Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ وسیلہ جائز اور درست ہے، اگرچہ اس میں علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اختلاف کیا ہے جن پر فقہ کا غلبہ ہوگیا تھا جس کی وجہ سے ابن قیم بہت سے مسائل میں اہل سنت والجماعۃ کہ خلاف چلے گئے ہیں؛ اس لئے ابن قیم اور ان کی نسبت کا اختلاف حجت نہیں ہوگا جمہور علماء جواز کے قائل ہیں پس جمہور کا قول معتبر ہوگا۔ جیسا کہ روح المعانی اور فتح الباری کی عبارت میں اس کی تصریح موجود ہے۔
’’ففیہ جعل الدعاء وسیلۃ وہو جائز بل مندوب۔ ویحسن التوسل والاستغاثہ بالنبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم إلی ربہ ولم یکن أحد من السلف والخلف حتی جاء ابن تیمیہ فانکر ذلک وعدل الصراط المستقیم وابتدع مالم یقلہ وصار بین الأنام مثلہ انتہی۔ في صحیح البخاري عن أنس -رضي اللّٰہ عنہ- أن عمر بن الخطاب -رضي اللّٰہ عنہ- کان إذا قحطوا استسقٰی باالعباس فقال اللہم إنا کنا نتوسل إلیک بنبینا صلی اللّٰہ علیہ وسلم فتسقینا وأنا نتوسل إلیک بعم نبینا فأسقنا الخ، أما الأول: فلقول عمر -رضي اللّٰہ عنہ- فیہ کنا نتوسل بنبیک، وأما الثاني: فلقولہ أنا نتوسل بعم بنبیک لما قیل: أن ہذ التوسل لیس من باب الأقسام بل ہو من جنس الاستشفاع وہو أن یطلب من الشخص الدعاء والشفاعۃ ویطلب من اللّٰہ تعالیٰ أن یقبل دعائہ وشفاعتہ ویؤید ذلک أن العباس -رضي اللّٰہ عنہ- کان یدعوا وہم یومنون لدعائہ حتی سقوا الخ‘‘۔
پس جمہور کے قول پر عمل کرتے ہوئے جواز توسل ہی راجح ہے۔(۱)
(۱) علامہ محمود آلوسي، روح المعاني: ج ۶، ص: ۱۲۶-۱۲۷۔
عن أنس بن مالک أن عمر بن الخطاب رضي اللّٰہ عنہ: کان إذا قحطوا استسقیٰ بالعباس بن عبد المطلب، فقال: اللّٰہم إنا کنا نتوسل إلیک بنبینا فتسقینا وأنا نتوسل إلیک بعم نبینا فأسقنا، قال: فیسقون۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الاستسقاء: باب سؤال الناس الإمام الاستسقاء إذا قحطوا‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷، رقم: ۱۰۱۰)
ومن أٓداب الدعاء تقدیم الثناء علی اللّٰہ والتوسل بنبي اللّٰہ، یستجاب الدعاء۔ (الشاہ ولي اللّٰہ الدہلوي، حجۃ اللّٰہ البالغۃ، ’’الأمور التي لا بد منہا في الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴)
إن التوسل بالنبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم جائز في کل حال قبل خلقہ وبعد خلقہ في مدۃ حیاتہ في الدنیا وبعد موتہ فی مدۃ البرزخ۔ (السبکي، شفاء السقام: ص: ۳۵۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص276
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس کے لئے سفر کرنے میں شرعی قباحت نہیں ہے۔(۱) البتہ بزرگان دین کے جن مزارات پر اہل بدعت کا تسلط ہے اور وہاں بدعات وخرافات انجام دی جاتی ہوں وہاں زیارت کے لئے نہ جانا چاہئے، بلکہ اپنے مقام پر رہ کر ہی ایصال ثواب پر اکتفا کرنا چاہئے۔(۲)
(۱) ذہب بعض العلماء إلی الاستدلال بہ علی المنع من الرحلۃ لزیارۃ المشاہد وقبور العلماء والصالحین، وما تبین في أن الأمر کذلک، بل الزیارۃ مأمور بہا لخبر: (کنت نہیتکم عن زیارۃ القبور ألا فزوروہا)۔ والحدیث إنما ورد نہیا عن الشد لغیر الثلاثۃ من المساجد لتماثلہا، بل لا بلد إلا وفیہا مسجد، فلا معنی للرحلۃ إلی مسجد آخر، وأما المشاہد فلا تساوي بل برکۃ زیارتہا علی قدر درجاتہم عند اللّٰہ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب المساجد ومواضع الصلوٰۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۸۹، رقم: ۶۹۳)
عن أبی ہریرۃ، قال: زار النبي صلی النبي صلی اللّٰہ علیہ و سلم قبر أمہ فبکی وأبکی من حولہ فقال استأذنت ربي في أن أستغفر لہا فلم یؤذن لي واستأذنتہ في أن أزور قبرہا فأذن لي فزوروا القبور فإنہا تذکر الموت۔ (أخرجہ المسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الجنائز: فصل جواز زیارۃ قبور المشرکین ومنہ الاستغفار لہم‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۴، رقم: ۹۷۶)
(۲) وأما أہل السنۃ والجماعۃ فیقولون في کل فعل وقول لم یثبت عن الصحابۃ رضي اللّٰہ عنہم ہو بدعۃ لأنہ لو کان خیراً لسبقونا إلیہ، لأنہم لم یترکوا خصلۃ من خصال الخیر إلا وقد بادروا إلیہا۔ (ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’سورۃ الأحقاف: ۱۰-۱۴‘‘: ج ۷، ص: ۲۵۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص385
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:محرم الحرام کے چاند میں نئی دلہن کو چھپانا بالکل غلط عقیدہ ہے، ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔(۱)
(۱) عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تشبہ بقومٍ فہو منہم۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب اللباس: باب في لبس الشہرۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۹، رقم: ۴۰۳۱)
قولہ ومبتغ في الإسلام سنۃ الجاہلیۃ أي یکون لہ الحق عند شخص فیطلبہ من غیرہ ممن لا یکون لہ فیہ مشارکۃ کوالدہ أو ولدہ أو قریبہ وقیل المراد من یرید بقاء سیرۃ الجاہلیۃ أو إشاعتہا أو تنفیذہا۔ (ابن حجر، فتح الباري، ’’قولہ باب العفو في الخطأ بعد الموت‘‘: ج ۱۲، ص: ۲۲۱، رقم: ۶۸۸۲)
{قَالُوا اطَّیَّرْنَا بِکَ وَبِمَنْ مَّعَکَط قَالَ ٰٓطئِرُکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ بَلْ أَنْتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُوْنَہ۴۷} (سورۃ النمل: ۴۷)
{فَإِذَا جَآئَ تْھُمُ الْحَسَنَۃُ قَالُوْا لَنَا ھٰذِہٖ ج وَإِنْ تُصِبْھُمْ سَیِّئَۃٌ یَّطَّیَّرُوْا بِمُوْسٰی وَمَنْ مَّعَہٗط أَ لَآ إِنَّمَا ٰطٓئِرُھُمْ عِنْدَ اللّٰہِ وَلٰکِنَّ أَکْثَرَھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَہ۱۳۱} (سورۃ الأعراف: ۱۳۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص475
فقہ
Ref. No. 2441/45-3714
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عورت کے گزرنے سے اگر ہاتھ پاؤں مرد کے جسم سے چھوجائے توایسی صورت میں مرد کی نماز میں کوئی خرابی نہیں آئے گی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2497/3804
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (1) سفر وحضر ہر حالت میں فرض نمازوں کوان کے مقررہ اوقات میں پڑھنا ضروری ہے، ان میں کسی قسم کی تقدیم و تاخیر جائز نہیں ہے۔البتہ ایامِ حج میں نو ذی الحج کو عرفہ میں (ظہر کے وقت میں) ظہر اور عصر کی نماز ایک ساتھ پڑھنا اور غروب آفتاب کے بعد مزدلفہ میں پہنچ کر مغرب اورعشاء کی نماز (عشاء کے وقت میں) جمع کرکے پڑھنا حضور ﷺ اور صحابہ کرام سے ثابت ہے، اس کے علاوہ کسی بھی موقع پرجمع بین الصلوتین ثابت نہیں ہے، اور اگر کسی نے ایک وقت میں دو نمازیں پڑھیں تو نماز بھی درست نہ ہوگی۔ حدیث میں ہے: من جمع بین الصلوتین من غیرعذر فقد اتی بابا من ابواب الکبائر (سنن الترمذی ، باب ما جاء فی الجمع بین الصلوتین فی الحضر 188) ۔ اور جن حدیثوں میں جمع بین الصلاتین کا ذکر ہے ان سے جمع صوری مراد ہے یعنی اگر سفر میں دونمازوں کو صورتا جمع کیاجائے کہ ایک نماز کو اس کے آخری وقت میں ، اوراگلی نماز کو اس کے ابتدائی وقت میں ادا کیا جائے تو اس کی اجازت ہے۔ البتہ ایسا کرسکتے ہیں کہ ٹرین یا ہوائی جہاز کے سفر میں بیٹھے بیٹھے نماز اداکریں، اور پھر منزل پر پہونچنے کے بعدان کی قضا کرلیں ، اور جو نمازیں آپ نے وقت سے پہلے اداکرلی ہیں ان کی بھی قضا کرلیں۔
(2) حالت احرام میں کسی بھی ایسی چیز کو ہاتھ نہیں لگانا چاہیے، جس پر خوشبو لگی ہوئی ہو؛ اس لیے ملتزم پر اگر خوشبو لگائی گئی ہو تو احتیاط کرنا چاہئے؛ ورنہ حسب شرائط جزا واجب ہوجائے گی۔ زیادہ خوشبو لگنے کی صورت میں دم لازم آئے گا اور معمولی خوشبو لگنے کی صورت میں دم تو لازم نہیں آئے گا، البتہ صدقہ فطر (یعنی پونے دو کلو گندم یا اس کی قیمت) کے برابر صدقہ کرنا واجب ہوگا۔
قال اللہ تعالٰی :إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا (النساء:103)
عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: «مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى صَلَاةً قَطُّ إِلَّا لِوَقْتِهَا، إِلَّا أَنَّهُ جَمَعَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ بِعَرَفَةَ، وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بِجَمْعٍ».(مصنف عبد الرزاق،باب من نسي صلاة الحضر والجمع بين ۔۔۔ج2ص551)
قال: "ولا يجمع بين صلاتين في وقت إحداهما في حضر ولا في سفر" ما خلا عرفة ومزدلفة۔(المسوط للسرخسي ،كتاب الصلاة،ج1ص272)
والتطیب وان لم یقصدہ (الدر المحتار مع رد المحتار، کتاب الحج، ۳: ۴۹۶، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔
' فإذا استعمل الطيب فإن كان كثيراً فاحشاً ففيه الدم، وإن كان قليلاً ففيه الصدقة ۔ كذا في المحيط. واختلف المشايخ في الحد الفاصل بين القليل والكثير، فبعض مشايخنا اعتبروا الكثرة بالعضو الكبير نحو الفخذ والساق، وبعضهم اعتبروا الكثرة بربع العضو الكبير، والشيخ الإمام أبو جعفر اعتبر القلة والكثرة في نفس الطيب إن كان الطيب في نفسه بحيث يستكثره الناس ككفين من ماء الورد، وكف من الغالية والمسك، بقدر ما استكثره الناس فهو كثير، وما لا فلا۔ (الفتاوى الهندية (1/ 240)
' وقال في المحرم: إذا مس الطيب أو استلم الحجر فأصاب يده خلوق، إن كان ما أصابه كثير فعليه الدم، فبعض مشايخنا اعتبروا الكثرة بالعضو الكبير نحو الفخذ والساق، فقالوا: إذا طيب الساق أو الفخذ بكماله يلزمه الدم، وبعضهم اعتبروا الكثرة بربع العضو الكثير (المحيط البرهاني في الفقه النعماني (2/ 453)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:احادیث کی معتبر کتابوں میں اس کا ذکر ہمیں نہیں ملا، علامہ حلبی نے اس کے بطلان کی صراحت کی ہے۔(۱)
(۱) وأما ما ذکر في المضمرات أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لفاطمۃ رضي اللّٰہ عنہا: ما من مؤمن ولا مؤمنۃ یسجد سجدتین إلی آخر ما ذکر، فحدیث موضوع باطل لا أصل لہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود التلاوۃ، مطلب في سجدۃ الشکر‘‘: ج ۲، ص: ۵۹۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص114
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:اگر کتے نے گھی میں منہ ڈال دیا، تو اس کے پاک ہونے کی صورت یہ ہے کہ جہاں تک کتے کا لعاب پہونچنے کا غالب گمان ہو، تو وہاں تک اس گھی کو نکال دیں؛ اس طرح باقی ماندہ گھی پاک ہو جائے گا۔
اور اگر گھی پگھلا ہواتھا، تو اس گھی کے برابر اس میں پانی ڈال دیا جائے اور پانی ملا کر خوب حرکت دی جائے کہ پانی گھی میں خوب مل جائے، پھر اس کو چھوڑ دیا جائے؛ جب گھی اوپر اور پانی نیچے ہو جائے؛ تو اوپر سے گھی اتار لیا جائے اس طرح تین بار کرنے سے گھی پاک ہو جائے گا۔
بلی کا جھوٹا مکروہ تنزیہی ہے، اگر مجبوری ہو تو استعمال کیا جا سکتا ہے اور اگر اس بات کا یقین ہے کہ بلی نے چوہا کھایا ہے یا اس کے منھ میں نجاست لگی ہے ، پھر منھ ڈالا ہے، تواسے بھی مذکورہ طریقہ پر ہی پاک کیا جائے گا۔(۱)
(۱)الدھن النجس یغسل ثلاثا، بأن یلقی في الخابیۃ ثم یصب فیہ مثلہ ماء، و یحرک ثم یترک حتی یعلو الدھن، فیؤخذ أو یثقب أسفل الخابیۃ حتی یخرج الماء، ھکذا ثلاثا فیطھر کذا في الزاھدی (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الطہارۃ، الباب السابع فيالنجاسۃ و أحکامہا، الفصل الأول في تطہیر الأنجاس، ج۱، ص:۹۷)؛ والدھن یصب علیہ الماء فیغلی فیعلو الدھن الماء فیرفع بشيء ھکذا ثلاث مرات (ابن عابدین، ردالمحتار، کتاب الطھارۃ، باب الأنجاس، مطلب في تطھیر الدھن والعسل، ج۱،ص۵۴۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص428
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:کان سے جو گندہ پانی یعنی پیپ نکلتا ہے اور درد بھی رہتا ہے وہ ناقض وضو ہے، درد ہونا اس بات کی علامت ہے کہ اندر زخم ہے اور یہ پانی زخم کا ہے، اگروضو کے بعد ان کو اتنا وقت ملتا ہے کہ با وضو نماز شروع کر یں اور بغیر پانی نکلے نماز ادا کرلیں، تو نماز درست ہو جائے گی اور اگر اتنا بھی وقت نہیں ملتا کہ وہ وضو کے بعد فرض نماز ادا کر سکے تو پھر اسے معذور قرار دیا جائے گا اور اس کا حکم معذور والا ہوگا کہ فتاویٰ شامی وغیرہ میں اس کی تفصیل موجود ہے۔
’’وإذا خرج من أذنہ قیح أو صدید ینظر إن خرج بدون الوجع لا ینتقض وضوئہ وإن خرج مع الوجع ینتقض وضوئہ لأنہ إذا خرج مع الوجع فالظاہر أنہ خرج من الجرح‘‘(۱)
’’ولا طاہر بمعذور ہذا إن قارن الوضوء الحدث أو طرأ علیہ بعدہ وصح لو توضأ علی الانقطاع وصلی کذلک‘‘(۲)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الفصل الخامس: في نواقض الوضوء، ومنہا ما یخرج من غیر السبیلین‘‘: ج ۱، ص: ۶۱۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب: الواجب کفایۃ ہل یسقط بفعل الصبي وحدہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۲۳۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص243
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: عموماً جس شخص کو امام مقرر کیا جائے امامت مسجد کے متعلق امور اس کے ذمہ ہوتے ہیں، اس لیے تراویح میں قرآن سنانے کا مستحق بھی وہی ہے الا یہ کہ امام خود ہی اجازت دیدے یا جس وقت امام کو مقرر کیا جائے تبھی وضاحت ہو جائے کہ آپ صرف فرض نمازوں کی امامت کریں گے تراویح کے لیے متولی یا ذمہ دار حضرات جس کو مناسب سمجھیں گے مقرر کریں گے، تو پھر اختیار ہوگا کہ متولی جس کو چاہئے تراویح کے لیے مقرر کردے یا اہل محلہ مقرر کریں پس مسئولہ صورت میں زید کا یہ کہنا کہ میرا قدیمی حق ہے کوئی دلیل جواز نہیں ہے۔(۱)
(۱) دخل المسجد من ہو أولی بالإمامۃ في أہل محلۃ فإمام المحلۃ أولی۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ، الباب الخامس: في الإمامۃ، الفصل الثاني في بیان من ہو أحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص:۱۴۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص98
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: بہتر صورت تو یہ ہے کہ بالغ حضرات جماعت کے وقت سے پہلے مسجد میں پہونچ جائیں اور اگر بالغ حضرات کو تاخیر ہوجائے اور جماعت کھڑی ہوجائے اور نابالغ بچے آگے صف میں کھڑے ہوگئے ہوں تو بعد میں آنے والے بچوں کو پیچھے کی صف میں کردیں اور خود آگے والی صف میں کھڑے ہوجائیں۔(۲)
(۲) قولہ ویصف الرجال ثم الصبیان ثم النساء لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: لیلیني منکم أولو الأحلام والنہي … ویقتضی أیضا أن الصبي الواحد لا یکون منفردا عن صف الرجال بل یدخل في صفہم وأن محل ہذا الترتیب إنما ہو عند حضور جمع من الرجال وجمع من الصبیان فحینئذ تؤخر الصبیان۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۳۷۴)
قال الرحمتي ربما یتعین في زماننا إدخال الصبیان في صفوف الرجال لأن المعہود منہم إذا اجتمع صبیان فأکثر تبطل صلاۃ بعضہم ببعض وربما تعدی ضررہم إلی إفساد صلاۃ الرجال۔ (تقریرات الرافعي: ج۱، ص: ۷۳)
ثم الترتیب بین الرجال والصبیان سنۃ، لا فرض۔ ہو الصحیح، (غنیۃ المستملي: ص: ۴۸۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص431