نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 959/41-100 B

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ظہر کی فرض نماز سے پہلے کی چار رکعت سنت اگر رہ جائے تو اس کو فرض کے بعد پڑھ لینا چاہئے۔  بعد والی دو رکعت سنت پڑھ کر پھر چار رکعت سنت پڑھی جائے تو بہتر ہے۔ اور اگر پہلے چھوٹی ہوئی چار رکعت سنت پڑھے اور پھر بعد والی دو رکعت سنت ادا کرے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔

(قوله وقضى التي قبل الظهر في وقته قبل شفعه) بيان لشيئين أحدهما القضاء والثاني محله أما الأول ففيه اختلاف والصحيح أنها تقضى كما ذكره قاضي خان في شرحه مستدلا بما عن عائشة أن النبي - صلى الله تعالى عليه وسلم - «كان إذا فاتته الأربع قبل الظهر قضاهن بعده» ۔۔۔ ورجح في فتح القدير تقديم الركعتين لأن الأربع فاتت عن الموضع المسنون فلا يفوت الركعتين عن موضعهما قصدا بلا ضرورة اهـ. (البحرالرائق 2/81)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 1067/41-234

الجواب وباللہ التوفیق     

بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔  اس طرح متعین نفع پر تجارت کرنا جائز نہیں ہے۔ جو متعین نفع لیاجارہا ہے وہ سود ہے۔ اس کو اسی شخص کے پاس لوٹادیا جائے جس سے لیا گیا ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 1168/42-419

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح کرنا جائز  نہیں ہے۔ پہلے وہ پیسے اس غریب رشتہ دار کو دیدیجئے پھر اس کو پارٹنرشپ کرنے کی بات کہئے، اگر وہ راضی ہو اور پیسے دے تو شرکت میں لگادیجئے۔ ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Miscellaneous

Ref. No. 1302/42-657

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

It is a common practice nowadays to buy goods from the online market, and the online market has developed it a lot considering a number of conditions, thus in today’s transactions the basic principles of the business are generally observed. Therefore, there is nothing wrong in buying goods online and hence the use of purchased halal items will also be halal (allowable).

(2) It is okay to buy and sell apps, PDFs and other electronic items, and to pay for and take from subscription. A person gains benefits from these things. A lot of hard work, money and time etc is required for the goods to come in the market. So, there is nothing wrong if you sell or buy it when you have already reserved the rights of these electronic items.

والحاصل أن القياس في جنس هذه المسائل أن يفعل صاحب الملك ما بدا له مطلقا لأنه يتصرف في خالص ملكه وإن كان يلحق الضرر بغيره، لكن يترك القياس في موضع يتعدى ضرره إلى غيره ضررا فاحشا كما تقدم وهو المراد بالبين فيما ذكر الصدر الشهيد وهو ما يكون سببا للهدم وما يوهن البناء سبب له أو يخرج عن الانتفاع بالكلية وهو ما يمنع من الحوائج الأصلية كسد الضوء بالكلية على ما ذكر في الفرق المتقدم واختاروا الفتوى عليه. )فتح القدیر ، مسائل شتی من کتاب القضاء 7/326)

واما اذا صورہ لاستعمالہ الشخصی او لیھبہ الی بعض اصدقائہ بدون عوض فان ذلک لیس من التعدی علی حق الابتکار فما توغل نشرۃ الکتب ومنتجو برامج الکمبیوتر من منع الناس من تصویر الکتاب او قرص الکمبیوتر او جزء منہ لاستفادۃ شخصیۃ ولیس للتجارۃ فانہ لامبرر لہ اصلا (فقہ البیوع 1/284)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1611/43-1164

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (1)  نیت دل  کے  ارادہ کا نام ہے، اگر نیت کرلی تو زبان سے کہنا ضروری نہیں ہے، البتہ زبان سے نیت کا ادا کرنا بھی جائز ہے،اس کو  بدعت  کہنا درست نہیں ہے جبکہ  بعض فقہاءِ کرام نے زبان سے نیت کو مستحب قراردیا ہے۔ (2) صورت مسئولہ میں اگر  حالت قیام میں اللہ اکبر کہا اور ہاتھ باندھے بغیر رکوع میں چلاگیا تو بھی اس کی نماز درست ہوجائے گی۔ ہاتھ کانوں تک اٹھانا، ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا اوراللہ اکبر کہنے کے بعد  قیام میں کچھ دیررہنافرائض میں سے  نہیں ہے۔ اللہ اکبر (تکبیر تحریمہ) کھڑے ہونے کی حالت میں کہے اور اس کے فورا بعد رکوع میں چلاجائے تو اس کو رکوع پانے والا شمار کیاجائے گا۔ اس میں کسی فرض کا ترک کرنا لازم نہیں آیا اس لئے نماز درست ہوجائے گی۔  

والمعتبر فيها عمل القلب اللازم للإرادة ) فلا عبرة للذكر باللسان إن خالف القلب؛ لأنه كلام لا نية إلا إذا عجز عن إحضاره لهموم أصابته فيكيفيه اللسان ، مجتبى ( وهو ) أي عمل القلب ( أن يعلم ) عند الإرادة ( بداهة ) بلا تأمل ( أي صلاة يصلي ) فلو لم يعلم إلا بتأمل لم يجز ( والتلفظ ) عند الإرادة ( بها مستحب ) هو المختار(شامی  (1/415) الفصل الرابع في النية) النية إرادة الدخول في الصلاة والشرط أن يعلم بقلبه أي صلاة يصلي وأدناها ما لو سئل لأمكنه أن يجيب على البديهة وإن لم يقدر على أن يجيب إلا بتأمل لم تجز صلاته ولا عبرة للذكر باللسان، فإن فعله لتجتمع عزيمة قلبه فهو حسن، كذا في الكافي (الھندیۃ 2/459)

فلو کبر قائماً فرکع ولم یقف صح؛ لأن ما أتی بہ من القیام إلی أن یبلغ حد الرکوع یکفیہ، قنیة (شامی، کتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، 2/131 ط؛ مکتبة زکریا دیوبند) ولا یصیر شارعاً بالتکبیر إلا في حالة القیام الخ (الہندیة، کتاب الصلاة، الباب الرابع، الفصل الأول 1/68)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ عقیدہ درست نہیں ہے؛ البتہ تدفین کے بعد تھوڑی دیر ٹھہر کر قرآن کریم پڑھنا اور دعاء کرنا ثابت ہے۔(۲)

(۲) عن عثمان بن عفان قال: کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، إذا فرغ    من دفن المیت وقف علیہ، فقال: (استغفروا لأخیکم، وسلوا لہ بالتثبیت فإنہ الآن یسأل)۔ (أخرجہ أبوداؤد، في سننہ، ’’کتاب الجنائز: باب الاستغفار عند القبر للمیت في وقت الانصراف‘‘: ج ۲، ص: ۴۵۹، رقم: ۳۲۲۱)
عن عبد اللّٰہ بن عمر قال: سمعت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: (إذا مات أحد کم فلا تحبسوہ، واسرعوا بہ إلی قبرہ ولیقرأ عند رأسہ فاتحۃ البقرۃ وعند رجلیہ بخاتمۃ البقرۃ)۔ رواہ البیہقي في شعب الإیمان۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الجنائز: باب دفن المیت، الفصل الثالث‘‘: ج ۴، ص: ۱۷۲، رقم: ۱۷۱۷)
ویستحب …… وجلوس ساعۃ بعد دفنہ لدعائٍ وقراء ۃٍ بقدر ما ینحر الجزور ویفرق لحمہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في دفن المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۳
)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص382

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:محرم الحرام میں یکم تاریخ سے عاشورہ تک دھوم دھام سے ڈھول بجانا اور سرخ کپڑے کا جھنڈا بنانا یا لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ کھلاڑیوں کے جذبات کو اکسانا، تعزیہ بنانا اور اس میں امداد کرنا، عورتوں کا مردوں سے اختلاط جس سے فتنہ کا قوی اندیشہ ہو یہ رسومات غیر شرعی اور بدعت ہیں(۳) اور جو لوگ ان رسومات میں مدد اور امداد کرتے ہیں وہ گنہگار ہیں {وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ}(۱)
اور مقامی علماء کے لئے یہ ضروری ہے کہ عوام کو ان بدعات ورسومات وغیر شرعی امور سے باز رکھنے کی کوشش کریں۔

(۳) ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۸)   …إن البدعۃ المذمومۃ ہو الحدث فی الدین من أن لا یکون في عہد الصحابۃ والتابعین ولا دل علیہ دلیل شرعي۔ (علامہ سعد الدین تفتازاني، شرح المقاصد، ’’في علم الکلام‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۱)
وفي البحر: الأمانۃ علی المعاصي والحث علیہا کبیرۃ۔ (عبد الرحمن بن محمد، مجمع الأنہر، ’’کتاب الشہادات‘‘: ج ۳، ص: ۲۷۷)
مع قطع النظر عما یحصل عند ذلک غالبا من المنکرات الکثیرۃ کإیقاد الشموع والقنادیل التی توجد فی الأفراح، وکذا الطبول، والغناء بالأصوات الحسان، واجتماع النساء والمردان، وأخذ الأجرۃ علی الذکر وقرائۃ القرآن، وغیر ذلک مما ہو مشاہد فی ہذہ الأزمان، وما کان کذلک فلا شک فی حرمتہ وبطلان الوصیۃ بہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کراہۃ الضیافۃ من أہل البیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۹)
(۱) سورۃ المائدۃ: ۲۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص474

قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر دل دل میں پڑھا جائے تب بھی ثواب ملتا ہے اور اگر زبان سے بھی پڑھ لیا جائے، تو اور زیادہ ثواب ملتا ہے؛ البتہ اگر آیت سجدہ صرف دل دل میں پڑھے، تو سجدہ تلاوت واجب نہ ہوگا؛ کیوں کہ یہ دنیاوی حکم ہے۔(۲)

(۲) عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أنہ کان یقول قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لم یأذن اللّٰہ لشيء ما أذن أن یتغنی بالقرآن وقال صاحب لہ یرید یجہر بہ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب فضائل القرآن: باب من لم یتغن بالقراء ۃ‘‘: ج ۲، ص: ۷۵۱، رقم: ۵۰۲۳)
(و) أدنی (الجہر إسماع غیرہ و) أدنی (المخافتۃ إسماع نفسہ) ومن بقربہ؛ فلو سمع رجل أو رجلان فلیس بجہر، والجہر أن یسمع الکل خلاصۃ (ویجري ذلک) المذکور (في کل ما یتعلق بنطق، کتسمیۃ علی ذبیحۃ ووجوب سجدۃ تلاوۃ وعتاق وطلاق واستثناء) وغیرہا۔… (قولہ وأدنی الجہر إسماع غیرہ إلخ) اعلم أنہم اختلفوا في حد وجود القراء ۃ علی ثلاثۃ أقوال: فشرط الہندواني والفضلي لوجودہا خروج صوت یصل إلی أذنہ، وبہ قال الشافعي۔
وشرط بشر المریسي وأحمد خروج الصوت من الفم وإن لم یصل إلی أذنہ، لکن بشرط کونہ مسموعا في الجملۃ، حتی لو أدنی أحد صماخہ إلی فیہ یسمع۔
ولم یشترط الکرخي وأبو بکر البلخي السماع، واکتفیا بتصحیح الحروف۔ واختار شیخ الإسلام وقاضي خان وصاحب المحیط والحلواني قول الہندواني، وکذا في معراج الدرایۃ۔ ونقل في المجتبی عن الہندواني أنہ لا یجزیہ ما لم تسمع أذناہ ومن بقربہ، وہذا لا یخالف ما مر عن الہندواني لأن ما کان مسموعا لہ یکون مسموعا لمن في قربہ کما في الحلیۃ والبحر۔ ثم إنہ اختار في الفتح أن قول الہندواني وبشر متحدان بناء علی أن الظاہر سماعہ بعد وجود الصوت إذا لم یکن مانع۔ وذکر في البحر تبعا للحلیۃ أنہ خلاف الظاہر، بل الأقوال ثلاثۃ۔ وأید العلامۃ خیر الدین الرملي في فتاواہ کلام الفتح بما لا مزید علیہ، فارجع إلیہ۔ وذکر أن کلا من قولي الہندواني والکرخي مصححان، وأن ما قالہ الہندواني أصح وأرجح لاعتماد أکثر علمائنا علیہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المختار، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في القراء ۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۳۴)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص64

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ خصوصیات امت محمدیہ کہلاتی ہیں جن کی تفصیل یہ ہے۔

(۱) غنائم کا حلال ہونا۔ یعنی جہاد میں ہاتھ لگا ہوا مال غنیمت حلال ہونا۔(۱)
(۲) تمام روئے زمین پر نماز کا جائز ہونا۔(۲)
(۳) نماز میں صفوف کا بطرز ملائکہ ہونا۔(۳)
(۴) جمعہ کے دن کا ایک خاص عبادت کے لئے مقرر ہونا۔
(۵) جمعہ کے دن ایک ایسی گھڑی کا آنا کہ جس میں دعائیں قبول ہوتی ہیں۔(۴)
(۶) روزہ کے لئے سحری کی اجازت کا ہونا۔(۵)
(۷) رمضان المبارک میں شب قدر کا عطا ہونا جو ایک ہزار مہینہ کی راتوں سے افضل ہے۔(۶)
(۸) وسوسہ اور خطاء و نسیان کا گناہ نہ ہونا۔
(۹) احکام شاقہ کا مرتفع ہونا یعنی جو احکام مشکل تھے اللہ تعالیٰ نے اس امت سے ان کو اٹھا لیا ہے۔
(۱۰) تصویر کا ناجائز ہونا۔
(۱۱) اجماع امت کا حجت ہونا اور اس میں ضلالت و گمراہی کا احتمال نہ ہونا ہے۔(۷)
(۱۲) فروعی اختلاف کا رحمت ہونا۔
(۱۳) پہلی امتوں کی طرح عذابوں کا نہ آنا۔(۸)
(۱۴) علماء سے وہ کام لینا جو انبیاء کرتے تھے۔ (۱)
(۱۵) قیامت تک جماعت اہل حق کا مؤید من اللہ ہوکر پایا جانا۔(۲)
(۱۶) امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیگر امتوں پر گواہ بننا جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ {لتکونوا شہداء علي الناس} (القرآن الکریم) یعنی تم گواہ بنوگے لوگوں پر قیامت کے دن۔(۳)

(۱) أعطیت خمسا لم یعطہن أحد من الأنبیاء قبلی: نصرت بالرعب مسیرۃ شہر وجعلت لي الأرض کلہا مسجد أ و طہوراً واحلت لي الغنائم۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب التیمم: باب إذا لم یجد ماء ولا تراباً‘‘: ج ۱، ص: ۴۸، رقم: ۳۳۵)
(۲-۳) فضلنا علی الناس بثلاث: جعلت لنا الأرض کلہا مسجداً وجعلت تربتہا طہوراً إذا لم نجد الماء وجعلت صفوفنا کصفوف الملائکۃ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ: باب المساجد‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۵۲۲)
(۴) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الجمعۃ: باب الساعۃ التی في یوم الجمعۃ: ج ۱، ص: ۱۲۸، رقم: ۹۳۵)
(۵) أخرجہ مسلم، في صححیہ، ’’کتاب الصیام: باب فضل السحور‘‘: ج ۱، ص: ۳۵۰، رقم: ۱۰۹۶۔
(۶) شرح الزرقاني علی المواہب: ج ۷، ص: ۴۵۰۔
(۷) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الفتن، باب ماجاء في لزوم الجماعۃ: ج ۲، ص: ۳۹، رقم: ۲۱۶۷۔
(۸) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الفتن وأشراط الساعۃ، باب ہلاک ہذہ الأمۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۲، رقم: ۲۸۸۹۔

(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’باب العلم قبل القول والعمل‘‘: ج۱، ص: ۲۴۔
(۲) أشرف علي التھانوي، نشر الطیب، ’’في ذکر النبي الطبیب صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ص: ۱۸۵۔
(۳) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’باب قول اللّٰہ {إنا أرسلنا نوحاً إلی قومہ}‘‘: ج ۲، ص: ۶۷۱، رقم: ۳۳۳۹)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص207

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:منی بہر صورت ناپاک ہے۔ اگر کپڑے پر لگ جائے  تورگڑ کر صاف کرنے سے کپڑا پاک نہیں ہوگا؛ بلکہ اس ناپاک کپڑے کو دھونا ضروری ہے۔(۱) البتہ گاڑھی اور سوکھی منی کے ذرات رگڑنے سے بالکل ختم ہوجائیںتو بھی کپڑا پاک ہوجائے گا۔(۲)

(۱)عن جابر بن سمرۃ قال: سأل رجل النبي ﷺ أصلي في الثوب  الذي آتی فیہ أھلي قال: نعم إلا أن ترا فیہ شیئا فتغلسہ۔ (موارد الظمان إلی زوائد ابن حبان، تحقیق: محمد عبدالرزاق حمزہ، باب ما جاء فی الثوب الذی یجامع فیہ،ج۱، ص:۸۲)؛ و عن عمر و بن میمون بن مہران سمعت سلیمان بن یسار یقول: سمعت عائشۃ رضی اللّٰہ عنھا تقول: إنھا کانت تغسل المني من ثوب رسول اللّٰہ ﷺ قالت: ثم أراہ فیہ بقعۃ أو بقعاً (سنن أبي داؤد، باب المنی یصیب الثوب، ج۱، ص:۵۳)؛  ولو أن ثوباً أصابتہ النجاسۃ وھی کثیرۃ فجفت و ذھب أثرھا و خفی مکانھا غسل جمیع الثوب۔ ( علاء الدین الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع،فصل و أما بیان المقدار الذی یصیر بہ المحل،ج۱، ص:۸۱)
(۲) عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنھا قالت: ربما فرکتہ من ثوب رسول اللّٰہ ﷺ بیدی (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ابواب الطہارۃ و سننھا،باب في فرک المني من الثوب، ج۱، ص:۴۱

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص417