Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:تعزیہ بدعت ہے اور اس پر تعاون وغیرہ بھی جائز نہیں لیکن اس کا مرتکب گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے(۱) خارج از اسلام نہیں ہے؛ اس لئے اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے۔(۲)
(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ متفق علیہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص:۲۷، رقم: ۱۴۰)
(۲) وشرطہا إسلام المیت وطہارتہ إلخ وقال: من قتل نفسہ عمداً یصلي علیہ عند أبي حنیفۃ ومحمد رحمہما اللّٰہ وہو الأصح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الحادي والعشرون في الجنائز، الفصل الخامس: في الصلاۃ علی المیت‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص473
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:شب معراج کی سواری کا نام براق تھا، جس کی جسامت کے بارے میں صرف اتنا منقول ہے کہ وہ گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا تھا (۱)، آج کل جو شکل اس کی کیلنڈر پر ملتی ہے، اس کی کوئی اصل وحقیقت نہیں ہے؛ اس لئے ان کا گھر میں رکھنا بھی درست نہیں ہے۔
(۱) وأتیت بدابۃ أبیض، دون البغل وفوق الحمار: البراق۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’باب ذکر الملائکۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۵۵، رقم: ۳۲۰۷)
ثم أتیت بدابۃ أبیض یقال لہ البراق فوق الحمار ودون البغل یقع خطوہ عند أقصی طرفہ فحملت علیہ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب الإسراء برسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۹، رقم: ۱۶۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص206
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق: امداد الاحکام وغیرہ میں ہے کہ غیر مسلم کی بنائی گئی صفوں کا اگر ناپاک ہونا یقینی ہو، تو دھونا ضروری ہے اور اگر صرف شبہ ہو،تو احتیاطاً دھو لیا جائے۔(۱)
(۱)امداد الاحکام کی عبارت یہ ہے: ’’اگر ناپاک ہونا یقین سے معلوم ہوجاوے، تب تو دھونا ضروری ہے اور اگر شبہ ہو، تو احتیاطاً دھو لینا بہتر ہے۔ کما فی الدر المختار: ما یخرج من دار الحرب کسنجاب إن علم دبغہ بطاھر فطاھر، أو بنجس فنجس، و إن شک فغسلہ أفضل، و في الشامي: و نقل في القنیۃ أن الجلود التي تدبغ في بلدنا، ولا یغسل مذبحھا، ولا تتوقی النجاسات في دبغھا، و یلقونھا علی الأرض النجسۃ، ولا یغسلونھا بعد تمام الدبغ، فھي طاھرۃ، و یجوز اتخاذ الخفاف و المکاعب و غلاف الکتب والمشط والقراب والدلاء رطبا و یابساً الخ أقول: ولا یخفی أن ھذا عند الشک و عدم العلم بنجاستھا۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار ،کتاب الطہارۃ، باب المیاہ،مطلب في أحکام الدباغۃ، ج۱، ص:۳۵۹) اور قنیہ کی عبارت سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ کسی جگہ عام دستور ہونے سے یقین نجاست کا نہیں ہوتا؛ بلکہ یقین کی صورت یہ ہے کہ کسی خاص چٹائی میں ناپاک پانی لگنا معلوم ہوجائے۔ (إمداد الاحکام، کتاب الطہارۃ، فصل في النجاسۃ و أحکام التطہیر، عنوان ہندو کی بنائی ہوئی صفوں کو دھونا ضروری ہے یا بغیر دھوئے اس پر نماز پڑھی جاسکتی ہے، ج۱، ص:۳۹۹) في التاتارخانیہ: من شک في إنائہ أو ثوبہ أو بدنہ أصابتہ نجاسۃ أولا، فھو طاھر مالم یستیقن… و کذا ما یتخذہ أھل الشرک أو الجھلۃ من المسلمین کالسمن والخبز والأطعمۃ والثیاب۔ (ابن عابدین، رد المحتار، کتاب الطہارۃ،قبیل۔ مطلب في أبحاث الغسل، ج۱،۲۸۳-۲۸۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص416
طہارت / وضو و غسل
الجواب و باللہ التوفیق : ناپاک حوض سے وضو بنا کر یا استنجاء کر کے جو نماز پڑھی ہے، اس کا اعادہ ضروری ہے۔ (۱)
(۱)لا یستنجي بالأشیاء النجسۃ (علی بن عثمان، سراجیہ، کتاب الطہارۃ، باب الاستنجاء، ج۱، ص:۶۱)؛ و(بل یمسحہ بنحو حجر) و مدر و طین یابس و تراب و خشب و قطن و خرقۃ وغیرھا طاھرۃ (عبدالرحمن بن محمد، مجمع الأنہر، کتاب الطہارۃ، با ب الأنجاس،ج۱، ص:۹۷)؛ ولا یستنجی بالأشیاء النجسۃ (جماعۃ من علماء الہند،الفتاوی الہندیہ، کتاب الطہارۃ، الباب السابع: في النجاسۃ و أحکامہا، الفصل الثاني، في الأعیان النجسۃ، والنوع الثاني: المخففۃ، و صفۃ الاستنجاء بالماء، ج ۱، ص:۱۰۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص464
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:لوٹے کے نچلے حصہ میں کوئی نجاست لگی ہو سکتی ہے، اس کو دھو کر بالٹی میں ڈال کر غسل کرنا درست ہے(۲)، تاہم اس کا خیال رہے کہ اہل مسجد نے جو لوٹے جس کام کے لیے رکھے ہیں، ان سے وہی کام لینا چاہیے۔(۳)
(۲)لأن ملاقاۃ الطاھر للطاھر لا توجب التنجس۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطھارۃ باب الماء الذي یجوز بہ الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۹۲، مکتبۃ زکریا، دیوبند)
(۳) و إذا وقف للوضوء، لا یجوز الشرب منہ، و کل ما أعدّ للشرب حتی الحیاض, لا یجوز فیھا التوضؤ کذا في ’’خزانۃ المفتیین‘‘ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الوقف، الباب الثاني عشر في الرباطات‘‘، ج۲، ص:۴۱۵)؛ و لا یجوز الوضوء من الحیاض المعدۃ للشرب في الصحیح و یمنع من الوضوء منہ و فیہ و حملہ لأھلہ، إن مأذوناً بہ جاز۔ و إلا لا (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ، باب الاستبراء وغیرہ، فصل في البیع،‘‘ ج ۹، ص: ۱۱-۶۱۲)؛ و أجمعوا أنہ إذا وقف للوضوء، لا یجوز الشرب منہ۔ (عالم بن العلاء، الفتاویٰ التاتارخانیہ، ’’کتاب الوقف، الفصل الثاني والعشرون، في المسائل التي تعود إلی الرباطات والمقابر‘‘، ج۸، ص:۱۸۴)
فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص133
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر کوئی شخص بغیر ترتیب وضو کرے، یعنی :پہلے ہاتھ دھویا پھر مسح کیا، اس کے بعد چہرہ دھویا یا اس کے برعکس؛ بہر صورت امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک وضو درست ہو جائے گا، جب کہ امام شافعیؒ اور امام مالکؒ کے نزدیک وضو میں ترتیب واجب ہے ان حضرات کے نزدیک وضو میں تقدیم و تاخیر کرنا جائز نہیں۔ وقال الشافعيؒ ومالکؒ حفظ الترتیب واجب في الوضوء، و لا یجوز فیہ التقدیم والتاخیر۔ و عند الفقھاء (الأحناف) حفظ الترتیب لیس بواجب في أرکان الوضوء۔ (۳)
(۳) أبوالحسن علی بن الحسین، النتف فی الفتاوی، ’’کتاب الطہارۃ،‘‘ ج۱، ص۱۴،…(بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)والترتیب المذکور في لفظ آیۃ الوضوء سنۃ، ولیس بفرض خلافا لثلاثۃ لأن العلف فیھا بالواو، و إجماع اللغۃ أنھا مطلق الجمع لا لغرض فیھا للترتیب الخ۔ (إبراھیم الحلبي، الحلبي الکبیري،ج۱، ص:۲۷)، و ایضاً: و أما سنتہ ۔۔۔ والترتیب المذکور في لفظ آیۃ الوضوء سنۃ، (إبراھیم الحلبي، الحلبي الکبیري، ج۱، ص:۲۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص233
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: آپ کے لیے مذکورہ فیکٹری میں بحیثیت مینجر کام کرنے کی شرعا گنجائش ہے؛ اس لیے کہ ا س کمپنی میں جو لائٹیں تیار کی جا رہی ہیں ان کا استعمال معصیت کے لیے براہ راست نہیں ہو رہا ہے اور نہ یہ چیزیں صرف معصیت میں استعمال ہوتی ہیں؛ اس لیے ایسی کمپنی میں ملازمت کرنا درست ہے اور اس سے حاصل شدہ آمدنی حلال ہے اور آپ کے پیچھے امامت بلاکراہت درست ہے۔(۱)
(۱) (و) جاز (بیع عصیر) عنب (ممن) یعلم أنہ (یتخذہ خمراً)؛ لأن المعصیۃ لا تقوم بعینہ بل بعد تغیرہ، وقیل: یکرہ لإعانتہ علی المعصیۃ، ونقل المصنف عن السراج والمشکلات: أن قولہ: ممن أي من کافر، أما بیعہ من المسلم فیکرہ، ومثلہ في الجوہرۃ والباقاني وغیرہما، زاد القہستاني معزیاً للخانیۃ: أنہ یکرہ بالاتفاق‘‘ (بخلاف بیع أمرد ممن یلوط بہ وبیع سلاح من أہل الفتنۃ)؛ لأن المعصیۃ تقوم بعینہ، ثم الکراہۃ في مسألۃ الأمرد مصرح بہا في بیوع الخانیۃ وغیرہا، واعتمدہ المصنف علی خلاف ما في الزیلعي والعیني، وإن أقرہ المصنف في باب البغاۃ، قلت: وقدمنا ثمۃ معزیاً للنہر أن ما قامت المعصیۃ بعینہ یکرہ بیعہ تحریماً وإلا فتنزیہاً، فلیحفظ توفیقاً‘‘ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ، باب الاستبراء وغیرہ، فصل في البیع‘‘: ج ۹، ص: ۵۶۰)۔
ذکر قاضي خان في فتاواہ أن بیع العصیر ممن یتخذہ خمرا إن قصد بہ التجارۃ فلا یحرم وإن قصر بہ لأجل التخمیر حرم وکذا غرس الکرم علی ہذا انتہی وعلی ہذا عصیر العنب بقصد الخلیۃ أو الخمریۃ، (ابن نجیم، الاشباہ والنظائر، ’’الفن الأول في القواعد الکلیۃ، النوع الأول، القاعدۃ الثانیۃ: الأمور بمقاصدہا‘‘: ج۱، ص: ۱۰۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص93
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: معانی و مطالب بدل جانے کی صورت میں تو نماز ہی نہیں ہوتی نیز نماز بہت ہی اہم عبادت ہے اس کے لیے صحیح تلاوت کرنے والے متبع سنت آدمی کو امامت کے لیے مقرر کرنا چاہئے۔ مقرر کردہ امام تو تلاوت غلط کرتا ہے جب کہ روزانہ کے لیے وہی امام ہے جب کبھی گاؤں میں کوئی عالم آجائے اس وقت اعتراض پیدا ہوتا ہے؛ حالاں کہ یہ بات توہر وقت ہی محل اعتراض ہے مسجد کی انتظامیہ پر لازم ہے کہ صحیح قرآن پڑھنے والے کو امام بنائے۔(۳)
(۳) ومنہا القرائۃ بالألحان إن غیر المعنی وإلا لا إلا في حرف مد ولین إذا فحش وإلا لا۔ بزازیۃ، قولہ بالألحان) أي بالنغمات، وحاصلہا کما في الفتح إشباع الحرکات لمراعاۃ النغم (قولہ إن غیر المعنی) کما لو قرأ {الحمد اللّٰہ رب العالمین} (الفاتحۃ: ۲)، وأشبع الحرکات حتی أتی بواو بعد الدال وبیاء بعد اللام والہاء وبألف بعد الراء، ومثلہ قول المبلغ۔ رابنا لک الحامد بألف بعد الراء لأن الراب ہو زوج الأم کما فی الصحاح والقاموس وابن الزوجۃ یسمی ربیبا۔
قولہ وإلا لا إلخ) أي وإن لم یغیر المعنی فلا فساد إلا في حرف مد ولین إن فحش فإنہ یفسد، وإن لم یغیر المعنی، وحروف) المد واللین ہي حروف العلۃ الثلاثۃ الألف والواو والیاء إذا کانت ساکنۃ وقبلہا حرکۃ تجانسہا، فلو لم تجانسہا فہی حروف علۃ ولین لا مد، تتمۃ، فہم مما ذکرہ أن القراء ۃ بالألحان إذا لم تغیر الکلمۃ عن وضعہا ولم یحصل بہا تطویل الحروف حتی لا یصیر الحرف حرفین، بل مجرد تحسین الصوت وتزیین القراء ۃ لا یضر، بل یستحب عندنا فی الصلاۃ وخارجہا کذا في التتارخانیۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا، مطلب مسائل زلۃ القاري‘‘: ج۲، ص:۳۹۲، ۳۹۳)
والأحق بالإمامۃ) تقدیما بل نصبا مجمع الأنہر (الأعلم بأحکام الصلاۃ) فقط صحۃ وفسادا بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ، وحفظہ قدر فرض، وقیل واجب، وقیل سنۃ (ثم الأحسن تلاوۃ) وتجویدا (للقراء ۃ، ثم الأورع) أي الأکثر اتقاء للشبہات، والتقوی اتقاء المحرمات۔
قولہ ثم الأحسن تلاوۃ وتجویدا) أفاد بذلک أن معنی قولہ أقرا: أي أجود، لا أکثرہم حفظا وإن جعلہ في البحر متبادرا)، ومعنی الحسن في التلاوۃ أن یکون عالما بکیفیۃ الحروف والوقف وما یتعلق بہا قہستاني۔
لایحوز إمامۃ الألثغ الذي لا یقدر علی التکلم ببعض الحروف إلا لمثلہ إذا لم یکن في القوم من یقدر علی تکلم بتلک الحروف، فأما إذا کان في القوم من یقدر علی التکلم بہا، فسدت صلاتہ وصلاۃ القوم۔ (أیضًا: ’’مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)
وإمامۃ الخنثی المشکل للنساء جائزۃ إن تقدمہن وللرجال ولخنثی مثلہ لایجوز۔ ۱ہـ، (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح اماماً لغیرہ‘‘: ج۱، ص:۱۴۱)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص221
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: شریعت میں قمری تاریخ کا اعتبار ہوتا ہے اور بالغ لڑکے کی امامت درست ہے۔ لڑکا پندرہ سال سے پہلے علامات بلوغ کے پائے جانے سے بالغ ہوسکتا ہے اور اگر کوئی علامت نہ ہو، تو پندرہ سال میں بالغ ہوجاتا ہے؛ لہٰذا مذکورہ شخص کا امام بننا بلا کراہت درست ہے۔
’’عن ابن عمر، قال: عرضني رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یوم أحد في القتال، وأنا ابن أربع عشرۃ سنۃ، فلم یجزني، وعرضني یوم الخندق، وأنا ابن خمس عشرۃ سنۃ، فأجازني، قال نافع: فقدمت علی عمر بن عبد العزیز وہو یومئذ خلیفۃ، فحدثتہ ہذا الحدیث، فقال: إن ہذا لحد بین الصغیر والکبیر، فکتب إلی عمالہ أن یفرضوا لمن کان ابن خمس عشرۃ سنۃ، ومن کان دون ذلک فاجعلوہ في العیال،(۱) و السن الذي یحکم ببلوغ الغلام و الجاریۃ إذا انتہیا إلیہ خمس عشرۃ سنۃ عند أبي یوسف و محمد، وہو روایۃ عن أبي حنیفہ و علیہ الفتوی‘‘(۲)
(۱) أخرجہ مسلم في صحیحہ، ’’کتاب الإمارۃ: باب سن البلوغ‘‘: ج۲، ص: ۱۳۰، رقم: ۱۸۶۸، کتب خانہ نعیمیۃ دیوبند۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الحجر: الفصل الثاني في معرفۃ حد البلوغ‘‘: ج ۵، ص: ۶۱۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص306
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: صف میں جگہ ہونے کے باوجود صف سے دور کھڑا ہونا مکروہ ہے، اس کو چاہئے کہ صف تک پہونچ کر نماز شروع کرے، چاہے رکعت فوت ہوجائے اس لیے کہ افضلیت حاصل کرنے کی بہ نسبت مکروہ سے بچنا ضروری ہے۔(۱)
’’ویکرہ للمقتدي أن یقوم خلف الصف وحدہ إلا إذا لم یجد في الصف فرجۃ یمکنہ القیام فیہا لقولہ علیہ السلام: أتموا الصف المقدم ثم الذي یلیہ فما کان من نقص فلیکن في الصف المؤخر، رواہ أبوداود والنسائي‘‘(۲)
(۱) ولو کان الصف منتظما ینتظر مجيء آخر فإن خاف فوت الرکعۃ جذب عالماً بالحکم لایتأذی بہ وإلا قام وحدہ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ، فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۷، شیخ الہند دیوبند)
(۲) إبراہیم الحلبي، حلبي کبیري، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ‘‘: ص: ۳۱۴، ط: درا الکتاب دیوبند)۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص419