Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام اور شہداء کرام کے علاوہ کا قبروں میں زندہ رہنا ثابت نہیں(۱)؛ لہٰذا ان کے وہاں زندہ رہنے کا عقیدہ درست نہیں، ایصال ثواب یا بزرگانِ دین کے وسیلہ سے دعاء جائز ہے؛ (۲) لیکن ان سے مانگنا یا یہ درخواست کہ تم ہمارے لئے دعاء مانگو اس کی گنجائش نہیں، وہ تو خود ہی مرے ہوئے ہیں ان کو خطاب سے کوئی فائدہ نہیں۔(۳)
(۳) لأن المیت لا یسمع بنفسہ۔ (أبو حنیفۃ -رحمہ اللّٰہ- شرح الفقہ الأکبر، ’’مسألۃ في أن الدعاء للمیت ینفع‘‘: ص: ۲۲۶)
{إِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّلَوِ اجْتَمَعُوْا لَہٗط} (سورۃ الحج: ۷۳)
{قُلِ ادْعُوا الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ ج لَا یَمْلِکُوْنَ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ فِي السَّمٰوٰتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَمَا لَھُمْ فِیْھِمَا مِنْ شِرْکٍ وَّمَا لَہٗ مِنْھُمْ مِّنْ ظَھِیْرٍہ۲۲} (سورۃ السباء: ۲۲)
{قُلْ أَفَرَئَ یْتُمْ مَّا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ إِنْ أَرَادَنِيَ اللّٰہُ بِضُرٍّ ھَلْ ھُنَّ کٰشِفٰتُ ضُرِّہٖٓ أَوْ أَرَادَنِيْ بِرَحْمَۃٍ ھَلْ ھُنَّ مُمْسِکٰتُ رَحْمَتِہٖط قُلْ حَسْبِيَ اللّٰہُ ط عَلَیْہِ یَتَوَکَّلُ الْمُتَوَکِّلُوْنَ ہ۳۸} (سورۃ الزمر: ۳۸) أي: لا تستطیع شیئاً من الأمر۔ (ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر: ج ۷، ص: ۱۰۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص272
تجارت و ملازمت
Ref. No. 2440/45-3717
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ان اشیاء کے بیچنے اور خریدنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ عموما ان اشیاء میں کسی حرام و نجس چیز کی آمیزش نہیں ہوتی ہے، اور ان کا استعمال ناجائز کاموں کے ساتھ جائز کاموں میں بھی ہوتاہے، اس لئے ان کی خریدوفروخت کو ناجائز نہیں کہاجاسکتا ہے۔
الاصل فی الاشیاء الاباحۃ حتی یدل الدلیل علی عدم الاباحۃ (الاشباہ 1/252) واذا اجتمع المباشر والمتسبب اضیف الحکم الی المباشر (الاشباہ 502)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:آداب مسجد کی رعایت کرتے ہوئے مسجد میں سونا درست ہے، بلکہ اعتکاف کی نیت بھی کرلینی چاہئے۔ مسجد میں سونے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں اور اسکول میں نظم کریں تو زیادہ بہتر ہے۔(۱)
(۱) ویکرہ النوم والأکل فیہ لغیر المعتکف، وإذا أراد أن یفعل ذلک ینبغي أن ینوي الاعتکاف فیدخل فیہ ویذکر اللّٰہ تعالیٰ بقدر ما نوی أو یصلي ثم یفعل ما شاء، کذا في السراجیۃ۔ ولا بأس للغریب ولصاحب الدار أن ینام في المسجد في الصحیح من المذہب، والأحسن أن یتورع فلا ینام، کذا في خزانۃ الفتاوی۔ (جماعۃ من العلماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الخامس، في أداب المسجد، والقبلۃ، والمصحف‘‘: ج ۵، ص: ۳۷۱)
عبد اللّٰہ بن عمر رضي اللّٰہ عنہما، أنہ کان ینام وہو شاب أعزب لا أہل لہ في مسجد النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب نوم الرجال في المسجد‘‘: ج ۱، ص: ۶۳، رقم: ۴۴۰)
وقد سئل سعید بن المسیب وسلیمان بن یسار عن النوم فیہ فقالا: کیف تسألون عنہا وقد کان أہل الصفۃ ینامون فیہ وہم قوم کان مسکنہم المسجد۔ (العیني، عمدۃ القاري، ’’کتاب الصلاۃ: باب نوم الرجال في المسجد‘‘: ج ۴، ص: ۱۹۸، رقم: ۱۰۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص328
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:صورت مسئول عنہا میں جس مقام سے ہوا خارج ہوئی اس مقام کا دھونا نہ فرض ہے، نہ واجب اور نہ ہی سنت؛ اس لیے اس سے نہ تو مقام ناپاک ہوتا ہے اور نہ ہی کپڑا؛ بلکہ وضو کرنا کافی ہے۔(۱)
(۱) (فلا یسن من ریح) ولأن بخروج الریح لا یکون علی السبیل شيء فلا یسن منہ؛ بل ھو بدعۃ کما في المجتبیٰ: (ابن عابدین، رد المختار، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، فصل في الاستنجاء، ج۱، ص:۵۴۵)
إن الاستنجاء لا یسن إلا من حدث خارج من أحد السبیلین غیر الریح، لأن بخروج الریح لایکون علی السبیل شيء، فلا یسن منہ بل ھو بدعۃ؛ کما في المجتبیٰ۔ (۱بن نجیم، البحرالرائق، کتاب الطہارۃ،باب الأنجاس، ج۱، ص:۴۱۶)
الاستنجاء من کل حدث أي خارج من أحد السبیلین غیر النوم والریح ۔ (عبد اللّٰہ ابن مسعود، شرح وقایہ، کتاب الطہارۃ، فصل الاستنجاء من کل حدث، ج۱، ص:۲۵-۱۲۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص423
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق: اگر ایسے کیڑے دو چار (یعنی کم) ہوں، تو نجاست قلیلہ ہے؛ اس لیے بالٹی کا پانی وکپڑے وغیرہ ناپاک نہیں ہوں گے اور اگر اس سے زیادہ ہوں، تو ناپاک ہو جائیں گے(۱) اسی طرح اگر زمین پر اتنے کیڑے ہوں کہ گندگی نظر آنے لگے اور پیروں پر لگ جائے، تو پیر ناپاک ہوں گے، ورنہ نہیں(۲) اگر خشک زمین پر خشک کیڑے گزر جائیں، تو زمین پاک ہے(۳) اور اگر کیڑے تر ہوں اور زمین پر ان کا اثر آجائے، تو اس وقت زمین ناپاک ہوجائے گی زمین کے خشک ہونے اور نجاست کے زائل ہونے کے بعد زمین پاک ہو جائے گی؛ بشرطیکہ نجاست زائد نہ ہو۔ گھر کی نالیوں میں پانی ڈال کر ان کو صاف رکھنا چاہیے اس قدر گندگی کہ کیڑے پیدا ہو جائیں، نظافت ونفاست کے خلاف بھی ہے اور مضر بھی۔(۱)
(۱)و قدر الدرھم قولہ معہ أي مع قدر الدرھم ومادونہ، و إن زاد لم تجز یعنی: و إن زاد النجس المغلظ علی قدر الدرھم لم تجز صلاتہ۔ (العینی، البنایۃ شرح الھدایۃ، کتاب الطہارات، فصل في النفاس، باب الأنجاس و تطہیرھا ما یعنی عنہ من النجاسات، ج۱، ص:۷۲۴)؛ و نام أو مشیٰ علی نجاسۃ إن ظھر عینھا تنجس و إلا لا، ولو وقعت في نھر فأصاب ثوبہ إن ظھرھا أثرھا فنجس و إلا لا۔ (ابن عابدین، الدرالمختار مع رد المحتار، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب في الفرق بین الاستبراء والاستنقاء والاستنجاء، ج۱،ص:۵۶۰)؛ والفرق أن الدودۃ الخارجۃ من السبیل نجسۃ في نفسھا لتولدھا من الأنجاس لأنھا (الدودۃ) تتولد من اللحم واللحم طاھر، و إنما النجس ما علیھا من الرطوبات، و تلک الرطوبات خرجت بالدابۃ… لا بنفسھا فلم یوجد خروج الجنس فلا یکون حدثا (الکاسانی، بدائع الصنائع،فصل بیان ما ینقض الوضو، ج۱، ص:۱۲۵)؛و إن أصابت الأرض النجاسۃ فجفت بالشمس و ذھب أثرھا ش: قید الجفاف بالشمس وقع اتفاقاً لأن الغالب جفاف الأرض بالشمس ولیس باحتراز علی الجفاف بأمر آخر: لأن الأرض إذا جفت بالنار أو بالریح جازت الصلوٰۃ علی مکانھا۔ (العینی، البنایۃ شرح الھدایۃ، کتاب الطھارۃ، باب الأنجاس و تطھیرھا، ج۱، ص:۷۱۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص471
طہارت / وضو و غسل
الجواب و باللّٰہ التوفیق : مذکورہ چیزوں سے وضو نہیں ٹوٹتا؛ چوںکہ یہ چیزیں بدبودار اور مکروہ ہیں اور احادیث سے ثابت ہے کہ بدبودار چیزوں کے استعمال کے بعد اللہ کا ذکر نہیں کرنا چاہیے جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور پاک علیہ السلام نے غزوہ خیبر میں فرمایا، جو اس درخت، یعنی :لہسن سے کھائے، وہ مسجد میں نہ آئے اور نہ ہمارے ساتھ نماز پڑھے۔(۳)
(۳) عن ابن عمر رضی اللہ عنہما أن رسول اللّٰہ ﷺ قال في غزوۃ خیبر: من أکل من ھذہ الشجرۃ: یعني الثوم، فلا یأتین المساجد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ، باب نھي من أکل ثوما،‘‘ ج۱،ص:۲۰۹)؛ و عن عبدالعزیز وھو ابن صہیب، قال سئل أنس رضي اللہ عنہ عن الثوم، فقال: قال رسول اللہ ﷺ: من أکل من ھذہ الشجرۃ فلا یقربنا ولا یصلي معنا۔ (ایضاً):
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص240
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: یہ فعل اس کا بہت برا ہے اور مجالس شیعہ میں شرکت کرنا فاسقوں کا شیوہ ہے ایسے شخص کو امام نہ بنایا جائے، دوسرا متقی دیندار امام مسجد کے لیے مقرر کیا جائے۔(۱)
(۱) ولذا کرہ إمامۃ الفاسق لعدم اہتمامہ بالدین فتجب إہانتہ شرعاً فلا یعظم بتقدیمہ لإمامۃ وإذا تعذر منعہ ینقل عنہ إلی غیر مسجدہ للجمعۃ وغیرہا۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ج ۳، ص: ۳۰۲، شیخ الہند دیوبند)…قال المرغیناني: تجوز الصلاۃ خلف صاحب ہوی وبدعۃ ولا تجوز خلف الرافضي والجہمي والقدري والمشبہۃ ومن یقول بخلق القرآن، وحاصلہ إن کان ہوی لا یکفر بہ صاحبہ تجوز الصلاۃ خلفہ مع الکراہۃ وإلا فلا، ہکذا في التبیین۔ (جماعۃ من علماء الہند،الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس، في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۱، زکریا دیوبند)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص314
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر امام دروں میں اس طرح کھڑا ہوکہ قدم بھی اندر ہوں تو محراب کی طرح اس میں بھی کراہت ہوگی اور اگر قدم ستونوں سے باہر ہوں تو پھر کراہت نہیں ہوگی یعنی ان کا حکم بھی محراب جیسا ہے کہ قدم (ایڈیاں) کم از کم باہر ہونی چاہئے۔(۱)
(۱) ویکرہ قیام الإمام وحدہ في الطاق وہو المحراب ولایکرہ سجودہ فیہ إذا کان قائماً خارجاً المحراب وإذا ضاق المسجد بمن خلف الإمام فلا بأس بأن یقوم في الطاق۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ: الباب السابع فیما یفسد الصلوۃ ومایکرہ فیہا، الفصل الثاني فیما یکرہ في الصلوۃ وما لایکرہ‘‘: ج۱، ص: ۱۶۷، زکریا دیوبند)
وکرہ … قیام الإمام في المحراب لاسجودہ فیہ وقدما خارجۃ لأن العبرۃ للقدم مطلقاً، وقال الشامي، الأصح ماروي عن أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالیٰ أنہ قال: أکرہ للإمام أن یقوم بین الساریتین أو في زاویۃ أو ناحیۃ المسجد أو إلی ساریۃ لأنہ بخلاف عمل الأمۃ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ: باب مایفسد الصلوۃ ومایکرہ، مطلب إذا تردد الحکم بین سنۃ وبدعۃ‘‘: ج۲، ص: ۴۱۴، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص428
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: واضح رہے کہ گرمی یا سردی وغیرہ سے بچنے کے لیے قالین اور چٹائی، ایسے ہی ہلکے گدے کا استعمال مساجد میں آج کل عام ہو گیا ہے؛ اس لیے ان پر پڑھی گئی نمازیں درست ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے چٹائی پر نمازادا کرنا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اپنے دامن پر سجدہ کرنا صحیح بخاری میں مذکور ہے۔ امام بخاری نے ایک روایت نقل کی ہے کہ ام المؤمنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کی چٹائی پر نماز پڑھتے تھے۔ ’’عن میمونۃ ؓ قالت: کان النبيُّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یُصَلِّي علی الخُمْرَۃ‘‘(۱)
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے تو ہم میں سے ہر آدمی گرمی سے بچنے کے لیے اپنے کپڑے کے دامن پر سجدہ کیا کرتا تھا۔
’’کنا نُصلي مع النبيِّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فیضعُ أحدُنا طَرَفَ الثوبِ، من شدۃِ الحرِّ، في مکان السجودِ‘‘(۲)
الحاصل: ایسی چٹائی، قالین یا گدا جن پر سجدہ کرنے سے پیشانی کو زمین پر استقرار ہو (زمین پر پیشانی ٹک جائے) اس پر سجدہ کرنے سے نماز ادا ہو جائے گی۔
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب الصلاۃ علی الخمرۃ‘‘:…ج ۱، ص: ۵۵، رقم: ۳۸۱۔
(۲) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب السجود علی الثوب فی شدۃ الحر‘‘: ج ۱، ص: ۵۶، رقم: ۳۸۵۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص341