Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایک شخص صرف حافظ ہے اور دوسرا شخص عالم باعمل ہے پس اگر کوئی مقررہ امام مسجد موجود نہ ہو یا اس کا قائم مقام نہ ہو تو ایسی صورت میں عالم دین کو امامت کا مستحق قرار دیا جائے گا یہی افضل اور بہتر ہے جیسا کہ ہدایہ، شامی، البحرالرائق اور فقہ کی بہت سی کتابوں میں اس کی تصریح موجود ہے۔(۲)
(۲) الأولی بالإمامۃ أعلمہم بأحکام الصلاۃ ہکذا في المضمرات وہو الظاہر ہکذا في البحرالرائق۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ، الباب الخامس: في الإمامۃ، الفصل الثاني في بیان من ہو أحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۱)
الأحق بالإمامۃ تقدیماً بل نصبا۔ مجمع الأنہر۔ الأعلم بأحکام الصلاۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص102
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:خواتین کے لیے مخصوص ایام میں مستحب یہ ہے کہ نماز کے اوقات میں وضو کرکے مصلی پر بیٹھ کر تھوڑی دیر تسبیح وغیرہ پڑھ لیا کریں؛ تاکہ عبادت کا اہتمام برقرار رہے اور پاکی کے بعد نماز پڑھنے میں سستی نہ آئے۔ حیض کے ایام میں نماز اور قرآن پڑھنا منع ہے لیکن تسبیح پڑھنا منع نہیں ہے، ایسی عورت نماز تو نہیں پڑھے گی؛ لیکن تشبہ بالمصلین ہوجائے گا۔فتاویٰ تاتارخانیہ میں ہے کہ حائضہ عورت کے لیے مستحب ہے کہ نماز کے وقت وضو کرکے جتنی دیر نماز پڑھنے میں لگتی ہے، اتنی دیر مصلیٰ بچھا کر بیٹھ کر ذکر ودعا کرتی رہے، تاکہ عام اوقات میں جو وقت عبادت میں لگتا تھا وہ ضائع بھی نہ ہو اور عبادت کی عادت بھی باقی رہے۔
’’وقال: ویجوز للجنب والحائض الدعوات وجواب الأذان ونحو ذلک کذا في السراجیۃ‘‘(۱)
’’و یستحب للمرأۃ الحائض إذا دخل علیہا وقت الصلاۃ أن تتوضأ و تجلس عند مسجد بیتہا، و في السراجیۃ: مقدار ما یمکن أداء الصلاۃ لو کانت طاہرۃ و تسبح و تہلل کي لا تزول عنہا عادۃ العبادۃ‘‘(۲)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: …الباب السادس، في الدماء المختصۃ بالنساء، الفصل الرابع: في أحکام الحیض والنفاس والاستحاضۃ، ومنہا: حرمۃ قرأۃ القرآن‘‘: ج ۱، ص: ۹۳۔
(۲) عالم بن العلاء، الفتاویٰ التاتار خانیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: بیان حکم الحیض والاستحاضۃ والنفاس، نوع آخر في الأحکام التي بالحیض‘‘: ج ۱، ص: ۴۷۸۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص401
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: صفوں کی درستگی سنت مؤکدہ ہے، اور صفوں کی درستگی کا اہتمام نہ کرنے پر سخت وعیدیں وارد ہیں۔ اس لیے یہ مقتدیوں کی ذمہ داری ہے کہ صف سیدھی کریں
اور صفوں کے بیچ میں خالی جگہیں پُر کریں۔ اور امام کو بیچ میں رکھیں، اگر کسی صف میں دائیں جانب کم لوگ ہوں تو آنے والا دائیں جانب صف میں کھڑا ہو تاکہ امام درمیان میں ہو اور دونوں جانب صف برابر ہوجائے۔ امام کو چاہئے کہ نماز شروع کرنے سے پہلے مقتدیوں کی صف کا معائنہ کرکے ان کو درست کرائے؛ لیکن یہ امام کے ذمہ لازم نہیں ہے، اگر اس کا اہتمام کرے تو بہتر ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرامؓ مقتدیوں کی صفوں کو درست کرانے کا اہتمام کرتے تھے۔
’’قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لتسون صفوفکم أو لیخالفن اللّٰہ بین وجوہکم، وکان في زمن عمر رضي اللّٰہ تعالی عنہ رجل موکل علی التسویۃ، کان یمشی بین الصفوف ویسوِّیہم، وہو واجب عندنا تکرہ الصلاۃ بترکہ تحریمًا، وسنۃ عند الشافعیۃ لانتفاء مرتبۃ الواجب عندہم، وذہب إبن حزم إلی أنہ فرض‘‘(۱)
’’عن أنس عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: سووا صفوفکم فإن تسویۃ الصفوف من إقامۃ الصلاۃ‘‘(۲)
’’قال علیہ السلام: لتسون صفوفکم، أو لیخالفن اللّٰہ بین وجوہکم وفیہ: أنس، قال الرسول: أقیموا الصفوف، فإني أراکم من وراء ظہری۔ تسویۃ الصفوف من سنۃ الصلاۃ عند العلماء، وإنہ ینبغي للإمام تعاہد ذلک من الناس، وینبغی للناس تعاہد ذلک من أنفسہم، وقد کان لعمر وعثمان رجال یوکلونہم بتسویۃ الصفوف، فإذا استوت کبرا إلا أنہ إن لم یقیموا صفوفہم لم تبطل بذلک صلاتہم۔ وفیہ: الوعید علی ترک التسویۃ‘‘(۱)
’’قلت: قولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: تراصوا، وقولہ: رصوا صفوفکم، وقولہ: سدوا الخلل، ولا تذروا فرجات للشیطان، وقول النعمان بن بشیر: فرأیت الرجل یلزق کعبہ بکعب صاحبہ الخ، وقول أنس: وکان أحدنا یلزق منکبہ بمنکب صاحبہ
الخ، کل ذلک یدل دلالۃ واضحۃ علی أن المراد باقامۃ الصف وتسویتہ إنما ہو اعتدال القائمین علی سمت واحد وسد الخلل والفرج في الصف بإلزاق المنکب بالمنکب والقدم بالقدم، وعلی أن الصحابۃ في زمنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کانوا یفعلون ذلک، وأن العمل برص الصف والزاق القدم بالقدم وسد الخلل کان في الصدر الأول من الصحابۃ وتبعہم، ثم تہاون الناس بہ‘‘(۲)
’’أي یصفہم الإمام بأن یأمرہم بذلک۔ قال الشمني: وینبغي أن یأمرہم بأن یتراصوا ویسدوا الخلل ویسووا مناکبہم ویقف وسطا‘‘(۳)
(۱) الکشمیري، فیض الباري علی صحیح البخاري، ’’کتاب الصلوۃ، باب تسویۃ الصفوف‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۹۔
(۲) أیضًا:۔
(۱) ابن بطال، فتح الباري علی صحیح البخاري، ’’کتاب الصلوۃ، باب تسویۃ الصفوف‘‘: ج۲، ص: ۳۳۴۔
(۲) مرعاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، الفصل الاول‘‘: ج۲، ص: ۵۵۔
(۳) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ، مطلب ہل الإساء ۃ دون الکراہۃ أو أفحش منہا‘‘ج۲، ص: ۳۰۹۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص436
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:سورج کے غروب ہونے کے بعد آسمان کے کناروں پر جو سرخی رہتی ہے۔ اس کو شفق کہتے ہیں جب تک یہ سرخی موجود رہے جو تقریباً غروب سے ایک گھنٹہ تک رہتی ہے۔ اس وقت تک مغرب کی نماز ہوسکتی ہے۔(۲) بعض لوگوں میں یہ مشہور ہے کہ ذرا سا اندھیرا ہوا تو وقت مغرب ختم ہوگیا یہ غلط ہے البتہ قصداً نماز مغرب میں تاخیر کرنا مکروہ ہے۔(۱) تاہم اگر شفق سرخ کے غروب ہونے سے پہلے پڑھ لے تو مغرب کی نماز ادا ہو جائے گی۔
(۱) وأخر وقتہا ما لم یغب الشفق أي الجزء الکائن قبیل غیبوبۃ الشفق من الزمان وہو أي المراد بالشفق ہو البیاض الذي في الأفق الکائن بعد الحمرۃ التي تکون في الأفق عند أبي حنیفۃ وقالا أي أبو یوسف ومحمد رحمہما اللّٰہ وہو قول الأئمۃ الثلثۃ وروایۃ اسد بن عمرو عن أبي حنیفۃ أیضاً المراد بالشفق ہو الحمرۃ نفسہا لا البیاض الذي بعدہا۔ (إبراہیم الحلبي، حلبي کبیري: ص: ۲۰۰، مکتبہ، دار الکتاب، دیوبند؛ ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، مطلب: في الصلاۃ الوسطی‘‘: ج ۲، ص: ۱۸، مکتبہ، زکریا، دیوبند)
(۲) أیضًا۔
(۱) ویستحب أیضاً تعجیل المغرب في کل الأزمنۃ إلا یوم الغیم کما في الصحیحین۔ (إبراہیم الحلبي، حلبي کبیري: ص: ۲۰۵، دار الکتاب، دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص76
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں ثنا کے بعد پہلی رکعت میں قرأت نہ کرنے کی وجہ سے فرض ترک ہوا ہے؛ اس لیے پہلی رکعت باطل ہوگئی اور پہلی رکعت باطل ہونے کی بنا پر پور ی نماز میں فساد آ گیا اس لیے نماز کا لوٹانا واجب ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: {فاقرء وا ما تیسر من القرآن} اس آیت میں بآسانی قرأت کرنے کا حکم ملتا ہے جب کہ احادیث مبارکہ میں سورۂ فاتحہ کے ساتھ سورت ملانے کا حکم دیا گیا ہے، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ’’عن أبي سعید الخدري رضي اللّٰہ عنہ قال: أمرنا أن نقرأ بفاتحۃ الکتاب وما تیسر‘‘(۱)
اس حدیث پاک میں حکم دیا گیا ہے کہ سورۃالفاتحہ کے ساتھ جو قرآن کریم میں آسان ہو اسے پڑھا کریں، امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت نقل کی ہے ’’لا صلاۃ إلا بقراء ۃ‘‘(۲)
فتاوی عالمگیری میں ہے: ’’ومنہا القرء ۃ وفرضہا عند أبي حنیفۃ رحمۃ اللّٰہ علیہ یتأدی بآیۃ واحدۃ وإن کانت قصیرۃ کذا في المحیط‘‘(۱)
مذکورہ عبارتوں سے یہ بات واضح ہو گئی کہ ترک فرض (سورۂ فاتحہ اور قرأت) کی وجہ سے نماز کا اعادہ کرنا ضروری ہے سجدہ سہو کرنے سے بھی نماز درست نہیں ہوگی۔
(۱) أخرجہ أبوداود، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب من ترک القراء ۃ في صلاتہ بفاتحۃ‘‘: ج۱، ص: ۲۱۸، رقم:۸۱۸، ومسند أحمد، ’’مسند أبی ہریرۃؓ‘‘: ج ۱۲، ص: ۲۳۹، رقم: ۷۲۹۱۔
(۲) أخرجہ مسلم، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب وجوب قراء ۃ الفاتحۃ في کل رکعۃ‘‘: ج۱ ، ص: ۱۷۰، رقم:۳۹۶۔
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول في فرائض الصلاۃ، ومنہا القراء ۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۶۔…
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص348
بدعات و منکرات
Ref. No. 2788/45-4341
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حیض کے خون کو جذب کرنے اور کپڑے کو خون سے آلودہ ہونے سے بچانےکے لئے ، حیض والے کپ کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے، اس میں آسانی ہے اور زیادہ صفائی کا خیال رکھاگیاہے تو شرعا اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 1248 Alif
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as it follows:
If you have started doing a particular good deed, you should continue the same, else do take full care of your daily prayers, and work hard for your Halal living. Such a dream indicates that a good period of your life has begun, and you will do what will benefit you in the hereafter too. May Allah grant us taufiq to do good deeds and what that pleases Him! And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
طلاق و تفریق
Ref. No. 39/ 940
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔حلالہ درست ہوجائے گا، اور عورت پہلے شوہر کے لئے حلال ہوجائے گی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Prayer / Friday & Eidain prayers
Ref. No. 41/952
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
There are two kinds of Sunnat: (1) Sunnate Muakkadah (emphasized sunnat) (2) Sunnate Ghair Muakkadah (a sunnat not emphasized).
(1) Sunnat-e-Muakkadah is a Sunnat which the Prophet of Allah (saws) performed punctually like four rakats sunnah before Zuhr fardh. So if a person abandons this sunnat permanently with no genuine reason, he will be sinful. But there is no sin if anytime the sunnah is missed without any intention or is given up due to some excuses.
(2) Sunnate Ghair Muakkadah is an optional prayer. It is also proved by the Prophet of Allah (saws) but it is not proved to offer them punctually. Therefore, offering it is a cause reward but leaving it is not a sin like four rakats begore Asr fardh.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
اسلامی عقائد
Ref. No. 1285/42-630
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ یہ محبت کرنے کی مثال دی گئی ہے، اور مثال دینے میں ایک گونہ مشابہت کافی ہے، ہر اعتبار سے مشابہت نہیں مراد ہوتی ہے، اس لئے اس میں توہین رسالت شامل نہیں ہے، البتہ اس جیسی کہاوتوں سے گریز کیا جائے تاکہ کسی کو توہین کا شبہہ نہ ہو۔
قال شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله في ((جامع المسائل - المجموعة الأولى -)) (ص: 322): ((وليس من شرط التشبيه التساوي من كلّ وجه)) اهـ.
وقال العلامة ابن القيم رحمه الله في ((المنار المنيف في الصحيح والضعيف)) (ص: 22): ((والمقصود: أنه لا يلزم من تشبيه الشيء بالشيء مساواته له)) اهـ.
وقال العلامة أحمد بن إسماعيل بن عثمان بن محمد الكوراني رحمه الله في ((الكوثر الجاري إلى رياض أحاديث البخاري)) (1/ 309): ((التشبيه لا يقتضي التساوي، بل المشبه ناقص عن المشبه به في وجه الشبه)) اهـ.
وقال العلامة الطيبي رحمه الله في ((الكاشف عن حقائق السنن)) (10/ 3213): ((وفي المشابهة يكفي المساواة في بعض الصفات)) اهـ.
وقال العلامة المناوي رحمه الله في ((فيض القدير)) (6/ 353): ((والمشابهة في بعض الصفات كافية إذ التشبيه إنما يصار إليه للمبالغة ولا يقصد به المساواة ولا بد)) اهـ.
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند