Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
Ref. No. 1706/43-1362
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ نے جو کچھ کیا وہ لاعلمی اور انجانے میں کیا ، اس لئے آپ کا یہ عمل مشرکانہ تو نہیں ہوا البتہ غلطی پر اللہ تعالی سے استغفار کرلینا چاہئے۔
وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا) الأحزاب: 5( وَ مَنۡ یَّعۡمَلۡ سُوۡٓءًا اَوۡ یَظۡلِمۡ نَفۡسَہٗ ثُمَّ یَسۡتَغۡفِرِ اللّٰہَ یَجِدِ اللّٰہَ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًاسورۃ النساء 110)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
زکوۃ / صدقہ و فطرہ
Ref. No. 2491/45-3801
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (1) ظاہری وضعداری سے اگر کوئی مستحق زکوۃ معلوم ہو تو اس کو زکوۃ کی رقم دینی جائز ہے، پھر اگر بعد میں معلوم ہواکہ جس کوزکوۃ کی رقم دی تھی وہ غیر مستحق تھا تو بھی زکوۃ ادا ہوجائے گی؛ دوبارہ زکوۃ دینی لازم نہیں ہے۔ (2) صاحب نصاب کا جس دن زکوۃ کا سال پورا ہو، اس دن کی تمام ملکیت کا حساب ہوگا، لہذا زکوۃ کے سال کے آخری دن جتنی رقم کسی کو قرض دی ہوئی ہو، یا بینک میں جمع ہو، یا ماہانہ خرچ کے لئے گھر میں رکھی ہوئی ہو سب کی مجموعی رقم پر زکوۃ کا حساب ہوگا۔ یعنی ماہانہ اخراجات کو منہا نہیں کیاجائے گا بلکہ ان کی بھی زکوۃ ادا کرنی ہوگی۔
دفع بتحر ) لمن يظنه مصرفًا ( فبان أنه عبده أو مكاتبه أو حربي ولو مستأمنًا أعادها ) لما مر ( وإن بان غناه أو كونه ذميًا أو أنه أبوه أو ابنه أو امرأته أو هاشمي لا) يعيد؛ لأنه أتى بما في وسعه، حتى لو دفع بلا تحر لم يجز إن أخطأ". (فتاوی شامی كتاب الزكوة، ج: 2، ص: 253، ط: سعيد)
"إذا شك وتحرى فوقع في أكبر رأيه أنه محل الصدقة فدفع إليه أو سأل منه فدفع أو رآه في صف الفقراء فدفع فإن ظهر أنه محل الصدقة جاز بالإجماع، وكذا إن لم يظهر حاله عنده....وإذا دفعها، ولم يخطر بباله أنه مصرف أم لا فهو على الجواز إلا إذا تبين أنه غير مصرف، وإذا دفعها إليه، وهو شاك، ولم يتحر أو تحرى، ولم يظهر له أنه مصرف أو غلب على ظنه أنه ليس بمصرف فهو على الفساد إلا إذا تبين أنه مصرف، هكذا في التبيين". (فتاوی ہندیہ)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں تمام انتظامات کے بعد محمد ارشد کا جماعت میں دینی اصلاح کے لئے جانا درست ہے، ایسی اصلاح ہونی چاہئے، وہ جماعت میں جاکر ہو یاکسی دینی مدرسہ، خانقاہ میں یا کسی اللہ والے کی صحبت میں رہ کر۔(۱)
(۱) یطلق أیضاً: علی مجاہدۃ النفس والشیطان والفساق فأما مجاہدۃ النفس فعلی تعلم أمور الدین ثم علی العمل بہا ثم علی تعلیمہا۔ (ابن حجر، فتح الباري، ’’کتاب الجہاد والسیر‘‘: ج ۶، ص: ۷۷، رقم:۲۷۸۱)
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: بلغوا عني أي: انقلوا إلی الناس، وأفیدوہم ما أمکنکم۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’قولہ کتاب الجہاد‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۷، رقم: ۱۹۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص331
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ان دونوں میں سے جو شخص مسائل نماز سے واقف اور پانچوں وقت کی نماز پابندی سے پڑھنے والا ہے وہ ہی افضل ہے کہ اس کے پیچھے نماز ادا کی جائے اس صورت میں {إن أکرکم عند اللّٰہ أتقاکم} پر عمل کیا جائے اور جو نماز نہیں پڑھتا وہ فاسق ہے اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے جماعت میں نہ دیکھنے یا اس کے حاضر جماعت نہ ہونے کی وجہ کو معلوم کریں کوئی شرعی عذر تو نہیں ہے۔(۱)
(۱) فإن تساووا فأورعہم۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ،…الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثاني في بیان من ہو أحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۱)
الأعلم بالسنۃ أولی إلا أن یطعن علیہ في دینہ لأن الناس لایرغبون في الاقتداء بہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص103
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اسقاط حمل کے نتیجہ میں اگر اجزائے انسانی میں سے کوئی جز مثلاً ہاتھ پاؤں وغیرہ ظاہر ہو گئے، تو وہ شرعاً بچہ ہے اور اس کے بعد آنے والا خون نفاس ہے، مذکورہ صورت میں عورت سے نماز ساقط ہو جائے گی اور روزہ دوسرے دنوں میں قضا کرے گی اور اس جزو انسانی کو غسل دیا جائے گا۔
اور اگر کوئی چیز ظاہر نہیں ہوئی، تو وہ بچہ نہیں ہے نہ اس کے لیے غسل ہے اور نہ کفن ودفن؛ البتہ جزو انسانی ہونے کی وجہ سے دفن کرنا چاہئے اور اس صورت میں آنے والا خون نفاس نہیں ہے، اب دیکھنا چاہئے کہ اس سے قبل حیض آئے ہوئے کتنا زمانہ ہوا اور یہ خون کتنے دن آیا، اگر حیض آئے ہوئے پندرہ دن یا اس سے زیادہ ہو گئے اور یہ خون کم از کم تین دن آئے، تو حیض ہے ورنہ استحاضہ ہے جس میں نماز روزہ سب درست ہے۔
’’وسقط ظہر بعض خلقہ کید أو رجل أو إصبع أو ظفر أو شعر ولا یستبین خلقہ إلا بعد مائۃ وعشرین یوماً ولد حکماً فتصیر المرأۃ بہ نفساء … فإن لم یظہر لہ شيء فلیس بشيء والمرئي حیض إن دام ثلاثاً وتقدمہ طہر تام وإلا استحاضۃ‘‘(۱)
’’وإلا أي وإن لم یستہل غسل وسمیٰ عند الثاني وہو الأصح فیفتی بہ علی خلاف ظاہر الروایۃ إکراماً لبني آدم کما في ملتقی البحار وفي النہر عن الظہیریۃ: وإذا استبان بعض خلقہ غسل وحشر ہو المختار وأدرج في خرقۃ ودفن ولم یصل علیہ‘‘(۲)
’’ولا خلاف في غسلہ ومالم یتم وفیہ خلاف والمختار أنہ یغسل ویلف في خرقۃ ولا یصلی علیہ‘‘ (۳)
’’وأما السقط الذي لا یتم أعضاؤہ ففي غسلہ اختلاف المشایخ والمختار أنہ یغسل ویلف في خرقۃ، ولم یصل علیہ باتفاق الروایات ومذہب علمائنا رحمہم اللّٰہ في السقط الذي استبان بعض خلقہ أنہ یحشر وہو قول الشعبي وابن سیرین‘‘ (۴)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الحیض، مطلب في أحوال السقط وأحکامہ‘‘: ج ۱، ص: ۵۰۰، ۵۰۱۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ‘‘: ج ۳، ص: ۱۳۱۔
(۳) أیضاً۔
(۴) عالم بن العلاء، الفتاویٰ التاتار خانیۃ : ج ۳، ص: ۱۱۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص402
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: بلندی کی کم سے کم حد کے بارے میں فقہاء کا اختلاف ہے اس سے متعلق جو احادیث آئی ہیں ان میں اس بات کی تصریح نہیں ہے، ابو داؤد میں روایت ہے کہ عمار بن یاسر رضی اللہ نماز پڑھانے کے لیے آگے پڑھے، تو اونچی جگہ پر کھڑے ہوئے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے ہاتھ پکڑ کر کھینچ لیا اور فرمایا کہ آپ کو معلوم نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے امام کو اونچی جگہ کھڑے ہونے سے منع فرمایا ہے، چوں کہ اس کی کوئی مقدار مقررہ حدیث میں نہیں ہے؛ اس
لیے اختلاف ہونا بھی لازمی ہے اس میں دو قول معتبر سمجھے گئے ہیں۔
(۱) ایک ذراع یعنی ایک ہاتھ کی مقدار بلندی ممنوع ومکروہ ہے اس سے کم مکروہ نہیں دلیل یہ ہے کہ نمازی کے لیے سترہ کی بلندی کی مقدار کم از کم ایک ذراع ہے یعنی ایک ہاتھ کے برابر ہے اس پر قیاس کر کے امام کی جگہ کی بلندی کی مقدار بھی یہی ہوگی کہ ایک ذراع کے برابر مکروہ ہوگی اور اس سے کم میں کوئی کراہت نہیں ہوگی۔
(۲) اتنی بلندی پر کھڑا ہونا مکروہ ہے کہ نمایاں طور پر امام مقتدیوں سے ممتاز اور الگ معلوم ہوتا ہو، دلیل یہ ہے کہ احادیث میں مطلق بلندی ممنوع ہے؛ لہٰذا جتنی بلند جگہ پر امام مقتدیوں سے جدا اور نمایاں معلوم ہوتا ہو اتنی بلندی مکروہ ہونی چاہیے، اور جیسے یہ بلندی بڑھتی چلی جائے گی کراہت میں زیادتی ہوتی جائے گی۔
لیکن اس کی مقدار کتنی ہونی چاہیے کہ اس پر امام کھڑا ہوکر نمایاں اور ممتاز معلوم نہ ہو اور معمولی سی بلندی تو قریب قریب ہر جگہ ہی ہوتی ہے؛ اس لیے اس سے پرہیز ممکن نہیں ہے؛ اس لیے چھ سات انچ کی بلندی تو مکروہ ہوگی اور اس سے کم بلندی باعث کراہت نہ ہوگی یہ بظاہر معلوم ہوتا ہے۔(۱)
(۱) عن عدي بن ثابت الأنصاري، حدثني رجل، أنہ کان مع عمار بن یاسر بالمدائن فأقیمت الصلاۃ فتقدم عمار وقام علی دکان یصلي والناس أسفل منہ، فتقدم حذیفۃ فأخذ علی یدیہ فاتبعہ عمار، حتی أنزلہ حذیفۃ فلما فرغ عمار من صلاتہ قال لہ حذیفۃ: ألم تسمع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: إذا أم الرجل القوم فلا یقم في مکان أرفع من مقامہم أو نحو ذلک؟ قال عمار: لذلک اتبعتک حین أخذت علی یدي۔ (أخرجہ أبو داؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمام یقوم مکانا أرفع من مکان القوم‘‘: ج ۱، ص: ۹۸، رقم: ۵۹۸)
فالحاصل أن التصحیح قد اختلف والأولی العمل بظاہر الروایۃ وإطلاق الحدیث وأما عکسہ وہو انفراد القوم علی الدکان بأن یکون الإمام أسفل فہو مکروہ أیضا في ظاہر الروایۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ، تغمیض عینہ في الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص438
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اذان عصر کے بعد فرائض کے ادا کرنے سے پہلے عصر کی سنت مستحبہ اور دیگر نوافل ادا کرسکتے ہیں۔(۲)
(۲) ویجوز التطوع قبل العصر۔ (فخر الدین حسن بن منصور، فتاویٰ قاضي خان: کتاب الصلاۃ، باب الأذان، ج ۱، ص: ۴۹، زکریا دیوبند)
ویستحب أیضاً عند نا تاخیر العصر في کل الأزمنۃ إلا یوم الغیم ما لم تتغیر الشمس، وذلک لیتوسع وقت النوافل، إذا التنفل بعد أداء ہا مکروہ۔ (إبراہیم الحلبي، حلبي کبیري: ص: ۲۰۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص77
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز وہاں بھی فرض ہے اور بلا وجہ شرعی اس کو ترک کرنا گناہ ہے؛(۲) اس لیے پردہ کے اہتمام کے ساتھ کھیت میںہی نماز اداء کریں اور کھیت میں نماز کا کوئی علاحدہ طریقہ نہیں ہے جس طرح گھر میں نماز پڑھتی ہیں اسی طرح کھیت میں نماز پڑھیں گی بس پردہ کا خیال رکھنا چاہئے۔(۳)
(۲) {فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ ہلا۴ الَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلَا تِہِمْ سَاھُوْنَہلا۵ } (سورۃ الماعون: ۴،۵)
من ترک الصلوٰۃ متعمداً فقد کفر جہاراً۔ (أخرجہ الطبراني في المعجم الأوسط، ’’من اسمہ جعفر‘‘: ج ۳، ص: ۳۴۳، رقم: ۳۳۴۸)(شاملہ)
(۳){وَحَیْثُ مَا کُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ شَطْرَہٗط} (سورۃ البقرہ: ۱۴۴)
عن جابر بن عبد اللّٰہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: جعلت لي الأرض مسجداً وطہوراً أینما أدرک رجل من أمتي الصلاۃ صلی۔ (أخرجہ النسائي، ’’کتاب المساجد: الرخصۃ في ذلک‘‘: ج۱، ص: ۸۵، رقم: ۷۳۶)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص349
اسلامی عقائد
Ref. No. 2789/45-4362
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ گاڑھا سرخ جو زنانہ لباس کے طور پر مستعمل ہے اس کا استعمال مردوں کے لئے مکروہ تنزیہی ہے اور یہ کراہت صرف لباس کی حدتک ہے، لہٰذا دوسرے کاموں میں جیسے خطاطی وغیرہ کے لئے سرخ کپڑا استعمال کرنابلا کراہت درست ہے، بعض مربتہ موقع ومحل کے اعتبار سے غیروں کی مشابہت ہو جائے تو سرخ کپڑا استعمال کرنے سے بچنا چاہئے۔
وليس المعصفر والمزعفر والاحمر مفاده أن الكراهة تنزيهية لكن صرح في التحفة بالحرمة فادانها تحريمية‘‘ (الدر المحتار مع رد المحتار: ج 9،ص: 515)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
Ref. No. 997 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: مذکورہ مسئلہ درست ہے، مفتی صاحب نے صحیح فرمایا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند