Innovations

Ref. No. 38 / 1095

In the name of Allah the most Gracious the mopst Merciful

The answer to your question is as follows:

Going to attend Islahi and tablighi Amaal, so that you can lead rest of your life according to Islamic teachings, is indeed a virtuous job. But if your parents are in need of your services, you have to take full care of them being at home and acting upon the faraiz and mandatory works. And when you have free time you can go for jamat too. Join the Jamat only with the intention of purifying yourself rather than others.

If you have free time and do not want to join tablighi jamat, rather you want to do another good deed or join another Islahi Jamat, then there is no problem in it too. But you must be very sincere about your Islah and inner purification.

And Allah knows best!

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 39 / 0000

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

 

We don’t know the reality about most of them. So we cannot say anything certain about them. You had better to consult the above mentioned institutes and personalities to talk about some of aqaid-e-ahle-sunnat and ask their views about them. Hopefully, in this way you will be able to find answers to your questions.

And Allah knows best

 

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1401/42-819

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صفوں کی درستگی اور خلل کو پُر کرنے کی احادیث میں  بہت تاکید آئی ہے۔ اس لئے اگر آگے کی صف میں جگہ ہو تو دوسرے نمازیوں کے آگے سے گزرکر وہاں تک پہونچنا درست ہے، اس میں کوئی گناہ نہیں۔ اگلی صف میں جگہ ہوتے ہوئے پچھلی صف بنانا مکروہ ہے۔ اس کا خیال رکھنا چاہئے۔

فلو صلى في نفس طريق العامة لم تكن صلاته محترمة كمن صلى خلف فرجة الصف فلا يمنعون من المرور لتعديه فليتأمل (شامی، فروع مشی المصلی مستقبل القبلۃ 1/635)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:چونکہ اس سے ایمان کا کوئی خطرہ نہیں ہے؛ اس لئے  اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔(۱)

(۱) اتفقوا علی جواز ترخیم الإسم المثقص إذ لم یتأذ بذلک صاحبہ ثبت أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، رخم أسماء جماعۃ من الصحابۃ، فقال: لأبي ہریرۃ -رضي اللّٰہ عنہ- یا أبا ہریر ولعائشۃ -رضي اللّٰہ عنہما - یا عائش ولنجشۃ یا نجش۔ (النووي، المجموع شرح المہذب: ج ۸، ص: ۴۴۲)

حدیث و سنت

Ref. No. 2001/44-1957

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دوران اسباق تلامذہ کا حق ہے کہ جو بات انہیں سمجھ میں نہ آئے اسے اپنے اساتذہ سے دریافت کرلیں، لیکن احترام بہرصورت ملحوظ رکھنا چاہئے، کیونکہ تنقید کرنا جائز ہے مگر تحقیر کسی صورت جائز نہیں ہے۔ آپ کے سوال سے ظاہرہوتاہے کہ آپ کا یہ رویہ استاذ کی حقارت کاباعث بن رہاہے ، جوکہ انتہائی نامناسب اور غلط عمل ہے۔ اساتذہ اسباق میں اپنے نظریات بھی بتلاتے ہیں، جن کا ماننا لازم نہیں ہوتاہے ؛ آپ ان کے نظریات سے متفق ہوں تو ٹھیک ، نہیں  ہوں تو بھی کوئی بات نہیں ،  ۔ نہ تو اساتذہ کو اپنا نظریہ دوسروں پر تھوپنا چاہئے  اور نہ طالب عمل ہی استاذ کو اپنے نظریات کا پابند بنائے۔ نیز طالب علم کو اسباق میں  اپنانظریہ لے کر نہیں بیٹھناچاہئے، ورنہ دوسرے نظریہ کی حقیقت و حقانیت کبھی بھی طالب علم پر عیاں نہیں ہوگی۔ ایسے معاملہ میں بہتر یہ ہے کہ خارج میں استاذ سے مل کر معلومات حاصل کرے، مگر ایسی بحثوں سے پھر بھی گریز کریں جس سے استاذ کو خفگی محسوس ہو، اساتذہ کا اپنے نظریات کے مطابق اسباق سمجھانا غیبت نہیں ہوتاہے۔

عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه  انہ قال تعلموا العلم وتعلموا لہ السكينة والوقار وتواضعوا لمن تتعلمون منه ولمن تعلمونہ ولا تكونوا جبابرة العلماء۔ (جامع بیان العلم 1/512)

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- أَنَّهُ سَمِعَ النَّبيَّ -صلّى اللهُ عليه وسَلَّم يقول-: «إن العبد ليتكلم بالكلمة ما يتبين فيها يزلُّ بها إلى النار أبعدَ مما بين المشرق والمغرب». (مسلم شریف الرقم 2988)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

فقہ

Ref. No. 2324/44-3489

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عربی زبان کی افضلیت بہرحال مسلم ہے، اس لئے اس کی ترویج وترقی کے لئے کوشاں رہنا بہت اچھی بات ہے۔ عربی زبان کے فروغ میں آپ کی فکرمندی لائق تحسین ہے۔البتہ دیگر زبانیں بھی اللہ کی نعمت ہیں اور ان کو سیکھنا اور ان کی ترویج کرنا بھی اچھی بات ہے، ان کی اہمیت سے انکار نہیں کیاجاسکتاہے۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن کریم کی آیات کی تعداد: ۶۶۶۶؍ ہے۔(۳) اور جمل میں ۶۵۰۰؍ ہے۔(۱)
دوسرا قول یہ ہے کہ ۶۶۱۶؍ آیات ہیں۔

(۱) وأما جملۃ عدد آیاتہ فہو ستۃ آلاف وخمسمأیۃ۔ (الجمل: ج ۱، ص: ۵)
وقال غیرہ: سبب اختلاف السلف في عدد الآي أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یقف علی رؤوس الآي للتوقیف فإذا علم محلہا وصل للتمام فیحسب السامع حینئذ أنہا لیست فاصلۃ۔ (عبد الرحمن بن أبي بکر، الإتقان في علوم القرآن، ’’النوع التاسع عشر: في عدد سورۃ وآیاتہ‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۳)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص67

فقہ

Ref. No. 2571/45-3938

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  جس شخص کا اس حال میں انتقال ہو جائے  کہ اس کے ذمہ سجدہ تلاوت باقی ہوں تو اس پر ان سجدوں کے بدلہ فدیہ دینا واجب نہیں ہے، البتہ احتیاط اس میں ہے کہ  فدیہ دیدیا جائے تاہم صورت مذکورہ میں مرنے والے کے ذمہ کتنے سجدے واجب تھے معلوم نہیں، پھر انھوں نے اس سلسلہ میں کوئی وصیت بھی نہیں کی تو ان کے ورثہ کے ذمہ کوئی چیز صدقہ دینا لازم نہیں ہے، تاہم اگر ورثاء نے بطور صدقہ یا فدیہ کچھ دیدیا تو یہ ان کی جانب سے تبرع ہوگا جس کا اجر میت کو ملے گا اور امید ہے کہ ان سجدوں کا کفارہ ہوکر اللہ کے یہاں مقبول بھی ہو جائے۔متعلقین، میت کے لئے کثرت سے استغفار بھی کریں کہ اس سے سجدہ کی ادائیگی میں کوتا ہی ہوئی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے متعدد طریقے ہیں جن میں سے ایک طریقہ مروجہ تبلیغ ہے لیکن مروجہ تبلیغ ہی کو مخصوص کر لینا غلط ہے۔(۲)

(۲) {وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ أُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ إِلَی الْخَیْرِ وَیَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ ط وَأُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ہ۱۰۴} (سورۃ آل عمران: ۱۰۴)…{وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ إِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ إِنَّنِيْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَہ۳۳} (سورۃ فصلت: ۳۳)
{وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ إِلَی اللّٰہِ} أي إلی توحیدہ تعالیٰ وطاعتہ والظاہر العموم في کل داع إلیہ تعالیٰ وإلی ذلک ذہب الحسن ومقاتل وجماعۃ۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ فصلت: ۳۳‘‘: ج ۱۳، ص: ۱۸۸)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص324

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:ہاتھ دھونا ضروری تو نہیں، لیکن اگر برہنہ عضو پر ہاتھ لگایا ہے تو احترام قرآن کا تقاضا ہے کہ بغیر ہاتھ دھوئے قرآن کو مس نہ کیا جائے۔(۱)

(۱) عن جابر قال : سمعت قیس بن طلق الحنفی، عن أبیہ، قال سمعت رسول اللّٰہ ﷺ سئل عن مس الذکر فقال: لیس فیہ وضوء إنما ھو منک و في روایۃ جزء منک۔  (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ج۱، ص:۳۷)؛
والمنع أقرب إلی التعظیم کما في البحر : أي والصحیح المنع۔ (ابن عابدین، رد المحتار، کتاب الطہارۃ، باب الحیض، مطلب: لو أفتی مفت بشيء من ھذہ الأقوال، ج۱، ص:۴۸۸ )


 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص420