Frequently Asked Questions
عائلی مسائل
Ref. No. 1610/43-1177
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوتیلی ماں حکما ماں کے درجہ میں ہوتی ہے،سوتیلی ماں سے نکاح کرنا بنص قرآنی حرام ہے، اور اس سے زنا انتہائی قبیح عمل ہے، اور چونکہ زنا سے حرمت مصاہرت ثابت ہوتی ہے اس لئے بشرط صحت سوال صورتِ مسئولہ میں دوسری بیوی زانی کے والد (اپنےشوہر) پر حرام ہوگئی؛ اب اس سے دوبارہ کبھی بھی نکاح نہیں ہوسکتاہے۔البتہ اس سے پہلی بیوی کے نکاح پر اثر نہیں پڑے گا وہ بدستور اپنے شوہر کے نکاح میں رہے گی۔
{وَلَا تَنْكِحُوْا مَا نَكَحَ اٰبَاۗؤُكُمْ مِّنَ النِّسَاۗءِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ ۭاِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً وَّمَقْتًا وَسَاۗءَ سَبِيْلًا}[النساء:22{ "قوله: (وامرأة أبيه وابنه وإن بعدا) أما حليلة الأب فبقوله تعالى: { ولا تنكحوا ما نكح آباؤكم من النساء } النساء 22 فتحرم بمجرد العقد عليها والآية المذكورة استدل بها المشايخ كصاحب النهاية وغيره على ثبوت حرمة المصاهرة بالزنا بناء على إرادة الوطء بالنكاح فإن أريد به حرمة امرأة الأب والجد ما يطابقها من إرادة الوطء قصر عن إفادة تمام الحكم المطلوب حيث قال: و لا بامرأة أبيه(البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (3 / 100)
قوله: وحرم أيضًا بالصهرية أصل مزنيته) قال في البحر: أراد بحرمة المصاهرة الحرمات الأربع حرمة المرأة على أصول الزاني وفروعه نسبًا ورضاعًا وحرمة أصولها وفروعها على الزاني نسبًا و رضاعًا كما في الوطء الحلال ويحل لأصول الزاني وفروعه أصول المزني بها وفروعها". (شامی، رد المحتار3/32)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اسلام اور کفر دونوں الگ الگ چیزیں ہیں اور ایک دوسرے کی ضد ہیں، مذکورہ الفاظ کفریہ ہیں اور ایسا اعتقاد رکھنے والا کافر اور مرتد ہے۔ (۱) اس شخص کی کفریہ باتوں کو نہ سنا جائے اور نہ ان کو قبول کیا جائے اگر وہ اپنی جہالت کی وجہ سے ایسی غلطی کرتا ہے، تو حقیقت اس کے سامنے آشکارا کی جائے اس پر تجدید ایمان اور توبہ لازم ہے۔(۱)
(۱) ومن أعتقد أن الإیمان والکفر واحدٌ فہو کافر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، و منہا: ما یتعلق بالإیمان‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۰)
(۱) أن ما یکون کفراً اتفاقاً یبطل العمل والنکاح، وما فیہ خلاف یؤمر بالاستغفار والتوبۃ وتجدید النکاح۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: الإسلام یکون بالفعل کالصلاۃ بجماعۃ‘‘: ج ۶، ص: ۳۶۷)
اسلامی عقائد
Ref. No. 1985/44-1932
بسم اللہ الرحمن الرحیم: وساوس کیا تھے اور جواب میں آپ نے کیا کلمات کہے؟ ان باتوں کو بیان کرنے کے بعد ہی حکم بتایاجاسکتاہے۔البتہ 'لعنت ہو' کہنے سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 2064/44-2061
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مولوی صاحب کے سامنے والد صاحب کا پوچھنا بھی اجازت کے لئے کافی ہے، اس لئے یہ نکاح درست ہوگیا اور ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لڑکی نے اس متعین لڑکے سے نکاح کے لئے اپنی رضامندی کا اظہار کردیا ہے اور مولوی صاحب نے سن لیا ، یہ نکاح کے انعقاد کے لئےکافی ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 2284/44-339
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
The salah was valid when you offered. Hence, you are not required to repeat that salah.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
نکاح و شادی
Ref. No. 2494/45-3854
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (1) شرعی احکام سے لاعلمی کوئی قابل قبول عذر نہیں ہے۔ مطلقہ عورت کا عدت کے دوران کسی دوسرے مرد سے نکاح حرام ہے، اس لئے عدت میں کیا ہوا مذکورہ نکاح منعقد نہیں ہوا۔ (2) عورت نے اپنے ہونے والے شوہر کو اس کی خبر نہیں دی، اور شوہرنے لاعلمی میں اس عورت سے عدت کے دوران نکاح کرکے اس کے ساتھ صحبت بھی کرلی، جبکہ نکاح منعقد نہ ہونے کی وجہ سے اس سے صحبت حرام تھی، اس لئے دونوں میں فوری جدائیگی لازم ہے۔ (3) اب یہ عورت یا مرد دونوں میں سے کوئی بھی فسخ کے الفاظ کہہ دے کہ میں یہ نکاح ختم کرتاہوں یا لڑکاکہہ دے کہ میں تجھے چھوڑتا ہوں وغیرہ تو یہ عقد ختم ہو جائے گا۔ پھرعورت کے ساتھ چونکہ وطی بالشبہہ ہوچکی ہے اس وجہ سے عدت کے تین حیض گزارے گی اور پھر ان دونوں کا از سر نو نکاح ہوسکے گا۔ (4) فون پر اس طرح نکاح منعقد نہیں ہوتاہے، بلکہ لڑکایالڑکی اگر کسی کو اپنے نکاح کا وکیل بنادیں اور پھر دوگواہوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول ایک ہی مجلس میں کرایاجائے تو پھر نکاح درست ہو گا۔
وَلَا تَعْزِمُوْا عُقْدَةَ النِّكَاحِ حَتّٰى يَبْلُغَ الْكِتَابُ اَجَلَهٗ۔ (القرآن الکریم: البقرۃ :۲۳۵)
لا يجوز للأجنبي خطبة المعتدة صريحا سواء كانت مطلقة أو متوفى عنها زوجها كذا في البدائع۔ (وفی الھندیۃ (۵۳۴/۱)
أما نكاح منكوحة الغير ومعتدته فالدخول فيه لا يوجب العدة إن علم أنها للغير لأنه لم يقل أحد بجوازه فلم ينعقد أصلا قال فعلى هذا يفرق بين فاسده وباطله في العدة ولهذا يجب الحد مع العلم بالحرمة لأنه زنى كما في القنية وغيرها اھ۔ (الشامیۃ (۱۳۲/۳)
الباب الثالث عشر فی العدۃ: لو تزوجت في عدة الوفاة فدخل بها الثاني ففرق بينهما فعليها بقية عدتها من الأول تمام أربعة أشهر وعشر وعليها ثلاث حيض من الآخر ويحتسب بما حاضت بعد التفريق من عدة الوفاة كذا في معراج الدراية۔ (الھند یۃ: ۵۳۳/۱):
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:چند خصوصیات ذکر کی گئی ہیں:
(۱) بوقت پیدائش آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم اطہر نجاست وگندگی سے بالکل پاک صاف تھا۔
(۲) جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سجدہ کی حالت میں انگشت شہادت کا آسمان کی جانب اٹھائے ہوئے ہونا۔
(۳) ولادت کے وقت آپ کی والدہ محترمہ کا ایسے نور کو دیکھنا جس کی روشنی سے کسریٰ کے محلات نظر آگئے۔(۱)
(۴) گہوارے میں فرشتوں کا جھونکا دینا۔(۲)
(۵) گہوارے میں کلام کرنا(۳) جب کہ یہ دوسرے انبیاء کی بھی خصوصیت ہے، حضرت تھانوی قدس سرہ نے بیالیس خصوصیات تحریر فرمائی ہیں، تفصیل کے لئے دیکھئے۔ ’’نشرالطیب: ص: ۱۸۴‘‘۔
(۱) إن آمنۃ بنت وہب قالت: لما فصل مني تعني النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم خرج معہ نور أضاء لہ ما بین المشرق والمغرب، ثم وقع إلی الأرض معتمداً علی یدیہ، ثم أخذ قبضۃ من التراب فقبضہا ورفع رأسہ إلی السماء۔ (القسطلاني: ج ۱، ص: ۱۲۷؛ فرحۃ اللبیب: ص: ۱۰۹)
ورأیت حین حملت بہ أنہ خرج منہا نور رأت بہ قصور بصری من أرض الشام۔ (سیرۃ نبویہ لابن ہشام: ص: ۱۴۶؛ فرحۃ اللبیب: ص: ۱۱۲)
(۲) وذکر ابن سبع في الخصائص أن مہدہ کان یتحرک بتحریک الملائکۃ وإن کلاماً تعلم بہ أن قال: اللّٰہ أکبر کبیراً والحمد للّٰہ کثیرا۔ (السیوطي، خصائص الحبیب؛ وفرحۃ اللبیب: ص: ۱۲۳)
(۳) أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم تکلم أوائل ما ولد۔ فتح الباري لابن حجر۔ (فرحۃ اللبیب: ص: ۱۱۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص197
قرآن کریم اور تفسیر
Ref. No. 2297/45-4127
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ پہلا واقعہ کہ جب فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنا چاہا تو فرعون کی بیوی نے کہا کہ یہ بچہ ہے اور امتحان کے لئے آگ کا انگارا اور کھجور کا طشت دیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے انگارے کو لیا اس واقعہ کو ابن کثیر اور رازی نے تفسیر کبیر میں ذکر کیا ہے، لیکن کوئی سند ذکر نہیں کی ہے، بعض حضرات نے اسے اسرائیلی روایت قرار دیا ہے جس کی ہم نہ تصدیق کرتے ہیں اور نہ ہی تکذیب کرتے ہیں، دوسرا واقعہ اجمالی طور پر قرآن میں اور تفصیلی طور پر احادیث میں مذکور ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق : مذکورہ افعال اس حالت میں مکروہ تنزیہی ہیں (۱) فتاویٰ عالمگیری میں ہے ’’حلق الشعر حالۃ الجنابۃ مکروہ وکذا قص الأظافیر‘‘
(۱)جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الکراہیۃ، الباب التاسع عشر: في الختان والخضاء، و قلم الأظفار، و قص الشارب الخ‘‘ ج۵،ص:۴۱۴
حضرت مفتی عزیز الرحمن دیوبندیؒ تحریر فرماتے ہیں: بال کترے اور مونڈنے اور ناخن کترنے کو بحالت جنابت بعض فقہاء نے مکروہ لکھا ہے۔ بظاہر مراد مکروہ سے مکروہ تنزیہی ہے۔ جن کا مآل خلاف اولیٰ ہے۔ ما أعلم علی کراھیۃ إزالۃ شعر الجنب و ظفرہ دلیلا شرعیاً (اشرف علی تھانوی، حاشیہ امداد الفتاویٰ، ج۱،ص:۲۵۵)؛ و یکرہ بالأسنان لأنہ یورث البرص والجنون و في حالۃ الجنابۃ و کذا إزالۃ الشعر۔(طحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ‘‘ ج۱،ص:۵۲۵، دارالکتاب دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص304
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: احناف کے یہاں جمع بین الصلاتین حقیقی حج کے موقع پر عرفہ اور مزدلفہ کے علاوہ جائز نہیں ہے؛ اس لیے اگر کسی نے ایسا کیا تو جو نماز وقت سے پہلے ہوئی ہے وہ فاسد ہوگی اور اس کی قضاء کرنی لازم ہوگی، صورت مسؤلہ میں چوں کہ آپ امام ہیں اور آپ کے ساتھ عذر ہے اور عذر کی صورت میں علامہ شامی نے جمع بین الصلاتین کی گنجائش دی ہے؛ اس لیے کہ اگر آپ کی نماز ہی درست نہ ہو، تو پھر سب کی نماز نہیں ہوگی اس لیے ایسی صورت میں بقول علامہ شامی جمع کی گنجائش ہے۔ آپ کی نماز ہوگئی ہے قضا کی ضرورت نہیں۔ حدیث شریف میں ہے:
’’ما رأیت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم صلی صلاۃ بغیر (لغیر) میقاتہا إلا صلاتین جمع بین المغرب والعشاء وصلی الفجر قبل میقاتہا‘‘(۲)
ترمذی کی حدیث ہے: ’’من جمع بین الصلاتین من غیر عذر فقد أتی بابا من أبواب الکبائر‘‘(۱)
فتاوی شامی میں ہے: (ولا جمع بین فرضین في وقت بعذر) سفر ومطر۔۔۔۔۔ وما رواہ محمول علی الجمع فعلاً لا وقتاً (فإن جمع فسد لو قدم) الفرض علی وقتہ (وحرم لو عکس) أي أخرہ عنہ (وإن صح) بطریق القضاء (إلا لحاج بعرفۃ ومزدلفۃ)۔ ولا بأس بالتقلید عند الضرورۃ لکن بشرط أن یلتزم جمیع ما یوجبہ ذلک الإمام لما قدمنا أن الحکم الملفق باطل بالإجماع۔ وفي رد المحتار: ظاہرہ أنہ عند عدمہا لا یجوز، وہو أحد قولین۔ والمختار جوازہ مطلقا ولو بعد الوقوع کما قدمناہ في الخطبۃ ط۔ وأیضاً عند الضرورۃ لا حاجۃ إلی التقلید کما قال بعضہم: مستندا لما في المضمرات: المسافر إذا خاف اللصوص أو قطاع الطریق ولا ینتظرہ الرفقۃ جاز لہ تأخیر الصلاۃ؛ لأنہ بعذر، ولو صلی بہذا العذر بالإیماء وہو یسیر جاز۔ لکن الظاہر أنہ أراد بالضرورۃ ما فیہ نوع مشقۃ۔ تأمل‘‘(۲)
(۲) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب من یصلي الفجر بجمع‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۶، رقم: ۱۶۸۲۔
(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ: باب ماجاء في الجمع بین الصلاتین‘‘: ج ۱، ص: ۴۸، رقم: ۱۸۸۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: یشترط العلم بدخول الوقت‘‘: ج۲، ص: ۴۵ تا ۴۷، زکریا، دیوبند۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 70