Frequently Asked Questions
طلاق و تفریق
Ref. No. 2613/45-4051
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ "میرا آپ سے سب کچھ ختم" کہنے سے صورت مسئولہ میں مذکورشخص کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔
"ولو قال لم يبق بيني وبينك شيء ونوى به الطلاق لا يقع وفي الفتاوى لم يبق بيني وبينك عمل ونوى يقع، كذا في العتابية." (الفتاوى الهندية (1 / 376))
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق: شراب ناپاک ہے، دھونے سے کپڑا پاک ہو جائے گا۔(۲
(۲) تحرم الخمر وھی التي ماء العنب إذا غلا واشتد۔۔۔ فنجاسۃ الخمر غلیظۃ و نجاسۃ ھذہ مختلف في غلظتھا و خفتھا الخ۔ (إبراہیم بن محمد، ملتقی الابحر،کتاب الاشربہ، ج۴، ص:۲۴۴)؛ و أما لو غسل في غدیر أو صب علیہ ماء کثیر او جری علیہ الماء طھر مطلقا بلا شرط عصر و تجفیف و تکرار غمس ھو المختار، (ابن عابدین، رد المحتار علی الدرر المختار، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب في حکم الوشم، ج۱، ص:۴۲-۵۴۳) ؛ ولو أن ثوباً أصابتہ النجاسۃ وھی کثیرۃ فجفت و ذھب أثرھا وخفی مکانھا غسل جمیع الثوب۔ (بدائع الصنائع، کتاب الطہارۃ، فصل في بیان المقدار الذی یصیر بہ المحل، حکم العذرات والأوراث، ج۱، ص:۲۳۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص419
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق: دہ در دہ حوض کا پانی جاری پانی کے حکم میں ہوتا ہے؛ اس لیے اس پانی میں جب تک ناپاکی کا اثر محسوس نہ ہو، تو وہ پانی پاک ہے۔ اسی طرح اگر نجاست کے گرنے سے پانی کے رنگ، یا بو ،یا مزہ، میں فرق نہ آئے، تو حوض کا پانی ناپاک نہ ہوگا؛ لہٰذا اس مذکورہ صورت میں بھی حوض کا پانی ناپاک نہ ہوگا۔(۱)
(۱)إن الغدیر العظیم کالجاري لا یتنجس إلا بالتغیر من غیر فصل، ھکذا في ’’فتح القدیر‘‘ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، کتاب الطہارۃ، الباب الثالث في المیاہ، الفصل الأول ما یجوز بہ التوضوء، النوع الثاني الماء الراکد،ج ۱، ص:۷۰)؛ و بتغیر أحد أوصافہ من لون أو طعم أو ریح ینجس الکثیر ولو جاریاً إجماعاً، أما القلیل فینجس و إن لم یتغیر۔(ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، مطلب حکم سائر المائعات کالماء في الأصح ، ج۱، ص:۳۳۲)؛ و الغدیر العظیم الذي لا یتحرک أحد طرفیہ بتحریک الطرف الآخر إذا وقعت نجاسۃ في أحد جانبیہ، جاز الوضوء من الجانب الآخر (المرغینانی،ہدایۃ، کتاب الطہارۃِ باب الماء الذی یجوز بہ الوضوء ومالا یجوز بہ، ج۱، ص:۳۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص466
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:بغیر وضو قرآن کریم کو چھونا جائز نہیں؛ البتہ بغیر چھوئے قرآن کی تلاوت کر سکتا ہے۔ {لایمسہ إلا المطہرون}(۳)
(۳)قال الطیبی بیان لقولہ تعالیٰ لا یمسہٗ الا المطھرون (الواقعہ:۷۹) ، فإن المراد في الناس عن مسہ إلا علی الطھارۃ (ملا علی قاری، مرقاۃ المفاتیح، شرح مشکاۃ المصابیح، ’’کتاب الطہارۃ، باب مخالطۃ الجنب، الفصل الثاني،‘‘ ج۲، ص:۱۵۱، مکتبۃ فیصل دیوبند)، لا یمسہٗ إلا المطھرون و قول النبي لا یمس القرآن إلا طاھرٌ بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر
فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص136
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: انجکشن لگوانے سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے؛ ہاں اگر انجکشن لینے سے خون نکل جائے اور نکل کر بہہ جائے، تو ایسی صورت میں وضو ٹوٹ جائے گا۔ (و ینقضہ خروج) کل خارج (نجس) بالفتح و یکسر (منہ) أي من المتوضیٔ الحئي معتاداً أو لا، من السبیلین أولا (إلی ما یطھر) بالبناء للمفعول أي یلحقہ حکم التطھیر(۱) القراد إذا مص عضو إنسان فامتلأ دما، إن کان صغیرا لا ینقض وضوئہ کما لو مصت الذباب أوالبعوض، و إن کان کبیرا ینقض۔ و کذا العلقۃ إذا مصت عضو إنسان حتی امتلأت من دمہ انتقض وضوء ہ، کذا في محیط السرخسی۔(۲)
(۱) ابن عابدین، درمختار، کتاب الطہارۃ، مطلب: نواقض الوضوء، ج۱، ص:۲۶۰
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل الخامس: في نواقض الوضوء، و منھا ما یخرج من السبیلین،‘‘ ج ۱، ص:۶۲
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص236
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جس امام نے وہ فرضی اور نام نہاد نکاح پڑھایا ہے اور وہ ایسا ہی کرتا ہے تو وہ گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہے اور فاسق ہے۔ اس کو امامت سے الگ کردیا جائے اس کو امام بنانا مکروہ تحریمی ہے۔ اور شامی میں ہے ایسا شخص واجب الاہانۃ ہے اس کی توقیر جائز نہیں ہے۔(۱)
(۱) وأما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لایہتم لأمر دینہ وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ وقد وجب علیہم إہانتہ شرعاً … بل مشی في شرح المنیۃ علی أن کراہۃ تقدیمہ کراہۃ تحریم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار‘‘: ج۱، ص: ۵۶۰)
ولذا کرہ إمامۃ الفاسق العالم لعدم اہتمامہ بالدین فتجب إہانتہ شرعاً فلا یعظم بتقدیمہ للإمامۃ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳، ۳۰۲، شیخ الہند دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص96
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جس شخص کی کل آمدنی یا اکثر آمدنی حرام ہو اور وہ اسی مال حرام سے دعوت کرتا ہو تو اس کے یہاں دعوت کھانا جائز نہیں ہے نہ ہی امام کے لیے جائز ہے او رنہ ہی کسی اور شخص کے لیے جائز ہے۔ایسے شخص سے امام کی تنخواہ کے لیے یا مسجد کی کسی ضرورت کے لیے چندہ لینا بھی جائز نہیں ہے۔ اگر اس کے پاس مال حرام کے علاوہ مال حلال بھی ہو اور وہ اسی مال سے دعوت کرے تو اس کا قبول کرنا جائز ہے۔یہ مسئلہ عوام کو حکمت و مصلحت کے ساتھ سمجھانے کی ضرورت ہے۔ سوال میں جو صورت حال ذکر کی گئی ہے اس کا ایک حل یہ ہے کہ کسی کے یہاں دعوت کی باری نہ لگائی جائے؛ بلکہ امام کو کھانے کا پیسہ دیا جائے جس سے وہ خود اپنے کھانے کا نظم کرے اس صورت میں کسی کو اعتراض کا حق نہیں ہوگا؛نیز گھر گھر جاکر کھانا کھانا یالانا منصب امامت کے مناسب بھی نہیں ہے؛ لیکن اگراس صورت حال پر عمل ممکن نہ ہو تو خالص مال حرام والے شخص کی دعوت سے حکمت ومصلحت کے ساتھ عذر کردیا جائے اور اگر منع کرنے میں فتنہ کا اندیشہ ہو توامام صاحب کی ذمہ داری ہے کہ اس کا کھانا لے کر کسی غریب کو کھلادے اور مال حلال سے اپنا انتظام کرے۔
’’أھدی إلی رجل شیئا أو أضافہ إن کان غالب مالہ من الحلال فلا بأس إلا أن یعلم بأنہ حرام، فإن کان الغالب ھو الحرام ینبغي أن لا یقبل الھدیۃ ولا یأکل الطعام إلا أن یخبرہ بأنہ حلال ورثتہ أو استقرضتہ من رجل کذا في الینابیع۔ ولا یجوز قبول ھدیۃ أمراء الجور لأن الغالب في مالھم الحرمۃ إلا إذا علم أن أکثر مالہ حلال بأن کان صاحب تجارۃ أو زرع فلا بأس بہ؛لأن أموال الناس لا تخلو عن قلیل حرام فالمعتبر الغالب، وکذا أکل طعامھم‘‘(۱)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیۃ، ’’کتاب الکراھیۃ: الباب الثاني عشر في الھدایا والضیافات‘‘: ج۵، ص: ۳۴۲، ط مکتبۃ زکریا دیوبند
وفي عیون المسائل: رجل أہدی إلی إنسان أو أضافہ إن کان غالب مالہ حرام لا ینبغي أن یقبل ویأکل من طعامہ ما لم یخبر أن ذلک المال حلال استقرضہ أو ورثہ وإن کان غالب مالہ من حلال فلا بأس بأن یقبل ما لم یتبین لہ أن ذلک من الحرام، وہذا لأن أموال الناس لا یخلو عن قلیل حرام وتخلو عن کثیرۃ فیعتبر الغالب ویبقی الحکم علیہ۔ (المحیط البرہاني، ’’الفصل السابع: في الہدایا والضیافات‘‘: ج ۵، ص: ۳۶۷، دارالکتاب دیوبند)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص309
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: صف برابر سیدھی بھی ہونی چاہئے اور پُر بھی کہ درمیان میں خلا باقی نہ رہے اگر کوئی شخص عذر شرعی کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھتا ہے، تو وہ کھڑے ہوئے لوگوں سے الگ نہ بیٹھے؛ بلکہ صف میں بیٹھے اور خلاء درمیان میں بالکل نہ چھوڑے خلا باقی رکھنا شرع کے خلاف ہے، بہتر یہ ہے کہ صف کے آخر میں بیٹھ کر جماعت میں شریک ہو تاکہ صف پوری ہوجائے۔(۱)
(۱) وینبغي للقوم إذا قاموا إلی الصلوۃ أن یتراصوا ویسدوا الخلل ویسوا بین مناکبہم في الصفوف، ولا بأس أن یأمرہم الإمام بذلک۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الخامس في بیان مقام الإمام والمأموم‘‘: ج۱، ص: ۱۴۶، زکریا دیوبند)
عن ابن مسعود -رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ- قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یمسح مناکبنا في الصلوۃ ویقول استووا ولا تختلفوا فتختلف قلوبکم لیلني منکم أولو الأحلام والنہي ثم الذین یلونہم ثم الذین یلونہم۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلوۃ: باب تسویۃ الصفوف وإقامتہا‘‘: ج۱، ص: ۱۸۱، رقم:۴۳۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص422
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر بارش نہ ہو نے کی وجہ سے قحط کا اندیشہ ہو جائے، جانوروں کے چارے میں کمی آجائے، کنووں اور نلوں کا پانی کم ہو جائے، گرمی کی شدت باعث پریشانی اور تکلیف بن جائے تو ایسی صورت میں نماز استسقا پڑھنی چاہئے۔(۱)
(۱) ہو لغۃ: طلب السقي وإعطاء ما یشربہ…… وشرعاً: طلب إنزال المطر بکیفیۃ مخصوصۃ عند شدۃ الحاجۃ بأن یحبس المطر، ولم یکن لہم أودیۃ وآبار وأنہار یشربون منہا ویسقون مواشیہم وزرعہم أو کان ذلک إلا أنہ لا یکفي، فإذا کان کافیا لا یستسقی کما في المحیط۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدرالمختار: ’’کتاب الصلاۃ، باب الاستسقاء‘‘: ج ۳، ص: ۷۰، زکریا دیوبند؛ و الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’باب الاستسقاء‘‘: ص: ۵۴۸، شیخ الہند دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص391
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 1201 Alif
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
The dream of the questioner is very pleasing. There will be happiness in his life insha Allah. He should do isale sawab i.e. ask Allah for the forgiveness of their sins, and to raise the spiritual status of the deceased.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband