Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اگر متولی یا انتظامیہ کمیٹی موجود ہوں اور ان کی طرف سے ضابطہ اور قانون متعین ہے اور اس کی ملازمت یا تقرر کے وقت جو معاملہ طے ہوا ہے اس کے خلاف ورزی کرتا ہو، تو تنخواہ کا مستحق نہ ہوگا غیر حاضری کی تنخواہ وضع ہوگی۔ نیز دھمکی کے مذکورہ الفاظ کہنے جائز نہیں۔(۱)
(۱) الإجارۃ عقد یرد علی المنافع بعوض ولا یصح حتی تکون المنافع معلومۃ والأجرۃ معلومۃ۔ (المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الإجارۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۹۳)
وإذا شرط علی الصانع أن یعمل بنفسہ فلیس لہ أن یستعمل غیرہ وإن أطلق لہ العمل فلہ أن یستاجر من یعملہ لأن المستحق عمل في ذمتہ ویمکن إیفاء ہ بنفسہ۔ (المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الإجارۃ‘‘: ج۱، ص: ۲۹۶، دارالکتاب دیوبند)
لو استوجر أحد ہولاء علی أن یعمل للمستاجر إلی وقت معین یکون أجیراً خاصاً في مدۃ ذلک الوقت، مجلۃ الأحکام العدلیۃ مع شرحہا۔ (درر الحکام لعلي حیدر، ص: ۴۵۴، رقم المادۃ: ۴۲۲، دار عالم الکتب للطباعۃ والنشر والتوزیع)، الریاض۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص303
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر نمازی کم ہوں اور صف اول میں تکبیر کہنے سے سب کو آواز پہنچتی ہے، تو تکبیر واقامت صف اول میں کہنا بہتر ہے، ہاں اگر سب کو آواز نہ پہنچے اور درمیان کی کسی صف میں تکبیر کہی جائے کہ جس وجہ سے سب کو آواز پہنچ جائے، تو اس میں کوئی حرج نہیں۔(۱)
(۱) ویسن الأذان في موضع عال والإقامۃ علی الأرض۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ج ۲، ص: ۴۸، زکریا دیوبند)
وینبغي أن یکون المؤذن رجلا عاقلاً صالحاً تقیا عالماً بالسنۃ۔۔۔۔ والأحسن أن یکون إماما في الصلوٰۃ إلی قولہ: وینزل للإقامۃ، کذا في فتاویٰ قاضیخان وإن لم ینزل وأقام أجزاہ، کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني في الأذان‘‘: الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن، ج۱، ص: ۱۱۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص200
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: مذکورہ طریقہ سے چھوٹی ہوئی رکعتیں پڑھنا بھی درست ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ افضل طریقہ یہ ہے کہ ایک رکعت پڑھ کر بیٹھ جائے، تشہد پڑھے، پھر تیسری رکعت پڑھے اور نماز پوری کرے۔
’’وأما وجوب القعدۃ بعد قضاء الأولیین من الرکعتین اللتین سبق بہما فنقول القیاس أن یقضی الرکعتین ثم یقعد إلا أنا استحسنا وترکنا القیاس بالأثر وہو ما روي أن جندبا ومسروقا ابتلیا بہذا فصلی جندب رکعتین ثم قعد وصلی مسروق رکعۃ ثم قعد ثم صلی رکعۃ أخری فسألا ابن مسعود عن ذلک فقال کلاکما أصاب ولو کنت أنا لصنعت کما صنع مسروق، وإنما حکم بتصویبہما لما أن ذلک من باب الحسن إلی وأما حکم القراء ۃ في ہذہ المسألۃ فنقول: إذا أدرک مع الإمام رکعۃ من المغرب ثم قام إلی القضاء یقضی رکعتین ویقرأ في کل رکعۃ بفاتحۃ الکتاب وسورۃ‘‘(۱)
’’ثم قضی أي المأموم الرکعتین بتشہدین، لما قدمنا من أن المسبوق یقضی آخر صلاتہ من حیث الأفعال، فمن ہذہ الحیثیۃ ما صلاہ مع الإمام آخر صلاتہ، فإذا أتی برکعۃ مما علیہ کانت ثانیۃ صلاتہ فیقعد ثم یأتی برکعۃ ویقعد‘‘(۲)
(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، فصل الکلام في مسائل السجدات یدور علی أصول‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۹۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب واجبات الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۷۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص46
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: بغیر الف لام کے صرف ’’سلام علیکم‘‘ کہہ کر نماز کا سلام پھیرنا مکروہ اور خلاف سنت ہے۔ امام کو سمجھایا جائے کہ تصحیح کرے(۱) اور اگر امام ’’السلام علیکم‘‘ کہتا ہے مگر سننے میں الف لام نہیں آتا، تو کوئی حرج نہیں یہ مکروہ نہیں ہے۔ امام صاحب سے ادب و احترام کا لحاظ رکھتے ہوئے دریافت کریں کہ وہ کیا کہتے ہیں اس کے بعد ہی مقتدیوں کو کوئی رائے متعین کرنی چاہئے۔ از خود بدگمانی نہ کریں(۲) کہ بدگمانی بسا اوقات گناہ عظیم کا باعث ہوتی ہے اور اس سے غیبت جیسے گناہ میں ابتلاء ہوتا ہے جو سخت ترین گناہ ہے۔
(۱) ہو السنۃ: قال في البحر: وہو علی وجہ الأکمل أن یقول: السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ مرتین، فإن قال: السلام علیکم أو السلام أو سلام علیکم أو علیکم السلام، أجزأہ وکان تارکا للسنۃ، وصرح في السراج بکراہۃ الأخیر، قلت: تصریحہ بذلک لاینافي کراہۃ غیرہ أیضا مما خالف السنۃ،(ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ج۲، ص: ۲۴۱)۔
(۲) عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ: عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: إیاکم والظن فإن الظن أکذب الحدیث۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأدب، باب ما ینھی عن التحاسد و التدابر‘‘: ج۲، ص: ۸۹۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص160
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: اگر وہ دانستہ لفظ طاء کی جگہ تا پڑھتا ہے تو معنی بدلنے کی وجہ سے نماز نہ ہوگی اگر دانستہ نہیں پڑھتا ہے اور سننے والوں کو ایسا ہی لگتا ہے اور وہ کوشش کے باوجود صحیح مخرج ادا نہیں کرتا تو نماز ہوجائے گی اکثر امام قاری نہیں ہوتے۔(۱)
(۱) إن کانت الکلمۃ التي قرأہا مکان کلمۃ یقرب معناہا وہي في القرآن لا تفسد ’’صلاتہ‘‘ نحو: إن قرأ مکان العلیم الحکیم … وإن کان في القرآن ولکن لا تتقارب في المعنی نحو إن قرأ {وعدا علینا إنا کنا غافلین} مکان ’’فاعلین‘‘ ونحوہ مما لو اعتقدہ یکفر تفسد عند عامۃ مشایخنا وہو الصحیح من مذہب أبي یوسف رحمہ اللّٰہ تعالی، ہکذا في الخلاصۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷، زکریا دیوبند)
ولو زاد کلمۃ أو نقص کلمۃ أو نقص حرفاً أو قدمہ أو بدلہ بآخر نحو من ثمرہ إذ أثمر واستحصد تعالیٰ جد ربنا انفرجت بدل انفجرت أیاب بدل أوّاب لم تفسد ما لم یتغیر المعنیٰ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ، وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۵، ۳۹۶،زکریا)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص277
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: دو دو رکعت پڑھنا زیادہ بہتر ہے اور چار رکعت ایک سلام کے ساتھ پڑھ لیں تو بھی درست ہے۔(۱)
(۱) عن أنس رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من صلی الغداۃ في جماعۃ، ثم قعد یذکر اللّٰہ حتی تطلع الشمس، ثم صلی رکعتین کانت لہ کأجر حجۃ وعمرۃ قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: تامۃ تامۃ تامۃ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب السفر، باب ذکر ما یستحب من الجلوس في المسجد بعد صلاۃ الصبح حتی تطلع الشمس‘‘: ج ۱، ص:۱۳۰)
عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن اللّٰہ تبارک وتعالیٰ أنہ قال: ابن آدم إرکع لي أربع رکعات من أول النہار أکفک آخرہ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الوتر، باب ما جاء في صلاۃ الضحیٰ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۸، نعیمیہ دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص387
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 1190 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ بشرط صحت سوال مذکورہ قبرستان کو صاف کروانا درست ہے اور جس قبر میں گڈھا ہوگیا ہو اس کو مٹی ڈال کر برابر کرنا بھی درست ہے۔ واللہ اعلم
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 40/000
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بعض صحابہ سے سورہ فاتحہ کا پڑھنا منقول ہے جبکہ بعض کا عمل اس کے خلاف ہے، احناف نے عدم قرات کو اختیار کیا ہے۔ اگر سورہ فاتحہ ہی ضروری ہوتا تو کسی صحابی سے اس کے خلاف ہونا ہرگز مروی نہ ہوتا۔ اس لئے بطور حمد و ثنا کے اس کی گنجائش ہوگی اور ثنا کی جگہ اگر کوئی الحمد شریف پڑھے تو حرج نہیں البتہ بطور قرات کے سورہ فاتحہ پڑھنا منقول نہیں جیسا روایات میں صراحت ہے کہ ابن عمر وغیرہ صحابہ نماز جنازہ میں قرات نہیں کرتے تھے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
بدعات و منکرات
Ref. No. 1273/42-624
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (1) جنازہ کی نماز خود دعا ہے اور اس میں میت کے لیے مغفرت کی دعا کرنا ہی اصل ہے، جنازہ کی نماز کے بعد ہاتھ اٹھاکر دعا کرنا قرآن وسنت، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، تابعین ، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین رحمہم اللہ سے ثابت نہیں ہے، اس لیے اجتماعی طور پر ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا ممنوع اور بدعت ہے، ہاں انفرادی طور پر ہاتھ اٹھائے بغیر دل ہی دل میں دعا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
(2) میت کو دفن کرنے کے بعد دعا کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، لہذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے قبر کے پاس کھڑے ہوکردعا کرنا جائز ہے۔
''ولا يدعو للميت بعد صلاة الجنازة؛ لأنه يشبه الزيادة في صلاة الجنازة'' (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (4/ 149) "لايقوم بالدعاء في قراءة القرآن لأجل الميت بعد صلاة الجنازة". (خلاصة الفتاوي،كتاب الصلاة، الفصل الخامس و العشرون في الجنائز، 1/225، ط: رشيدية) ’’عن ابن مسعود قال: والله لكأني أرى رسول الله في غزوة تبوك، وهو في قبر عبد الله ذي البجادين وأبو بكر وعمر، يقول: أدنيا مني أخاكما، وأخذه من قبل القبلة حتى أسنده في لحده، ثم خرج رسول الله وولاهما العمل، فلما فرغ من دفنه استقبل القبلة رافعاً يديه يقول: اللّٰهم إني أمسيت عنه راضياً فارض عنه، وكان ذلك ليلاً، فوالله لقد رأيتني ولوددت أني مكانه‘‘ (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح 5/452)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Hadith & Sunnah
Ref. No. 1395/42-818
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
The ruling of all Sunan e Muakkadah (recommended voluntary prayers) including fajr sunnat is that its abandoner will be dubbed sinner i.e. he will deserve punishment. However, it is up to Allah to punish him or forgive.
((و) السنن (آكدها سنة الفجر) اتفاقا، ثم الأربع قبل الظهر في الأصح، لحديث «من تركها لم تنله شفاعتي» ثم الكل سواء (وقيل بوجوبها، فلا تجوز صلاتها قاعدا) ولا راكبا اتفاقا (بلا عذر) على الأصح (قوله آكدها سنة الفجر) لما في الصحيحين عن عائشة - رضي الله عنها - «لم يكن النبي - صلى الله عليه وسلم - على شيء من النوافل أشد تعاهدا منه على ركعتي الفجر» وفي مسلم «ركعتا الفجر خير من الدنيا وما فيها» وفي أبي داود «لا تدعوا ركعتي الفجر ولو طردتكم الخيل» بحر. (شامی، باب الوتر والنوافل 2/14)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband