Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:محرم الحرام میں یکم تاریخ سے عاشورہ تک دھوم دھام سے ڈھول بجانا اور سرخ کپڑے کا جھنڈا بنانا یا لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ کھلاڑیوں کے جذبات کو اکسانا، تعزیہ بنانا اور اس میں امداد کرنا، عورتوں کا مردوں سے اختلاط جس سے فتنہ کا قوی اندیشہ ہو یہ رسومات غیر شرعی اور بدعت ہیں(۳) اور جو لوگ ان رسومات میں مدد اور امداد کرتے ہیں وہ گنہگار ہیں {وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ}(۱)
اور مقامی علماء کے لئے یہ ضروری ہے کہ عوام کو ان بدعات ورسومات وغیر شرعی امور سے باز رکھنے کی کوشش کریں۔
(۳) ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۸) …إن البدعۃ المذمومۃ ہو الحدث فی الدین من أن لا یکون في عہد الصحابۃ والتابعین ولا دل علیہ دلیل شرعي۔ (علامہ سعد الدین تفتازاني، شرح المقاصد، ’’في علم الکلام‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۱)
وفي البحر: الأمانۃ علی المعاصي والحث علیہا کبیرۃ۔ (عبد الرحمن بن محمد، مجمع الأنہر، ’’کتاب الشہادات‘‘: ج ۳، ص: ۲۷۷)
مع قطع النظر عما یحصل عند ذلک غالبا من المنکرات الکثیرۃ کإیقاد الشموع والقنادیل التی توجد فی الأفراح، وکذا الطبول، والغناء بالأصوات الحسان، واجتماع النساء والمردان، وأخذ الأجرۃ علی الذکر وقرائۃ القرآن، وغیر ذلک مما ہو مشاہد فی ہذہ الأزمان، وما کان کذلک فلا شک فی حرمتہ وبطلان الوصیۃ بہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کراہۃ الضیافۃ من أہل البیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۹)
(۱) سورۃ المائدۃ: ۲۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص474
قرآن کریم اور تفسیر
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر دل دل میں پڑھا جائے تب بھی ثواب ملتا ہے اور اگر زبان سے بھی پڑھ لیا جائے، تو اور زیادہ ثواب ملتا ہے؛ البتہ اگر آیت سجدہ صرف دل دل میں پڑھے، تو سجدہ تلاوت واجب نہ ہوگا؛ کیوں کہ یہ دنیاوی حکم ہے۔(۲)
(۲) عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أنہ کان یقول قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لم یأذن اللّٰہ لشيء ما أذن أن یتغنی بالقرآن وقال صاحب لہ یرید یجہر بہ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب فضائل القرآن: باب من لم یتغن بالقراء ۃ‘‘: ج ۲، ص: ۷۵۱، رقم: ۵۰۲۳)
(و) أدنی (الجہر إسماع غیرہ و) أدنی (المخافتۃ إسماع نفسہ) ومن بقربہ؛ فلو سمع رجل أو رجلان فلیس بجہر، والجہر أن یسمع الکل خلاصۃ (ویجري ذلک) المذکور (في کل ما یتعلق بنطق، کتسمیۃ علی ذبیحۃ ووجوب سجدۃ تلاوۃ وعتاق وطلاق واستثناء) وغیرہا۔… (قولہ وأدنی الجہر إسماع غیرہ إلخ) اعلم أنہم اختلفوا في حد وجود القراء ۃ علی ثلاثۃ أقوال: فشرط الہندواني والفضلي لوجودہا خروج صوت یصل إلی أذنہ، وبہ قال الشافعي۔
وشرط بشر المریسي وأحمد خروج الصوت من الفم وإن لم یصل إلی أذنہ، لکن بشرط کونہ مسموعا في الجملۃ، حتی لو أدنی أحد صماخہ إلی فیہ یسمع۔
ولم یشترط الکرخي وأبو بکر البلخي السماع، واکتفیا بتصحیح الحروف۔ واختار شیخ الإسلام وقاضي خان وصاحب المحیط والحلواني قول الہندواني، وکذا في معراج الدرایۃ۔ ونقل في المجتبی عن الہندواني أنہ لا یجزیہ ما لم تسمع أذناہ ومن بقربہ، وہذا لا یخالف ما مر عن الہندواني لأن ما کان مسموعا لہ یکون مسموعا لمن في قربہ کما في الحلیۃ والبحر۔ ثم إنہ اختار في الفتح أن قول الہندواني وبشر متحدان بناء علی أن الظاہر سماعہ بعد وجود الصوت إذا لم یکن مانع۔ وذکر في البحر تبعا للحلیۃ أنہ خلاف الظاہر، بل الأقوال ثلاثۃ۔ وأید العلامۃ خیر الدین الرملي في فتاواہ کلام الفتح بما لا مزید علیہ، فارجع إلیہ۔ وذکر أن کلا من قولي الہندواني والکرخي مصححان، وأن ما قالہ الہندواني أصح وأرجح لاعتماد أکثر علمائنا علیہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المختار، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في القراء ۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۳۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص64
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ خصوصیات امت محمدیہ کہلاتی ہیں جن کی تفصیل یہ ہے۔
(۱) غنائم کا حلال ہونا۔ یعنی جہاد میں ہاتھ لگا ہوا مال غنیمت حلال ہونا۔(۱)
(۲) تمام روئے زمین پر نماز کا جائز ہونا۔(۲)
(۳) نماز میں صفوف کا بطرز ملائکہ ہونا۔(۳)
(۴) جمعہ کے دن کا ایک خاص عبادت کے لئے مقرر ہونا۔
(۵) جمعہ کے دن ایک ایسی گھڑی کا آنا کہ جس میں دعائیں قبول ہوتی ہیں۔(۴)
(۶) روزہ کے لئے سحری کی اجازت کا ہونا۔(۵)
(۷) رمضان المبارک میں شب قدر کا عطا ہونا جو ایک ہزار مہینہ کی راتوں سے افضل ہے۔(۶)
(۸) وسوسہ اور خطاء و نسیان کا گناہ نہ ہونا۔
(۹) احکام شاقہ کا مرتفع ہونا یعنی جو احکام مشکل تھے اللہ تعالیٰ نے اس امت سے ان کو اٹھا لیا ہے۔
(۱۰) تصویر کا ناجائز ہونا۔
(۱۱) اجماع امت کا حجت ہونا اور اس میں ضلالت و گمراہی کا احتمال نہ ہونا ہے۔(۷)
(۱۲) فروعی اختلاف کا رحمت ہونا۔
(۱۳) پہلی امتوں کی طرح عذابوں کا نہ آنا۔(۸)
(۱۴) علماء سے وہ کام لینا جو انبیاء کرتے تھے۔ (۱)
(۱۵) قیامت تک جماعت اہل حق کا مؤید من اللہ ہوکر پایا جانا۔(۲)
(۱۶) امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیگر امتوں پر گواہ بننا جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ {لتکونوا شہداء علي الناس} (القرآن الکریم) یعنی تم گواہ بنوگے لوگوں پر قیامت کے دن۔(۳)
(۱) أعطیت خمسا لم یعطہن أحد من الأنبیاء قبلی: نصرت بالرعب مسیرۃ شہر وجعلت لي الأرض کلہا مسجد أ و طہوراً واحلت لي الغنائم۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب التیمم: باب إذا لم یجد ماء ولا تراباً‘‘: ج ۱، ص: ۴۸، رقم: ۳۳۵)
(۲-۳) فضلنا علی الناس بثلاث: جعلت لنا الأرض کلہا مسجداً وجعلت تربتہا طہوراً إذا لم نجد الماء وجعلت صفوفنا کصفوف الملائکۃ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ: باب المساجد‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۵۲۲)
(۴) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الجمعۃ: باب الساعۃ التی في یوم الجمعۃ: ج ۱، ص: ۱۲۸، رقم: ۹۳۵)
(۵) أخرجہ مسلم، في صححیہ، ’’کتاب الصیام: باب فضل السحور‘‘: ج ۱، ص: ۳۵۰، رقم: ۱۰۹۶۔
(۶) شرح الزرقاني علی المواہب: ج ۷، ص: ۴۵۰۔
(۷) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الفتن، باب ماجاء في لزوم الجماعۃ: ج ۲، ص: ۳۹، رقم: ۲۱۶۷۔
(۸) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الفتن وأشراط الساعۃ، باب ہلاک ہذہ الأمۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۲، رقم: ۲۸۸۹۔
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’باب العلم قبل القول والعمل‘‘: ج۱، ص: ۲۴۔
(۲) أشرف علي التھانوي، نشر الطیب، ’’في ذکر النبي الطبیب صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ص: ۱۸۵۔
(۳) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’باب قول اللّٰہ {إنا أرسلنا نوحاً إلی قومہ}‘‘: ج ۲، ص: ۶۷۱، رقم: ۳۳۳۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص207
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:منی بہر صورت ناپاک ہے۔ اگر کپڑے پر لگ جائے تورگڑ کر صاف کرنے سے کپڑا پاک نہیں ہوگا؛ بلکہ اس ناپاک کپڑے کو دھونا ضروری ہے۔(۱) البتہ گاڑھی اور سوکھی منی کے ذرات رگڑنے سے بالکل ختم ہوجائیںتو بھی کپڑا پاک ہوجائے گا۔(۲)
(۱)عن جابر بن سمرۃ قال: سأل رجل النبي ﷺ أصلي في الثوب الذي آتی فیہ أھلي قال: نعم إلا أن ترا فیہ شیئا فتغلسہ۔ (موارد الظمان إلی زوائد ابن حبان، تحقیق: محمد عبدالرزاق حمزہ، باب ما جاء فی الثوب الذی یجامع فیہ،ج۱، ص:۸۲)؛ و عن عمر و بن میمون بن مہران سمعت سلیمان بن یسار یقول: سمعت عائشۃ رضی اللّٰہ عنھا تقول: إنھا کانت تغسل المني من ثوب رسول اللّٰہ ﷺ قالت: ثم أراہ فیہ بقعۃ أو بقعاً (سنن أبي داؤد، باب المنی یصیب الثوب، ج۱، ص:۵۳)؛ ولو أن ثوباً أصابتہ النجاسۃ وھی کثیرۃ فجفت و ذھب أثرھا و خفی مکانھا غسل جمیع الثوب۔ ( علاء الدین الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع،فصل و أما بیان المقدار الذی یصیر بہ المحل،ج۱، ص:۸۱)
(۲) عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنھا قالت: ربما فرکتہ من ثوب رسول اللّٰہ ﷺ بیدی (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ابواب الطہارۃ و سننھا،باب في فرک المني من الثوب، ج۱، ص:۴۱
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص417
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق: اگر وہ چھپکلی جس میں خون ہوتا ہے، کنویں میں گر جائے اور پھولے پھٹے نہیں، مردہ نکل آئے، تو تیس ڈول پانی نکالے جائیں گے، اگر پھول پھٹ گئی، تو اس کو نکال کر کنویں کا سارا پانی نکالا جائے گا؛ لیکن اگر کنویں کا پانی اس قدر ہے کہ اس کا نکالنا بھی مشکل ہے، تو تین سو ڈول نکال لیے جائیں، اس طرح کنواں پاک ہو جائے گا۔چڑیا اور چوہے کا بھی یہی حکم ہے، اگر پھول پھٹ گیا ہو اور اگر پھولا پھٹا نہ ہو، تو بیس سے تیس ڈول تک نکالا جائے گا۔جوتا چپل اگر نجس ہے، تو سارا پانی ناپاک ہو گیا، اس کو پاک کرنے کا وہی طریقہ ہے، جو اوپر مذکور ہوا۔ اگر جوتا چپل ناپاک نہیں تھا، تو کنویں کا پانی پاک ہے، اس میں شبہ نہ کیا جائے۔(۱)
(۱) لو کان للضفدع دم سائل یفسد أیضا، و مثلہ لو ماتت حیۃ بریۃ لا دم فیھا في إناء لاینجس، و إن کان فیھا دم ینجس۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، کتاب الطھارۃ، باب الماء الذی یجوز بہ الوضوء ومالا یجوز،ج۱، ص:۹۰)؛ و إن ماتت فیھا فارۃ أو عصفورۃ أو سودانیۃ أو صعوۃ أوسام ابرص نزح منھا عشرون دلوا إلی ثلاثین بحسب کبر الدلو و صغرھا؛ یعني بعد إخراج الفارۃ لحدیث انس رضي اللہ تعالیٰ الخ۔ إلی فإن انتفخ الحیوان فیھا أو تفسخ نزح جمیع ما فیھا۔ (المرغینانی، الہدایہ، کتاب الطہارۃ، فصل في البئر، ج۱،ص:۴۳-۴۲)؛ ینزح کل مائھا بعد إخراجہ لا إذا تعذر کخشبۃ أو خرقۃ متنجسۃ۔ (ابن عابدین، الدرالمختار مع رد المحتار، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، فصل في البئر، ج۱، ص:۳۶۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص464
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:یعنی: اگر پیروں کی پھٹن کو سی دیا جائے، تو اب پانی اندر پہونچے یا نہ پہونچے؛ بہرصورت وضو درست ہوگا۔(۲)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، الباب الأول في الوضوء، الفرض الثالث: غسل الرجلین،ج۱، ص:۵۴
(۲) وعلل في الدرر بأن محل الفرض استتر بالحائل، و صار بحال لا یواجہ الناظر إلیہ، فسقط الفرض عنہ، و تحول إلی الحائل۔(ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في معنی الاشتقاق و تقسیمہ،‘‘ ج ۱، ص:۲۱۱)
فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص134
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:فقہاء احناف کے نزدیک فرائض وضو چار ہیں: چہرہ دھونا دونوں ہاتھ اور دونوں پاؤں کا دھونا، سر کا مسح کرنا، فرض الوضوء أربعۃ أشیاء (۱) غسل الوجہ۔ (۲) والیدین (۳)والرجلین (۴) و مسح ربع الرأس۔(۱)
جب کہ امام مالکؒ اور امام شافعیؒ کے نزدیک بسم اللہ پڑھنا اور وضو کی نیت کرنا بھی فرض ہے امام احمد بن حنبلؒ اور اسحاق بن راہویہؒ کے نزدیک مضمضہ (کلی کرنا) اور استنشاق (ناک میں پانی لینا) بھی فرض ہے ۔
و عند أہل الحدیث ثمانیۃ أشیاء؛ ہذہ الأربعۃ، و أربعۃ آخری۔ فقد قال مالکؒ والشافعيؒ: التسمیۃ والنیۃ فریضتان في الوضوء۔ وقال أحمد بن حنبل و اسحاق بن راہویہؒ: المضمضۃ والاستنشاق في الوضوء۔ (۲)
(۱)الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الطہارۃ، أرکان الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۶۶ تا ۷۲
(۲) أبو الحسن علي بن محمد السغدي الحنفي، النتف في الفتاوی،’’ کتاب الطھارۃ،‘‘ ج۱، ص:۱۴
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص234
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: چوں کہ بکرے وغیرہ ذبح کرنا کوئی عیب نہیں ہے(۱) اس لیے اس کی امامت بلا شبہ درست ہے۔
(۱) {وَمَا لَکُمْ اَلَّا تَاْکُلُوْا مِمَّا ذُکِرَ اسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ وَقَدْ فَصَّلَ لَکُمْ مَّا حَرَّمَ عَلَیْکُمْ…اِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ اِلَیْہِط وَاِنَّ کَثِیْرًا لَّیُضِلُّوْنَ بِاَھْوَآئِھِمْ بِغَیْرِعِلْمٍط اِنَّ رَبَّکَ ھُوَاَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِیْنَہ۱۱۹} (سورۃ الانعام: ۱۱۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص94
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں نماز تو ادا ہوگئی لیکن امام کو ایسا ہرگز نہ کرنا چاہئے، مؤکدہ سنتوں کا اہتمام ضروری ہے مؤکدہ سنتوں کا چھوڑنا برا ہے اور ان کے چھوڑنے پر اصرار یعنی اکثر چھوڑنا گناہ کبیرہ ہے۔
’’وآکدہا سنۃ الفجر اتفاقاً لحدیث من ترکہا لم تنلہ شفاعتي‘‘(۱)
’’وفي مسلم رکعتا الفجر خیر من الدنیا وما فیہا وفي أبي داؤد لا تدعوا رکعتي الفجر ولو طردتکم الخیل‘‘(۲)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۵۳، زکریا دیوبند۔
(۲) أیضًا:۔
عن عائشۃ -رضي اللّٰہ عنہا- قالت: لم یکن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی شيء من النوافل أشد تعاہدا منہ علی رکعتي الفجر، متفق علیہ، (البغوي، مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الصلاۃ، باب السنن وفضائلہا، الفصل الأول‘‘: ج۱، ص: ۱۰۴، یاسر ندیم دیوبند)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص306
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اگر صف میں کھڑے ہونے کی گنجائش نہ ہو تو امام کے رکوع میں جانے تک تو انتظار کرے اگر کوئی دوسرا شخص آجائے تو اس کے ہمراہ امام کی سیدھ میں صف کے پیچھے کھڑا ہوجائے اگر کوئی نہ آئے تو اکیلا ہی کھڑا ہوجائے اور اگر آتے ہی امام کے پیچھے سیدھ میں تنہا صف میں کھڑا ہوجائے تو یہ بھی جائز ہے۔(۱)
’’ومتی استویٰ جانباہ یقوم عن یمین الإمام إن أمکنہ فإن وجد في الصف فرجۃ سدہا وإلا انتظر حتی یجيء آخر فیقفان خلفہ وإن لم یجيء حتی رکع الإمام یختار أعلم الناس بہذہ المسألۃ فیجذبہ ویقفان خلفہ ولو لم یجد عالماً یقف خلف الصف بحذاء الإمام للضرورۃ ولو وقف منفرداً لغیر عذر تصح صلاتہ عندنا خلافاً لأحمد‘‘(۲)
(۱) ویقف الواحد رجلا کان أو صبیاً ممیّزاً عن یمین الإمام مساویاً لہ متاخراً بعقبہ … ویقف الأکثر من واحد خلفہ، الخ … فإذا استویٰ الجانبان یقوم الجائي عن جہۃ الیمین وإن ترجح الیمین یقوم عن یسار۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ، فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۵، شیخ الہند دیوبند)
(۲) الحصکفي، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص:۳۱۰، زکریا دیوبند۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص420