الحسن في التلاوۃ أن یکون عالما بکیفیۃ الحروف والوقف وما یتعلق بہا۔ قہستاني۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج۲، ص:۲۹۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص278
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: فرض نماز چھوڑی تو اس کا سخت گناہ ہوگا، فرض چھوڑ کر نفل پڑھنا یا نفل کو فرض سے زیادہ لازم سمجھنا شرعاً درست نہیں ہے(۱) شادی کے دن کوئی شخص مزید نفلیں پڑھے تو بلا شبہ بہتر ودرست ہے؛ لیکن اس کو اتنا رواج دینا کہ اگر کوئی نفلیں نہ پڑھے تو اس پر لعن طعن کیا جائے درست نہیں ہے اور رواج کی وجہ سے نفلیں پڑھنا باعث ثواب بھی نہیں ہے۔(۲)
(۱) وتارکہا عمداً مجانۃ أي تکاسلاً فاسق۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵، زکریا دیوبند)قولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من ترک الصلاۃ فقد کفر۔ فأول فیہ بعضہم أنہ لیس حکما بالکفر، بل معناہ أنہ قرب الکفر الخ۔ (الکشمیري، فیض الباري، ’’کتاب الإیمان، باب کفران العشیر الخ‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۹)
(۲) من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ البخاري في صحیحہ، کتاب الصلح، ’’باب إذا اصطلحوا علی صلح جور فھو مردود‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص388