مساجد و مدارس

Ref. No. 960

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: بلا کسی وجہ شرعی کے اوپر کی منزل میں نماز پڑھنا اور نیچے کے حصے کو چھوڑدینا مکروہ ہے۔لہذا نماز نیچے کی منزل میں ہی پڑھی جائے ۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 38 / 1053

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                

بسم اللہ الرحمن الرحیم: حدیث کی معتبر کتابوں میں یہ حدیث ہمیں نہیں ملی۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 41/1090

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Some Ulama have prescribed the same, hence there is nothing wrong in this explanation.

إنَّمَا قَصَرَ الْأَجْزَاءَ عَلَى سِتَّةٍ وَأَرْبَعِينَ ; لِأَنَّ زَمَانَ الْوَحْيِ كَانَ ثَلَاثًا وَعِشْرِينَ سَنَةً. وَكَانَ أَوَّلَ مَا بُدِئَ بِهِ مِنَ الْوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ، وَذَلِكَ فِي سِتَّةِ أَشْهُرٍ مِنْ سِنِيِّ الْوَحْيِ، وَنِسْبَةُ ذَلِكَ إِلَى سَائِرِهَا نِسْبَةُ جُزْءٍ إِلَى سِتَّةٍ وَأَرْبَعِينَ جُزْءًا. (مرقاۃ المفاتیح 7/2913)

And Allah knows the best

 

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

نکاح و شادی

Ref. No. 954/41-103 B

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  بکر نے دودھ پیا تو بکر سے رضاعت ثابت ہوگی اور بکر کے لئے رضاعی بہن سے یا اس کی اولاد سے  نکاح حرام ہوگا، لیکن  زید کا اس رضاعت سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس  لئے زید کا نکاح اسی خالہ کی لڑکی سے درست ہے۔

إلا أم أخته من الرضاع، فإنه يجوز أن يتزوجها، ولا يجوز أن يتزوج أم أخته من النسب؛ لأنها تكون أمه، أو موطوءة أبيه بخلاف الرضاع، ويجوز أن يتزوج أخت ابنه من الرضاع، ولا يجوز ذلك من النسب، لأنه لما وطئ أمها حرمت عليه، ولم يوجد هذا المعنى في الرضاع  (البنایۃ شرح الھدایۃ 5/264)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

عائلی مسائل

Ref. No. 1400/42-813

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بیوی کا خودکشی کی دھمکی دینا شرعا غلط ہے۔ البتہ آپ نے جو قسم کھائی ہے وہ جھوٹی قسم ہے جس سے بچناضروری تھا، اس پر اللہ سے معافی مانگٰیں توبہ کریں۔ تاہم اس قسم  سے کوئی کفارہ ذمہ میں لازم نہیں ہوتا۔

(قوله تغمسه في الإثم ثم النار) بيان لما في صيغة فعول من المبالغة ح (قوله وهي كبيرة مطلقا) أي اقتطع بها حق مسلم أو لا، وهذا رد على قول البحر ينبغي أن تكون كبيرة إذا اقتطع بها مال مسلم أو آذاه، وصغيرة إن لم يترتب عليها مفسدة، فقد نازعه في النهر بأنه مخالف لإطلاق حديث البخاري «الكبائر الإشراك بالله، وعقوق الوالدين، وقتل النفس، واليمين الغموس»  (شامی، کتاب الایمان 3/705)

والأصل عندنا في اليمين الغموس: أنه آثم، وعليه التوبة، والتوبة كفارة. وهكذا في كل يمين في عقدها معصية أن تلزمه الكفارة وهي التوبة. وأما الكفارة التي تلزم في المال، فهى لا تلزم بالحنث؛ لأنه بالحنث يأثم، والحنث نفسه إثم؛ لذلك لم يجز إلا بالحنث. (تفسیر الماتریدی: تاویلات اھل السنۃ، الباب 225، ج2ص144)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:عرف میں جو الفاظ تعظیم کے لئے استعمال ہوتے ہوں ان کا استعمال درست ہے اور جو الفاظ عرف میں اللہ اور نبی کی تعظیم کے لیے استعمال نہ ہوتے ہوں ان کا استعمال جائز نہیں ہے، ہمارے عرف میں اللہ میاں تعظیم کے لیے استعمال ہوتا ہے؛ لیکن اللہ صاحب ہمارے عرف میں تعظیم کے لیے استعمال نہیں ہوتا ہے؛ اگرچہ صاحب کا لفظ تعظیم کے لیے ہے ’’ولا یقول: قال اللّٰہ بلا تعظیم بلا إرداف وصف صالح للتعظیم، کذا في الوجیز للکردري رجل سمع إسما من أسماء اللّٰہ تعالیٰ یجب علیہ أن یعظمہ ویقول: سبحان اللّٰہ وما أشبہ ذلک‘‘(۱) حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی صاحب فرماتے ہیں: پرانے زمانے کی اردو میں اللہ صاحب فرماتے ہیں کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں؛ مگر جدید اردو میں اس کا استعمال متروک ہو گیا ہے گویا پرانے زمانے میں تعظیم کا لفظ سمجھا جاتا تھا، مگر جدید زبان میں یہ اتنی تعظیم کا حامل نہیں رہا کہ اسے اللہ تعالیٰ کے لیے یا انبیاء علیہم السلام کے لیے استعمال کیا جائے۔(۲)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الرابع، في الصلاۃ، والتسبیح، وقراء ۃ القرآن الخ‘‘: ج ۵، ص: ۳۶۴۔

(۲) آپ کے مسائل اور ان کا حل: ج ۸، ص: ۳۴۳۔

 

متفرقات

Ref. No. 2155/44-2230

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ خواب دیکھنے والی خاتون کو چاہئے کہ اپنے اعمال کی اصلاح کریں(1)۔ نیکی والے اعمال کرنے کے ساتھ ساتھ استغفار کی کثرت کریں۔ برائیوں کو چھوڑدیں ، اور "رب اِنی لما انزلتَ اِلیّ من خیر فقیر" رات سوتے وقت 41 مرتبہ پڑھ لیا کریں۔ اس سے مناسب و موزوں ترین رشتہ آئے گاان شاء اللّٰہ۔

(1) { ٱلۡخَبِیثَـٰتُ لِلۡخَبِیثِینَ وَٱلۡخَبِیثُونَ لِلۡخَبِیثَـٰتِۖ وَٱلطَّیِّبَـٰتُ لِلطَّیِّبِینَ وَٱلطَّیِّبُونَ لِلطَّیِّبَـٰتِۚ أُو۟لَـٰۤىِٕكَ مُبَرَّءُونَ مِمَّا یَقُولُونَۖ لَهُم مَّغۡفِرَة وَرِزۡق كَرِیم } [Surah An-Nûr: 26]

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وبا اللّٰہ التوفیق:جنازہ کا طواف کرنا کھلی ہوئی بدعت ہے،(۱) نیز مٹی ہر شخص کو اپنے طور پر اٹھانی چاہئے(۲) امام صاحب کا یہ فعل کہ جب تک وہ مٹی اٹھا کر نہ دیں تو کوئی شخص خود اٹھا کر نہیں ڈال سکتا التزام مالایلزم کے قبیل سے ہے اور بدعت ہے۔ ان تمام بدعات سے پرہیز مسلمان پر ضروری ہے۔(۳)

(۱) لا یجوز ما یفعلہ الجہال بقبور الأولیاء والشہداء من السجود والطواف حولہا واتخاذ السرج والمساجد علیہا ومن الاجتماع بعد الحول کالأعیاد ویسمونہ عرسا۔ (محمد ثناء اللّٰہ، پاني پتي، تفسیر مظہري، ’’سورۃ آل عمران: ۶۴‘‘: ج ۲، ص: ۶۸)
(۲) ویستحب لمن شہد دفن المیت أن یحثو في قبرہ ثلاث حثیات من التراب بیدیہ جمیعاً۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ: الفصل السادس في القبر والدفن والنقل إلخ‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۷)
(۳) وأما أہل السنۃ والجماعۃ فیقولون في کل فعل وقول لم یثبت عن الصحابۃ رضي اللّٰہ عنہم ہو بدعۃ لأنہ لو کان خیراً لسبقونا إلیہ، لأنہم لم یترکوا خصلۃ من خصال الخیر إلا وقد بادروا إلیہا۔ (ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’سورۃ الأحقاف: ۱۰-۱۴‘‘: ج ۷، ص: ۲۵۶)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص385

قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن پاک کی جملہ آیات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئیں، سب سے پہلے ’’سورۂ إقرأ‘‘ نازل ہوئی۔(۱)
دیگر انبیاء علیہم السلام پر جو کتابیں نازل ہوئیں ان کے نام ہیں، مثلاً: ’’زبور‘‘ حضرت داؤد علیہ السلام پر، ’’تو رات‘‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر، ’’انجیل‘‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی۔(۲)

(۱) قال ہذہ أول سورۃ أنزلت علی محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ العلق‘‘: ج ۱۶، ص: ۳۱۹)
(۲) عن أبي ذر قال: قلت: یا رسول اللّٰہ کم انزل اللّٰہ من کتاب قال مأۃ کتاب وأربعۃ کتب أنزل علی شیث خمسین صحیفۃ وعلی إدریس ثلاثین صحیفۃ وعلی إبراہیم عشر صحائف وعلی موسیٰ قبل التوراۃ عشر صحائف وأنزل التوراۃ والإنجیل، والزبور والفرقان۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني: تفسیر ’’سورۃ الأعلی‘‘: ۱۹)
{وَّ أٰتَیْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا ہ۵۵} (سورۃ الإسراء: ۵۵)
{ثُمَّ قَفَّیْنَا عَلٰٓی أٰثٰرِھِمْ بِرُسُلِنَا وَقَفَّیْنَا بِعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ وَأٰتَیْنٰہُ الْإِنْجِیْلَ  ۵لا   وَجَعَلْنَا فِيْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ رَاْفَۃً  وَّرَحْمَۃً ط وَرَھْبَانِیَّۃَ  نِ ابْتَدَعُوْھَا مَا کَتَبْنٰھَا عَلَیْھِمْ إِلَّا ابْتِغَآئَ رِضْوَانِ اللّٰہِ فَمَا رَعَوْھَا حَقَّ رِعَایَتِھَاج فَأٰ تَیْنَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا مِنْھُمْ أَجْرَھُمْج وَکَثِیْرٌ مِّنْھُمْ فٰسِقُوْنَہ۲۷} (سورۃ الحدید: ۲۷)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص67

فقہ

Ref. No. 2572/45-3937
 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   محارم کے سامنے  پردہ کے ساتھ دودھ پلانا ضروری ہے،  تاہم اگر کبھی بلا ارادہ پستان  کھل جائے تو اس میں کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ جو اعضاء محارم کے سامنے ستر میں داخل نہیں ہیں مگر دوسروں سے پردہ ہے تو ان کومحارم کے سامنے کھولے رہنا درست نہیں ہے ، ہاں اگر کبھی کھل جائے تو گناہ نہیں بشرطیکہ فتنہ کا اندیشہ نہ ہو ورنہ چھپانا واجب ہوگا۔

رد المحتار: (کتاب الصلاة، مطلب في ستر العورة، 405/1)
إن الصدر وما قابلہ من الخلف لیس من العورة وأن الثدی أیضا غیر عورة وسیأتی فی الحظر والإباحة أنہ یجوز أن ینظر من أمة غیرہ ما ینظر من محرمہ، ولا شبہة أنہ یجوز النظر إلی صدر محرمہ وثدیہا، فلا یکون عورة منہا ولا من الأمة۔
و فیہ ایضاً: (کتاب الحظر و الإباحة، فصل في النظر و المسّ، 367/6)
ومن محرمہ ۔۔۔ إلی الرأس والوجہ، والصدر والساق والعضدین أمن شہوتہ وشہوتہا أیضًا- وإلا لا
-

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند