Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن شریف کو گالی دینا کفر ہے۔ ’’العیاذ باللّٰہ‘‘ پس اس شخص سے جب وہ تو بہ بھی نہیں کرتا، مرتدین اور کفار جیسا معاملہ کیا جائے اور اس سے قطع تعلق کرلیا جائے۔(۱) ’’قال اللّٰہ تبارک وتعالی: {وَقَدْ نَزَّلَ عَلَیْکُمْ فِي الْکِتٰبِ أَنْ إِذَاسَمِعْتُمْ أٰیٰتِ اللّٰہِ یُکْفَرُبِھَا وَیُسْتَھْزَأُ بِھَا فَلاَ تَقْعُدُوْا مَعَھُمْ حَتّٰی یَخُوْضُوْا فِيْ حَدِیْثٍ غَیْرِہٖٓ صلے ز إِنَّکُمْ إِذًا مِّثْلُھُمْط إِنَّ اللّٰہَ جَامِعُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَالْکٰفِرِیْنَ فِيْ جَھَنَّمَ جَمِیْعاًہلا۱۴۰}(۲)
(۲) سورۃ النساء: ۱۴۔
دار العلوم وقف دیوبند
(فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند جلد اول ص 178)
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرات انبیاء علیہم السلام بشمول سید الانبیاء والمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے پردہ فرما گئے، لیکن وہ حضرات اپنی اپنی قبروں میں زندہ ہیں جیسے شہداء اپنی قبروں میں زندہ ہیں۔ {وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أَمْوَاتٌط بَلْ أَحْیَآئٌ وَّلٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَہ۱۵۴} سورۃ البقرۃ: ۱۵۴۔ حدیث پاک میں سیدنا ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا:
’’أکثروا الصلوٰۃ عليّ یوم الجمعۃ فإنہ مشہود تشہدہ الملائکۃ، وإن أحدا لن یصلي علي إلا عرضت علي صلاتہ حتی یفرغ منہا، قال: قلت: وبعد الموت؟ قال: وبعد الموت إن اللّٰہ حرم علی الأرض أن تأکل أجساد الأنبیاء فنبي اللّٰہ حي یرزق‘‘۔(۱)
مجھ پر جمعہ کے دن کثرت سے درود پڑھا کرو کیونکہ اس دن فرشتے جمع ہوتے ہیں اور جب تم میں سے کوئی شخص مجھ پر درود پڑھتا ہے، تو اس درود کو مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔ ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نے سوال کیا کہ موت کے بعد بھی؟فرمایا: ہاں! موت کے بعد بھی؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاء علیہم السلام کے جسم مبارک کو کھانا حرام کر دیا ہے۔
’’إنہ (النبي -صلی اللّٰہ علیہ وسلم-) اجتمع مع الأنبیاء وأن الأنبیاء أحیاء في قبورہم یصلون‘‘(۲) انبیاء علیہم السلام اپنی قبروں میں باحیات ہیں اور نماز پڑھتے ہیں اور ان سے منکر نکیر سوال بھی نہیں کرتے ہیں یہی اہل سنت والجماعت کا عقیدہ بھی ہے۔
(۱) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’أبواب ما جاء في الجنائز: باب ذکر وفاتہ ودفنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۸، رقم: ۱۶۳۷۔
(۲) ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان، باب الإیمان بالقدر، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۲، رقم: ۸۱)
وصح خبر ’’الأنبیاء أحیاء في قبورہم یصلون۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، الفصل الثالث‘‘: ج ۳، ص: ۴۱۵، رقم: ۱۳۶۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند جلد اول ص 201
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:غیر اللہ کو مختار سمجھ کر اس سے سوال کرنا اور بلا واسطہ اس کے لئے استغاثہ و استعانت وغیرہ کے الفاظ استعمال کرنا شرعاً جائز نہیں ہے، ہاں! توسل شرعاً جائز ہے کہ استغاثہ واستعانت اللہ تعالیٰ سے ہی ہے اور کسی اللہ کے نیک بندے یا کسی نیک عمل کو وسیلہ بنا لیا جائے اگر کسی کو صرف وسیلہ بنایا جائے، تو جائز ہے؛ لیکن پختہ عقیدے کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہی کو رزاق وغیرہ مانا جائے، اور اسی کو مدد گار مانا جائے۔ (۱)
(۱) {قُلِ ادْعُوا الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِج لاَ یَمْلِکُوْنَ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ فِي السَّمٰوٰتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَمَا لَھُمْ فِیْھِمَا مِنْ شِرْکٍ وَّمَا لَہٗ مِنْھُمْ مِّنْ ظَھِیْرٍہ۲۲ } (سورۃ السباء: ۲۲)
{إِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّلَوِ اجْتَمَعُوْا لَہٗط} (سورۃ الحج: ۷۳)
{قُلْ أَفَرَئَ یْتُمْ مَّا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ إِنْ أَرَادَنِيَ اللّٰہُ بِضُرٍّ ھَلْ ھُنَّ کٰشِفٰتُ ضُرِّہٖٓ أَوْ أَرَادَنِيْ بِرَحْمَۃٍ ھَلْ ھُنَّ مُمْسِکٰتُ رَحْمَتِہٖط قُلْ حَسْبِيَ اللّٰہُ ط عَلَیْہِ یَتَوَکَّلُ الْمُتَوَکِّلُوْنَ ہ۳۸} (سورۃ الزمر: ۳۸) ۔ أي: لا تستطیع شیئاً من الأمر۔ (ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر: ج ۷، ص: ۱۰۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص274
متفرقات
Ref. No. 2360/44-3552
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جب آپ سخت ضرورتمند تھے تو مقتدیوں نے آپ کی سودی رقم سے مدد کی ، اس وقت آپ کے لئے سودی رقم استعمال کرنا جائز تھا۔ اس لئے آپ کی امامت درست ہے اور لوگوں کا آپ کی اقتداء میں نماز پڑھنا بھی درست ہے۔
"ويردونها على أربابها إن عرفوهم، وإلا تصدقوا بها؛ لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه."
(فتاوی شامی:كتاب الحظر والاباحة، ج:6، ص:385، ط: سعيد)
"والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه."
فتاوی شامی (کتاب البیوع ، باب البیع الفاسد، ج:5، ص:99، ط:سعيد)
"قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقهائنا کالهدایة وغیرها: أن من ملك بملك خبیث، ولم یمكنه الرد إلى المالك، فسبیله التصدقُ علی الفقراء ... قال: و الظاهر أن المتصدق بمثله ینبغي أن ینوي به فراغ ذمته، ولایرجو به المثوبة." (معارف السنن میں ہے:
أبواب الطهارة، باب ما جاء: لاتقبل صلاة بغیر طهور، ج:1، ص:34، ط: المکتبة الأشرفیة)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ تمام نظریات سراسر غلط اور تاریخ سے عدم واقفیت پر مبنی ہیں۔ ان نظریات کا حامل شخص گمراہ اور صراط مستقیم سے ہٹا ہوا ہے۔ اس کی باتوں پر بالکل توجہ نہ دی جائے۔ ان نظریات کی کوئی بنیاد نہیں ہے؛ بلکہ سب اٹکل ہے جو اس شخص نے خود سے گھڑ لیے ہیں۔ یہ نظریات حدیث واجماع کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہیں۔ اس شخص سے ہی ان نظریات پر ثبوت طلب کرلیں، تو اس کی حقیقت سامنے آجائے گی۔
صحاح ستہ کے حوالہ سے شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’چھ کتابیں جو کہ اسلام میں مشہور ہیں، محدثین کے مطابق وہ صحیح بخاری، صحیح مسلم، جامع ترمذی، سنن ابی داؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ ہیں۔ ان کتابوں میں حدیث کی جتنی قسمیں ہیں صحیح، حسن اور ضعیف، سب موجود ہیں اور ان کو صحاح کہنا تغلیب کے طور پر ہے۔‘‘(۱) حاصل یہ ہے کہ نہ صحاح ستہ کی ہر حدیث صحیح ہے اور نہ اُن سے باہر کی ہر حدیث ضعیف ہے؛ لہٰذا چند روایات کے ضعیف ہونے کی وجہ سے سب کا انکار کر دینا غلط ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں جو کچھ باتیں لکھی ہیں وہ سب غلط ہیں۔(۲)
اس سلسلے میں حضرت معاویہؓ اور تاریخی حقائق کا مطالعہ مفید ہوگا۔
(۱) الشیخ عبد الحق الدہلوي، أشعۃ اللمعات، شرح مشکوٰۃ المصابیح: ج ۱، ص: ۱۳۹۔
(۲) یقول: لقد قتل عثمان وما أعلم أحدًا یتہم علیًا في قتلہ أسمی المطالب في سیرۃ علي بن أبي طالب: ج ۱، ص: ۴۴۰) ؛ وتاریخ ابن عساکر، ترجمۃ عثمان، ص: ۳۵؛ و لقد أنکر علي رضي اللّٰہ عنہ قتل عثمان رضي اللّٰہ عنہ وتبرأ من دمہ، وکان یقسم علی ذلک في خطبہ وغیرہا أنہ لم یقتلہ ولا أمر بقتلہ ولا مالأ ولا رضي، وقد ثبت ذلک عنہ بطریق تفید القطع۔ (ابن کثیر، البدایۃ والنھایۃ: ج ۷، ص: ۲۰۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص112
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق: احناف کے نزدیک منی ناپاک ہے۔ امام شافعیؒ اور بعض ائمہ کے نزدیک منی کا حکم مختلف (الگ) ہے۔ یہ علمی اختلاف ہے، جس کی وجہ سے کسی بھی مجتہد یا عالم کی قدر و منزلت کم نہیں ہونی چاہیے۔ تفصیل درج ذیل ہے۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور حنابلہ کے نزدیک منی پاک ہے، ان کے دلائل یہ ہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے: ’’لقد رأیتني أفرکہ من ثوب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرکاً فیصلی فیہ‘‘ (۱) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سے منی کو کھرچ دیتی تھیں۔
کپڑے پر اگر نجاست لگی ہو، تو اس کو دھویا جاتا ہے اور اگر نجاست کے علاوہ کوئی دوسری چیز کپڑے پر لگ جائے، تو نظافت کے طور پر اسے کپڑے سے ہٹا دیا جاتا ہے؛ اس سے معلوم ہوا کہ منی پاک ہے، اگر ناپاک ہوتی، تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسے کھرچنے پر خاموش نہ رہتے؛ بلکہ دھونے کا حکم فرماتے۔
دوسری دلیل: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت ہے: ’’سئل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن المني یصیب الثوب فقال: إنما ہو بمنزلۃ البصاق أو المخاط إنما کان یکفیک أن تمسحہ بخرقۃ أو إذخر‘‘ (۲)رسول اللہ علیہ وسلم سے کپڑے پر لگی منی کے بارے میں معلوم کیا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: وہ منہ کے لعاب یا ناک کی ریزش کے درجے میں ہے، یہ کافی ہے کہ اسے کسی کپڑے یا اذخر گھاس سے پونچھ دیں۔
اس حدیث میں منی کو لعاب وغیرہ سے تشبیہ دی گئی ہے اور صرف صاف کر دینے کے بارے میں فرمایا گیا ہے؛ اس لحاظ سے منی پاک ہے اور صاف کرنا صرف نظافت کے طور پر ہے کہ اس کا کپڑے پر لگے رہنا اچھا نہیں لگتا۔
شوافع کی تیسری دلیل: جس طرح انسان مٹی اور پانی سے بنا ہے، اسی طرح منی سے بھی اس کی تخلیق ہوئی ہے؛ تو جس طرح مٹی وپانی پاک ہیں، اسی طرح منی بھی پاک ہے ’’ولأنہ مبدأ خلق الإنسان فکان طاہراً کالطین‘‘ (۱)
علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ’’دلیل القائلین بالطہارۃ روایۃ الفرک فلو کان نجسا لم یکف فرکہ کالدم وغیرہ قالوا وروایۃ الغسل محمولۃ علی الإستحباب والتنزہ و إختیار النظافۃ واللہ أعلم۔ ھذا حکم مني الآدمي۔‘‘ (۲)
احناف ومالکیہ منی کے ناپاک ہونے کے قائل ہیں ان کے بھی مستدلات ہیں:
پہلی دلیل مسلم شریف کی روایت ہے: ’’قال إبن بشر: إن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یغسل المني و أما ابن المبارک و عبد الواحد ففي حدیثھما قالت کنت أغسلہ من ثوب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ (۳)
اس روایت میں ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کپڑے پر لگی ہوئی منی کو دھودیا کرتے تھے ، جو کوئی ناپاک چیز کپڑے پر لگ جائے، تو اس کا دھونا ضروری ہے۔
دوسری دلیل: یہ ہے کہ سبیلین سے جو چیز نکلے وہ ناپاک ہوتی ہے: و ینقضہ خروج کل خارج نجس منہ أي من المتوضي الحي معتادا أو لا، من السبیلین أولا(۴) اور منی بھی اسی قسم کی چیز ہے ؛لہٰذا دیگر نجاستوں کی طرح اسے بھی ناپاک ہی قرار دیا جائے گا۔
تیسری دلیل: یہ ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ: اگر کپڑے کے کسی حصے پر منی نظر آئے، تو اس حصے کو دھو دیا جائے اور اگر نظر نہ آئے، تو پورا کپڑا دھویا جائے۔ نیز تابعین میں سے حضرت حسن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: منی پیشاب کی طرح ہے۔
’’واستدلوا بآثار عن بعض الصحابۃ رضي اللّٰہ عنہم، منھا ما روي عن أبي ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ في المني یصیب الثوب ’’إن رأیتہ فاغسلہ وإلا فاغسل الثوب کلہ‘‘ ومن التابعین ما روي عن الحسن: أن المني بمنزلۃ البول‘‘ (۵)
حضراتِ شوافع کے دلائل کا جواب:
حضرات شوافع کی پہلی دلیل: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا والی روایتِ فرک غسل والی روایات سے پہلے کی ہے، اس کے بعد غسل کا حکم آ گیا، یا پھر یہ کہا جائے کہ اگر منی گاڑھی اور خشک ہو اور رگڑنے وپونچھنے سے نجاست کا اثر زائل ہو جائے، تو واقعۃً کپڑا پاک ہو جائے گا اور امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی اس کے قائل ہیں ’’قال التمرتاشی: والصحیح أنہ یطہر بالفرک لأنہ من أجزاء المني وقال الفضلي مني المرأۃ لا یطہر بالفرک لأنہ رقیق‘‘۔(۱)
دوسری دلیل: ابن عباس رضی اللہ عنہما والی روایت ہے، جس میں منی کو بصاق ومخاط کے مانند قرار دیا گیا ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ یہ روایت مرفوع ہے یاموقوف ہے۔ یہ مختلف فیہ ہے، اس لیے اس سے استدلال قوی نہیں ہے؛ لیکن لائق استدلال تسلیم کرنے کے بعد بھی ضابطہ یہ ہے: محرم ومبیح جمع ہوں ؛تو محرم کو ترجیح دی جاتی ہے؛ اس لحاظ سے بھی غسل والی روایت اس روایت پر راجح ہے۔ نیز یہ کہ بصاق ومخاط کے ساتھ تشبیہ ضروری نہیں کہ پاک ہونے میں ہی ہو۔ یہ مفہوم بھی ہو سکتا ہے کہ لزوجت ولیس پن، کپڑے کے اندر ذرات باقی نہ رہنے میں اور فرک سے پاک کیے جانے میں منی مخاط کے مانند ہے، ’’لأن قولہ کالمخاط لا یقتضي أن یکون طاہراً لجواز أن یکون التشبیہ في اللزوجۃ وقلۃ التداخل وطہارتہ بالفرک‘‘ ۔(۲)
شوافع کی تیسری دلیل: یہ ہے کہ منی سے انسانی تخلیق ہوتی ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ انسان کی تخلیق ہونے سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ وہ چیز پاک بھی ہو اور اس کا ناپاک ہونا تکریم انسانی کے خلاف ہو؛ چنانچہ قرآن کریم میں وضاحت ہے کہ انسان کی تخلیق میں متعدد مراحل آتے ہیں:کبھی وہ مضغہ اور کبھی علقہ ہوتا ہے اور علقہ خود ناپاک ہے۔ نیز منی خون سے بنتی ہے اور خون ناپاک ہے لہٰذا منی کا ناپاک ہونا تکریم انسانی کے منافی نہیں ہے، ’’لأنہ مبدأ خلق الإنسان وہو مکرم فلایکون أصلہ نجساً وہذا ممنوع فإن تکریمہ یحصل بعد تطویرہ الأطوار المعلومۃ من المائیۃ والمضغۃ والعلقیۃ ألا یری أن العلقۃ نجسۃ وأن نفس المني أصلہ دم فیصدق أن أصل الإنسان دم وہو نجس والحدیث بعد تسلیم حجیتہ رفعہ معارض بماقد منا ویترجح ذلک بأن المحرم مقدم علی المبیح‘‘ ۔(۱)
حاصل بحث یہ ہے کہ شوافع کے نزدیک منی پاک ہے اور ان کے اپنے دلائل ہیں۔ احناف کے نزدیک منی ناپاک ہے اور ان کے دلائل اقویٰ ہیں احناف نے تمام روایات پر عمل کی صورت اور تطبیق کی راہ اختیار کی ہے، غسل والی روایات کو عموم احوال پرمحمول کیا ہے اور فرک والی روایت کو اس صورت پر محمول کیا ہے، جب منی خشک ہو اور کھرچنے سے اس کے ذرات کپڑے سے نکل جاتے ہوں۔
مزید دلائل کے لیے کتب فقہ واحادیث کا تفصیلی مطالعہ مفید ہوگا۔
(۱) أخرجہ مسلم، في صحیحہ،باب حکم المني ج۱، ص:۱۴۰، رقم:۳۵۱
(۲) أخرجہ البیہقي، في سننہ، باب المني یصیب الثوب، ج۲، ص:۵۸۶، رقم: ۴۱۷۶
(۱ )وزارۃ الأوقاف الکویت، الموسوعۃ الفقہیہ، طہارۃ المني و نجاستہ، ج۳۹،ص:۱۴۲
(۲)الامام النووي، شرح النووی علی المسلم، باب حکم المني،ج۱، ص:۱۴۰
(۳)أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ج۱،ص:۱۴۰
(۱)ابن الہمام، فتح القدیر، کتاب الطہارات، باب الأنجاس و تطہیرھا،ج۱،ص:۲۰۰
(۲)ایضاً، ص:۱۹۹
(۱) ابن الہمام، فتح القدیر، کتاب الطہارات، باب الأنجاس و تطہیرھا، ج۱، ص:۲۰۰
(۲)ابن الہمام، فتح القدیر، کتاب الطہارات، باب الأنجاس و تطہیرہا، ج۱، ص:۲۰۲
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص424
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق: اگر زیادہ گرے، تو وضوء و غسل وغیرہ درست نہیں اور اگر بہت کم ہو، تو درست ہے؛ لیکن نظافت کا تقاضا یہ ہے کہ ایسے پانی سے وضوء وغیرہ نہ کرے۔(۱)
(۱)خرء الفارۃ لا یفسد الدھن، والماء، والحنطۃ للضرورۃ مالم یظھر أثرہ و عزاہ في البحر إلی الظھیریۃ۔ (احمد بن محمد الطحطاوی، حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، باب الأنجاس والطھارۃ عنھا، ج۱، ص۱۵۴)؛ و خبز وجد في خلالہ خرء فارۃ فإن کان الخرء صلبا رمی بہ و أکل الخبز ولا یفسد خرأ الفارۃ الدھن والماء والحنطۃ للضرورۃ إلا إذا ظھر طعمہ أو لونہ۔ (ابن عابدین، الدرالمختار مع رد المحتار، کتاب الخنثیٰ، مسائل شتی، ج۱۰، ص:۴۵۴)؛ و قال محمد بن مقاتل الرازي: لا یفسد الدھن ولا الحنطۃ مالم یتغیر طعمہ۔ وفي المرغیناني۔ یرمي خرء الفارۃ من الخبز و یؤکل إذا کان صلبا۔ ولو وقع في الدھن أو الماء لا یفسدہ، و کذا في الحنطۃ إذا کان قلیلا۔ (العینی، البنایۃ شرح ہدایۃ، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس و تطھیرھا، ج۱، ص:۷۴۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص472
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:انجکشن سے اگر اتنی مقدار میں خون نکالا جائے، جو بدن پر نکلنے کی صورت میں بہہ پڑتا ہے، تو وضو ٹوٹ جاتا ہے، جن لوگوں نے ٹیسٹ کے لیے خون دے کر وضو نہیں کیا اور نماز پڑھ لی، وہ اپنی نمازوں کا اعادہ کریں۔
القراد إذا مص عضو انسان فامتلأ دما(۱)(و ینقضہ) خروج منہ کل خارج (نجس) بالفتح و یکسر (منہ) أي من المتوضئ الحي معتاداً أو لا، من السبیلین أو لا، (إلی ما یطھر) بالبناء للمفعول۔ أي یلحقہ حکم التطھیر۔ ثم المراد بالخروج من السبیلین مجرد الظھور و في غیرھا عین السیلان ولو بالقوۃ، لما قالوا: لو مسح الدم کلما خرج، ولو ترکہ لسال نقض، و إلا لا‘‘(۲)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل الخامس: في نواقض الوضوء، و منھا ما یخرج من غیر السبیلین،‘‘ ج۱، ص:۶۳، رد المحتار ’’کتاب الطہارۃ، مطلب: نواقض الوضوء،‘‘ ج ۱، ص:۲۶۸
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب نواقض الوضوء،‘‘ ج ۱،ص:۲۶۰-۲۶۱
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص241
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: یہ تو ایمان کی کمزوری کی بات ہے؛ بلکہ امام کو جماعت میں اس کا خیال رکھنا چاہئے کہ اسی کے ذریعہ سے میری نماز باجماعت ادا ہوجاتی ہے۔ اور مقتدیوں کو امام کا مشکور ہونا چاہئے کہ اس کی وجہ سے جماعت کا ثواب مل جاتا ہے۔ امام کا منصب یہ ہے کہ بھلائی کے کاموں کی ترغیب دیتا ہے اور برے کاموں سے روکتا ہے، امام کے اس کام میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہئے اور نہ ہی کسی کو اس پر ناگواری ہونی چاہئے کہ امام روزی سمجھ کر حق لینے سے روک دیا جائے۔(۱)
(۱) قال ابن عباس عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أحق ما أخذتم علیہ أجراً کتاب اللّٰہ وقال الشعبي لا یشترط المعلم إلا أن یعطي شیئاً فیقلبہ، وقال الحکم: لم أسمع أحداً کرہ أجر المعلم وأعطی الحسن عشرۃ دراہم ولم یر ابن سیرین بأجر القسام بأسا۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الإجارۃ، باب ما یعطی في الرقیۃ علی أحیاء العرب بفاتحۃ الکتاب الخ‘‘: ج ۱، ص: ۳۰۴، نعیمیہ دیوبند)
قال صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن سرکم أن تقبل صلاتکم فلیؤمکم علماء کم فإنہم وفدکم فیما بینکم وبین ربکم، وفي روایۃ فلیؤمکم خیارکم۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۱، ۳۰۲، شیخ الہند دیوبند)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص314
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: شریعت اسلامیہ نے نماز کے آداب میں سر کا ڈھانپنا بتلایا ہے جو پاک چیز کے ذریعہ ہونا چاہئے خواہ کپڑا ہو یا کپڑے جیسی کوئی اور چیز ہو، جس سے سر کے ڈھانپنے کا مقصد پورا ہوتا ہو پس مذکورہ ٹوپی جو پلاسٹک کی ہوتی ہے اور ایسے ہی باریک لکڑی کے چھلکے (بیت کی بنی ہوئی ٹوپی) اس سے چوں کہ سر ڈھانپنے کا مقصد پورا ہوجاتا ہے، اس لیے اس کو اوڑھ کر نماز پڑھنا صحیح اور درست ہے، بشرطیکہ پاک بھی ہو؛ البتہ عام طور پر پلاسٹک کی ٹوپیاں اچھی نہیں سمجھی جاتیں، لوگ ایسی ٹوپیاں پہن کر شریف اور معزز لوگوں کی مجلس میں جانا پسند نہیں کرتے اور عام حالات میں بھی یہ ٹوپیاں نہیں پہنتے، اس لیے ایسی ٹوپیاں پہن کر نماز پڑھنا مکروہ تنزیہی ہے۔
’’وصلاتہ في ثیاب بذلۃ یلبسہا في بیتہ ومہنۃ أي خدمۃ إن لہ غیرہا وإلا لا‘‘(۱)
’’قال في البحر وفسرہا في شرح الوقایۃ بما یلبسہ في بیتہ ولا یذہب بہ إلی الأکابر والظاہر أن الکراہۃ تنزیہیۃ‘‘(۲)
’’ورأي عمر رجلاً فعل ذلک، فقال: أرأیت لو کنت أرسلتک إلی بعض الناس أکنت تمر في ثیابک ہذہ، فقال: لا، فقال عمر: أللّٰہ أحق أن تتزین لہ‘‘(۳)
اور یہ ہی حکم پلاسٹک کی چٹائی کا ہے کہ اس سے بھی مقصد پورا ہوتا ہے؛ لہٰذا اس کا استعمال بھی بلا شبہ جائز اور درست ہے۔
(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ: باب مایفسد الصلوۃ ومایکرہ فیہا، مطلب في الکراہۃ التحریمیۃ والتنزیہیۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۷، زکریا۔
(۲) أیضًا:۔
(۳) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ‘‘: ص: ۳۵۹۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص429